Sunday, May 8, 2011

مستورات میں کام کے بنیادی اصول

 

مرتبہ:سارہ الیاسی

ایک بیان میں حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری صاحبؒ نی بنگلے والی مسجد کی کارگذاری سناتے ہوئے فرمایا کہ بیرونِ ملک کی کچھ ذمہ دار ساتھی ایک بار حضرت جی رحمة اللہ علیہ (حضرت مولانا انعام الحق حسن صاحبؒ) سی ایک بات پوچھنے کے لئے یہاں دہلی آئے۔ حضرت جی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے وہ آرام کررہے تھے، تو ہم نے ان ذمہ داروں سے ملاقات کی۔ ان ذمہ داروں میں سے ایک نے ہم سے کہا کہ بھائی ہمارے ملک میں جو جماعتیں آتی ہیں تو کوئی جماعت بتاتی ہے کہ کام یوں کرو اور کوئی کہتا ہی کہ نہیں ایسے کرو۔ تو ہم سارے لوگ پریشان ہیں کہ کس کی بات مانیں اور کام کیسے کریں، ہر ایک بڑوں کا حوالہ دیتاہے، کوئی کہتا ہی کہ میں نے خود بڑی حضرت جی (مولانا الیاس صاحبؒ) سی یوں سنا ہے، کوئی کہتا ہی کہ میں نے بڑی حضرت جی ؒسی یوں سنا ہے، کوئی کہتا ہی کہ میں نے مولانا یوسف صاحبؒ کو یہ کہتے سنا ہے، کوئی کہتا ہے کہ مولانا یوسف صاحبؒ نے جس سی کہا میں نے اس سے سنا۔
اب ہم سارے پریشان ہیں کہ کیا کریں اور کس طرح کام کریں، کیونکہ ہر ایک بڑوں کا حوالہ دیتا ہے۔ ہم لوگ تو حضرت جی سے صرف یہی مشورہ کرنے کے لئے آئے ہیں کہ حضرت ہم لوگوں کو بتائیں کہ ایسے موقع پر ہم لوگ کیا کریں؟ کیونکہ ساری لوگ الگ الگ بات بتلاتے ہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ بھائی دیکھو ہماری سمجھ میں تو یوں آرہا ہے کہ بڑوں نے جو بات کہی اس کا مطلب وہ ہوگا جو اس وقت کا امیر بتائے، اس وقت کا امیر جو بتائے وہ اس بات کا مطلب ہمیں سمجھنا چاہئے۔
سنا آپ سب نے بھی (مجمع سے خطاب ہوکر کہا) کہ امیر الوقت جو بتائے اس پر سب کو جمنا چاہئے۔ اس پر مثال ہم نے انہیں ابوبکر صدیقؓ والی دی، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پردہ فرمانے پر چاروں طرف سے ہنگامی کھڑے ہوگئے، اب سب کی رائے یہی کہ حضرت اسامہؓکا لشکر ملک شام بھیجنی کی بجائے مدینہ منورہ میں ٹھہرایا جائے کیونکہ چاروں طرف سے حملے کی خبر ہے ، تو اس پر ابوبکرؓ نے سارے صحابہ کے ذہن کی اندر یہ بات ڈالی کہ یہ تین ہزاروں کی جماعت کیا کرے گی جب اللہ کی مدد ہی رک جائے۔ اللہ کی مدد آئے گی تب جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہو کہ ”اسامہ کی لشکر کو روانہ کرو“۔ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا۔ انفروا جیش اسامة یعنی اسامہ کی لشکر کو روانہ کرو۔ سنا تو یہ حضور پاک کی زبان سی سب صحابہ نے، ابوبکر صدیق نے بھی یہ سنا اور دیگر صحابہؓ نے بھی سنا، لیکن اوروں نے اس کا مطلب کیا سمجھا اور ابوبکر صدیق ؓنے اس کا مطلب کیا سمجھا۔ اوروں نے صرف اتنا سمجھا کہ اسامہؓ کی لشکر کو روانہ کرنے کی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے، اور امیر الوقت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہ ؓکے لشکر کے علاوہ پورے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو نکلنے کے لئے کہہ دیا کہ سب مدینہ خالی کرو۔
یہ ابوبکر صدیقؓ نے سمجھا، اس پر لوگوں نے لبیک کہہ کر مان لیا۔ تو ہم نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ اصول قیامت تک رہی گا کہ جو بات امیر الوقت کہہ دے وہ سب کو مان لینے میں ہی خیر ہے، اس کی اندر کسی قسم کا فرق نہیں کرنا چاہئے۔
    تو میں نے ان سی کہا کہ اتنی بات تو میری آپ سے ہوگئی، اب حضرت جی جب اٹھیں گی تب ان کی پاس چلیں گے۔ حضرت جی بیدار ہوئے، ان سب کو لے کر ہم حضرت جیؒ کے پاس حاضر ہوئے اور جو بات ہم نے ان لوگوں سی کہی تھی وہ بات ہم نے حضرت جی کی سامنے رکھ دی کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر لوگ الگ الگ بات بتائیں تو ہم کیا کریں؟ تو ہم نے ان سے یہ کہا کہ جو بات امیر الوقت کہے یا بتائے وہ ان کو کرنا چاہئے، تو حضرت جیؒ نے فرمایا! کہ ہاں یہ مناسب ہے۔ اس کی بعد پھر وہ لوگ اپنی ملک واپس چلے گئے۔ تو میرے محترم دوستو بزرگو! رائے الگ الگ ہونا کوئی حرج کی بات نہیں۔رائے الگ الگ ہو سکتی ہے لیکن امیرالوقت جو بات کہے بس اسی بات کو مان لینے میں خیر ہے۔  بیان کا ایک حصّہ

مستورات میں کام کی شروعات

 

 


خطوط
حضرت مولاناداود صاحب
مولوی داود اٹاڑوی کا خط........رائیونڈ حاجی بشیر احمد صاحب کے نام
مکرم بندہ جناب بھائی الحاج محمد بشیر احمدصاحب   السلام علیکم و رحمة اﷲ وبرکاتہامید ہی کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوں گے ۔ یہاں پر بھی خیریت ہی ہے ۔دو سال سے گھٹنوں میں ورم اور درد ہے۔اور اب دو ہفتے سے ناف کی نیچے رگ میں ایک گلٹی اٹھی ہے جس میں درد رہتا ہے ۔بولنے سی درد میں اضافہ ہوتا ہے۔دعاوں کی ضرورت ہی۔ اچھامستورات کی کام کی ابتداء۶۲،۸۲ءمیں بالکل نہیںہوئی۔بندہ ۰۴۹۱ءمیں مدرسے سے فارغ ہوا۔۱۴۹۱ءمیں غالباً میں نظام الدّینؒ میں حضرت مولانا شاہ محمد الیاسؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔بندہ مدرسہ سبحانیہ میں پڑھتا تھا۔حضرت مولانا عبد السبحان صاحبؒ اور آپ کی گھر والی‘ہم انھیں امّاں جی کہا کرتے تھے‘ بہت محبت کرتی تھیں۔امّاں جی دہلی میں مختلف جگہوں میں کتابیں سنایا کرتی تھیں۔بندہ ان کی کارگذاری حضرت مولانا شاہ محمد الیاس صاحبؒ کو سناتا تھا ‘ اور حضرت جیؒ کی ہدایات ان کو بتلایا کرتا تھا۔ایک دن امّاں جی نے کہا کہ حضرت جیؒ سے کہیوکہ حضرت مردوں کی جماعت بھیجتے ہیں تو عورتوں کی جماعت کیوں نہیں بھیجتے۔ میں نے حضرتؒ سے عرض کیا کہ امّاں جی یوں کہتی ہیں کہ حضرت عورتوں کی جماعت کیوں نہیںبھیجتے۔حضرتؒ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور بے شمار دعائیں دیں پھر مجھ سے کہا کہ تم ان تینوں سے مشورہ لو کہ مستورات کی جماعت بھیجنا چاہتا ہوں‘آپ کی کیا را ئے ہے۔ بندہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب مدظلہ العالی کی پاس گیا کہ حضرت مستورات کی جماعت بھیجنا چاہتے ہیں‘آپ کی کیا رائے ہے۔حضرت جی مدظلہ العالی کی الفاظ تو مجھے یاد نہیں مطلب یہ تھا کہ ابھی تو مردوں کا نکلنا ہی علماءکی سمجھ میں نہیں آرہا ہے عورتوں کا نکلنا کیسے مان لیں گے اس لئے میری رائے نہیں ہے۔یہی قاری داود صاحب مرحوم نے فرمایا ۔پھر حضرت مولانا شاہ محمد یوسفؒ کی خدمت میں گیا ۔آپ مسجد کی برابر اوپر کی مکتب میں رہا کرتے تھے۔جہاں آج کل حافظہ کا مکتب ہے۔جب میں نے رائے لی تو یوں فرمایا کہ میری تو رائے نہیں ہے۔بس جیسی ان تینوں نے رائی دی تھی میں نے ویسی ہی حضرت جیؒ سے عرض کردیا کہ فلاں نے یوں فلاں نے یوں فرمایا۔حضرت شاہ محمد یوسف صاحبؒ کی بات سن کر غصّہ فرمایا اور مجھے فرمایا کہ جو عورتیں جماعت میں جانے کی لئے تیار ہیں تو ان کو دہلی میں جاکر ایک گھر میں جمع کرکے بات شروع کردے اورمیں دیکھتا ہوں ان مسلمانوں کو کہ ان کی رائے کیوں نہیں ہے۔پہاڑگنج ملتانی ڈھانڈا میں ایک گھر میں جمع کرکی بات شروع کردی۔ظہرکی نماز کی بعد حضرتؒ مولوی نور محمد باجھوٹ کو لے کر پہاڑگنج پہنچ گئے اور مولوی نور محمد مرحوم نے بیان شروع کیا ۔دورانِ بیان مولوی صاحب نے فرمایا کہ دین سیکھنی کے لئے عورتوں کا بھی نکلنا ضروری ہے مگر عورتیں بغیر محرم نہیں جاسکتیں۔ بیان کی ختم کے بعد حضرت جیؒ نے مولوی نور محمد صاحب کو ڈانٹا کہ تجھے مفتی کس نے بنایا تھاجو تم نے بغیر محرم نکلنے کو منع کر دیا ۔یعنی پہلی جماعت ہے ابھی سے مسائل پر زور مت دو۔خالی نکلنی کی ترغیب دو ۔یہاں تو یہ ہوا اور جب بڑی حضرت جیؒنی مجھے دہلی بھیج دیا تو لکڑی یعنی اپنی بینت لی کر حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کے پاس گئے اور فرمایا کہ تو ہی مسلمان ہے میں مسلمان نہیں ہوں؟تو نے کیسے کہا کہ عورتوںکو تبلیغ میں نہیں جانا چاہئے۔یہ عورتیں کہاں نہیں جاتیں۔یہ شادیوں میں جاتی ہیں،دہلی کی عورتیںمہرولی جاتی ہیں،سیر کرنے کو اوکھلا جاتی ہیں،پھر تم نے کیسی کہا کہ میری رائے نہیں ہے ۔جب حضرت جیؒ محمدیوسفؒسی خفا ہوکر آئے تو مولانا محمد یوسفؒمیرے اوپر خفا ہوئے کہ داود نے ابّا جی کو کیا کہہ دیا ۔مغرب کے بعد حضرت مولانا محمدیوسفؒ نے دو لڑکے حوض پر بٹھا دئے کہ جب داود دہلی سی آئے تو میرے پاس پکڑ کر لاو۔ہم دہلی سے عشاءپڑھ کر آئے۔گرمیوں کے دن تھے۔یہ لڑ کے مجھے حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒکی پاس لے گئے۔حضرت نے فرمایا کہ ابّا جی میرے اوپر کبھی اتنا خفا نہیں ہوئے اور آج صرف اتنی کسر رہی کہ لکڑی سے مارا نہیں ورنہ زبان سی بہت کچھ کہا۔تو تقریباً آدھا اشکال تو مولانا یوسفؒ کا حضرت کی خفگی سی نکل گیا اور میوات کو بار بارجماعتیں جانی لگیںتو حضرت مفتی کفایت اﷲ صاحب مفتی اعظم ہند کو عورتوں کا نکلنا معلوم ہوا تو بہت خفا ہوئے کہ یہ مولانا محمد الیاس صاحب ؒنے کیا کِیا اور دوسرے حضرات کو جو خطرہ تھا وہ سامنے آگیا۔تو مفتی صاحب کے خفا ہونے کاکسی نے بڑے حضرتؒ کوآکر کہا تو بڑے حضرتؒ تانگہ لے کر مدرسہ امینیہ تشریف لے گئے اور حضرت مفتی اعظم کی سامنے عورتوں کے نکلنے کے فائدے بتلائے۔ساتھ ساتھ عورتوں کی نکلنے کا اہتمام پیش کیا کہ جب مستورات کی جماعت نکالی جاتی ہے تو ہر عورت کو محرم کی ساتھ نکالا جاتا ہے۔اوّل تو خاوند ہو یا بیٹا یا باپ ہو یا بھائی ہو‘اگر کوئی عورت بغیر محرم آگئی اور کہا کہ میرا محرم کل پرسوں آئے گا تو اس عورت کو واپس کر دیا جاتا ہے اورجہاں جماعت جارہی ہے ان کو پہلے مطلع کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ مکان طے کرکے خا لی کروالیں۔جس مکان میں عورتیں ٹھہرتی ہیں وہ اسی مکان میںرہتی ہیں۔گاوں والی جماعت کی پاس آتی ہیں۔گشت عورتوں کے محرم اور مقامی مرد مل کر کرتے ہیں۔یہ مرد،مردوں سی بات کرتے ہیںکہ اپنی مستورات کو فلاں صاحب کے گھر میں جماعت کی پاس بھیجو۔یہ جماعت کی عورتیں کہیں نہیں جاتیں۔پردے کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ توحضرت مفتی صاحب ؒ کو پورا اطمینان ہوگیاکہ اگر اتنااہتمام کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔پھر جو جماعت مستورات کی کام کرکے آتی تو حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کو کارگذاری دیتی۔ان تمام باتوں سے حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کا اشکال آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ۔سب سی پہلی جماعت گھاسیڑہ اور نوح کی قریب آس پاس میں آٹھ یوم لگا کر آئی۔ بندہ جماعت کے ساتھ تھا۔جب جماعت آٹھ یوم میں واپس ہوئی تو بڑی حضرت خفا ہوئے کہ اتنی جلدی کیوں آگئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت عورتیںزیادہ کپڑے لی کر نہیں گئی تھیں تو فرمایا کہ تونوح سی نئے کپڑے بنوا کر دیتا پیسے مجھ سی آکر لے لیتا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت مشورے والوں نے فرما یا تھاکہ یہ پہلی جماعت ہے ان کے جذبات کا خیال رکھنا اس لئے جلدی آگئے۔مشورہ کی بات سن کر حضرت بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔جب یہ جماعت مشورہ سے گھاسیڑہ وغیرہ طے ہوئی تو حضرت نے چودھریوں کی نام خط لکھا کہ میں تمھارے یہاں دہلی کی پردہ نشین مستورات بھیج رہا ہوں تم ان کی خوب نصرت کرنا وغیرہ وغیرہ۔گھاسیڑہ والوں کو جماعت کا انتظار تھا ۔ سڑک پر استقبال کی لئے آگئے۔ جب جماعت پہنچی تو گاوں والوں نے استقبال میں بندوقیں چلائیں اور پرُ زور استقبال کیا کہ مستورات کی پہلی جماعت ہمارے گاوں میں آئی ہے اور ہر گاوں میں ایسا ہی استقبال ہوا۔پھر تھوڑے تھوڑے وقفے سے کئی جماعتیں نکلیں۔بعدہ میوات سے مستورات کی جماعت کے مطالبے آنے لگی۔مستورات کا کام غالباً ۲۴۹۱ءمیں شروع ہوا ہے۔اس سے پہلے نہیں۔اس لئے کہ بندہ ۱۴۹۱ءمیں مرکز آیا تھا۔مرکز میں آنے کی بعد مستورات کا کام شروع ہوا ہے۔اگر حضرتؒ کے انتقال سے دس سال پہلے شروع ہوتا تو ہندوستان کے کئی شہروں میں مستورات کی بے شمار جماعتیں پہنچ جاتیں۔حضرتؒ کی حیات میں میوات کی علاوہ کہیں یہ جماعتیں نہیں گئیں۔ واﷲاعلم۔والسلام بندہ : مولوی داود ۰۱۔۳۔۳۱

No comments:

Post a Comment