Thursday, August 5, 2021

عورتیں غالب اور مرد مغلوب

عورتیں غالب اور مرد مغلوب
سوال: عورتوں کے بارے میں وہ پانچ باتیں، جو اکثر مردوں کو یاد ہوتی ہیں
1- إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ
عورتوں کی چال بہت خطرناک ہوتی ہے  
2 - مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
 دو، تین، چار عورتوں سے نکاح کرو.
3- النساء ناقصات عقل و دين
عورتیں عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہوتی ہیں
4‏- الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ
 مرد عورتوں پر سربراہ ہیں. 
5- لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ
 (وراثت میں) مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے. 
عورتوں کے بارے میں وہ پانچ باتیں جو اکثر مردوں کو    یاد نہیں رہتیں......!!!
1- وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ 
عورتوں ‏کے ساتھ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارو. 
2-  استوصوا بالنساء خيرا
 عورتوں کے بارے میں میری  وصیت کا خیال رکھنا 
3- رفقا بالقوارير
 (عورتیں شیشے کی طرح ہیں) ان شیشوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ
4- خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي
 تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے‏ بہترین ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں. 
5- ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم
عورتوں کی عزت وہی کرے گا جو خود عزت دار ہوگا اور ان کی اہانت اور بے عزتی وہی کرے گا جو خود بے عزت ہوگا. 
وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
’اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری سوائے (اللہ کا پیغام) صاف صاف پہنچا دینے کے۔‘
اس میں پانچویں نمبر پر "ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم" عورتوں کی عزت وہی کرے گا جو خود عزت دار ہوگا اور ان کی اہانت اور بے عزتی وہی کرے گا جو خود بے عزت ہوگا." 
کیا مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ یا اسکے ہم معنی کوئی مرفوع یا موقوف حدیث موجود ہے؟
اس روایت کو مولانا طارق جمیل صاحب کے بیانات میں کئی بار سنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کریم شوہر پر بیوی غالب ہوتی ہے اور کمینہ شوہر بیوی پر غالب ہوتا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ مغلوب کریم بنوں نہ کہ غالب کمینہ“. اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔
سائل: محمد طفیل
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مشہور کی گئی ہے:
١ .پہلی روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہوں، اور کریم شخص….الی آخرہ
عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، ما أكرم النساء إلا كريم، ولا أهانهن إلا لئيم”. (رواه ابن عساكر في “تاريخ دمشق”: 13/313(وعنه ابن أخيه في “الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين” (109)
ابن عساکر کی سند کے تین راویوں پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے:
١ . داود بن الحصین:
یہ راوی ویسے تو ثقہ ہے لیکن جب عکرمہ سے روایت نقل کرتا ہے تو اس کو محدثین نے منکر قرار دیا ہے.
داود بن الحصين ثقة إلا في عكرمة. كما قال الحافظ في “التقريب”، ومستنده قول ابن المديني: ما رواه عن عكرمة فمنكر. وكذا قال أبوداود.
٢ .ابراہیم الأسلمی:
اس راوی کو بڑے محدثین نے جھوٹا قرار دیا ہے.
إبراهيم الأسلمي: كذاب، كما قال يحيى القطان وابن معين وابن المديني.
وروى أبوزرعة في “تاريخ دمشق” (34/1) بسند صحيح عن يحيى بن سعيد قال: لم يُترك إبراهيم بن أبي يحيى للقدر، وإنما للكذب. وقال ابن حبان (1/92): كان يرى القدر ويذهب إلى كلام جهم، ويكذب مع ذلك في الحديث.
٣ . ابوعبدالغنی الأزدی:
اس راوی پر بھی جھوٹی روایات نقل کرنے کا الزام ہے، بلکہ ابونعیم کہتے ہیں کہ یہ مالک سے جھوٹی روایات نقل کرتا ہے.
أبوعبدالغني الأزدي: متهم بالوضع، وفي ترجمته ساق ابن عساكر هذا الحديث، وقال فيها: “وكان ضعيفا”. ثم روى عن أبي نعيم أنه قال: حدث عن مالك أحاديث موضوعة. وكذا قال الحاكم، ثم تعقب ابن عساكر أبانعيم بقوله: “ولا أعلم روى عن مالك ولا أدركه”.
قلت (القائل هو الشيخ الألباني رحمه الله): وهو إنما يروي عن مالك بواسطة عبدالرزاق، وقد ساق له الدارقطني من هذا الوجه حديثا وقال: “باطل، وضعه أبوعبدالغني على عبدالرزاق” وكذا رواه ابن عساكر في ترجمته، لكن قد ساق له ابن حبان (1/235) حديثا آخر، صرح فيه بقوله: “حدثنا مالك” فهو من أكاذيبه عليه. وقال ابن حبان: يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه بحال… انتهى باختصار.
اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے.
● اس روایت کا صحیح حصہ:
وعَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ الله صلی اللہ علیه وسلم: “خیرکم خیرکم لأهله وأنا خيركم لأهلي”. رواه الترمذى
اس روایت کا یہ حصہ صحیح ہے بقیہ من گھڑت ہے.
٢ .دوسری روایت:
یہ بغیر زیادتی کے ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے.
ما أكرم النساء إلا كريم، ولا أهانهن إلا لئيم.
٣ . تیسری روایت:
بے شک عورت مرد کا حصہ ہے، اور ان کی عزت شریف شخص کرتا ہے اور کمینہ ان پر غالب آتا ہے.
إنما النساء شقائق الرجال، ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم.
یہ مکمل روایت بھی من گھڑت ہے. البتہ اس روایت کا پہلا حصہ ”إنما النساء شقائق الرجال“ درست ہے.
جزؤه الأول (انما النساء شقائق الرجال) جاء في أحاديث أسانيدها محتملة التحسين أو التصحيح.
فما رواه الإمام أحمد، وأبوداود، والترمذي من حديث عبدالله بن عمر، عَن أخيه عبيدالله، عَن القاسم، عَن عائشة، قالت: سئل رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلم.
٤. چوتھی روایت:
اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ”میں چاہتا ہوں کہ مغلوب کریم بنوں نہ کہ غالب کمینہ.
أكرموا النساء، فوالله ما أكرمهن إلا كريم، ولا أهانهن إلا لئيم، يغلبن كل كريم، ويغلبهن لئيم.
وأنا أحب أن أكون كريماً مغلوباً من أن أكون لئيماً غالباً.
یہ روایت بھی اسی من گھڑت روایت کا حصہ ہے.
اس مضمون کا ثبوت:
ابن ماجہ باب اقامہ الصلاہ والسنہ فیھا 948 اور مسند احمد 25984 پر اس قدر ثابت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ھن اغلب یہ عورتیں غالب ہیں (اس روایت پر اگرچہ کلام ہے)
اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف اس قول کی بعض حضرات نے نسبت کی ہے
خلاصہ کلام
یہ مضمون کہ کریم شوہر اپنی بیوی سے مغلوب ہو کر رہتا ہے اور کمینہ شوہر اس پر خود غالب رہتا ہے یہ بات کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) روایت سے ثابت نہیں بلکہ من گھڑت روایات سے ثابت ہے، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب. کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ تنبیہ نمبر166 (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/08/blog-post_5.html


اے معاذ! قسم اللہ کی! مجھے تم سے محبت ہے

اے 
معاذ! 
قسم اللہ کی! 
مجھے تم سے محبت ہے

اے معاذ! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا ”اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك.“
عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «يَا مُعَاذ، واللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثُمَّ أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ، لاَ تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَة تَقُول: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ».  
[صحيح.] - [رواه أبوداؤد والنسائي ومالك وأحمد.]
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! قسم اللہ کی! مجھے تم سے محبت ہے۔ اے معاذ! میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا: ”اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك“ اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہتر انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔  
[صحیح] - [اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
شرح: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اسلامی محبت کے مظاہر میں سے ایک نئے مظہر کی صورت گری کرتی ہے، جس کے دور رس نتائج خیر خواہی اور خیر کی طرف رہ نمائی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”إِنِّي لَأُحِبُّكَ“ (میں تجھ سے محبت کرتا ہوں)۔ آپ نے قسم بھی اٹھائی اور فرمایا: ”واللهِ، إِنِّي لَأُحِبُّكَ“ (اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں)۔ یہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھاکر کہا کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں۔ محب اپنے محبوب کے لیے وہی کچھ اٹھا کر رکھتا ہے، جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ آپ نے ان سے یہ بات اس لیے فرمائی؛ تاکہ وہ اس عمل پر کار بند ہونے کے لیے تیار ہو جائيں، جس کی انھیں نصیحت کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ یہ نصیحت ایک محب کی طرف سے محبوب کے لئے ہے۔ پھر ان سے فرمایا: ”اَ تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَة“ (کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا) یعنی فرض نماز کے بعد۔ ”اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك“ (اے اللہ !اپنے ذکر، شکر اور بہتر انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔) ہر نماز کے بعد یعنی سلام سے پہلے نماز کے آخر میں۔ جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دعاؤں کو سلام سے پہلے پڑھا کرتے تھے اور یہی درست ہے۔ نیز یہ طے شدہ بات ہے کہ ' دُبُرُ الصَلاَةِ' کی قید سے مقید ورد اگر دعا ہو، تو سلام سے پہلے اور اگر ذکر ہو تو سلام کے بعد ہوگا۔ اس قاعدہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد دلالت کرتا ہے، جسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تشہد کے بارے میں نقل کیا ہے۔ آپ نے (تشہد کا ذکر کرنے کے بعد) فرمایا: ”پھر جو دعا چاہے پڑھے یا جو دعا پسند ہو پڑھے یا جو دعا اچھی لگے پڑھے“۔ جب کہ ذکر کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ﴾ ”جب نماز پوری کر لو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے کرو“۔ پھر فرمایا: ”أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ“ (اپنے ذکر پر میری مدد فرما) یعنی ہر وہ بات اور چیز جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہو، وہ اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ہے۔یعنی نعمتوں کا شکر اور اللہ کی ناراضگی سے تحفظ۔ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی کتنی ہی نعمتیں ہیں اور کتنی ہی آفتوں سے وہ ان کی حفاظت کرتا ہے، لہذا اسے اللہ کا شکر ادا بجا لانا چاہئے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
-------
عنوان: "اللھم اعنا" اور "اللھم اعنی" الخ حدیث کی وضاحت
سوال: السلام عليكم، مفتی صاحب! اللھم اعنا علی ذکرک و شکرک و حسن عبادتک اس حدیث کی تصدیق فرمادیں، اس لیے کہ اس حدیث میں جو دعا ارشاد فرمائی ہے، اس کو تو آج تک ان الفاظ "اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك" میں سنتے آرہے ہیں۔
جواب: محترم! حدیث میں دونوں طرح کے الفاظ ملتے ہیں۔
اللَّهُمَّ أعِنَّا عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ. أخرجه أحمد، 13/ 360، برقم 7982. اَللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ۔ ابوداود، کتاب الصلوہ، باب فی الاستغفار
واضح رہے کہ "اَعِنَّا" عربی گرامر میں جمع متکلم کا صیغہ ہے، جس کا مطلب ہے، "ھماری مدد فرما"، اور "اَعِنِّی" واحد متکلم کا صیغہ ہے، جس کا مطلب ہے، "میری مدد فرما"۔
بعض اوقات آپ صلی الله عليه وسلم "اَعِنَّا" جمع کا صیغہ استعمال فرماتے تھے کہ "ہم سب کی مدد فرما"، اور بعض اوقات تعلیم کے لیے ''اَعِنِّی" واحد متکلم کا صیغہ استعمال فرماتے تھے کہ "میری مدد فرما"۔
بعض اوقات آپ صلی الله عليه وسلم "اَعِنَّا" جمع کا صیغہ استعمال فرماتے تھے کہ "ہم سب کی مدد فرما"، اور بعض اوقات تعلیم کے لئے ''اَعِنِّی" واحد متکلم کا صیغہ استعمال فرماتے تھے کہ "میری مدد فرما"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی (102100-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/08/blog-post.html