سوال # 10346
صلاة التوبہ کی نماز کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس میں کون سے سورتیں پڑھنا بہتر ہے اور توبہ کا طریقہ کیا ہے؟ صلاة الحاجة کی نماز میں کن سورتوں کی تلاوت کرنی بہتر ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ محرم میں کون سا ذکر کرنا افضل ہے؟
جواب # 10346
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 90=90/ د
تازہ وضو کرکے دو رکعت نماز توبہ کی نیت باندھے، پہلی رکعت میں بعد سورہٴ فاتحہ کے بہتر ہے کہ قل یا ایہا الکافرون اوردوسری رکعت میں بعد سورہٴ فاتحہ کے سورہٴ اخلاص پڑھے۔ اور سلام پھیرنے کے بعد اللہ سے رو کر گڑگڑاکر خوب معافی مانگے۔ گناہ کو یاد کرکے شرم و ندامت محسوس کرے۔ نفس کو ملامت کرے، پختہ عزم کرے کہ اب آئندہ گناہ نہ کرے گا۔ کسی کا حق واجب ہو تو اسے ادا کرے۔ کسی کی غیبت و بے آبروئی کی ہو تو اس سے سب کہا سنا معاف کرالے۔
(۲) صلات الحاجت میں کوئی سورت متعین نہیں ہے، پہلی رکعت میں دو رکعت نماز پڑھ کر بعد سلام پھیرنے کے درود شریف پڑھ کر اللہ کی حمد و ثنا کرے مثلاً سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات و ضروریات کے لیے دعا کرے۔
(۳) کوئی مخصوص ذکر منقول نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dua-Supplications/10346
........
سوال # 1305
درج ذیل نمازیں سنت ہیں یا نفل اور کیا قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ؟درج ذیل نمازوں کی تعداد رکعات کتنی ہے؟
(۱) صلاة التہجد
(۲) صلاة الاشراق
(۳) صلاة الضحی
(۴) صلاة الاوابین
(۵) صلاة الحاجة
(۶) صلاة تحیة المسجد
(۷) صلاة الوضوء
(۸) صلاة التوبہ
(۹) صلاة الجمعہ
(۱۰) صلاة العیدین
(۱۱) صلاة الجنازہ۔
جواب # 1305
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 387/د = 379/د)
(۱) تہجد کی نماز ابتداء فرض تھی جب کہ پنجوقتہ نمازیں فرض نہیں ہوئی تھیں مگر بعد میں اس کی فرضیت منسوخ کردی گئی، البتہ اس کا استحباب باقی ہے، یعنی یہ نماز مستحب ہے جس کی تعداد کم سے کم دو رکعت زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ہے، اس کا ثواب اور فضیلت بہت زیادہ ہے۔ (تہجد کی اولاً فرضیت اور بعد میں اس کا منسوخ ہونا دونوں سورہٴ مزمل میں مذکور ہیں)
(۲) صلاة الاشراق یعنی سورج کے نکلنے اور اونچا ہوجانے کے بعد دو رکعت یا چار رکعت نماز پڑھنا یہ بھی نفل ہے مگر اس کا ثواب بہت زیادہ ہے، حدیث میں ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر اسی مصلے پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور اونچا ہوجائے تو جو شخص دو رکعت یا چار رکعت پڑھے گا اسے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔
(۳) جب سورج خوب زیادہ اونچا ہوجائے اوردھوپ تیز ہوجائے تو اس وقت دو رکعت یا چار رکعت پڑھنا صلوة الضحی ہے جس کی فضیلت بھی حدیث سے ثابت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی کے وقت چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(۴) مغرب کے بعد چھ رکعت نماز پڑھنا اوابین ہے یہ بھی نفل ہے اس کا بھی بہت اجر و ثواب حدیث میں آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے مغرب کے بعد چھ رکعت نماز پڑھی وہ اوابین میں سے لکھ دیا جائے گا۔
(۵) صلاة الحاجة یہ نماز بھی نفل ہے جب انسان کو کوئی ضرورت پیش آئے تو عشاء کے بعد تازہ وضو کرکے دو یا چار رکعت نماز پڑھ کر اپنی ضرورت کی دعا کرے، حدیث میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔
(۶) جب آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز تحیة المسجد کی نیت سے پڑھنا ثواب کا باعث ہے، حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو اورجماعت کھڑی نہ ہو۔
(۷) وضو کرنے کے بعد بہتر ہے کہ پانی خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نماز نفل کی نیت سے پڑھنا تحیة الوضو کہلاتا ہے، اس کا بھی ثواب حدیث میں وارد ہوا ہے۔
نوٹ: وضو کرنے کے بعد یا مسجد میں داخل ہونے کے بعد خاص تحیة الوضو یا تحیة المسجد کی نیت سے نماز نہیں پڑھا تو بھی جو نماز پڑھے گا وہ تحیة الوضو اور تحیة المسجد کے قائم مقام ہوجائے گی۔
(۸) گناہوں سے توبہ کرنے کے لیے تازہ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے اور خوب رو رو کر گڑگڑا کے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے یہ نماز بھی حدیث سے ثابت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق - رضی اللہ عنہ- کو سکھلائی، انھوں نے حضرت علی -رضی اللہ عنہ- کو۔
(۹) جمعہ کی نماز جہاں اس کے شرائط پائے جاتے ہوں فرض ہے اس کی فرضیت قرآن سے ثابت ہے۔
(۱۰) عیدین کی نماز جہاں اس کے شرائط پائے جاتے ہوں واجب ہے۔
(۱۱) جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی کچھ لوگ ادا کرلیں گے تو سب سے فرضیت ساقط ہوجائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/1305
........
توبہ پر مزید تفصیل کے لئے رجوع کیجئے:
http://deeneefiza.blogspot.com/2016/06/blog-post_24.html?m=1
Monday, September 24, 2018
صلاة التوبہ؛ فضائل اور طريقہ
Sunday, September 23, 2018
عصر حاضر کے فیشنی برقعے
عصر حاضر کے فیشنی برقعے
از منگنی شادی کے متعلق پیش آنے مسائل کا حل
سوال: آج کل جو خواتین پردہ نشین ہوتی ہیں ان میں ایک فیشن چلی ہے پردی پہنتی ہیں، جس میں ناک، آنکھ، آدھا چہرہ کھلا رہتا ہے، اور برقعہ پر انواع و اقسام کے پھول ڈیزائن، دل والے نقش وغیرہ ہوتے ہیں۔ غرضیکہ جاذب نظر کپڑے اور ڈیزائن والے برقعے پہنتی ہیں ، بعض خواتین فیشن والی ڈبل پردی رکھتی ہیں، جب باہر نکلتی ہیں تب ناک، آنکھ نظر آئے ایسی پردی (نوز پیس)ٰ پہن لیتی ہیں ۔ غرضیکہ آج کل فیشن بہت ہی بڑھ گئی ہے، ہم نے سنا ہے کہ شرعا یہ برقعے صحیح نہیں ہیں، تو پردہ کیسا ہونا چاہئے؟ اور اسلام میں پردے کی کیا حیثیت ہے؟ آپ شرعی انداز میں مفصل و مدلل باحوالہ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
الجواب: عورت عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں چھپانے کی چیز۔ قدرت نے اس کی تخلیق ہی اس انداز سے کی ہے کہ اسے مکمل چھپانے کی چیز کہنا چاہیے؛ اسی لیے خالق کائنات نے سخت ضرورت کے بغیر اس کا گھر سے باہر نکلنا مناسب نہیں سمجھا؛ تاکہ یہ گوہر آبدار ناپاک نظروں کی ہوس سے گندا نہ ہو جائے ۔ الله تعالی کا حکم ہے:
{وقرن في بيوتكن} (الاحزاب، آیت ۳۲)
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں جم کر رہو، اور جاہلیت اولی کی طرح زیب وزینت کرکے نہ نکلو "جاہلبیت أولی" سے مراد اسلام سے پہلے کا دور ہے جب عورتیں بازاروں میں کھلے عام اپنی نسوانیت کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ جاہلیت اولی کا لفظ استعمال کر کے پیشین گوئی کی گئی کہ انسانیت پر جاہلیت کا ایک اور دور آنے والا ہے جب خواتین اپنی فطری خصوصیات و امتیازات کے تقاضوں کو ماڈرن جاہلیت پر بھینٹ چڑھائیں گی۔
قرآن ہی کی طرح نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بھی صنف نسواں کو مکمل چھپانے کی چیز بتائی ہے، بغیر ضرورت کے اس کا باہر نکلنا ناجائز قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:کہ عورت مکمل چھپانے کی چیز ہے؛ اس لیے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے۔ (مشکوۃ ص:۲۶۹)
اور اگر بوجہ ضرورت اسے باہر نکلنا ہی پڑے ، تو اسے حکم دیا گیا کہ ایسی بڑی چادر اوڑھ کر نکلے جس کے ذریعے اس کا پورا جسم سر سے لے کر پاؤں تک ڈھک جائے۔ سوره احزاب میں ہے:
{ياأيها النبي قل لأزواجك }الخ
ترجمہ: اے نبی! آپ اپنی بیویوں بیٹیوں اور مؤمنین کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ: وہ جب باہرنکلیں تب اپنے اوپر بڑی چادریں ڈال لیں۔ (آیت ۶۹)
مطلب یہ ہے کہ انھیں بڑی چادر لپیٹ کر باہر نکلنا چاہئے، اور چہرے پر چادر کا گھونگھٹ ڈالا ہوا ہو۔ بہر حال! حكم شرعی یہ ہے کہ حتی الامکان عورت گھر سے باہر نہ نکلے، اور اگر مجبوراً نکلنا ہی پڑے تو بڑی چادر میں اس طرح لپٹ کر نکلے کہ پہچانی نہ جاسکے، اور اس کے لباس کی زیب وزینت پر اجنبیوں کی نظر نہ پڑے۔
بڑی چادر اوڑھ کر نکلنے کی صورت میں اس چادر کو بار بار سنبھالنا مشکل تھا، ان کی تکمیل کے لئے شریف خاندانوں میں چادر کی جگہ برقعہ آیا۔ یہ مقصد ڈھیلے اور سادے برقعے کے ذریعے حاصل ہوتا تھا لیکن شیطان نے اس برقع کو فیشن اور شہوت کی بھٹی میں رنگ کر زینت ونمائش کا ذریعہ بنادیا۔ برقعہ کی ایجاد نسوانی زیبائش چھپانے کے لئے ہوئی تھی، اس میں ایسی ایسی تراش خراش، اور پرکشش ڈیزائین اور فیشن سمو دی گئیں کہ برقعہ خود زینت کا ایک جزو اور ذریعہ بن گیا۔
اب بہت سی خواتین برقعہ خود کو چھپانے کے لئے نہیں؛ بلکہ مزید خوبصورت اور جاذب لگنے کے لیے پہننے لگی ہیں، اس سے زیادہ برقعہ کا غلط استعال اور ناقدری کیا ہوگی ؟ فطرت کا مسخ ہونا یعنی انسانیت کا پلٹ کر اسفل سافلین میں پہنچ جانا اسی کا نام ہے۔ برقعہ کے ایک تاجر کے اشتہار کے یہ الفاظ پڑھیے:
ہمارے یہاں سعودی نقاب جھلبے دار نقاب، شیروانی نقاب، عبایہ نقاب، دوپٹے دار نقاب، گول رومال نقاب، سہ گوشہ نقاب اور رومال نقاب کے علاوہ فینسی نقاب کے دوپٹے، چادریں، ڈھاٹا اور رنگین اسکارف وغیرہ رعایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔
ابتداء میں جب سہولت کی خاطر چادر کی جگہ برقعہ ایجاد ہوا، تب انھیں خواب و خیال بھی نہ ہوگا کہ ماڈرن جاہلیت میں برقعہ کو اتنی نچلی سطح تک پہنچادیا جائے گا۔ بعض برقعے تو اتنے تنگ اور چست ہونے لگے ہیں کہ عورتوں کا پورا بدن اور اعضاء کی ہیئت تک صاف نظر آتی ہے۔
آپ نے سوال میں برقعہ کے اوپر پہنی جانے والی جس پردی کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں آنکھیں، ناک، آدھے رخسار کھلے رہتے ہیں، اس میں سوال یہ ہوتا ہے کہ، جالی دار برقعہ چھوڑ کر پردی والا برقعہ کیوں اپنایا گیا جب کہ جالی دار برقعہ میں پورا چہرہ اور منھ چھپنے کے ساتھ راستہ دیکھنے میں بھی کوئی دقت نہیں تھی؟ اس سوال کا جواب بھی صاف ہے کہ: جالی دار برقعہ میں وہ کشش نہیں جو پردی والے برقعہ میں ہے۔ اب تو برقعہ کی ڈیزائن اور تراش خراش میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ شریعت کیا چاہتی اور کہتی ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلم اور فیشن کیا سکھاتی ہے؟ لہذا جو خواتین برقعے پہن کر یہ سمجھتی ہوں کہ وہ قرآن و شریعت کے حکم پرعمل کررہی ہیں ، یہ محض نفس و شیطان کا فریب ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کفارومشرکین کے بعض وہ اعمال جو بہ ظاہر نیکی نظر آتے تھے، ان کے متعلق فرمایا ہے:
{قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا}
ترجمہ : آپ (ان سے) کہیے کہ: کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بالکل خسارے میں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں کری کروائی محنت (جو اعمال حسنہ میں کی تھی) سب گئی گزری ہوئی، اور وہ(بوجہ جہالت کے) اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں۔ (معارف القرآن ۶۴۵/۵)
حضرت مفتی شفیع صاحب اس کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
اس جگہ پہلی دو آیتیں اپنےمفہوم عام کے اعتبار سے ہر اس فرد یا جماعت کو شامل ہے جو کچھ اعمال کو نیک سمجھ کر اس میں جدوجہد اور محنت کرتے ہیں؛ مگر اللہ کے نزدیک ان کی محنت برباد اور عمل ضائع ہے۔ (۶۴۶/۵)
اور اب تو کئی دنوں سے آپ کی مذکورہ در سوال پردی میں ایک ترقی یہ ہوئی ہے کہ، پورا برقعہ کالے رنگ کا ہوتا ہے اور پردی سفید رنگ کی ہوتی ہے؛تاکہ کسی کی توجہ نہ جاتی ہو تب بھی یہ منظر دیکھنے کے لیے وہ کھنچے۔ الله تعالی ہماری مسلمان بہن بیٹیوں کو عقل سلیم دے کہ، وہ ہوس خوروں کی ان مکاریوں اور حیلوں کو پہچان کر اپنی عصمت و عزت اور شرم و حیاء بچالیں ۔ آمین ۔ دشمنانِ اسلام ایک طویل عرصے تک حجاب، پردہ اور برقعہ کے خلاف تحریک چلاتے رہے، اس کے باوجود جو مسلمان خواتین اس سے متاثر نہ ہوئیں اور خود کو بے حجاب نہ کیا، ایسی خواتین کے لئے اب ان دشمنوں نے یہ نیا حیلہ تیار کیا، جس میں برقعہ اتار پھینکے بغیر ہی ان کا مقصد حاصل ہو جائے، اور حکمِ الہی پرظاہری عمل کے ساتھ اس کا خون ہوتا رہے۔ اس موقع پر فراستِ ایمانی، غیرت وحمیت سے کام لے کر ان مکاریوں پر سے پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم.
الجواب :صحیح عباس داود بسم اللہ
نائب مفتی جامعہ ڈابھیل
کتبہ: العبد احمد عفی عنہ خانپوری
صدر مفتی جامعہ ڈابھیل
Friday, September 21, 2018
لڑکیوں کا شلوار کو ٹخنے سے اوپر پہننا یا کھلے پائنچوں والا پاجامہ پہننا
لڑکیوں کا شلوار کو ٹخنے سے اوپر پہننا یا کھلے پائنچوں والا پاجامہ پہننا
آج کل ایک نیا فیشن چل پڑا ہے اسکول اور کالج جانے والی لڑکیوں میں اکثر دیکھا جارہا ہے وہ ہے شلوار کو ٹخنے سے اوپر پہننا!
والدین اس کی طرف ذرا سنجیدگی سے متوجہ ہوں ایک تو یہ خلاف سُنّت ہے جس کا عذاب بڑا ہی ہولناک ہے دوسرے سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ عورتوں کے لئے کتنے خطرے کی بات ہے
عورتیں اگر کھلے پائنچوں والی شلوار یا ٹخنوں کے اوپر شلوار لٹکائيں گی تو ان کے اندر نسوانی ہرمونز کی کمی یا زیادتی ہوجائے گی- اس کی وجہ سے وہ اندرونی ورم (Viginal Inflammation)، کمر کا درد (backache)، اعصابی کمزوری اور کھچاؤ کا مستقل شکار رہیں گی-
طاہر صاحب فرمانے لگے، جب میں نے یہ کیفیت خانہ دار عورتوں میں دیکھی تو واقعی جنہوں نے سنت سے اعراض کیا ہوا تھا، ان کی حالت بالکل ویسی ہی تھی-"
اذان یا اقامت کے وقت (مرحبا بالقائلین عدلا) کہنا
اذان یا اقامت کے وقت (مرحبا بالقائلین عدلا) کہنا
اس سلسلہ میں روایات دو طرح کی ہیں:
ایک مرفوع روایت ہے ، جس میں ان الفاظ کے پڑھنے کا ثواب بھی مذکور ہے۔
دوسری روایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرموقوف، جو ان کےاپنے عمل وکلمات ہونے پر دال ہے۔
اولا: مرفوع روایت:
مرفوع روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، جو آل بیت کی سند سے بواسطہ حضرت جعفر صادق مروی ہے، اور وہ روایت کرتے ہیں ان کے والدسے ، وہ ان کے دادا سے، کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
(من سمع المنادي بالصلاة فقال: مرحبًا بالقائلين عدلًا ، مرحبًا بالصلاة وأهلًا؛ كتب اللهُ له ألفي ألف حسنة ، ومحا عنه ألفي ألف سيئة ، ورفع له ألفي ألف درجة).
ترجمہ: جس نے مؤذن کی ندا کے وقت یہ الفاظ کہے: خوش آمدید انصاف کا بول بولنے والوں کے لئے ، خوش آمدید نماز کی آمد پر، اس کے لئے اللہ تعالی بیس لاکھ نیکیاں لکھتے ہیں، اور اس سے بیس لاکھ گناہ مٹاتے ہیں، اور اس کے لئے بیس لاکھ مرتبے بلند فرماتے ہیں۔
تخریجہا: الزيادات على الموضوعات (1/ 402) ، تاريخ بغداد (13/ 39)۔
مرفوع روایت کا حال: روایت موضوع اور بے اصل ہے، اس کی دو اسانید ہیں، اور دونوں غیر معتبر ہیں، ایک میں ہمام بن مسلم ہے، جس پر متون گھڑنے کا اور ترکیبِ اسانید کا الزام لگایا گیا ہے، اور دوسری سند میں موسی بن ابراہیم مروزی ہے جو متروک اور متہم بالکذب ہے ۔
حافظ ابن حجر [لسان الميزان 8/344] میں لکھتے ہیں: مُحمد والد جعفر لم يدرك عَلِيًّا، والمتن باطل، وإنما يُروى ذلك عن عثمان من فعله، وليس فيه ذكرُ الثواب المذكور۔ یعنی سند میں انقطاع ہے، اور متن حدیث من گھڑت ہے، ہاں یہ الفاظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے عمل کے طور پر منقول ہیں ، مگر ان میں یہ ثواب مذکور نہیں ہے ۔
اسی لئے اس مرفوع روایت کو سیوطی [الزيادات على الموضوعات 1/ 402] ملا علی قاری [الأسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ ص: 346] محمد بن طاہر پٹنی [ تذکرۃ الموضوعات ص ۳۵] شوکانی [الفوائد المجموعہ ص: 20] وغیرہ نے موضوع اور بے اصل قرار دیا ہے ۔
ثانیا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت:
مُتـــونهــــــا:
كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا۔ [ابن عکیم/حنيف المؤذن]
وفي رواية عنه : أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا ۔[ابن عکیم]
وفي رواية عنه: كَانَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا ، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا، ثُمَّ يَنْهَضُ إِلَى الصَّلَاةِ۔[قتادة]
وفي رواية عنه : كَانَ إِذَا جَاءَهُ مَنْ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا»۔[قتادة/مروان بن الحكم]
أسانيدها :
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل بتانے والی روایت ، ان سے چار واسطوں سے منقول ہے :
۱۔ عبد اللہ بن عکیم کی روایت :
تخریجہا : الدعاء للطبرانی (ص: 159) ، مسند احمد بن منیع ( المطالب العاليہ بزوائد المسانيد الثمانيہ 3/ 102) ۔
حال الروایہ :ضعیفہ
اس کی سند میں تین علتیں ہیں : (۱) نضر بن اسماعیل اور (۲) عبد الرحمن بن اسحاق واسطی دونوں ضعیف ہیں ، (۳) واسطی کا شیخ عبد اللہ قرشی مجہول ہے ۔ [ انظر المطالب العاليہ محققا (3/ 102) ] ۔
۲۔ قتادہ بن دعامہ کی روایت :
تخریجہا : مصنف ابن أبی شيبہ (1/ 206) باب : ما یقول الرجل اذا سمع المؤذن ، مصنف ابن أبی شيبہ (6/ 97)باب : ما یدعو بہ الرجل اذا قامت الصلاۃ ، المعجم الكبير للطبراني (1/ 87) ، الدعاء للطبراني (ص: 159)۔
حال الروایہ : ضعیفہ للانقطاع
قتادہ کی سند ٹھیک ہے خصوصا ابن ابی شیبہ والی ، لیکن قتادہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ، اس لئے سند میں انقطاع ہے ۔
۳۔ حنیف المؤذن کی روایت :
تخریجہا : الدعاء للطبراني (ص: 159)
حال الروایہ : ضعیفہ للجہالہ
سند میں حنیف بن رستم مؤذن کا حال معلوم نہیں ، ابن معین نے ہلکی جرح کی ہے ، اور ذہبی اور ابن حجر نے مجہول قرار دیا ہے ۔[ الجرح والتعدیل (3/ 318) ؛ الميزان (1/ 621) ؛ تقريب التہذیب ]
۴۔ مروان بن الحکم کی روایت :
تخریجہا : تاريخ المدينة لابن شبة (3/ 961)
حال الروایہ : سند واقدی کے واسطے سے ہے ، اور واقدی مجروح ہے ۔
الخلاصہ :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت کی اسانید ضعف وانقطاع سے خالی نہیں ہیں ، لیکن مجموع الطرق سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک طرح کا ثبوت ضرور ملتاہے۔اور دعا کے الفاظ تو تقریبا تمام روایتوں میں یکساں ہیں (مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا)البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ کلمات کونسے موقع پر ارشاد فرماتے تھے، اس میں نقل کرنے والےمضطرب ہیں، اوپر روایتوں میں چار مواقع مذکور ہیں :
۱۔ اذان کی آواز سنتے وقت۔
۲۔ مؤذن کے (حی علی الصلوہ) کہتے وقت۔
۳۔ اقامت میں (قد قامت الصلوہ) کے وقت۔
۴۔نماز کے لئے بلانے والے کے آنے کے وقت۔
ممکن ہے کہ متعدد مواقع پر کہتے ہوں ، واللہ اعلم،ابن ابی شیبہ نے (مصنف)میں یہ اثر اذان اور اقامت دونوں کے ابواب میں ذکر کیا ہے۔اور امام طبرانی نے (الدعاء) میں باب الاذان کے تحت ذکر کیا ہے۔
میرا گمان یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ کلمات دعا کے طور پر نہیں ، بلکہ نماز کے ساتھ اپنے غیر معمولی تعلق شوق ولگاؤ، اور اطاعت میں بے پناہ رغبت ،اورنماز کی آمد پر اپنی خوشی کو ظاہر کرنے کے لئے ارشاد فرماتے تھے ، گویا یہ از قبیل ارشاد نبوی (ارحنا بہا یا بلال)کے ہے ۔نیز اس طرح کے کلمات جو اطاعت وفرمانبرداری، رضا وتسلیم کے اظہار کے لئے ہوں ، ان کے کہنے کا جواز بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
1- عن أبي أمامة الباهلي، أو عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أنَّ بلالاً أخذ في الإقامة، فلما قال: قد قامت الصلاة، قال النبيّ صلى الله عليه وسلم: " أقامَها اللَّهُ وأدَامَها " رواه أبو داود رقم (528) وإسناده ضعيف.
2- عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ : ( أَشْهَدُ بِهَا مَعَ كُلِّ شَاهِدٍ وَأَتَحَمَّلُهَا عَنْ كُلِّ جَاحِدٍ ). المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية (3/ 105)وإسناده ضعيف.
3- ونحوه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ : ( وَأَنَا أَشْهَدُ بِهَا مَعَ كُلِّ شَاهِدٍ وَأَتَحَمَّلُهَا عَنْ كُلِّ جَاحِدٍ ). الدعاء للطبراني (ص: 160)ضعيف الإسناد.
4- وعَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: «الْمُسْتَعَانُ بِاللَّهِ»، فَإِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» . ابن ابي شيبة (29774)
یہ شواہد سندا اگرچہ ضعیف ہیں ، لیکن مدعیٰ کے ثبوت کے لئے شواہد بن سکتے ہیں ، کیونکہ ان سے کوئی خاص دعائیہ کلمات ثابت کرنا مقصود نہیں ہے ، بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ اذان واقامت کے وقت اس طرح کے کلمات کہنے کی گنجائش ہے ،ہاں اس میں غلو کرنا اور ان کو مسنون دعاء سمجھ کر پڑھنااور دوسروں کو سکھانا، یہ درست نہیں ہے،بلکہ نہ پڑھنا زیادہ اولی ہے سدا للباب،ہذا ما اراہ ۔واللہ اعلم
جمعہ وحررہ العبد المقصرالمذنب
محمد طلحہ بلال احمد منیار
http://hadithqa.blogspot.com/2018/03/blog-post_19.html?m=0
Sunday, September 16, 2018
مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کی خونی تصاویر اور ویڈیوز نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟
مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کی خونی تصاویر اور ویڈیوز نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے فوائد و نقصانات کیا ہیں؟
سوال: مسلمانوں کی ایسی خونی تصاویر شائع اور نشر کرنے کا کا کیا حکم ہے جن ميں ان کے کٹے پھٹے اعضاء اور قتل و خونریزی کے آثار نظر آتے ہیں جیسا کہ فلسطین اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کا حال ہے؟ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ ان لاشوں کا اور ان کے گھر والوں کا احترام کرتے ہوئے انهیں صرف اس حالت میں نشر کیا جائے جب کہ وہ کفن سے ڈھکے چھپے ہوئے
جواب:
الحمد لله
پہلی بات: اس ميں كوئى شک نہیں کہ لوگوں کے اذہان و قلوب پر میڈیا کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور واقعی ایسا ہوا ہے کہ بہت سارے واقعات و حالات کو جب تصویر و آواز کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تو ملکوں اور قوموں کی زندگی بدل گئی.
پرانے زمانے ميں لوگوں کے نزدیک تصویر کی ایک خاص اہمیت تھی اگرچہ ان کی تصویر کشی ابھی اپنے ابتدائی مرحلے ميں تھی تاہم انهوں نے تصویر کی عظیم تاثیر کو ان لفظوں ميں بیان کیا ہے چنانچہ چینی کہاوت ہے: ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے، اگر آج کل کے چینی لوگ اسے کہنا چاہیں تو ان الفاظ میں کہیں گے : ایک تصویر لاکھوں الفاظ کے برابر ہوتی ہے، اسی طرح ارسطو کی طرف منسوب یہ قول نقل کیا جاتا ہے: تصویر کے بغیر کسی چیز کا تصور محال ہے.
اس لئے اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ذہن و دماغ پر تصویر دیکھنے کا اثر پڑھنے اور سننے سے زيادہ ہوتا ہے بلکہ بعض تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ لوگ جو سنتے ہیں اس میں سے 10% یاد رکھتے ہیں اور جو پڑھتے اس ميں سے 30% صرف یاد رکھتے ہیں جب کہ جو دیکھتے ہیں یا خود کرتے ہیں اس ميں سے 80% تک یاد رکھتے ہیں.
چونکہ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جو بقول بعض تصویر کا دور ہے اور یہ زمانہ میڈیا اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے اس مسئلے کی تحقیق ضروری ہے کہ ایسے مقتول و زخمی اور مصیبت زدہ لوگوں کی تصاویر نشر کرنا کیسا ہے اسی طرح جن کے گهروں پر ظالمانہ حملہ ہو رہا ہو یا جو سخت بهکمری کے شکار ہیں یا دیگر بڑی بڑی مصیبتوں سے دوچار ہیں ایسے لوگوں کی تصاویر دنیا کو حقیقت دکھانے کے لئے میڈیا میں نشر کرنے کا کا کیا حکم ہے؟
👈دوسری بات:
ایسے مصیبت زدہ اور مقتول و زخمی لوگوں کی تصاویر اور ویڈیو کو نشر کرنے ميں كوئى حرج نہيں مگر اس کے کچھ آداب و شروط ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے جیسے:
1- عورتوں کی تصاویر بالکل نشر نہ کریں
کیونکہ عورت سراپا پرده ہے اس لئے زخمی یا مقتول یا بھوکی عورت کی تصویر شیئر کرنے کی کوئی ضرورت نہيں بلکہ اس مقصد کے لئے مرد اور بچوں کی تصاویر کافی ہیں.
2- شرمگاہوں کو تصویر سے مٹانا اور ختم کرنا ضروری ہے
بہت سارے لوگ نشر کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے جبکہ اس کی رعایت کرنی چاہیے کیونکہ ایک مسلمان کے شرمگاہ کی پرده پوشی واجب ہے اگر وه زخمی ہونے یا مرجانے کی وجہ سے اپنی پرده پوشی کرنے سے معذور ہے تو اس کی تصویر نشر کرنے والے کے پاس ایسا کوئی عذر نہیں.
3- عصمت دری اور جنسی زیادتی کی تصویر نہ شیئر کریں خواہ وہ مرد کی ہو یا عورت کی کیونکہ یہ پرده پوشی کے حکم کے خلاف ہے، انٹرنیٹ پر ایسے بہت سے بے گناہوں کی تصویریں پھیلی ہوئی ہیں جو ظالم و سرکش مجرمین کی زیادتی کے شکار ہوئے ہیں لہذا ایسی تصاویر دیکھنا قطعا ممنوع ہے ارشاد باری تعالٰی ہے:
(قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ * وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ) النور/30-31
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے۔
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں.
4- لاشوں کے کٹے ہوئے سر اور بکھرے پڑے اعضاء کو نشر نہ کریں تاکہ ایک مسلمان کی بےحرمتی نہ ہو اور اس طرح کی تصاویر اور دلخراش مناظر دیکھ کر لوگوں کے اندر یاس و ناامیدی اور خوف و ہراس کی فضا نہ پیدا ہو.
اس بات کی دلیل غزوہ احد کا وه واقعہ ہے کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو انهیں دیکھنے سے منع فرمادیا.
عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ أَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ تَسْعَى حَتَّى إِذَا كَادَتْ أَنْ تُشْرِفَ عَلَى الْقَتْلَى.
قَالَ : فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرَاهُمْ، فَقَالَ: (الْمَرْأَةَ الْمَرْأَةَ).
قَالَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَتَوَسَّمْتُ أَنَّهَا أُمِّي صَفِيَّةُ ، فَخَرَجْتُ أَسْعَى إِلَيْهَا فَأَدْرَكْتُهَا قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَى الْقَتْلَى. رواه أحمد (1418) وصححه الألباني.
چنانچہ عروه رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے میرے والد نے بتایا کہ جنگ احد کے موقع پر جب ایک عورت دوڑتی ہوئی آئی اور شہداء کی لاشوں کے قریب پہنچنے والی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : عورت کو روکو عورت کو روکو.
زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پہچان لیا کہ وه عورت میری ماں تهیں تو میں نے دوڑ کر انهیں لاشوں کے قریب پہچنے سے روک دیا.
اس لئے اس قسم کی ویڈیو شیئر کرتے وقت یہ تنبیہ ضرور کر دینا چاہئے کہ اسے بچے اور عورتیں نہ دیکهیں.
5- اس طرح کی ویڈیو میں گانے باجے کی آمیزش نہ ہو گانے باجے کی حرمت کے متعلق فتوی نمبر (5000) ملاحظہ فرمائیے.
6- دشمن کی طاقت و قوت کے اظہار میں مبالغہ آرائی سے گریز کریں تاکہ مسلمانوں کے اندر ناامیدی، دشمن کے مقابلے سے کمزوری اور عجز و درماندگی کا احساس نہ پیدا ہو.
7- حقیقت اور سچائی پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز کو نشر کیجئے کیونکہ بعض لوگ ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کے نام پر جهوٹی اور بناوٹی چیزیں شیئر کرتے ہیں جو کہ شرعا ناجائز اور حرام ہے.
8- مساجد سے ایسی تصاویر دور رکهیں، مساجد اللہ کا گھر ہیں، ان میں ایسی تصاویر کی نمائش مناسب نہیں جیسا کہ بہت ساری مسجدیں نمائش گاہ بن چکی ہیں. ہاں، عام مقامات پر، رفاہی ادارے اور دعوتی مراکز ميں اس كى نمائش کرنے ميں کوئی حرج نہیں.
9- اگر تصویر ایسی ہو جس میں لاش کا مثلہ کیا گیا ہو تو اس کے احترام کے پیش نظر اس کے چہرے کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے تاکہ اس کی پہچان نہ ہوسکے.
👈تیسری بات:
ایسی تصاویر اور ویڈیوز نشر کرنے کے فوائد :
بلا شبہ میڈیا آج کے دور کا ایک اہم ہتهیار ہے جس سے معرکے سر کئے جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جنگل راج کے دور میں جی رہے ہیں جہاں طاقتور کمزور کو کھائے جا رہاہے اور جو عاجز و کمزور ہو اس کی اس دنیا میں کوئی قیمت نہیں. چنانچہ دیکھئے مسلم ممالک پر ہر طرح کے اسلحے سے اور ہر طرف سے بم و بارود کی بارش ہو رہی ہے ایسی صورتحال میں اگر یہ تصاویر اور ویڈیوز نہ ہوں تو ان ممالک ميں کیا ہو رہا ہے، اور مسلمان کس صورتحال سے دوچار ہیں اس کا پتہ لگانا بہت مشکل امر ہے.
اور جب مسلمان وہاں کی صورتحال سے ناواقف ہوں گے تو وه اپنے بهائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
درج ذيل سطور میں تصویر کے چند فوائد کا ذکر کیا جارہا ہے:
1- مظلوم مسلمانوں کی حمایت و نصرت کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنا اور جنگ بندی یا ظلم و تشدد کو روکنے کے لئے دباؤ ڈالنا، اور اس كا ایک طریقہ یہی ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی تصویریں بڑے پیمانے پر پھیلائی جائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ ان مقبوضہ ممالک اور وہاں کے باشندگان کے ساتھ کیسے کیسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ان ظالموں اور قاتلوں کو قتل و خونریزی مچانے سے روکا جاسکے.
اسی طرح مظلوموں کی تصویریں شیئر کرنے سے خود ان کے ممالک ميں رائے عامہ پر بڑا اثر پڑے گا.
اس کے جہاں دوسرے بڑے فائدے ہیں وہیں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام پر قدغن لگائی جا سکتی ہے اور ان کے ملکوں کو تباہی و بربادی سے بچایا جاسکتا ہے. جب اس مصلحت اور فائدے کے حصول کے لئے بسا اوقات بعض حرام امور کے ارتکاب اور کچھ واجبات کے ترک کی اجازت دی گئی ہے تو اس مقصد کے لئے تصویریں نشر کرنا بدرجہ اولی جائز ہے کیونکہ تصویر کا مسئلہ خود مختلف فیہ ہے.
2- تصوير مجرم کے جرم کو ثابت کرنے کا ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے دنیا کے سامنے جرم کی سچی تصویر پیش کی جا سکتی ہے.
آج کا عالمی مغربی میڈیا خبیث یہودیوں کے ساتھ ہے، اگر مجاہدین یہودیوں پر ایک راکٹ مار دیں تو اس کے نتیجے میں ہونے والے بعض نقصانات کو مغربی میڈیا لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اسے ایسے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ دنیا کو لگے کہ یہود ایک مظلوم و بے بس قوم ہے.
اس دوہرے معیار کا مقابلہ کرنے کے لئے میڈیا سے بہتر کوئی ہتهیار نہیں جس کی بدولت حقیقت کو دنیا کے سامنے بلا کم و کاست پیش کیا جا سکتا ہے اور مجرمین کو عدالت میں لے جا کر انهیں ان کے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے جیسا کہ بالفعل صربیا کے ظالموں کے ساتھ ہوا ، ان پر لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لئے تصویروں کا بڑا اہم رول رہا جو بعد میں آنے والے ہر ظالم و جابر کے لئے نشان عبرت ہے.
ہمارے جلیل القدر علمائے کرام نے چوری اور ظلم و زیادتی کے معاملات میں ملزموں کی تصاویر نشر کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ہزاروں لاکھوں مسلمان کے قاتلوں کا معاملہ ہے.
3- تصوير دشمن کے دجالی میڈیا کے جهوٹ کو بے نقاب کرنے کا وسیلہ ہے جو دجالی میڈیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو چھپاتا اور اپنی جهوٹی آزادی رائے اور انسانیت سے ہمدردی کا دعوی کرتا ہے.
اسی طرح یہ تصاویر بہت سارے واقعات و حالات میں ان باطل ادیان و مذاہب کے ارباب اختیار کو بے نقاب کرتی ہیں جن کے افکار و نظریات ظلم و تشدد پر ابھارتے ہیں.
اس کے اور دیگر فائدے بھی ہیں جیسے جیلوں کی نگرانی، قیدیوں پر تشدد کرنے والے افسران و ملازمین کی برخاستگی، قیدیوں کے لئے بہتر انتظامات کی ضمانت وغيرہ. ان مقاصد و فوائد سے آگاہی رکھنے والے کو بخوبی معلوم ہوگا کہ شریعت اسلامی ان مقاصد کی خواہاں ہے اور انهیں حاصل کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے اگرچہ اس کے لئے بعض نقصانات برداشت کرنا پڑے، بالخصوص جب ایسے مسئلے کے متعلق ہو جو فی نفسہ مختلف فیہ ہے.
4- صدقات و عطیات جمع کرنا، یتیموں کی کفالت اور بیواؤں کی نگہداشت کرنا.
مظلوم مسلمانوں کی امداد پر لوگوں کو ابھارنے کے لئے تصویریں کافی موثر ثابت ہوتی ہیں، چنانچہ بھوکے پیاسے بچوں کی تصاویر دیکھ کر جو صدقات و عطیات جمع ہوسکتے ہیں وہ سینکڑوں خطبات و تقاریر سے ممکن نہیں ، اسی طرح زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے اور ان کے علاج کی سہولت کے لئے بھی یہ طریقہ بہت کارآمد ہے. سچ مچ اگر ہم اس ہتهیار یعنی میڈیا کا صحیح استعمال کریں تو اس سے بہت سارے فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور جیسا کہ اوپر ہم نے بیان کیا کہ ذہن و دماغ پر تصویر دیکھنے کا اثر پڑھنے اور سننے سے زيادہ ہوتا ہے.
5- مسلمانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جہاد پر ابھارنا.
تصویروں کی تاثیر دیکھنی ہو تو دیکھئے فلسطینی بچوں کی ملبے تلے دبی ہوئی تصویریں نیز فلسطینیوں پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت کی تصویریں کس قدر موثر ثابت ہوئیں، اور فلسطینی بچے محمد الدرة کی تصویر کو کون بھول سکتا ہے جب وه اپنے والد کی گود ميں تھا اور اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی گولیاں اس بچے کے نازک جسم کو چیرتی ہوئی آرپار ہوگئیں.
ایسے دلخراش مناظر دیکھ کر مجاہدین کی رگوں ميں جہاد کا خون گردش کرنے لگتا ہے اور وہ جہاں بھی ہوں اپنے بهائیوں کی مدد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، اس بات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج لوگوں میں اپنے بھائی کی نصرت و مدد اور جہاد کا جذبہ نہیں رہا، وه دنیا کی متاع بے لذت میں مصروف ہو کر ره گئے ہیں، آرام و آسائش پسند ہو گئے ہیں، انهیں صرف اپنی حفاظت و سلامتی کی فکر دامن گیر رہتی ہے، ایسی صورتحال میں جب یہ تصاویر اور ویڈیوز ان تک پہنچتی ہیں تو ان کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہیں اور اپنے دین کی سربلندی کے لئے اٹھ کھڑے ہونے اور کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں.
👈چوتھی بات:
تصویر کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی ہیں اس لئے اسے نشر کرتے وقت عقل و حکمت کا استعمال بھی ضروری ہے انهیں نقصانات میں سے:
1- ایسی تصاویر کو بکثرت دیکھنے اور شیئر کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے اسی لئے آپ دیکھتے ہوں گے کہ لوگ کھا پی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ قتل و خونریزی کے دلخراش تصاویر اور بھیانک مناظر بھی دیکھ رہے ہیں.
اس کا علاج یہ ہے کہ تعداد اور کیفیت کے اعتدال کے ساتھ یہ چیزیں شیئر کی جائیں نیز وقت کا خیال کیا جائے اور مناسب مقدار میں نشر کی جائیں.
2- لوگ تصویر کے عادی ہوجاتے ہیں پھر بغیر تصویر کے کوئی چیز ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتی.
کچھ لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ جب تک وه تصویر نہ دیکھ لیں الفاظ کا اثر ان پر نہیں ہوتا.
اس کا علاج یہ ہے ان واقعات کو بیان کرنے والا اس انداز میں بیان کرے کہ سننے والے کو ایسا محسوس ہو کہ گویا وه ان مناظر کو اپنی آنکهوں سے دیکھ رہا ہو.
شریعت میں اس کی دلیل موجود ہے:
عن ابنِ عُمَرَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْيُ عَيْنٍ ، فَلْيَقْرَأْ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قیامت کے دن کو جو شخص اپنی آنکهوں سے دیکھنا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ «إذا الشمس كورت» اور «إذا السماء انفطرت»، «وإذا السماء انشقت» کو پڑھے.
( رواه الترمذي ( 3333 ) وصححه الألباني في "صحيح الترمذي")
3- بسا اوقات یہ تصاویر مسلمانوں کے لئے بہت بڑے نقصان کا سبب بن جاتی ہیں، مثال کے طور پر عراقی شہر فلوجہ میں جب چار امریکیوں کی لاشوں کا مثلہ کر کے ان کی تصاویر نشر کی گئی تو اس کے نتیجے میں وہاں کے مسلمانوں کو ظالمانہ ناکہ بندی اور سخت مظالم کا شکار ہونا پڑا. اس لئے عقل و حکمت کا تقاضا ہے ایسی تصاویر شیئر کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ اس سے مسلمانوں کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا ، اس کے لئے عقل و بصیرت کی ضرورت ہے کیونکہ اہل بصیرت ہی اس کا اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں.
اس کے علاوہ اور بھی نقصانات ہوسکتے ہیں مگر فائدے زیادہ اور نقصان بہت کم ہے جیسا کہ سطور بالا میں اس کا بیان گزرچکا ہے.