مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کی خونی تصاویر اور ویڈیوز نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے فوائد و نقصانات کیا ہیں؟
سوال: مسلمانوں کی ایسی خونی تصاویر شائع اور نشر کرنے کا کا کیا حکم ہے جن ميں ان کے کٹے پھٹے اعضاء اور قتل و خونریزی کے آثار نظر آتے ہیں جیسا کہ فلسطین اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کا حال ہے؟ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ ان لاشوں کا اور ان کے گھر والوں کا احترام کرتے ہوئے انهیں صرف اس حالت میں نشر کیا جائے جب کہ وہ کفن سے ڈھکے چھپے ہوئے
جواب:
الحمد لله
پہلی بات: اس ميں كوئى شک نہیں کہ لوگوں کے اذہان و قلوب پر میڈیا کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور واقعی ایسا ہوا ہے کہ بہت سارے واقعات و حالات کو جب تصویر و آواز کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تو ملکوں اور قوموں کی زندگی بدل گئی.
پرانے زمانے ميں لوگوں کے نزدیک تصویر کی ایک خاص اہمیت تھی اگرچہ ان کی تصویر کشی ابھی اپنے ابتدائی مرحلے ميں تھی تاہم انهوں نے تصویر کی عظیم تاثیر کو ان لفظوں ميں بیان کیا ہے چنانچہ چینی کہاوت ہے: ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے، اگر آج کل کے چینی لوگ اسے کہنا چاہیں تو ان الفاظ میں کہیں گے : ایک تصویر لاکھوں الفاظ کے برابر ہوتی ہے، اسی طرح ارسطو کی طرف منسوب یہ قول نقل کیا جاتا ہے: تصویر کے بغیر کسی چیز کا تصور محال ہے.
اس لئے اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ذہن و دماغ پر تصویر دیکھنے کا اثر پڑھنے اور سننے سے زيادہ ہوتا ہے بلکہ بعض تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ لوگ جو سنتے ہیں اس میں سے 10% یاد رکھتے ہیں اور جو پڑھتے اس ميں سے 30% صرف یاد رکھتے ہیں جب کہ جو دیکھتے ہیں یا خود کرتے ہیں اس ميں سے 80% تک یاد رکھتے ہیں.
چونکہ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جو بقول بعض تصویر کا دور ہے اور یہ زمانہ میڈیا اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے اس مسئلے کی تحقیق ضروری ہے کہ ایسے مقتول و زخمی اور مصیبت زدہ لوگوں کی تصاویر نشر کرنا کیسا ہے اسی طرح جن کے گهروں پر ظالمانہ حملہ ہو رہا ہو یا جو سخت بهکمری کے شکار ہیں یا دیگر بڑی بڑی مصیبتوں سے دوچار ہیں ایسے لوگوں کی تصاویر دنیا کو حقیقت دکھانے کے لئے میڈیا میں نشر کرنے کا کا کیا حکم ہے؟
👈دوسری بات:
ایسے مصیبت زدہ اور مقتول و زخمی لوگوں کی تصاویر اور ویڈیو کو نشر کرنے ميں كوئى حرج نہيں مگر اس کے کچھ آداب و شروط ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے جیسے:
1- عورتوں کی تصاویر بالکل نشر نہ کریں
کیونکہ عورت سراپا پرده ہے اس لئے زخمی یا مقتول یا بھوکی عورت کی تصویر شیئر کرنے کی کوئی ضرورت نہيں بلکہ اس مقصد کے لئے مرد اور بچوں کی تصاویر کافی ہیں.
2- شرمگاہوں کو تصویر سے مٹانا اور ختم کرنا ضروری ہے
بہت سارے لوگ نشر کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے جبکہ اس کی رعایت کرنی چاہیے کیونکہ ایک مسلمان کے شرمگاہ کی پرده پوشی واجب ہے اگر وه زخمی ہونے یا مرجانے کی وجہ سے اپنی پرده پوشی کرنے سے معذور ہے تو اس کی تصویر نشر کرنے والے کے پاس ایسا کوئی عذر نہیں.
3- عصمت دری اور جنسی زیادتی کی تصویر نہ شیئر کریں خواہ وہ مرد کی ہو یا عورت کی کیونکہ یہ پرده پوشی کے حکم کے خلاف ہے، انٹرنیٹ پر ایسے بہت سے بے گناہوں کی تصویریں پھیلی ہوئی ہیں جو ظالم و سرکش مجرمین کی زیادتی کے شکار ہوئے ہیں لہذا ایسی تصاویر دیکھنا قطعا ممنوع ہے ارشاد باری تعالٰی ہے:
(قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ * وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ) النور/30-31
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے۔
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں.
4- لاشوں کے کٹے ہوئے سر اور بکھرے پڑے اعضاء کو نشر نہ کریں تاکہ ایک مسلمان کی بےحرمتی نہ ہو اور اس طرح کی تصاویر اور دلخراش مناظر دیکھ کر لوگوں کے اندر یاس و ناامیدی اور خوف و ہراس کی فضا نہ پیدا ہو.
اس بات کی دلیل غزوہ احد کا وه واقعہ ہے کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو انهیں دیکھنے سے منع فرمادیا.
عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ أَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ تَسْعَى حَتَّى إِذَا كَادَتْ أَنْ تُشْرِفَ عَلَى الْقَتْلَى.
قَالَ : فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرَاهُمْ، فَقَالَ: (الْمَرْأَةَ الْمَرْأَةَ).
قَالَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : فَتَوَسَّمْتُ أَنَّهَا أُمِّي صَفِيَّةُ ، فَخَرَجْتُ أَسْعَى إِلَيْهَا فَأَدْرَكْتُهَا قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَى الْقَتْلَى. رواه أحمد (1418) وصححه الألباني.
چنانچہ عروه رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے میرے والد نے بتایا کہ جنگ احد کے موقع پر جب ایک عورت دوڑتی ہوئی آئی اور شہداء کی لاشوں کے قریب پہنچنے والی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : عورت کو روکو عورت کو روکو.
زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پہچان لیا کہ وه عورت میری ماں تهیں تو میں نے دوڑ کر انهیں لاشوں کے قریب پہچنے سے روک دیا.
اس لئے اس قسم کی ویڈیو شیئر کرتے وقت یہ تنبیہ ضرور کر دینا چاہئے کہ اسے بچے اور عورتیں نہ دیکهیں.
5- اس طرح کی ویڈیو میں گانے باجے کی آمیزش نہ ہو گانے باجے کی حرمت کے متعلق فتوی نمبر (5000) ملاحظہ فرمائیے.
6- دشمن کی طاقت و قوت کے اظہار میں مبالغہ آرائی سے گریز کریں تاکہ مسلمانوں کے اندر ناامیدی، دشمن کے مقابلے سے کمزوری اور عجز و درماندگی کا احساس نہ پیدا ہو.
7- حقیقت اور سچائی پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز کو نشر کیجئے کیونکہ بعض لوگ ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کے نام پر جهوٹی اور بناوٹی چیزیں شیئر کرتے ہیں جو کہ شرعا ناجائز اور حرام ہے.
8- مساجد سے ایسی تصاویر دور رکهیں، مساجد اللہ کا گھر ہیں، ان میں ایسی تصاویر کی نمائش مناسب نہیں جیسا کہ بہت ساری مسجدیں نمائش گاہ بن چکی ہیں. ہاں، عام مقامات پر، رفاہی ادارے اور دعوتی مراکز ميں اس كى نمائش کرنے ميں کوئی حرج نہیں.
9- اگر تصویر ایسی ہو جس میں لاش کا مثلہ کیا گیا ہو تو اس کے احترام کے پیش نظر اس کے چہرے کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے تاکہ اس کی پہچان نہ ہوسکے.
👈تیسری بات:
ایسی تصاویر اور ویڈیوز نشر کرنے کے فوائد :
بلا شبہ میڈیا آج کے دور کا ایک اہم ہتهیار ہے جس سے معرکے سر کئے جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جنگل راج کے دور میں جی رہے ہیں جہاں طاقتور کمزور کو کھائے جا رہاہے اور جو عاجز و کمزور ہو اس کی اس دنیا میں کوئی قیمت نہیں. چنانچہ دیکھئے مسلم ممالک پر ہر طرح کے اسلحے سے اور ہر طرف سے بم و بارود کی بارش ہو رہی ہے ایسی صورتحال میں اگر یہ تصاویر اور ویڈیوز نہ ہوں تو ان ممالک ميں کیا ہو رہا ہے، اور مسلمان کس صورتحال سے دوچار ہیں اس کا پتہ لگانا بہت مشکل امر ہے.
اور جب مسلمان وہاں کی صورتحال سے ناواقف ہوں گے تو وه اپنے بهائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
درج ذيل سطور میں تصویر کے چند فوائد کا ذکر کیا جارہا ہے:
1- مظلوم مسلمانوں کی حمایت و نصرت کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنا اور جنگ بندی یا ظلم و تشدد کو روکنے کے لئے دباؤ ڈالنا، اور اس كا ایک طریقہ یہی ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی تصویریں بڑے پیمانے پر پھیلائی جائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ ان مقبوضہ ممالک اور وہاں کے باشندگان کے ساتھ کیسے کیسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ان ظالموں اور قاتلوں کو قتل و خونریزی مچانے سے روکا جاسکے.
اسی طرح مظلوموں کی تصویریں شیئر کرنے سے خود ان کے ممالک ميں رائے عامہ پر بڑا اثر پڑے گا.
اس کے جہاں دوسرے بڑے فائدے ہیں وہیں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام پر قدغن لگائی جا سکتی ہے اور ان کے ملکوں کو تباہی و بربادی سے بچایا جاسکتا ہے. جب اس مصلحت اور فائدے کے حصول کے لئے بسا اوقات بعض حرام امور کے ارتکاب اور کچھ واجبات کے ترک کی اجازت دی گئی ہے تو اس مقصد کے لئے تصویریں نشر کرنا بدرجہ اولی جائز ہے کیونکہ تصویر کا مسئلہ خود مختلف فیہ ہے.
2- تصوير مجرم کے جرم کو ثابت کرنے کا ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے دنیا کے سامنے جرم کی سچی تصویر پیش کی جا سکتی ہے.
آج کا عالمی مغربی میڈیا خبیث یہودیوں کے ساتھ ہے، اگر مجاہدین یہودیوں پر ایک راکٹ مار دیں تو اس کے نتیجے میں ہونے والے بعض نقصانات کو مغربی میڈیا لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اسے ایسے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ دنیا کو لگے کہ یہود ایک مظلوم و بے بس قوم ہے.
اس دوہرے معیار کا مقابلہ کرنے کے لئے میڈیا سے بہتر کوئی ہتهیار نہیں جس کی بدولت حقیقت کو دنیا کے سامنے بلا کم و کاست پیش کیا جا سکتا ہے اور مجرمین کو عدالت میں لے جا کر انهیں ان کے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے جیسا کہ بالفعل صربیا کے ظالموں کے ساتھ ہوا ، ان پر لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لئے تصویروں کا بڑا اہم رول رہا جو بعد میں آنے والے ہر ظالم و جابر کے لئے نشان عبرت ہے.
ہمارے جلیل القدر علمائے کرام نے چوری اور ظلم و زیادتی کے معاملات میں ملزموں کی تصاویر نشر کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ہزاروں لاکھوں مسلمان کے قاتلوں کا معاملہ ہے.
3- تصوير دشمن کے دجالی میڈیا کے جهوٹ کو بے نقاب کرنے کا وسیلہ ہے جو دجالی میڈیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو چھپاتا اور اپنی جهوٹی آزادی رائے اور انسانیت سے ہمدردی کا دعوی کرتا ہے.
اسی طرح یہ تصاویر بہت سارے واقعات و حالات میں ان باطل ادیان و مذاہب کے ارباب اختیار کو بے نقاب کرتی ہیں جن کے افکار و نظریات ظلم و تشدد پر ابھارتے ہیں.
اس کے اور دیگر فائدے بھی ہیں جیسے جیلوں کی نگرانی، قیدیوں پر تشدد کرنے والے افسران و ملازمین کی برخاستگی، قیدیوں کے لئے بہتر انتظامات کی ضمانت وغيرہ. ان مقاصد و فوائد سے آگاہی رکھنے والے کو بخوبی معلوم ہوگا کہ شریعت اسلامی ان مقاصد کی خواہاں ہے اور انهیں حاصل کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے اگرچہ اس کے لئے بعض نقصانات برداشت کرنا پڑے، بالخصوص جب ایسے مسئلے کے متعلق ہو جو فی نفسہ مختلف فیہ ہے.
4- صدقات و عطیات جمع کرنا، یتیموں کی کفالت اور بیواؤں کی نگہداشت کرنا.
مظلوم مسلمانوں کی امداد پر لوگوں کو ابھارنے کے لئے تصویریں کافی موثر ثابت ہوتی ہیں، چنانچہ بھوکے پیاسے بچوں کی تصاویر دیکھ کر جو صدقات و عطیات جمع ہوسکتے ہیں وہ سینکڑوں خطبات و تقاریر سے ممکن نہیں ، اسی طرح زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے اور ان کے علاج کی سہولت کے لئے بھی یہ طریقہ بہت کارآمد ہے. سچ مچ اگر ہم اس ہتهیار یعنی میڈیا کا صحیح استعمال کریں تو اس سے بہت سارے فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور جیسا کہ اوپر ہم نے بیان کیا کہ ذہن و دماغ پر تصویر دیکھنے کا اثر پڑھنے اور سننے سے زيادہ ہوتا ہے.
5- مسلمانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جہاد پر ابھارنا.
تصویروں کی تاثیر دیکھنی ہو تو دیکھئے فلسطینی بچوں کی ملبے تلے دبی ہوئی تصویریں نیز فلسطینیوں پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت کی تصویریں کس قدر موثر ثابت ہوئیں، اور فلسطینی بچے محمد الدرة کی تصویر کو کون بھول سکتا ہے جب وه اپنے والد کی گود ميں تھا اور اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی گولیاں اس بچے کے نازک جسم کو چیرتی ہوئی آرپار ہوگئیں.
ایسے دلخراش مناظر دیکھ کر مجاہدین کی رگوں ميں جہاد کا خون گردش کرنے لگتا ہے اور وہ جہاں بھی ہوں اپنے بهائیوں کی مدد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، اس بات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج لوگوں میں اپنے بھائی کی نصرت و مدد اور جہاد کا جذبہ نہیں رہا، وه دنیا کی متاع بے لذت میں مصروف ہو کر ره گئے ہیں، آرام و آسائش پسند ہو گئے ہیں، انهیں صرف اپنی حفاظت و سلامتی کی فکر دامن گیر رہتی ہے، ایسی صورتحال میں جب یہ تصاویر اور ویڈیوز ان تک پہنچتی ہیں تو ان کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہیں اور اپنے دین کی سربلندی کے لئے اٹھ کھڑے ہونے اور کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں.
👈چوتھی بات:
تصویر کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی ہیں اس لئے اسے نشر کرتے وقت عقل و حکمت کا استعمال بھی ضروری ہے انهیں نقصانات میں سے:
1- ایسی تصاویر کو بکثرت دیکھنے اور شیئر کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے اسی لئے آپ دیکھتے ہوں گے کہ لوگ کھا پی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ قتل و خونریزی کے دلخراش تصاویر اور بھیانک مناظر بھی دیکھ رہے ہیں.
اس کا علاج یہ ہے کہ تعداد اور کیفیت کے اعتدال کے ساتھ یہ چیزیں شیئر کی جائیں نیز وقت کا خیال کیا جائے اور مناسب مقدار میں نشر کی جائیں.
2- لوگ تصویر کے عادی ہوجاتے ہیں پھر بغیر تصویر کے کوئی چیز ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتی.
کچھ لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ جب تک وه تصویر نہ دیکھ لیں الفاظ کا اثر ان پر نہیں ہوتا.
اس کا علاج یہ ہے ان واقعات کو بیان کرنے والا اس انداز میں بیان کرے کہ سننے والے کو ایسا محسوس ہو کہ گویا وه ان مناظر کو اپنی آنکهوں سے دیکھ رہا ہو.
شریعت میں اس کی دلیل موجود ہے:
عن ابنِ عُمَرَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْيُ عَيْنٍ ، فَلْيَقْرَأْ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ)
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قیامت کے دن کو جو شخص اپنی آنکهوں سے دیکھنا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ «إذا الشمس كورت» اور «إذا السماء انفطرت»، «وإذا السماء انشقت» کو پڑھے.
( رواه الترمذي ( 3333 ) وصححه الألباني في "صحيح الترمذي")
3- بسا اوقات یہ تصاویر مسلمانوں کے لئے بہت بڑے نقصان کا سبب بن جاتی ہیں، مثال کے طور پر عراقی شہر فلوجہ میں جب چار امریکیوں کی لاشوں کا مثلہ کر کے ان کی تصاویر نشر کی گئی تو اس کے نتیجے میں وہاں کے مسلمانوں کو ظالمانہ ناکہ بندی اور سخت مظالم کا شکار ہونا پڑا. اس لئے عقل و حکمت کا تقاضا ہے ایسی تصاویر شیئر کرتے وقت یہ دیکھا جائے کہ اس سے مسلمانوں کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا ، اس کے لئے عقل و بصیرت کی ضرورت ہے کیونکہ اہل بصیرت ہی اس کا اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں.
اس کے علاوہ اور بھی نقصانات ہوسکتے ہیں مگر فائدے زیادہ اور نقصان بہت کم ہے جیسا کہ سطور بالا میں اس کا بیان گزرچکا ہے.
No comments:
Post a Comment