عنوان:
بزرگوں کے
مجربات کا حکم
(102691-No)
سوال: علمائے دیوبند کے اکابر میں سے ایک بزرگ تھے، جو حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے استاد بھی تھے، یعنی مفتی تقی عثُمانی مدظلہ کے دادا استاد، وہ فرمایا کرتے تھے کہ حفاظت کا ایک عمل ایسا ہے کہ کچھ خاص لوگوں کو ہی بتایا کرتا ہوں، لیکن اب چونکہ عمر کا آخری حصہ ہے، اس لیے دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان تک یہ پہنچ جائے۔ اس کی تائید حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ نے بھی کی تھی اور یہ عمل کیا کرتے تھے؟ وہ عمل ذیل میں ارسال کیا جارہا ہے۔ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم (تین مرتبہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم (تین مرتبہ) اعوذ بِکَلِماتِ اللہِ التَّامَّات مِن شرِّ مَا خَلَق (تین مرتبہ) بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ اخلاص بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ فلق بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ الناس فَاللہُ خَیرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرحَمُ الرَّاحِمِین (تین مرتبہ) وَ اَنَّ اللہَ قَد اَحَاطَ بِکُلِّ شَیئٍ عِلمًا (تین مرتبہ) آخر میں کوئی بھی درود شریف تین مرتبہ اس کے بعد پورے جسم پر دم کرلیں، اپنے اہل و عیال اور بچوں کا بھی حصار کرلیں۔ فجر کی نماز اور مغرب کی نماز کے بعد ان شآءاللہ بے شمار فوائدوبرکات کھلی آنکھوں سے نظر آئیں گے، اور شیطانی قوتوں اور ہمہ قسم کے بداثرات سے حفاظت ہوگی، یاد رکھیں! ان اذکار کا خود اہتمام کرتے ہوۓ، جتنا زیادہ ایسی خوبصورت پیاری باتیں آگے پھیلائیں گے، اتنا زیادہ فائدہ دنیا وآخرت میں پائیں گے۔ مفتی صاحب! کیا یہ عمل درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جائز مقاصد کے حصول کے لیے وہ وظائف جو بزرگوں کے مجربات ہوتے ہیں، اگر وہ مجربات شریعت کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں، تو انہیں بطور علاج پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ ان وظائف کو فرض واجب سمجھنا درست نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ "وظیفہ حفاظت" بھی ایک مجرب عمل ہے، قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے، لہذا اسے پڑھنا مفید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما فی حجۃ اللّٰه البالغۃ:
وأما الرقي فحقيقتها التمسك بكلمات لها تحقق في المثل وأثر، والقواعد الملية لا تدفعها ما لم يكن فيها شرك لا سيما إذا كان من القرآن أو السنة أو مما يشبههما من التضرعات إلى الله.
(ج: 2، ص: 300، ط: دار الجیل)
وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ:
التداوي بالرقى والتمائم:
أجمع الفقهاء على جواز التداوي بالرقى عند اجتماع ثلاثة شروط: أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته، وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره، وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بإذن الله تعالى. فعن عوف بن مالك رضي الله عنه قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك وما لا يعقل معناه لا يؤمن أن يؤدي إلى الشرك فيمنع احتياطا.
(ج: 11، ص: 123، ط: دار السلاسل)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب دارالافتاء الاخلاص، کراچی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/03/blog-post.html?m=1