Sunday, May 8, 2011

مستورات کے لئے چند ہدایات


مولانا سعد صاحب نے فرمایا کہ یہ کام امانت ہے اس کا م میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بحیثیت ذمہ دار کے فیصلہ کروں، ہم کو تمام امور میں یہ دیکھنا ہے کہ یہ کام ہم کو اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ، اس کام کے جو اصول ہیں جو قاعدے ہیں، اس کو سمجھیں اس کے تقاضوں کو دیکھیں۔ فرمایا: آپ لوگوں نے کام کو کام پر کیوں موقوف نہ کیا۔ ہماری اجازت پر کیوں موقوف کیا۔ اگر کسی بات کو ہماری اجازت پر موقوف کروگے تو کل اس میں اصرار ہوگا۔ اصرار اس لئے کہ اس نے کام کو بڑا نہ سمجھا۔ یہ اجازت کا دین بھی کمزور اور دعوت بھی کمزور۔
آج کل بہت ساری گنجائش مستورات کی جماعت کے متعلق چل رہی ہے۔ ایک چیز کی اجازت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ وجود میں نہ آئی ہو۔ جب وجود میں آگئی تو پھر اجازت کی گنجائش نہیں ہے۔ جیسے کہ دین جب وجود میں آگیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے کہا کہ اگریہ زکوة کی ایک رسی کا ٹکڑانہ دیں گے تو بھی میں قتال کروں گا۔ اجازت تو صرف یہاں سے جانے کی لی جائے۔ عورتوں کے متعلق شرائط نہ رکھو، ہم کو معلوم ہے کہ اجازت نہیں ملے گی۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ نظام الدین سے اجازت دیں تو کریں گے ورنہ نہ کریں گے۔ یہاں تو ان جماعتوں کو بھیجیں جو شرائط پوری کر رہی ہوں۔ اس لئے کہ ہر عورت کو وقت لگانا ضروری نہیں۔ مستورات کی جماعت میں بچوں کو ساتھ لے جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ نہ سہ روزہ میں، نہ چالیس روزہ میں، نہ دس دونوں میں۔ اگر جوان لڑکی ہے اس کے لئے تین روز سے زیادہ خروج جائز نہیں۔ وہ سہ روزہ بھی ماں کے ساتھ ہو۔
دوستو! عوروتوں کے نکلنے کا مقصد ان اعمال کو زندہ کرنا ہے۔ اگر شرائط ان کے اندر ہیں تو نکلیں ورنہ نہیں۔ اگر یہ سمجھے کہ نکلنا ہی ہے، تو پھر لچک پیدا ہوگی۔ پردہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر عورت منھ کھول کر جانا چاہئے تو اجازت نہ دیں۔ پردہ تو دین میں فرض ہے اور یہ کام سنتوں کے زندہ کرنے کا ہے۔ اورکام اب اس سطح پر ہے کہ اب اس (پردہ) کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ ہفتہ واری اجتماعی کے علاوہ عورتوں کا کوئی اجتماع نہ ہو۔ سال میں ایک دوبار چار ماہ چلے گئے ہوئے پرانے ساتھی عورتوں کو اصول بتانے کی غرض سے بات کریں۔ عورتوں کی تشکیل نہ ہو۔ اس کے مردوں کے ذریعہ سے ہو۔ دین بے دینی کے راستہ نہیں آئے گا۔ اگر بے دینی کے راستہ سے لایا گیا تو پھر تہمت ہوگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر تہمت کیوں لگی؟ اس لئے کہ وہ عائشہ تھیں اگر ساری عورتیں بے پردہ پھریں تو کچھ نہیں، اگر جماعت کی عورتیں بے پردہ ہوجائیں تو کہیں گے کہ یہ عورتیں جماعت کی ہیں۔ شرائط کوپورا کرنا یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے نزدیک کام سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں ہے۔ غیر شادی شدہ لڑکی صرف سہ روزہ میں جائے گی۔ وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ۔ اب دس پندرہ دن کی جماعت مرکز نہ آئے۔ کوئی تقاضہ ہو تو خط سے معلوم کر لیں۔ مستورات کی جماعت میں جتنے مرد ہوں، اتنی عورتیں بھی ہوں، کم زیادہ نہ ہوں۔ عشرہ لگانے والی جماعت کو اپنے علاقہ میں چلائیں۔ عشرہ کی مستورات کو زیادہ مسافت پر نہ بھیجا جائے۔ ہاں اگر چلے کی جماعت مرکز آئے تو ہم دور بھیجیں گے۔ یہ عورتیں وہاں کی نئی عورتوں کے ساتھ وقت لگاکر ان کے اندر کام کی ترغیب چھوڑ کر آئیں اور وہاں کے ذمہ دار ان کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ عشرہ میں نکلنے والی مستورات کم از کم تین، سہ روزہ لگائی ہوئی ہوں۔ بالکل نئی مستورات کو نہ نکالا جائے۔ اس لئے کہ عورتوں میں بڑی نزاکت ہے۔ یہ تو ستر ہے، حضرت ہاجرہؓ جب صفامروہ کے درمیان میں دوڑی تھیں تو مردوں کو مونڈھے ہلاکر چلنے کا حکم دیا، عورتوں کو نہیں، اس لئے کہ یہ پردہ ہے۔ عورتوں کو ہاجرہؓ کی سنت ادا کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ غیر شادی شدہ لڑکی ماں کے ساتھ بھی عشرہ میں نہیں جا سکتی ، چاہے پوری جماعت کی بنیاد اسی پر ہو۔ اور بچوں کو ساتھ لیجانے کی بالکل گنجائش نہیں چاہئے۔ اس کا جانا کتنا ہی ضروری ہو۔ جب بھی کسی کلیہ میں کوئی اجازت دے تو پھر وہ کلیہ ختم ہو جائے گا۔ عشرہ کی جماعت لے جانے والا محرم شادی شدہ ہو، چلہ لگایا ہوا ہو، باریش یعنی داڑھی ہو، اگر بڑی عمر کا ہو تو کوئی بات نہیں۔ مسجد وار جماعت کے ساتھی گھر میں جاکر بیٹھ کر بات نہ کرے اور ہفتہ میں ایک مرتبہ بات کرنا ہو، تب بھی شہر کے مشورہ سے طے کرے۔ مسجد وار نہ طے کرے۔ پرانا وقت لگایا ہوا ذمہ دار قسم کا آدمی بات کر ے۔ یہ بھی طے ہو کہ با ت کیا کرنا ہے۔ جو اس کام کے مقصد سے ہٹ کر بات کرے گا وہ اس کے لئے فتنہ کا سبب بنے گا۔ اب جہاں جا ی کر اچھی تقریر کر رہا ہے، وہاں پر مستورات ک طرف سے مطالبہ کے نام آرہے ہیں۔ امت میں اجتماعی اعمال سے ہی اعمال کرنے کا جذبہ آئے گا انفرادی سے نہیں۔ مستورات کے بیان میں قصے کہانیاں نہ سنائے، جس آدمی کو دیکھے کہ چھ نمبر سے ہٹ کر یا موٹے موٹے اعمال سے ہٹ کر بات کرے ان کی بات کرانی ہی نہیں چاہئے۔ مستورات کادس پندرہ دن کے لئے نکلنا سال میں ایک بار ہو۔ مرد کے مستورات کے ساتھ جو پندرہ دن لگ رہے ہیں وہ سالانہ چلے کے علاوہ ہوں۔ ہاں مستورات کے ساتھ سہ روزہ شمار کر سکتے ہیں جب کہ چھٹی وغیرہ کی گنجائش نہ ہو۔ جماعت میں چلہ کی نیت سے نکلنے والی مستورات کا محرم کے ساتھ عشرہ لگا ہوا ہو۔ کسی بھی شرط کے پورا نہ ہونے پر ہماری اجازت پر موقوف نہ رکھے یہاں نظام الدین میں بھیجنا چاہئے۔ جماعت بننے کے بعد یہ شرائط سنائے۔ اگر تمام شرائط پائی جائیں تبھی بھیجیں ورنہ نہیں۔ محرم کے تین چلے لگے ہوئے ہوں جو مستورات کے چلے کی جماعت لے کر چلے۔ ہاں اگر عورتوں کے ساتھ تین چلے تین سال لگے ہو ںتو بھی چل سکتے ہیں ۔ مستورات کے متعلق کچھ سوال کرنا ہو تو خط لکھ کر جواب ملنے کے بعد ہی جماعت بھیجیں۔  اگر تاخیر ہو تو دوبارہ خط لکھیں۔ ہو سکے تو فو کرلیں ، صبح کو خط آیا شام فون کیا ایسا نہ ہو دوچار دن کا فاصلہ ہو۔ اور ایک بات یہ ہے کہ مستورات کے اچھے خرچے کی جماعت بھیجیں۔ جماعت ہدایت لے کر جائے اور واپسی میں یہاں آکر کارگزاری سنا کر جائے ، جو پابندیاں عشرہ کی جماعت پر ہیں وہ چلے کی جماعت پر بھی ہیں۔ کبھی تقاضے پرتین ماہ سہ روزہ نہ گذرے ہوں واپسی خاتون ہے لیکن جماعت تیار ہے تو لے جانے کی اس کو گنجائش ہے۔ کبھی تقاضے پر ہمیشہ نہیں۔
اللہ کے راستے میں نکلی ہوئی مستورات کو ان باتوں کی بالکل اجازت نہیں کہ وہ خود ہی ترغیب دے، خود ہی تشکیل کرے، خودہی رخ دے، خود ہی نکلنے کی ترتیب بنائے اور روانگی کردے۔ بلکہ یہ صرف ترغیب دے کر مقامی مستورات کے ساتھ مل کر معاونت کرے گی۔ ذمہ دار حضرات ان باتوں کا اچھی طرح خیال رکھیں۔
نوٹ:۔ اوپر بتائی گئیں توجتنی شرائط ہیں تمام کے پورا ہونے ہی پر نظا م الدین بھیجیں ورنہ جماعت کو یہاں سے واپس کر دیا جائےگا۔
 

No comments:

Post a Comment