Sunday, September 23, 2018

عصر حاضر کے فیشنی برقعے

عصر حاضر کے فیشنی برقعے
از منگنی شادی کے متعلق پیش آنے مسائل کا حل

سوال: آج کل جو خواتین پردہ نشین ہوتی ہیں ان میں ایک فیشن چلی ہے پردی پہنتی ہیں، جس میں ناک، آنکھ، آدھا چہرہ کھلا رہتا ہے، اور برقعہ پر انواع و اقسام کے پھول ڈیزائن، دل والے نقش وغیرہ ہوتے ہیں۔ غرضیکہ جاذب نظر کپڑے اور ڈیزائن والے برقعے پہنتی ہیں ، بعض خواتین فیشن والی ڈبل پردی رکھتی ہیں، جب باہر نکلتی ہیں تب ناک، آنکھ نظر آئے ایسی پردی (نوز پیس)ٰ پہن لیتی ہیں ۔ غرضیکہ آج کل فیشن بہت ہی بڑھ گئی ہے، ہم نے سنا ہے کہ شرعا یہ برقعے صحیح نہیں ہیں، تو پردہ کیسا ہونا چاہئے؟ اور اسلام میں پردے کی کیا حیثیت ہے؟ آپ شرعی انداز میں مفصل و مدلل باحوالہ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
الجواب: عورت عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں چھپانے کی چیز۔ قدرت نے اس کی تخلیق ہی اس انداز سے کی ہے کہ اسے مکمل چھپانے کی چیز کہنا چاہیے؛ اسی لیے خالق کائنات نے سخت ضرورت کے بغیر اس کا گھر سے باہر نکلنا مناسب نہیں سمجھا؛ تاکہ یہ گوہر آبدار ناپاک نظروں کی ہوس سے گندا نہ ہو جائے ۔ الله تعالی کا حکم ہے:
{وقرن في بيوتكن} (الاحزاب، آیت ۳۲)
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں جم کر رہو، اور جاہلیت اولی کی طرح زیب وزینت کرکے نہ نکلو "جاہلبیت أولی" سے مراد اسلام سے پہلے کا دور ہے جب عورتیں بازاروں میں کھلے عام اپنی نسوانیت کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ جاہلیت اولی کا لفظ استعمال کر کے پیشین گوئی کی گئی کہ انسانیت پر جاہلیت کا ایک اور دور آنے والا ہے جب خواتین اپنی فطری خصوصیات و امتیازات کے تقاضوں کو ماڈرن جاہلیت پر بھینٹ چڑھائیں گی۔
قرآن ہی کی طرح نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بھی صنف نسواں کو مکمل چھپانے کی چیز بتائی ہے، بغیر ضرورت کے اس کا باہر نکلنا ناجائز قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:کہ عورت مکمل چھپانے کی چیز ہے؛ اس لیے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے۔ (مشکوۃ ص:۲۶۹)
اور اگر بوجہ ضرورت اسے باہر نکلنا ہی پڑے ، تو اسے حکم دیا گیا کہ ایسی بڑی چادر اوڑھ کر نکلے جس کے ذریعے اس کا پورا جسم سر سے لے کر پاؤں تک ڈھک جائے۔ سوره احزاب میں ہے:
{ياأيها النبي قل لأزواجك }الخ
ترجمہ: اے نبی! آپ اپنی بیویوں بیٹیوں اور مؤمنین کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ: وہ جب باہرنکلیں تب اپنے اوپر بڑی چادریں  ڈال لیں۔ (آیت ۶۹)
مطلب یہ ہے کہ انھیں بڑی چادر لپیٹ کر باہر نکلنا چاہئے، اور چہرے پر چادر کا گھونگھٹ ڈالا ہوا ہو۔ بہر حال! حكم شرعی یہ ہے کہ حتی الامکان عورت گھر سے باہر نہ نکلے، اور اگر مجبوراً نکلنا ہی پڑے تو بڑی چادر میں اس طرح لپٹ کر نکلے کہ پہچانی نہ جاسکے، اور اس کے لباس کی زیب وزینت پر اجنبیوں کی نظر نہ پڑے۔
بڑی چادر اوڑھ کر نکلنے کی صورت میں اس چادر کو بار بار سنبھالنا مشکل تھا، ان کی تکمیل کے لئے شریف خاندانوں میں چادر کی جگہ برقعہ آیا۔ یہ مقصد ڈھیلے اور سادے برقعے کے ذریعے حاصل ہوتا تھا لیکن شیطان نے اس برقع کو فیشن اور شہوت کی بھٹی میں رنگ کر زینت ونمائش کا ذریعہ بنادیا۔ برقعہ کی ایجاد نسوانی زیبائش چھپانے کے لئے ہوئی تھی، اس میں ایسی ایسی تراش خراش، اور پرکشش ڈیزائین اور فیشن سمو دی گئیں کہ برقعہ خود زینت کا ایک جزو اور ذریعہ بن گیا۔
اب بہت سی خواتین برقعہ خود کو چھپانے کے لئے نہیں؛ بلکہ مزید خوبصورت اور جاذب لگنے کے لیے پہننے لگی ہیں، اس سے زیادہ برقعہ کا غلط استعال اور ناقدری کیا ہوگی ؟ فطرت کا مسخ ہونا یعنی انسانیت کا پلٹ کر اسفل سافلین میں پہنچ جانا اسی کا نام ہے۔ برقعہ کے ایک تاجر کے اشتہار کے یہ الفاظ پڑھیے:
ہمارے یہاں سعودی نقاب جھلبے دار نقاب، شیروانی نقاب، عبایہ نقاب، دوپٹے دار نقاب، گول رومال نقاب، سہ گوشہ نقاب اور رومال نقاب کے علاوہ فینسی نقاب کے دوپٹے، چادریں، ڈھاٹا اور رنگین اسکارف وغیرہ رعایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔
ابتداء میں جب سہولت کی خاطر چادر کی جگہ برقعہ ایجاد ہوا، تب انھیں خواب و خیال بھی نہ ہوگا کہ ماڈرن جاہلیت میں برقعہ کو اتنی نچلی سطح تک پہنچادیا جائے گا۔ بعض برقعے تو اتنے تنگ اور چست ہونے لگے ہیں کہ عورتوں کا پورا بدن اور اعضاء کی ہیئت تک صاف نظر آتی ہے۔
آپ نے سوال میں برقعہ کے اوپر پہنی جانے والی جس پردی کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں آنکھیں، ناک، آدھے رخسار کھلے رہتے ہیں، اس میں سوال یہ ہوتا ہے کہ، جالی دار برقعہ چھوڑ کر پردی والا برقعہ کیوں اپنایا گیا جب کہ جالی دار برقعہ میں پورا چہرہ اور منھ چھپنے کے ساتھ راستہ دیکھنے میں بھی کوئی دقت نہیں تھی؟ اس سوال کا جواب بھی صاف ہے کہ: جالی دار برقعہ میں وہ کشش نہیں جو پردی والے برقعہ میں ہے۔ اب تو برقعہ کی ڈیزائن اور تراش خراش میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ شریعت کیا چاہتی اور کہتی ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلم اور فیشن کیا سکھاتی ہے؟ لہذا جو خواتین برقعے پہن کر یہ سمجھتی ہوں کہ وہ قرآن و شریعت کے حکم پرعمل کررہی ہیں ، یہ محض نفس و شیطان کا فریب ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کفارومشرکین کے بعض وہ اعمال جو بہ ظاہر نیکی نظر آتے تھے، ان کے متعلق فرمایا ہے:
{قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا}
ترجمہ : آپ (ان سے) کہیے کہ: کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بالکل خسارے میں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں کری کروائی محنت (جو اعمال حسنہ میں کی تھی) سب گئی گزری ہوئی، اور وہ(بوجہ جہالت کے) اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں۔ (معارف القرآن ۶۴۵/۵)
حضرت مفتی شفیع صاحب اس کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
اس جگہ پہلی دو آیتیں اپنےمفہوم عام کے اعتبار سے ہر اس فرد یا جماعت کو شامل ہے جو کچھ اعمال کو نیک سمجھ کر اس میں جدوجہد اور محنت کرتے ہیں؛ مگر اللہ کے نزدیک ان کی محنت برباد اور عمل ضائع ہے۔ (۶۴۶/۵)
اور اب تو کئی دنوں سے آپ کی مذکورہ در سوال پردی میں ایک ترقی یہ ہوئی ہے کہ، پورا برقعہ کالے رنگ کا ہوتا ہے اور پردی سفید رنگ کی ہوتی ہے؛تاکہ کسی کی توجہ نہ جاتی ہو تب بھی یہ منظر دیکھنے کے لیے وہ کھنچے۔ الله تعالی ہماری مسلمان بہن بیٹیوں کو عقل سلیم دے کہ، وہ ہوس خوروں کی ان مکاریوں اور حیلوں کو پہچان کر اپنی عصمت و عزت اور شرم و حیاء  بچالیں ۔ آمین ۔ دشمنانِ اسلام ایک طویل عرصے تک حجاب، پردہ اور برقعہ کے خلاف تحریک چلاتے رہے، اس کے باوجود جو مسلمان خواتین اس سے متاثر نہ ہوئیں اور خود کو بے حجاب نہ کیا، ایسی خواتین کے لئے اب ان دشمنوں نے یہ نیا حیلہ تیار کیا، جس میں برقعہ اتار پھینکے بغیر ہی ان کا مقصد حاصل ہو جائے، اور حکمِ الہی پرظاہری عمل کے ساتھ اس کا خون ہوتا رہے۔ اس موقع پر فراستِ ایمانی، غیرت وحمیت سے کام لے کر ان مکاریوں پر سے پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم.
الجواب :صحیح عباس داود بسم اللہ
نائب مفتی جامعہ ڈابھیل
کتبہ: العبد احمد عفی عنہ خانپوری
صدر مفتی جامعہ ڈابھیل

No comments:

Post a Comment