Friday, January 15, 2021

مدرسے ‏کی ‏کہانی

مدرسے کی کہانی
دنیا میں پہلے تعلیم وتدریس آزاد ہوا کرتے تھے، یعنی حکومتیں اپنے تعلیمی اداروں کو اپنے زیرِ اختیار میں نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُنہیں آزادانہ علمی سرگرمیوں کا موقع دیتی تھیں۔ لیکن نوآبادیاتی عہد میں استعمار نے اپنی ضرورت اور سیاست کے تحت دنیا میں رائج اِس خوب نظامِ تعلیم کا خاتمہ کردیا۔ مثلاً ہندوستان میں مدارس کا ایک آزادانہ نظام موجود تھا جو مغلوں کے عہد میں کامیابی کے ساتھ جاری تھا لیکن انگریزوں نے ہندوستانیوں کو اپنی ضروریات کے تحت ڈھالنا چاہا تو اُنہیں سب سے زیادہ رکاوٹ اسی آزادانہ تعلیمی سرگرمی کی طرف سے پیش آئی، چنانچہ اُنہوں نے اس نظام کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔
چونکا دینے والی خبریہ ہے کہ ’’مدارسِ دینیہ‘‘ کو فقط دین کے مدارس قراردینے والے بھی خوداستعماری دور کے مستشرقین ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے الفاظ میں،
’’اگر ہم سے یہ کہا جائے کہ جدید عہد کے سب سے بڑے تشدد کا نام لیں تو ہم بلاتوقف استعماری مستشرقین کے اس علمیاتی تشدد کا نام لیں گے جو اُنہوں نے مشرق کے تصور میں سے فطری علوم (سائنس) کے خارج کرنے کی صورت میں کیا‘‘۔
آج ہم جس مدرسے کو فقط دینی مدرسہ کے طور پر جانتے ہیں، ماضی میں یہ فقط دینی مدرسہ نہیں تھا۔ مثلاً ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے ہی رچرڈ پارکر، کے حوالے سے لکھا ہے کہ پارکر نے اپنے رسالے ’’مشرقی ادب کی افادیت پر ایک مضمون‘‘ میں تسلیم کیا ہے کہ ’’مغربی دنیا ارسطوسے اُس وقت واقف ہوئی جب عربی سے لاطینی میں اس کے تراجم ہوئے‘‘۔                             
دراصل مسلمانوں کے دورِعروج میں تشکیل پاجانے والا نظامِ مدارس اسلامی تہذیب کا سب سے نمایاں شاہکارتھا، جسے کچل دینے کی خارجی تمنّا تو کبھی پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس نظام کے زوال پاجانے کی داخلی وجوہ اتنی شدید تھیں کہ یہ نظام گزشتہ صدی میں بُری طرح سے پامال ہوکررہ گیا۔
ایک زمانہ تھا کہ انہی مدارس کے آزادانہ علمی ماحول میں، فطری علوم، فلسفہ و منطق اورشعروادب اُسی جوش و خروش کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے جس جوش و خروش کے ساتھ دینی علوم پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن استعماریت زدہ اقوام میں پیدا ہوجانے والے معذرت خواہانہ رویّے کا انجام اصولاً یونہی ہوناچاہیےتھا کہ جس طرح کا بیانیہ استعمار اختیار کرتا، استعمارزدگان بھی اُسی طرح کا بیانیہ اختیار کرلیتے۔ استعماری دور کے مستشرقین نے مشرقی علوم کو دانستہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور بالاصرار پورے مشرق (اور مسلمانوں) کو یہ باورکروایا کہ اُن کے ہاں فطری علوم سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے کیونکہ مشرق فقط روحانیت کا نمائندہ ہے اور صرف ماورائی قوتوں اورعقائد کے بارے میں غوروفکر کو علم سمجھتاہے۔

آج کُوپرنیکس (1473-1543) کے اِس انکشاف کو کہ ’’زمین کائنات کا مرکز نہیں، بلکہ زمین تو سُورج کے گرد گھوم رہی ہے.‘‘ کوپرنیکی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ کائنات کے جدید تصور کو سمجھنے کا آغاز یہیں سے ہوا۔ لیکن خود کیپلر (1571-1630) نے کوپرنیکس پر نصیرالدین طوسی اور مؤیّد الدین عُرضی کے فارمولے یعنی ’’طُوسی کپل اور عُرضی لیما (Tusi couple and Urdi Lemma)‘‘ کو بغیروضاحت اور ذکر کے استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ابنِ شاطر نے سب سے پہلےاس شک کا اظہارکیا تھا کہ ’’زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے‘‘۔ وہ دمشق کے ایک مدرسے سے متعلق تھا اورفقط نمازوں کا نظام الاوقات درست کرنے کی لگن میں اس نے سیّاروں کی رفتاروں (ولاسٹیوں) کو تاریخِ علم میں پہلی بار اپنی توجہ کا مرکز بنالیا۔ یہ بات بھی مصدقہ ہے کہ کوپرنیکس نے ابن شاطر کے ماڈل اورمساواتوں کو اپنے ’’ہیلیوسینٹرک (Heliocentric) ‘‘ انقلاب کی ایجاد میں استعمال کیا۔
دمشق اوربغدادکے مدارس ہوں  یا بخارا و سمرقندکے مدراس، مشرقی مدارس نے دنیا کو اپنے وقت کے جدید علوم کے ساتھ جوڑے رکھا۔ یہ جو سمجھاجاتاہے کہ مسلمانوں کے زوال اور یورپیوں کی سائنسی ترقی کے درمیان وقفہ یا وقت زیادہ ہے یہ بالکل غلط بات ہے۔ آخری مسلمان سائنسداں سمرقند کی لیبارٹری میں دیکھےگئے۔یہ الغ بیگ کی رصدگاہ تھی۔ اوریہ پندرھویں صدی کی بات ہے۔
مسلمانوں سے پہلے کائنات کے تین ماڈل موجود تھے۔ ارسطوکاماڈل جو میکانکی تھا۔ جس کا دائرہ، کامل دائرہ (Perfect Circle) تھا اورجس کا مرکزسیّارۂ زمین تھا۔ دوسرے نمبرپر فلاطینوس کا ماڈل تھا۔ یہ روحانیت زدہ ماڈل تھا۔ کائنات کے اس ماڈل سے ہی انسانیت کے لیے سبق اورمقصد کی موجودگی کو اخذ کیا جاسکتا ہے۔تیسراماڈل بطلیموسی ماڈل کہلاتاہے۔ بطلیموسی ماڈل ریاضیاتی ہے۔
مسلمان ماہرینِ فلکیات نے اِن ماڈلوں کو یکجاکرکےدیکھنا شروع کیا۔ لیکن مسلمانوں میں مشاہدے کا رجحان غالب تھا۔ یقیناً اس کی وجہ قران کا وہ درس تھا کہ کائنات پرغوروفکرکرو! اپنے حواسِ خمسہ، خصوصاً سمع و بصرکو استعمال کرتے ہوئے رات دن کے اختلاف پر نظرڈالو! زمین میں سیرکرو! اورغورکروکہ پہاڑوں کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں؟ پھلوں اوردرختوں کی اتنی انواع کیوں ہیں؟ معلوم کرنے کی کوشش میں لگے رہو کہ اَلوان و اصوات کی کیا حقیقت ہے؟ مسلمانوں کا طریقہ استنتاجی (انفرینشیل) تھا۔ وہ مادی سچائی (Material Truth) کو ڈھونڈنے کے شوقین تھے۔ کیونکہ فطری علوم کی طرف اُن کا رجحان فطری(نیچرل) تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو ایسی ریاضی کی ضرورت پیش آئی جو بہت زیادہ ٹھیک (Précised) اورفطرت، یعنی کائنات کے بہت زیادہ قریب ہو۔ اُنہیں سمتوں، خطوں اور رفتاروں کو مانپنا پڑا۔ اُنہیں ڈرائنگز بنانا پڑیں اور پہلی بار خالص تکنیکی (Technical) زبانیں استعمال کرنا پڑیں۔
اسلام سے پہلے تک کائنات میں ستاروں کی کُل تعداد 1022 تھی۔ یہ بطلیموسی ماڈل تھا۔ کل ستارے 1022 اور کل جھرمٹ (Constellation) فقط اڑتالیس (48)۔ پھر بھی کائنات کو اتنا بڑا سمجھا جاتا تھا کہ اسے جان لینا ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔ بطلیموس نے کہا تھا کہ زمین حرکت نہیں کرتی بلکہ ساکن ہے کیونکہ اگر زمین حرکت کررہی ہوتی تو زمین پرپڑی ہوئی چیزیں لڑھکنے لگتیں اورجانورہوا میں اُڑتے ہوئے دکھائی دیتے۔ دراصل ارسطو کا ماڈل کائنات کے مشاہدے پر مشتمل تھا، بطلیموس نے اسے ریاضیاتی رنگ دے کر کافی الجھادیا تھا۔ لیکن جب مسلمانوں نے ان تینوں ماڈلوں کو یکجا کرکے دیکھا تو ان میں موجود خامیاں اُن پر عیاں ہونے لگیں اوریوں پہلی بارکائنات کو سمجھنے کے لیے ریاضیاتی مساوات کا وجود سامنے آیا۔ مسلمان ریاضی دانوں کا خیال تھا کہ اگر زمین کائنات کا مرکز ہے تو پھر ایک تنہا (سِنگل) ریاضیاتی فارمولا اس کی وضاحت کے لیے کافی ہونا چاہیے ۔
ابنِ سینا اور ابنِ رُشد کو بطلیموس کا ماڈل پسند نہیں تھا۔ ابن الہیثم نے تو باقاعدہ ’’شکوک علی البطلیموس‘‘ نامی کتاب لکھ کر بطلیموس کے ماڈ ل پر شکوک و شبہات کا اظہارکیا۔ ابن الہیثم نے کہا کہ بطلیموسی ماڈل فرضی ہے نہ کہ حقیقی۔ مشاہدے کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں۔ نُورالدین بطروجی، اُندلسی نے اعلان کیا کہ بطلیموس نے زمین کو کائنات کا مرکز ماننے کے لیے زمین سے باہر جس نقطے کو مرکزِ مشاہدہ بنایا ہے وہ مشاہدے اور ریاضی کے اُصولوں پر پورا نہیں اُترتا۔ ابن شاطرنے اعلان کیا کہ ’’زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے‘‘۔ اگرچہ ابن شاطر اپنے کام میں بطلیموس کے ماڈل کو ہی استعمال کرتارہا اور اس کےہاں کوئی ایسا الگ ماڈل نہیں ملتا جس میں زمین کائنات کا مرکز نہ ہو لیکن وہ اپنی تحریروں میں زمین کو کائنات کا مرکز تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔
بطلیموس کے ماڈل کو چیلنج کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں میں قرآن وحدیث یا عقائد کی رُو سے زمین کو کائنات کا مرکز ماننا لازم نہیں تھا۔ قران میں تو کہاگیاتھا کہ تمام اجرامِ فلکی تیر رہے ہیں اورآسمان بغیرستونوں کے بلند ہیں گویا معلّق ہیں۔ قرآن نے تو کہا تھاکہ، مِن جِبَالٍ۬ فِيہَا،  یعنی آسمان میں پہاڑہیں ۔ قران نے ستاروں کے محل ِّ وقوع کی شہادت پر کلامِ الٰہی کے وحی ہونےکی دلیلیں دی تھیں۔اس سب پر مستزاد قران نے زمین کے کناروں سے نکل جانےکی شہ دی تھی۔ الغرض قران کے طلبہ کے لیے زمین کا مرکزِ کائنات رہنا ویسا ضروری نہیں تھا جیسا مسیحیت میں ہوسکتا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ابتدائی دورکے ہیلیوسینٹرک ماڈل کو ماننے والے سائنسدان ابن سینائی تھے، ارسطوکے پیروکارنہیں تھے ۔ ہیلیوسینٹرک یعنی وہ ماڈل جس میں سُورج کائنات کا مرکز ہے۔ نصیرالدین طوسی نے بطلیموس کے ماڈل کو چیلنج کیا اورزمین کے متحرک ہونے کےحق میں دلائل دیے۔ طوسی کو ہلاکوخان نےمراغہ (آذربائی جان) میں رصدگاہ بناکر دی تو طوسی نے گویا یوروپ کی جدید فلکیات کی بنیادیں رکھ دیں۔ طوسی خودابن ِ سینائی تھا نہ کہ ارسطالیسی۔ یہیں یوروپ کے طالب علم آنا شروع ہوئے اور یہیں سے یوروپ کی جانب طبیعات (فزکس) کا علم منتقل ہوا۔یہیں طوسی اورعُرضی کا مشہور فارمولا طُوسی کپل اورعرضی لیما وجود میں آیا۔ طوسی کپل اورعرضی لیما کے استعمال سے ہی کوپرنیکس نئے تصورِ کائنات کو پیش کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ ساری نسیبی (Sari Nusseibeh) کے الفاظ میں،

“Copernicus used this revolutionary concept to shift the focus of the orbital system to the sun.”

نصیرالدین طوسی نے کائنات کا نیا ماڈل پیش کیا۔ اس نے اپنے ماڈل کی بنیاد زمین کے مرکزِ کائنات ہونے پر نہ رکھی ۔ اُس نے بطلیموس کے ماڈل کو تبدیل کردیا۔ایک فارمولا ’’طُوسی کپل‘‘ متعارف کروایا۔ اس نے بطلیموس کے ایکوئنٹ (Equant) کی جگہ ایک نئے دائرے کا اضافہ کردیا۔ یوں گویا طوسی کپل کا چھوٹا دائرہ جو بڑے دائرے کو اُس کے ٹینجنٹ (Tangent) سے چھُورہاتھا، اندرونی طرف کو الٹی حرکت کرنے کی وجہ سے بطلیموس کے ماڈل کی اس خرابی کو دور کررہاتھا جس کی وجہ سے سیارے کبھی آگے اور کبھی واپس پیچھے کو جاتےہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ’’فلااُقسم بالخنس الجوارالکنس‘‘ کی روشنی میں کام کرنےوالا مدرسے کا یہ طالب علم ہیلیوسینٹرک ماڈل کی طرف اتنا آگے بڑھ آیاتھا کہ اب کوئی بھی آسانی کے ساتھ اگلا مرحلہ طے کرسکتاتھا۔ جیسا کہ طوسی کے شاگرد شیرازی نے کہابھی تھا کہ اِس ماڈل میں تو سورج مرکزِ کائنات معلوم ہوتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ طوسی نے سورج کو بھی مرکزِ کائنات نہ مانا۔ یہ گویا زیادہ بڑی سوچ تھی۔ کیونکہ آج ہم جانتے ہیں کہ سورج مرکزِ کائنات نہیں ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے طُوسی کا ماڈل یورپ میں مقبول نہ ہوسکا۔ البتہ اس کی مساواتیں اورفارمولے کوپرنیکس نے استعمال کرلیے۔

طوسی کے شاگرد شیرازی نے طوسی کے ماڈل میں موجود ہیلیوسینٹرک منظرنامے کی نشاندہی کردی تھی۔ ساری نسیبی کے بقول عین ممکن ہے کہ کوپرنیکس نے فقط طوسی کا فارمولا ہی استعمال نہ کیا ہو بلکہ اس کے شاگرد شیرازی کی یہ بات بھی اُچک لی ہو، کہ کائنات کا مرکز سُورج بھی ہوسکتاہے۔ ہیلیوسینٹرک ماڈل کا مطلب ہے وہ ماڈل جس میں کائنات کا مرکز سورج ہے اور جیوسینٹرک ماڈل کا مطلب ہے وہ ماڈل جس میں کائنات کا مرکز زمین ہے۔ ابن شاطر اورقشجی نے بھی ہیلیوسینٹرک ماڈل کی طرف واضح اشارے دیے تھے۔ کوپرنیکس کے کام میں ان کی ڈرائینگز اورفارمولے بھی استعمال ہوئے ہیں۔
یوروپ نے جس وقت آنکھیں کھولیں، مسلمان اس وقت بھی میدان میں موجود تھے۔ اس لیے یوں کہنا کہ مسلمانوں کے علمی زوال اور یورپ کی علمی ترقی کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے بالکل غلط ہے۔ دیکھاجائےتو یہ فاصلہ پچاس سال سے زیادہ نہیں ہے۔ الغ بیگ کی سمرقند والی رصدگاہ پندرھویں صدی کے آخر میں اپنے عروج پر تھی جبکہ یورپ کی سائنس سولہویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی۔
الغرض اسلامی عہد کی تمام تر سائنسی ترقی انہی آزاد مدارس کی مرہونِ منت ہے جہاں گورنمنٹ کے دیے ہوئے نصاب نہیں پڑھائےجاتےتھے۔ یہ ادارے مدرسے تھے۔ ہمارا آج کا مدرسہ اپنی مادر زاد حالت میں ایسا ہی ادارہ ہوا کرتاتھا۔ اسلامی تاریخ کے عروج کے زمانے میں فقط ’’دینی مدرسہ‘‘ کے نام سے الگ مدارس وجود نہیں رکھتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ہزاروں مدارس میں کوئی قرآن و حدیث پڑھانے میں زیادہ مشہور ہو اور کوئی فلسفہ و منطق پڑھانے میں۔ لیکن ایسا تو آج بھی ہوتاہے۔ ایک یونیورسٹی پارٹیکل فزکس میں مشہور ہوتی ہے تو دوسری سوشیالوجی یا سائیکالوجی میں۔
مشرقی بلکہ اسلامی تاریخ کے یہ آزاد مدارس، اسلامی تہذیب کا سب سے قیمتی سرمایہ تھے، جنہیں نوآبادیاتی عہد میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مِٹانے کی کوششیں کی گئیں لیکن اسلامی تہذیب کے اس شاہکار یعنی ’’مدرسے‘‘ میں اپنی داخلی قوت اتنی زیادہ تھی کہ مدراس کو مکمل طورپر ختم نہ کیا جاسکا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ مرعوبیت کا شکار ہوکر استعمارزدہ مشرق نے مدارس کے اس نظام کو ازخود استعماری بیانیے کے عین مطابق بنادیا۔ استعماری بیانیہ یہی تو تھا کہ اِن مدارس میں فقط مسلکی تعلیم دی جاتی ہے نہ کہ سائنس، فلسفہ، منطق یا شعروادب پڑھائے جاتے ہیں اورمرعوب و مغلوب استعمارزدہ ذہن نے اس فریب کو قبول کرلیا۔ اوریوں مدارس کو مسلکی تعلیم تک محدود کرکے اسلامی تہذیب کے اتنے بڑے اورعظیم تحفے کو قریب قریب کنارےکے ساتھ لگا دیا گیا۔
مدرسہ چونکہ ماضی میں پوری انسانیت کےلیے آزادانہ تحقیق کا سب سے شاندار ادارہ رہا تھا اِس لیے ایسے عظیم اور قیمتی ادارے کا ختم ہوجانا اسلامی تہذیب کے سب سے قیمتی اثاثے کا لُٹ جانا تھا۔ چنانچہ بیسویں صدی میں مدرسے کے تہذیبی ورثے کو بچانے کے خواہشمند مسلم علمأ نے طرح طرح کے تجربات کے ذریعےاس ادارے کی اندرونی قوت بحال کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اِن تجربات میں زیادہ ترکوششیں اس لیے کامیاب نہ ہوسکیں کہ اُن کا مطمحِ نظرمدرسے کے نظامِ تعلیم کو جدیدیت کےساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔ مدرسےکواگرکوئی تحریک اُس کی کھوئی ہوئی قوت واپس دلاسکتی تھی تو وہ فقط مدرسے کے اپنے نظام ِ تعلیم کوباقی رکھتے ہوئے ہی ایسا کرسکتی تھی نہ کہ یوروپ کی جدیدیت بلکہ ڈاکٹرناصرعباس نیر کے بقول ’’نوآبادیاتی جدیدیت‘‘ کو اختیار کرکے۔
مدرسے کا اپنا نظام تعلیم آزادانہ فضا میں تدریس، تحقیق اور مباحثے کے اُصول پر قائم تھا اوریہی آزاد فکری ہی اس سےمفقود ہوتے ہوتے بیسویں صدی میں تقریباً ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس مغرب کا نظام  اکیڈمیا کی شکل میں ایک پابند نظام ہے جو بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ فکر کا پروردہ اوراسی کا مستقل خادم ہے۔ تمام سرمایہ دار ممالک اس نظام کو کنٹرول کرتےہیں اور کسی ایسی تحقیق کے لیے کوئی گنجائش اس نظام میں موجود نہیں جو کامل آزادی کے ساتھ کسی علم پر بحث کی اجازت دے۔ 🌼ادریس آزاد (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/01/blog-post_36.html


ایک ایمان افروز واقعہ

ایک ایمان افروز واقعہ
ممتاز سعودی عالم ابوعبدالرحمن محمد العریفی کہتے ہیں:
میں یمن گیا اور شیخ عبدالمجید زندانی سے ملا جو جید عالم دین ہیں اور قرآن کریم کے علمی اعجاز پر اور سائنسی تجربات جو قرآن کریم کی تصدیق کرنے پر مجبور ہیں,پر کافی کام کیا ہے
میں نے شیخ سے پوچھا کوئی ایسا واقعہ کہ کسی نے قرآن کریم کی کوئی آیت سنی ہو اور اُس نے اسلام قبول کیا ہو؟ 
شیخ نے کہا بہت سے واقعات ہیں.
میں نے کہا: مجھے بھی کوئی ایک آدھ واقعہ بتائیں!
شیخ کہنے لگے:
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا، یہ بائلوجی اور اس علم میں جو نئے اکتشافات ہوئے اُن کے متعلق تھا،
ایک پروفیسر امریکی یا جرمن نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کی ذریعے ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے پھر اس نے مثالیں دیں مثال کے طور پر کی جب انجیکشن لگتا ہے تو درد کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے اس کے بعد درد کا احساس نہیں ہوتا۔
اُس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں درد کا مرکز اور درد کا احساس صرف جلد تک محدود ہے. جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔
شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں!
پروفیسر نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے. یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا.
شیخ زندانی نے کہا کہ: ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں. اُس نے کہا وہ کیسے؟
شیخ نے کہا: میں نے قرآن کی آیت پڑھی:
(اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم)
(بسم اللہ الرحمن الرحیم)
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۵۶﴾
سورہ النسآء آیت نمبر 56
ترجمہ: بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا ہے، ہم انہیں آگ میں داخل کریں گے، جب بھی ان کی کھالیں جل جل کر پک جائیں گی، تو ہم انہیں ان کے بدلے دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں۔ بیشک اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
یعنی کہ جب اہل جہنم کی جب جلد اور کھال جل جائے گی اللہ مالک نئی جلد اور کھال دیں گے تاکہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں معلوم ہوا کہ درد کا مرکز جلد ہے،
جب اہل جہنم کی جلد اور کھال ہی نہیں ہوگی تو انہیں درد کا احسا س نہیں ہوگا.
شیخ کہتے ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکڑز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟
سب نے کہا: ترجمہ صحیح ہے
وہ حیران و پریشان ہوکر خاموش ہوگیا.
شیخ زندانی کہتے ہیں جب وہ باہر نکلا میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ.
انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا.
وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا: سب یہی ترجمہ کررہے ہیں!
اُس نے کہا: مجھے قرآن کا ترجمہ دو.
شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا.
شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا:
میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے. الحمدللہ ۔۔۔ اللہ اکبر (نقلہ: #ایس_اے_ساگر) 
https://mastooraat.blogspot.com/2021/01/blog-post_15.html


غلطی ہائے مضامین۔ کان ’’کَن‘‘ یا کان ’’کُن‘‘

غلطی ہائے مضامین۔ کان ’’کَن‘‘ یا کان ’’کُن‘‘ 

اب سے دو ہفتے پہلے کی بات ہے، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ بلوچستان کی تحصیل بولان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کُھدائی کرنے والے گیارہ مزدوروں کو دہشت گردوں نے اغوا کرکے وحشیانہ انداز میں قتل کردیا۔ اس دل خراش سانحے کی خبر دیتے ہوئے ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ (دونوں) نے ان مظلوم مزدوروں کے لیے ’’کان کَن‘‘ کی جگہ ’’کان کُن‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ ایک اخبار نے تو اپنی شہ سُرخی میں ’’کن‘‘ کے کاف پر باقاعدہ پیش بھی لگایا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے ’’کان کُن‘‘ پڑھنے سے محروم ہی رہ جائے۔

اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد اور اردو کو ذریعۂ اظہار بنانے والے نشریاتی اداروں میں اب املا اور تلفظ کی درستی کا خیال رکھنا بے رواج ہوچکا ہے۔حالاں کہ ان اداروں کو اپنے وقار اور وقعت میں اضافہ کرنے کے لیے مستند املا اور مستند تلفظ اختیار کرنے کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخبارات کا تلفظ و املا سند سمجھا جاتا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی ذمے داریوں میں سے ایک اہم ذمے داری اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کی علمی رہنمائی بھی ہے۔

ابلاغی اداروں کے لیے فائدے کی نہیں، نقصان کی بات ہے کہ اخبارات میں خبریں تحریر کرنے والوں اور نشریاتی اداروں سے خبریں پڑھنے والوں کی لسانی تربیت کا اب کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے اکثر املا اور تلفظ محض قیاس سے اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ غلط املا شائع ہونے اور غلط تلفظ نشر ہونے سے نیک نامی نہیں، بدنامی ہوتی ہے۔ سہل پسندی کی وجہ سے لغت دیکھنے کا کہیں بھی رواج نہیں ہے۔ چناں چہ ’’کارکُن‘‘ کے تلفظ پر قیاس کرکے ’’کان کُن‘‘ کا تلفظ بھی اختیار کرلیا گیا، جو غلط ہے۔ غلطی پر ٹوکنے والابھی اب کوئی نہیں، لہٰذا ایک کی دیکھا دیکھی یا سن کر وہی غلطی دوسرے بھی دوہراتے چلے جاتے ہیں۔

عربی، فارسی اور اردو میں اِعراب (زیر، زبر، پیش) کے فرق سے تلفظ تبدیل ہونے پر اکثر اوقات معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ اس وجہ سے معیاری زبان لکھنے اور بولنے والے املا اور تلفظ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

’’کان کَن‘‘ فارسی ترکیب ہے۔ کاف پر زبر کے ساتھ ’’کَن‘‘کامطلب ہے ’’کھودنے والا‘‘۔ اس کا مصدر ’’کَندَن‘‘ ہے، یعنی ’’کھودنا‘‘۔ پتھر، لکڑی یا دھات وغیرہ کو کھود کر اس پر نقش و نگار اُبھارنے کو ’’کَندہ کرنا‘‘ کہتے ہیں۔

شیریں فرہاد کی رُومانی داستان میں دودھ کی نہر نکالنے کے لیے اپنے تیشے سے پہاڑ کھود ڈالنے والے فرہاد کو ’’کوہ کَن‘‘ بھی کہا گیا، یعنی ’’پہاڑ کھودنے والا‘‘۔ اگرچہ اب تو بہت سہولت ہوگئی ہے، مگر ہمارا ماضی پرست اور تیشہ بدست شاعر کوہ کَنی کے جدید طریقوں سے سراسر ناخوش ہے۔ کہتا ہے:۔

اب تو بارُود سے ہوتی ہے یہاں کوہ کَنی

اب میں ہم پیشۂ فرہاد نہیں رہ سکتا

قبر کو فارسی میں ’’گور‘‘ کہا جاتا ہے اور قبر کھودنے والے کو ’’گورکَن‘‘۔ فارسی کا ایک محاورہ اکثر اردو میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے ’’چاہ کَن را چاہ درپیش‘‘۔ چاہ کنویں کو کہتے ہیں۔ ترجمہ اس کا یہ ہوگا کہ کنواں کھودنے والے کو خود کنویں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو دوسروں کے رستے میں کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گر پڑتا ہے۔ اسی مفہوم کا یہ محاورہ بھی اردو میں رائج ہے کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔ مطلب یہ کہ دوسروں کی بُرائی چاہنے والا آپ اس کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ اسی طرح ایک اورلفظ ہے ’’بیخ کَنی‘‘ یعنی جڑ کھودنا یا کسی چیز کو جڑ بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا۔ اکثر اس کا تلفظ بھی کاف پر پیش کے ساتھ کردیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ ’’جاں کَنی‘‘ میں بھی فرشتے کسی کے جسم سے جان اُسی طرح کھینچ کر نکالتے ہیں جس طرح کوئی چیز کھود کر نکالی جاتی ہے۔ اسی کو نزع کا عالم کہتے ہیں۔ نزع کے معنی کسی شے کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں۔ نزاع یا تنازع بھی ایسی ہی کھینچا تانی سے پیدا ہوتا ہے۔ کان کَنی میں تو جان کَنی کا خطرہ ہر وقت ہی موجود رہتا ہے۔ مگر ہمارے شعرائے کرام اس قسم کے خطرات سے بھی لطف لیتے ہیں۔ بقول مصطفیٰ زیدی:۔

یکایک ایسے جل بجھنے میں لطفِ جاں کَنی کب تھا

جلے اِک شمّع پر ہم بھی، مگر آہستہ آہستہ

(ضرورتِ شعری کے تحت یہاں شمع کا تلفظ ’’شمّع‘‘ کیا گیا ہے)

حاصلِ کلام یہ کہ کان میں کھدائی کرنے والے مزدور کوکان ’’کَن‘‘ ہی کہا جاتا ہے، کان ’’کُن‘‘ نہیں۔

’’کارکُن‘‘ بھی فارسی ترکیب ہے۔کاف پر پیش کے ساتھ ’’کُن‘‘ کا مطلب فارسی میں ہے: ’’کرنے والا‘‘۔ اس کا مصدر ’’کردن‘‘ ہے، یعنی ’’کرنا‘‘۔ ’’کار‘‘ فارسی میں ’’کام‘‘ کو کہتے ہیں۔ ’’کارکُن‘‘ ہوا کام کرنے والا۔’’حیران کُن‘‘ حیران کرنے والا اور ’’پریشان کُن‘‘ پریشان کرنے والا۔کھیل کے کسی مقابلے کا فیصلہ کرنے والا، مثلاً ہاکی کا جوگول یا کرکٹ کا جو شاٹ فتح و شکست کا فیصلہ کردے، اُسے ’’فیصلہ کُن‘‘ کہتے ہیں۔قوموں کی زندگی میں بعض مواقع بھی ’’فیصلہ کُن‘‘ آتے ہیں، جن کے متعلق تاریخ میں یہی پڑھا ہے کہ اکثرو بیشتر گنوا دیے جاتے ہیں۔

کاف پر پیش کے ساتھ ’’کُن‘‘ عربی زبان کا بھی لفظ ہے۔ یہ صیغۂ امر ہے۔ یعنی حکم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے’’ہوجا‘‘۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 117 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’… اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کے لیے فرما دیتا ہے کہ ہو جا،(کُن) تو وہ ہو جاتا ہے(فَیکُون)‘‘۔ کُن فیکُون کے یہ قرآنی الفاظ اردو شاعری میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔اقبالؔ کا مشہور شعر ہے:۔

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید

کہ آ رہی ہے دما دم صدائے ’کُن فیکوں‘

کاف پر زبر کے ساتھ ’’کَن‘‘ اردو میں کان کے مخفف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جس کے کان کٹے ہوئے ہوں اُس کو ’’کَن کٹا‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ کان اور ماتھے کے بیچ کے پَٹ (حصے) کو ’’کَن پَٹی‘‘ کہتے ہیں، جس کا املا ’’کنپٹی‘‘ ہے۔کسی شخص (بالعموم اگر کسی مرد) کے کان چھدے ہوئے ہوں وہ ’’کَن چھدا‘‘ کہلاتا ہے۔ بُندے وغیرہ پہننے کے لیے بچیوں کے کان چھیدے جاتے ہیں اور اس کی باقاعدہ رسم منعقد کی جاتی ہے، جو’’کَن چھیدن‘‘ یا ’’کَن چھدائی‘‘ کہی جاتی ہے۔ دوسروں کی بات چپکے چپکے کان لگا کر سننے کو ’’کَن سُوئیاں‘‘ لینا کہتے ہیں۔ مگر یہ کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔ جو ٹوپی یا ٹوپا کان چھپا لے، وہ ’’کنٹوپ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایک زہریلا کیڑا جو کھجور سے مشابہت رکھتا ہے اور کان میں گھس جاتا ہے ’’کَنکھجورا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو شخص گانے بجانے یا موسیقی کا رسیا ہو اُسے ’’کَن رَس‘‘ یا ’’کَن رسیا‘‘ کہتے ہیں۔

آدھا، کونا یا گوشہ بھی ’’کَن‘‘ کہلاتا ہے۔

اب تو اس کی بس ایک ہی مثال باقی رہ گئی ہے ’’کَن انکھیوں‘‘ سے دیکھنا۔ یعنی گوشۂ چشم سے تکنا۔

وہ گو کچھ نہ سنتی، نہ کہتی اُسے

کَن انکھیوں سے پَر دیکھ رہتی اُسے

(مولوی میرحسن ۔ مثنوی ’’سحرالبیان‘‘)

از: ابونثر بہ شکریہ: فرائیڈے اسپیشل (نقلہ: #ایس_اے_ساگر) 

https://mastooraat.blogspot.com/2021/01/blog-post.html