Monday, May 24, 2021

حقوق ‏الاستاذ

حقوق الاستاذ

بقلم: محترم قاری ممتاز احمد، چمن

جس طرح دینی علوم کا پڑھنا پڑھانا ضروری ہے اس طرح جس سے دینی علوم پڑھے جائیں اس کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے، جس طرح بے علمی کی وجہ سے انسان، انسانیت سے محروم ہوتا ہے اس طرح استاذ کا حق نہ ادا کرنے والا علم کی برکت اور خدمت سے محروم رہ جاتا ہے، استاذ کے ساتھ شاگردوں کا روحانی تعلق ہوتا ہے، جس طرح والدین کے ساتھ جسمانی تعلق اور نسبت کی وجہ سے اولاد کے لئے ان کا حق ادا کرنا واجب ہے، جو اولاد یہ حق ادا نہیں کرتی وہ قرآن و حدیث کی رو سے بدبخت شمار ہوتی ہے، بلکہ والدین کی ناراضی کی وجہ سے اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے، اس طرح استاذ و شاگرد کا معاملہ ہے جو شاگرد استاذ کا فرماں بردار ہوتا ہے وہ کام یاب ہوتا ہے، اس سے اللہ دین کی خدمت لیتا ہے اور جو شاگرد نافرمان ہوتا ہے اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے، اس کے علم میں برکت نہیں ہوتی اور نہ وہ دین کی خدمت کرسکتا ہے.
جسم کی نسبت سے روح کی نسبت اصل ہے، کیوں کہ روح جسم کے مقابلے میں اصل ہے، روح ہے تو جسم بھی قائم ہے، روح نہیں تو جسم کی کوئی حیثیت نہیں۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ایک دفعہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا: تمہیں معلوم ہے آدمی کے کتنے باپ ہوتے ہیں؟ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے تین باپ ہوتے ہیں۔ 

1: ایک والد جس کے نطفہ سے یہ پیدا ہوا، 

2: دوسرا سُسر جس نے اس کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور 

3: تیسرا استاذ جس نے اس کو دین سکھایا، 

پھر پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ ان میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے لاعلمی ظاہر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان تینوں میں سے استاذ کا حق زیادہ ہے، کیوں کہ اس نے اس کو دینی تعلیم دی اور دین کا تعلق روح سے ہے اور روح جسم کے مقابلے میں اصل ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ استاذ کا حق والدین سے زیادہ ہے، جب والدین کی ناراضگی اولاد کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتی ہے تو پھر استاذ کی ناراضگی شاگرد کے لئے کیسے دونوں جہانوں کی بربادی کا سبب نہیں بن سکتی؟
حدیث نبوی ہے: ”بوڑھے مسلمان، حافظ قرآن، عالم دین، عادل بادشاہ اور استاذ کی عزت کرنا تعظیم خداوندی میں داخل ہے۔“ اکابرین امت، دائمہ دین اور علمائے صالحین نے جو کچھ حاصل کیا وہ اساتذہ کے ادب اور خدمت ہی سے حاصل کیا ۔ابن وھب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ ملا وہ علم کی وجہ سے نہیں، اپنے استاذ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ادب کی وجہ سے ملا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ سے الٹتے، تاکہ اس کی آوازکی وجہ سے استاذ کو تکلیف نہ ہو اور استاذ کے سامنے پانی پینے کی بھی جرأت نہ ہوتی۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ادب کی وجہ سے اپنے استاذ کا نام نہ لیتے تھے، بلکہ ان کا ذکر ان کی کنیت کے ساتھ کیا کرتے تھے. امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، اثنائے گفتگو میں ان کے استاذ ابراہیم بن طہمان رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر آیا تو ان کا نام سنتے ہی امام صاحب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نازیبا بات ہوگی کہ بڑوں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگاکر بیٹھے رہیں۔
شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاذ کے سامنے ادب سے دوزانو ہوکر بیٹھے، استاذ کے برابر نا بیٹھے، وہ کہے تب بھی نہ بیٹھے، موٴدبانہ گفتگو کرے، زور سے نہ بو لے، استاذ سے فراغت کے بعد بھی ملا قات کرتا رہے، فراغت کے بعد استاذ کو بھول جانا حق تلفی ہے۔
امام حلوانی رحمۃ اللہ علیہ جس وقت بخارا سے دوسری جگہ تشریف لے گئے تو امام زر نوجی رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ اس علا قہ کے تمام شاگرد سفر کر کے ان کی زیارت کو گئے، مدت کے بعد امام زر نوجی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے غیرحاضری پر افسوس کا اظہار کیا اور کہاکہ ماں کی خدمت کی وجہ سے نہیں آسکا، اس وقت امام حلوانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تم کو عمر تو ضرور نصیب ہوگی، مگر درس نصیب نہ ہوگا، چنا ں چہ ایسا ہی ہوا۔
مولانا عبدالرحمن شاہ رحمۃ اللہ علیہ محدث مظاہرالعلوم سہارن پور نے اپنا ایک واقعہ لکھا کہ میں اپنے وطن سے جب سہارن پور پڑھنے کے لئے آیا تو ہر استاذ سے مل کر آیا تھا، ایک استاذ جن سے میں نے ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں ان سے ملاقات نا ہوسکی، جب سہارن پور آکر پڑھنا شروع کیا تو کتاب بالکل سمجھ میں نہ آئے، حالاں کہ میں اپنی جماعت میں بہت سمجھ دار سمجھا جاتا تھا، اس کے اسباب پر غور کیا، اللہ پاک نے راہ نمائی کی اور ان استاذ کی خدمت میں خط لکھ کر معافی مانگی اور ملاقات نہ ہوسکنے کی وجہ لکھی، انہوں نے جواب میں فرمایا: میرے دل میں خیال ہوا تھا کہ مجھے چھوٹا سمجھ کر شاید تم نہیں ملے لیکن تمہارے خط سے معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی، اس کے بعد دعائیہ الفاظ لکھے، میرا ذہن کھل گیا اور سبق سمجھ میں آنے لگا۔
شاگرد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ استاد کی اولاد اور اس کے متعلقین کی بھی تعظیم کرے.
'تعلیم المتعلم' میں لکھا ہے کہ صاحبِ ھدایہ نے ائمہ بخارا میں ایک بڑے عالم کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن یہ عالم درس میں بیٹھے ہوئے تھے، یکایک کھڑے ہوگئے، دریافت کرنے پر فرمایا کہ میرے استاذ کا لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، جب کھیلتے ہوئے مسجد کی طرف آیا تو میں اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوگیا۔
علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو طالب علم بے ادب ہو، استاذ کے سامنے زور سے بولتا ہو، نگاہ نیچی نہ رکھتا ہو، تعظیم نہ کرتا ہو، اس کی غیرموجودگی میں حرمت وعظمت کا لحاظ نہ رکھتا ہو، استاذ کے انتقال کے بعد اس کے وظیفہ یا قیام گاہ کے لئے کوشش نہ کرتا ہو کہ اس کو مل جائے اور اس کی اولاد سے ان امور میں مقابلہ کرتا ہو اور اپنے کو ان سے زیادہ مستحق سمجھتا ہو، استاذ کے کلام کو اپنی فہم نا قص کی وجہ سے یا کسی دوسرے کے کلام سے رد کرتا ہو، استاذ سے علوم حاصل کرکے اس سے بحث مباحثہ کرتا ہو تو یہ اس شاگرد کی کوتاہی عمل اور بدبختی کی علامت ہے اور ایسا شاگرد کبھی بھی کام یاب نہیں ہوسکتا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو آزاد کردے یاغلام رکھے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
        رَأیْتُ اَحَقَّ الْحَقِّ الْمُعَلِّم
        وَاَوْجَبُہ حِفْظًا علٰی کُلِّ مُسْلِم
        لَقَدْ حَقَّ اَنْ یّھدٰی اِلَیْہِ کَرَامَةً
        لِتَعْلِیْمِ حَرْفٍ وَّاحِدٍ اَلْفُ دِرْھِم

سب سے بڑا حق تو استاذ کا ہے، جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے، واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھایا اس کا مستحق ہے کہ ہزار درہم اس کے لئے ہدیہ کئے جائیں۔ بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ جو شخص اپنے استاذ کی تکلیف کا باعث ہو وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا اور برابر کوششوں کے باوجود علم کی دولت سے منتفع نہیں ہوسکتا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے #
        اِنَّ الْمُعَلِّمَ وَالطَّبِیْبَ کِلَا ھُمَا لَا
        یَنْصَحَانِ اِذاَ ھُمَا لَا یُکْرَمَا
        فَاصْبِرْ لدَائِکَ اِنْ جَفَوْتَ طَبِیْباً
        وَاقْنَعْ بِجَھْلِکَ اِنْ جَفَوْتَ مُعَلِّمًا

(ترجمہ: استاذ اور معالج اس وقت تک نفع نہيں ديتے جب تک ان کى عزت نہ كی جائے، اگر تم نے كسى طبیب كو تكليف پہنچادى تو اپنى بيمارى پر صبر كرو اور اگر كسى استاذ كو تكليف پہنچادى تو اپنى جہالت پر صبر كرو، یعنی تم كو كچھ نہیں آئے گا اور اگر آگيا تو ختم ہوجائے گا)
استاذ اور طبیب کی جب تک توقیر اور تعظیم نہ کی جائے وہ خیرخواہی نہیں کرتے، بیمار نے اگر طبیب کے ساتھ بدعنوانی کی ہے تو اس کو ہمیشہ بیماری پر قائم رہنا پڑے گا اور شاگرد نے اگر اپنے استاذ کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو ہمیشہ جاہل رہے گا۔
طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ استاذ کا ادب اور خدمت اپنے لئے ضروری سمجھے، بلکہ دونوں جہانوں کی سعادت سمجھے، جو شاگرد اپنے استاذ کی خدمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دینی ودنیوی ترقی عطا فرماتا ہے، ایسے لوگ دین کی اشاعت کرتے ہیں، جس سے ہزاروں بندگان خدا کو ہدایت نصیب ہوتی ہے، وہ زمین پر مانند ستاروں کے ہوتے ہیں، ان کی صحبت میں ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ برسہا برس کا پاپی گناہوں سے توبہ کرکے خداوند تعالیٰ کی معرفت کا نور قلب کے اندر پیدا کرتا ہے، ان کی فراست وذکاوت سے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل حل ہوتے ہیں، وہ اساطین امت ہیں جن پر زمین و آسمان فخر کرتے ہیں، وہ جس سرزمین پر قدم رکھتے ہیں گم راہی دور ہوجاتی ہے اور ہدایت کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
ہر ایک کو اس کا اچھی طرح تجربہ ہے کہ جس کو جو کچھ ملا استاذ کے ادب اور خدمت اوراس کی عنایت ومہربانی سے ملا، دین ودنیا کی عزت انہیں کی دعاوٴں کا ثمرہ ہے۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں تین بچے پیش پیش رہتے، اتفاق کی بات یہ ہے کہ تینوں کا نام عبداللہ تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں کی محبت اور خدمت کو دیکھتے تو انہیں دعائیں دیتے، دعاوٴں کا نتیجہ یہ نکلا کہ تینوں بڑے ہو کر اپنے اپنے فن کے امام بنے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہاء بنے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ امام المفسرین بنے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ امام المحدثین بنے۔
حماد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ عاتکہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ امام ابوحنیفہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے تھے اور ہمارا دودھ،تر کا ری خریدکر لاتے تھے اور اس طرح کے بہت سے کام کیا کرتے تھے۔
حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ ہیں، اس وقت کیا کوئی سمجھ سکتا تھا کہ حماد کے گھر کا یہ خادم تمام عالم کا مخدوم ہوگا!

امام فخرالدین رحمة اللہ علیہ کی بادشاہ وقت بہت تعظیم کرتا تھاوہ فرماتے تھے کہ میں نے یہ سلطنت اور عزت محض استاذ کی خدمت کے سلسلہ میں پائی کیو نکہ میں اپنے استاذ قاضی امام ابوزیدد بوسی کی بہت خدمت کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے بیس سال تک متواتران کا کھانا پکایا اور اس میں سے کچھ کھا تانہ تھا۔

حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی تھی. مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ تحصیل علم سے فراغت کے بعد حاجی صاحب نے اپنی کُلاہ جوپندرہ برس تک آپ کے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی، مجھے عنایت فرمائی، میں نے رات کو گرم پانی میں وہ ٹوپی بھگودی، صبح کے وقت وہ پانی اِملتاش کے شربت سے زیادہ سیاہ ہوگیا تھا، میں اس کو پی گیا، اس پانی کی برکت سے میرا دل ودماغ ایسا تیز ہوگیا کہ کوئی مشکل کتاب مشکل نہ رہی۔
مولانا غلام رسول صاحب پونٹوی رحمۃ اللہ علیہ شجاع آباد ملتان کے ایک گاوٴں پونٹہ کے رہنے والے تھے، انہوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ سے دورہ حدیث کیا، ان کی اپنے استاذ شیخ الہند سے بہت زیادہ محبت تھی، جس راستے سے استاذ دارالحدیث میں آیا کرتے تھے یہ رات کو چھپ کر اس راستے کو اپنے عمامہ کے ساتھ جھاڑو کیا کرتے تھے، وہ اس لئے چھپتے تھے کہ دوسرے طلبہ ان کو نہ دیکھ لیں. ایک مرتبہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو عمامے سے جھاڑو دیتے ہوے دیکھ لیا، انہوں نے پوچھا: غلام رسول! کیا کررہے ہو؟ بالآخر بتانا پڑا، شیخ نے خوش ہوکر ان کو دعا دے دی. بس استاذ کی دعاء شاگرد کے کام آگئی، جب یہ فارغ ہوئے تو ان کا علمی فیض خوب چلا. شجاع آباد سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ان کا گاوٴں پونٹہ تھا انہوں نے ہی شرح مأتہ عامل پونٹوی لکھی، ان کو پورے ملک کے علما کی طرف سے شمس النحاة کا لقب ملا، طلبہ کا ہجوم ہوتا،طلبہ شجاع آباد شہر میں بس سے اترتے اور تیس کلو میٹر پیدل چل کر اپنا بور یا بستر اور سامان اپنے سروں پر رکھ کر پونٹہ جایا کرتے تھے، ان کے پاس ساڑھے تین سو شاگرد ہوتے تھے، مولانا عبداللہ در خواستی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبداللہ بہلوی رحمۃ اللہ علیہ انہی کے شاگرد تھے، جن کا علمی وروحانی فیض سارے جہاں میں پھیلا۔
اساتذہ کی ٹوپیاں اور پگڑیاں اچھالنے والے اور مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی اسکیمیں بنانے والے اس پر غور کریں کہ استاذ کی عظمت کرنے والوں نے کیا دولت حاصل کی اور پھر انہوں نے دنیا کو کیسا فیض پہنچایا۔
طالب علم کو چاہئے کہ بغیر اجازت استاذ سے بات نہ کرے، اس کے سامنے بلند آواز سے نہ بولے، اس کے آگے نہ چلے، اس کے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے، اس کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اس کے مطابق عمل کرے، اگر کسی وقت استاذ کی طبیعت مکدر ہو تو اس وقت اس سے کوئی بات نہ پوچھے، کسی اور وقت دریافت کرلے، استاذ کو آواز دے کر نہ بلائے، بلکہ اس کے نکلنے کا انتظار کرے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انصار کے پاس سے مجھے زیادہ علم ملا،میں ان کے دروازے پر دوپہر کے وقت گرمی میں پڑرہتاتھا حالاں کہ اگر میں چاہتا تو وہ مطلع ہو نے پر فوراًنکل آتے، مگر مجھے ان کے آرام کاخیال رہتا تھا، جب وہ باہر آتے اس وقت میں ان سے دریافت کرتا۔
حضرت شیخ الا دب مولانا اعزاز علی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہوتی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکان کے دروازے پر جاکر بیٹھ جاتے، جب حضرت گھر سے باہر نکلتے اس وقت دریافت کرتے اور یہ ان کا معمول تھا۔
طالب علم کو چاہئے کہ دوران درس اور فراغت کے بعد استاذ کے مشورے پر عمل کرے، استاذ کی مرضی کے مطابق عمل کرے، سبق اور کتاب کا انتخاب خود اپنی رائے سے نہ کرے۔
پہلے زمانے میں طلبہ اپنے پڑھنے پڑھانے کا معاملہ استاذ پر معلق رکھتے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کام یاب ہوتے تھے اور جب خود انتخاب شروع کردیا تو علم سے محروم رہنے لگے۔
امام بخاری رحمةاللہ علیہ نے محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ سے کتاب الصلوٰة پڑھنی شروع کی تو ان سے محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تمہارے لئے علم حدیث کا پڑھنا مناسب ہے، کیوں کہ تمہارے اندر اس علم سے مناسبت پاتا ہوں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا، دنیا نے دیکھا کہ وہ امیرالموٴمنین فی الحدیث ہوئے، اس سے معلوم ہوا کہ طالب علم کو جس فن سے مناسبت ہو اس میں زیادہ محنت کرکے مہارت پیدا کرے اور پھر اس کی اشاعت میں لگ جائے، اس میں خود رائی نہ کرے، بلکہ استاذ سے اس میں مشورہ کرلے۔
قرآن مجید میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مشورہ کا حکم فرمایا گیا ہے، حالاں کہ آپ سے زیادہ سمجھ دار کوئی نہیں ہوسکتا، چناں چہ آپ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ فرمایا کرتے تھے، حتیٰ کہ گھریلو زندگی کے معاملات میں بھی مشورہ کرتے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مشورہ کرنے کے بعد ہلاک نہیں ہوا۔ یہ مقولہ مشہور ہے کہ انسان تین قسم کے ہوتے ہیں،
ایک کامل انسان،
دوسرا نصف اور
تیسرا لاشے کے درجہ میں۔
مرد کامل وہ ہے جو صاحب رائے ہونے کے باوجود مشورہ کرتا ہو۔
اور تیسرا مرد جو بالکل لا شے کے درجہ میں ہے وہ ہے جو نہ درست رائے رکھتا ہوا ورنہ مشورہ کرتا ہو۔
حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کو نصیحت کی تھی کہ اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لیتے رہا کرو جن کے قلوب اللہ کے خوف سے لبریز ہوں۔
جب تمام معاملات میں مشورہ کی ضرورت ہے تو علم جو ایک بلند ترین مقصد ہے اس میں مشورہ کرنا تو زیادہ ضروری ہے اور استاذ سے بڑھ کر اس معاملہ میں کوئی صحیح رائے نہیں دے سکتا، جب تک استاذ کی مرضی اور اجازت نہ ہو. استاذ کو چھوڑکر نہ جائے، جوطلبہ استاذوں کو بدلتے رہتے ہیں، کبھی کسی کے پاس گئے، کبھی کسی کے پاس چلے گئے، اس سے علم کی برکت ختم ہوجاتی ہے، حضرت حکیم الامت مولا نا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی رائے ہوئی کہ دوسرے استاذ کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا جائے،جب مجھے معلوم ہو اتورات بھر نیند نہیں آئی، کھانا نہیں کھایا گیا، گھر کی مستورات نے یہ حال دیکھا تو والد صاحب نے اپنی رائے بدل دی اور میں بدستور اپنے سابق استاذ کے پاس پڑھتا رہا۔پھر دنیانے دیکھا کہ استاذ کی عظمت ومحبت نے کیا رنگ پیدا کیا، اور حضرت سے اصلاح امت کا کتنا بڑا کام ہوا۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

http://mastooraat.blogspot.com/2021/05/blog-post.html?m=1




Wednesday, May 12, 2021

کامیاب استاداستاذ کے 100 اعمال و اوصاف

کامیاب استاذ کے 100 اعمال و اوصاف
اساتذہ کرام اور والدین ایک مرتبہ ضرور ملاحظہ فرمائیں:
https://www.facebook.com/MolanaMuhammadNoman/
(نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/05/100.html?m=1