Monday, June 28, 2021

توفیق کیا ہے؟ بے عملی کے لئے توفیق نہ ملنے کے حیلے بہانے

توفیق
کیا ہے؟ بے عملی
کے لئے توفیق نہ ملنے کے حیلے بہانے

---------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------

سوال: السلام علیکم
اگر کوئی آدمی یہ کہے  فلاں آدمی نماز پڑھنے اس لئے نہیں آرھا کہ اللہ اس کو توفیق نہیں دیا کیا اس طرح کا بولنا غلط ہے. قرآن  و حدیث کے روشنی میں حوالہ کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا مقع دیں 
اس طرح کی بھی کوئی آیت ھی جس میں توفیق ملنے یا نہ ملنے کا ذکر ہو
نعیم الدین

الجواب وباللہ التوفیق:
توفیق کی تعریف
توفیق کی تین تعریفیں ہیں:
۱) تَوْجِیْہُ الْاَسْبَابِ نَحْوَ الْمَطْلُوْبِ الْخَیْرِ۔ اسبابِِ خیروعملِ خیر کے اسباب جمع ہوجائیں۔ جیسے کہیں ملازم تھا جہاں اس کو دینی نقصانات تھے اور پھر کہیں اچھی جگہ یعنی دینی ماحول میں نوکری مل جائے یا ساری زندگی کسی اور کام میں تھا آخر میں خانقاہوں سے، اللہ والوں سے یا اللہ والوں کےغلاموں سے جڑ گیا، اسباب پیدا ہوگئے، تَوْجِیْہُ الْاَسْبَابِ، تَوْجِیْہْ وَجْہٌ سے ہے یعنی سامنے آجانا۔
۲) توفیق کے دوسرے معنیٰ  ہیں خَلْقُ الْقُدْرَۃِ عَلَی الطَّاعَۃِ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی قدرت پیدا ہوجائے۔
۳) توفیق کی تیسری تعریف ہے
تَسْھِیْلُ طَرِیْقِ الْخَیْرِ، وَتَسْدِیْدُ طَرِیْقِ الشَّرِّ خیر کے راستے آسان ہوجائیں اور بُرائیوں کے راستے مسدود ہوجائیں۔ چلاتھا بدنظری کرنے کے لئے، سڑک پر کوئی حسین ہی نہیں آیا، اللہ تعالیٰ نے سب کو بھگادیا،  تو اللہ تعالیٰ بھلائی کے اسباب پیدا فرمادیں اور شر کے راستے بند فرمادیں۔ مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ استاذ الادب والفقہ اور دارالعلوم دیوبند کے بڑے اکابر میں سے ہیں جنہوں نے مقامات میں توفیق کی یہ تینوں تعریفیں بیان کردیں.(نفس کے حملوں سے بچاؤ کے طریقے۔ صفحہ 26 ۔ مؤلفہ مولانا حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ)
ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اپنی بے عملی کے لئے توفیق کا بہانہ کرتے ہیں یعنی یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں نماز وروزہ اور دوسرے عملوں کی توفیق عطا فرمائے۔ کبھی کہتے ہیں کہ دعاء کیجئے کہ ہدایت ہوجائے۔ درحقیقت ان لوگوں کو توفیق کا معنی معلوم نہیں ہے۔ علمائے کرام نے توفیق کا معنٰی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ ھُوَ جَعْلُ الْأَسْبَابِ مُوَافِقَۃً لِّلْخَیْرِ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کام کرنا چاہے اس کے کرنے کے اسباب مہیا ہوں، بس یہی توفیق ہے۔
ہر شخص اپنی قدرت وطاقت کو دیکھ لے، عمل کرنے کے لائق طاقت واستطاعت کا موجود ہونا ہی توفیق ہے۔ اگر مال ہے اور اس پر زکوٰۃ فرض ہے تو ادائیگی زکوٰۃ کے لئے یہی توفیق ہے۔ اگر اتنا مال ہے جس پر شرعاً حج فرض ہے تو حج کی ادائیگی کے لئے یہی توفیق ہے۔ قواعدِشرعیہ کے مطابق کھڑے ہوکر، بیٹھ کر، لیٹ کر جس طرح نماز پڑھنے کی قدرت ہو بس یہی توفیق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جوحکم دیا ہے اس کی طاقت بھی دی ہے، جسمانی طاقت ہو یا مالی وسعت ہو اس طاقت ووسعت کا ہونا توفیق ہے۔ توفیق کوئی بجلی کی طاقت کا نام نہیں ہے کہ کرنٹ پہنچے اور خودبخود مجبوراً مشین کی طرح حرکت کرنے لگے، توفیق ہوتے ہوئے بھی اپنا اختیار استعمال کرنا پڑتا ہے۔ (حیلے بہانے، مولفہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ)

اصل چیز تو فیقِ خداوندی ہی ہے. جب تک خدا کی توفیق شاملِ حال نہ ہو کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔ اس لیے خدا سے نیکی کے لیے توفیق کی دعاء کرنی چاہئے۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑا نصیحت آموز واقعہ لکھا ہے۔ آپ بھی سنیے:
ایک آقا اور غلام کا گزر مسجد کے پاس سے ہوا۔ نماز کا وقت ہوگیا، اذان دی جاچکی تھی. غلام نے آقا سے کہا، تھوڑی دیر کے لئے اجازت دیں تو میں نماز ادا کرلوں۔ آقا نے جو دنیا کی دولت پاکر خدا کو فراموش کرچکا تھا، بے رخی سے اجازت دے کر کہا، جاؤ جلدی سے نماز پڑھ کر آجاؤ، میں یہیں باہر انتظار کرتا ہوں، غلام آقائے حقیقی کے دربار میں چلاگیا، نماز شروع کردی، نماز کی لذت سے وہ آشنا تھا، وہ اس لذت میں محو تھا ؎
ہر کہ دلبر دید کے ماند خموش
بلبل گل دید کے ماند خموش

لوگ اپنی اپنی نمازیں پڑھ کر چلے گئے، یہ غلام اور نمازیں پڑھتا رہا، جب کافی تاخیر ہوگئی تو آقا سے رہا نہ گیا، غصہ میں چلّانے لگا۔ کم بخت! سب نکل گئے، تم وہاں کیا کررہے ہو؟ کیا کسی نے پکڑ لیا ہے جو باہر نہیں آنے دے رہا ہے۔ کون ہے وہ جس نے پکڑ رکھا ہے؟ غلام نے اندر سے جواب دیا، جی ہاں آقا! ہم کو اسی نے پکڑ رکھا ہے اور باہر جانے نہیں دے رہا ہے جو آپ کو اندر آنے نہیں دے رہا ہے۔
بھائیو! دیکھئے توفیق کی بات اور خدا کی عنایت کا حال۔ ایک کو تو اپنی وہ لذت دی کہ باہر نہیں آرہا ہے جیسے پکڑلیا گیا ہو اور دوسرے کو توفیق نہیں دی کہ اندر جاکر نماز ادا کرے۔ بھائیو! توفیقِ خدا وندی کے لئے دعائیں کیا کرو ؎
اس کے الطاف تو عام ہیں سب پر شہیدی لیکن تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا. (باتیں ان کی یاد رہیں گی)

اعمال صالحہ کی انجام دہی توفیق خداوندی کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن توفیق کے صحیح معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔اپنی بے عملی کے توفیق کا بہانہ بنانا جیسے سوال میں مذکور ہے شیطانی فریب ہے۔
قرآن کریم میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے:
011:088
قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
ترجمہ: شعیب نے کہا اے قوم بھلا دیکھو تو سہی اگر میں ہوں اپنے رب کے سیدھے راستہ پر اور اس نے دی مجھ کو اپنی طرف سے عمدہ (حلال) روزی (تو کیا تمہارے طرح کمائی کھانے لگوں) اور میں نہیں چاہتا کہ خود تم سے پہلے کرنے لگوں جس سے تم کو منع کرتا ہوں، بس میں تو اصلاح ہی چاہتا ہوں جہاں تک ہوسکے، اور میرا کامیاب ہونا تو بس اللہ ہی کے فضل سے ہے اسی پر میں بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (11 :088)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)



انسانیت ‏کی ‏تلاش ‏

انسانیت کی تلاش 
انسان، کانوں کی طرح ہیں جیسے سونا اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں۔ روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی، ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ ایک دوسرے سے نا آشنا رہتی ہیں۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «النَّاسُ مَعَادِن كَمَعَادِن الذَّهَب وَالفِضَّة، خِيَارُهُم فِي الجَاهِلِيَّة خِيَارُهُم فِي الإِسْلاَم إِذَا فَقُهُوا، والأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَة، فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ». وعن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: «تَجِدُون النَّاسَ مَعَادِن: خِيَارُهُم فِي الجَاهِليَّة خِيَارُهُم فِي الإِسْلاَم إِذَا فَقِهُوا، وَتَجِدُون خِيَار النَّاس فِي هَذَا الشَّأْن أَشَدُّهُم كَرَاهِيَة لَه، وَتَجِدُون شَرَّ النَّاس ذَا الوَجْهَين، الَّذِي يَأْتِي هَؤُلاَء بِوَجه، وَهَؤُلاَء بِوَجْه».  
[صحيحان.] - [الحديث الأول: متفق عليه، ولفظه لمسلم؛ وروى البخاري أوله، وروى آخره عن عائشة -رضي الله عنها-. الحديث الثاني: متفق عليه.]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کانوں کی طرح ہیں جیسے سونا اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں۔ روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی، ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ ایک دوسرے ناآشنا رہتی ہیں“۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم انسانوں کو کان کی طرح پاؤ گے، جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں۔ اور تم حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو، اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دورخہ (دوغلا) ہو، جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہے اور دوسروں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہے“۔  
یہ حدیث اپنی دونوں روایات کے اعتبار سے صحیح ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔
شرح: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو معادن (کانوں) سے تشبیہ دینے میں کئی دلالتوں کی طرف اشارہ موجود ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں کہ لوگوں کی طبیعتیں اور ان کی اخلاقی اور نفسیاتی خوبیاں مختلف قسم کی ہوتی ہیں اور اس بات کو کانوں (معادن) کے فرق سے سمجھا جاسکتا ہے نیز یہاں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اصلاح و درستگی کو قبول کرنے میں لوگوں کے مابین فرق پایا جاتا ہے، چنانچہ بعض لوگ آسانی سے اصلاحی باتوں کو قبول کرلیتے ہیں جب کہ بعض کے تئیں صبر و تحمل کی ضرورت پیش آتی ہے اور بعض میں تو اصلاح کو قبول کرنے کا مادہ ہی نہیں ہوتا اور یہی حال کانوں کا ہوتا ہے، کانوں سے تشبیہ دینے میں اس پہلو پر بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ لوگ، اپنے نسب کے اشرف و افضل ہونے اور اس کے گھٹیا ہونے کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتے ہیں اور یہ بات معادن کی نفاست و عمدگی کے فرق سے سمجھی جاسکتی ہے، چنانچہ بعض سونا اور چاندی جیسے قیمتی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور بعض لوہا اور قلعی شدہ ٹین جیسے معمولی قیمت رکھتے ہیں۔ معادن سے تشبیہ دینے میں اس پہلو پرتوجہ مبذول کی جارہی ہے کہ معادن کی طرح لوگوں میں کسی امر کو اپنانے کی قوت بھی جداگانہ ہوتی ہے، پس عرب کے معادن سے مُراد ان کی اصل اور ان کےحسب و نسب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں بہتر اور اچھی صفات کے مالک تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر اور اچھی صفات والے ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم بھی حاصل کریں.“ یعنی زمانۂ جاہلیت میں حسب و نسب، خاندان اور اصل کے نقطہ نظر سے سب سے زیادہ قابلِ عزت لوگ ہی بہتر اور اچھی صفات کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ دین میں بھی خوب سمجھ بوجھ حاصل کریں، جیسے خاندانِ بنی ہاشم ، نسب اور اصل کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت میں قریش کا سب سے زیادہ بہترین قبیلہ رہا جیسا کہ صحیح حدیث کی نص اس بات پر دلالت کرتی ہے، اسی طرح وہ اسلام میں بھی بدستور سب سے بہترین رہیں گے بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کا تفقہ حاصل کریں اور اس دین کا علم حاصل کریں، اگر اُن میں دین کی سمجھ نہ ہو تو بہترین عربی النسل ہونے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی مکرم مخلوق کا درجہ نہیں پاسکتے اور نہ ہی بہترین مخلوق ہوسکتے ہیں۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان، اپنے نسب کی بنیاد پر اشرف و افضل اسی شرط پر ہوتا ہے کہ اس کو دین کی سوجھ بوچھ حاصل ہو، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نسب کی بڑی تاثیر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نسب کے اعتبار سے بنوہاشم لوگوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ اور شرف والی قوم تھی اور انھیں میں سے ساری مخلوق میں اشرف و افضل ذات گرامی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾ ”اس موقع کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وه اپنی پیغمبری رکھے؟“ کی پیدائش ہوئی، اگر آدم علیہ السلام کی اولاد میں یہ قبیلہ سب سے زیادہ شرف کا حامل نہ ہوتا تو اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آتے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، انتہائی شریف قبیلے اور اعلی ترین نسب ہی میں ہوئی۔ حدیث کے اس خلاصہ میں دونوں حدیثیں برابر کی شریک ہیں۔ پہلی حدیث کا اختتام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ”اور روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی، ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں، یہاں بھی وہ ایک دوسرے سے ناآشنا رہتی ہیں“ پر ہوتا ہے، اور احتمال ہے کہ اس میں یہ اشارہ ہوکہ لوگوں میں خیر و شر والی مختلف اشکال ہوتی ہيں ۔ لہذا بہترین قسم کے لوگ، اپنے جیسے بھلے لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور شریر و اوباش قسم کے لوگ، اپنی ہی طرح کے شریر لوگوں کی طرف میلان رکھتے ہیں تو روحوں کی باہمی پہچان، خیر یا شر کے مطابق پیدا کردہ جبلی و فطری تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے اور جب ان فطری تقاضوں میں اتفاق قائم ہو تو وہ ایک دوسرے سے متعارف ہوجاتے ہیں اور اگر ان کے فطری تقاضے مختلف ہوئے تو وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ عالم غیب میں ہوئے ابتدائے آفرینش کے تئیں خبر ہو، کہ روحوں کو جسموں سے قبل پیدا کردیا گیا اور وہ ایک دوسرے سے ملتی جلتی رہیں اور جب انھیں اجسام میں ڈالا گیا تو اس پہلے تعارف کی بناء پر ان کے مابین تعارف ہوا اور عالم غیب کے اس گزرے ہوئے زمانہ کے مطابق، ان کے مابین ایک دوسرے کی پہچان اور علیحدگی قائم ہوئی اور اس طرح اچھے لوگ، اچھے افراد کی جانب اور برے، بروں کی جانب مائل ہوئے۔ ابن عبدالسلام کہتے ہیں کہ باہمی پہچان اور اختلاف سے مراد، لوگ اپنی صفات میں ایک دوسرے کی قربت یا تفاوت ہے کیونکہ اگر کسی شخص کی صفات، تم سے میل نہ کھاتی ہوں تو تم اس شخص سے نفرت کا معاملہ کروگے اور کسی انجان شخص سے عدمِ شناسائی کی بنا پر نفرت و ناپسندیدگی کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے اور اس کا تعلق تشبیہِ مجازی سے ہے کہ جس میں ناپسندیدہ شخص کو ناشناسا شخص سے اور مانوس شخص کو ایک معروف و شناسا شخص سے تشبیہ دی گئی۔ دوسری حدیث کا اختتام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر ہوتا ہے کہ: ”اور حکومت اور سرداری کے لائق اس کو پاؤ گے جو حکومت اور سرداری کو بہت ناپسند کرتا ہو، اور آدمیوں میں سب سے برا اس کو پاؤگے جو دورخہ (دوغلا) ہو؛ جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہو اور دوسروں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہو“، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: (اس معاملے میں تم لوگوں میں سب سے بہتر پاؤگے) یعنی خلافت اور سرداری میں مطلب احکام کی باہمی تعمیل میں سرگرداں رہنے والے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو سرداری کے لالچی و حریص نہیں ہوتے اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اگر اختیار و اقتدار آجائے تو انہیں راست روی کی رہنمائی اور اصلاحِ قوم کی توفیق میسر ہوتی ہے، جب کہ امارت و سرداری کی حرص و طمع رکھنے والے کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بُرے لوگ دو رخے و دوغلے ہوتے ہیں، جیسا کہ منافقین کا ایسا ہی طرز عمل ہوتا ہے، قرآن کہتا ہے ہے: ﴿وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ﴾ ”اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صرف مذاق کرتے ہیں“۔ اور بیشتر افراد میں اس قسم کی بری عادات پائی جاتی ہیں، ایسےکردار سےاللہ تعالیٰ کی پناہ! کیوں کہ اس کا نفاق کے ایک شعبہ سے تعلق ہے۔ آپ ایسے شخص کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آکر چاپلوسی کرتا ہے اور آپ کی تعریفیں کرتا ہے اور بسا اوقات اس تعریف میں مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتا ہے، لیکن جب آپ کے پیٹھ پیچھے ہوتا ہے تو آپ کی کردار کشی کرتا ہے، آپ کی مذمت کرتا ہے، آپ کو گالی گلوچ دیتا ہے اورآپ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو آپ میں نہیں ہوتیں۔ ایسے کردار سے اللہ تعالیٰ کی پناہ! یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کردار کے حامل کو لوگوں میں سب سے بدتر انسان قرار دیا۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_28.html

Tuesday, June 22, 2021

خطاطی کے اس نمونہ میں یہ کون سی آیت لکھی ہوئی ہے؟

خطاطی
کے اس نمونہ میں یہ 
کون سی آیت لکھی ہوئی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
"قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ"
--------
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
قَالَ تَزۡرَعُوۡنَ سَبۡعَ سِنِیۡنَ دَاَبًا ۚ فَمَا حَصَدۡتُّمۡ  فَذَرُوۡہُ  فِیۡ  سُنۡۢبُلِہٖۤ  اِلَّا قَلِیۡلًا  مِّمَّا  تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۴۷﴾
سورہ یوسف آیت نمبر 47
ترجمہ: یوسف نے کہا: تم سات سال تک مسلسل غلہ زمین میں اگاؤگے، اس دوران جو فصل کاٹو، اس کو اس کی بالیوں ہی میں رہنے دینا، البتہ تھوڑا سا غلہ جو تمہارے کھانے کے کام آئے، (وہ نکال لیا کرو).
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_22.html?m=1

Tuesday, June 8, 2021

مادری زبان کا پس منظر و پیش منظر کیا ہے؟؟؟

مادری
زبان کا پس منظر
و پیش منظر 
کیا ہے؟؟؟

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات، خیالات اور اپنے جذبات دوسرے انسان تک منتقل کرتا ہے۔ زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے، یہ مافی الضمیر کے اظہار کا ایک وقیع ذریعہ ہے۔ زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے۔ انسانی معاشروں میں بولی جانی زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں۔ زبان کے ذریعے جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کا اظہار کرتا ہے وہاں دوسرا انسان بھی زبان کے ذریعے سے ہی پہلے کے ما فی الضمیر کا دراک کرتا ہے۔ کسی انسان کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اس کا انداہ لگاسکے پس یہ زبان ہی ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
انسان کی پہلی زبان ’’رونا‘‘ ہے۔ ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتا ہے۔ اسی رونے میں اس کی بھوک پوشیدہ ہوتی ہے، اسی رونے میں اس کی پیاس ہویدا ہوتی ہے، اسی رونے سے وہ اپنی تکلیف اور درد کا احساس دلاتا ہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکر جاگنے کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اس کی ماں ہی سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے، رونے کی کوئی تراکیب نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قواعد بھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے۔ بہت تجربہ کار ڈاکٹر اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اس کا بخوبی ادراک کرلیتی ہے، حالانکہ ’’ماں‘‘ نے ’’ماں‘‘ بننے کا کوئی کورس نہیں کیا ہوتا بس ماں کے سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ کرکے اس تکلیف کی وضاحت کردیتا ہے۔ بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اس کا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھا ہوا سبق وہ بڑھاپے کی دہلیز پر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ ماں کی گود کے اثرات بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہوکر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر کندان کرکے توہمیشہ کے لئے امر کردی جائے۔ یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اسی طرف ہی مڑتا چلا جاتا ہے۔ اسی لئے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے گھٹی میں پلایا ہے۔ جیسے امریکی بچوں کو اسامہ کا خوف مائیں اپنے دودھ میں پلاتی ہیں اور اسرائیلی ماؤں نے حماس کا خوف یہودی بچوں کو دودھ میں پلایا ہے وغیرہ۔ مادری زبان بھی اسی طرح کا پڑھایا ہوا سبق ہوتا ہے۔
ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتا ہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی ہے کیونکہ ’’مادر‘‘ فارسی زبان میں ’’ماں‘‘ کو کہتے ہیں۔ زبان سیکھنا ایک طویل مرحلے کا مرہون منت ہوتا ہے۔ کوئی زبان، اس کے قوائد، اس کی لغت اور اس کے دیگر اسرارورموز ایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اللہ تعالی کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کرلیتا ہے کہ ساری عمر کے لئے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو اس زبان کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان خالص ہوتی ہے اور دیگر زبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپنا آپ گم نہیں کر بیٹھتی تو ایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کا جھمگٹا ہوتا ہے جہاں وہ زبان اپنا تاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے۔ مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے پس منظر میں اس علاقے کا، اس تہذیب کا، اس ثقافت کا اور انکی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتا ہے۔ زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔ مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کررہی ہوتی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کررہی ہوتی ہے۔ مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں، مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اس کا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔
مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت النبی ﷺ کے واقعات سے بخوبی میسر آتاہے۔ یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ دیہاتوں کی زبان، دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والے کسی زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہواکرتے ہیں۔عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے والی پرورش ان کی زبان کے پس منظر میں ان کی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک تو محدود نہیں ہوتی اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضع طور پر اثر پزیر رہتے ہیں۔شاید انہیں مقاصد کی خاطر آپ ﷺ کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔ اسی طرح دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں ۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔ معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے. اس کے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کا کام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔
مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مدد ملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے ،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر رہا ہے. چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پ
ذیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں، نیا ادب تخلیق ہوتا ہے، استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ جس طرح قوموں کے درمیان اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے ،جوجوزبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔وطن عزیز،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سی مادری زبانیں ہیں جنہیں علاقائی زبانیں بھی کہا جاسکتا ہے ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم علاقوں میں ان زبانوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام،عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب ،دورغلامی کی باقیات،انگریزی زبان میں ہے۔ بعض اوقات تو اس غیرضروری حد تک انگریزی زبان کو استعمال کیا جاتا ہے کہ اگرانگریز بھی ہوتے تو شرماجاتے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی آزاد نہیں ہوئے؟ دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی تعلیم حاصل کرنے جائے تو پہلے اسی وہاں کی قومی زبان سکھائی جاتی ہے اور پھر اسی زبان میں اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔

چین کے انقلابی راہنما ماؤزے تنگ بہت اچھی انگریزی جانتے تھے لیکن عالمی انگریزراہنماؤں سے بھی جب ملتے تو درمیان میں اپنی زبان کا مترجم بٹھاتے، وہ سب سمجھتے تھے کہ انگریزکیا کہہ رہا ہے لیکن مترجم کے ترجمے کے بعد جواب دیتے۔ انگریزکوئی لطیفہ سناتا تو سمجھ چکنے کے باوجود مترجم کے ترجمہ کرنے پر ہی ہنستے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جب جاپان فتح کیا تو شاہ جاپان نے ان سے ایک ہی بات کہی کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا۔ نشے کی ماری ہوئی چینی قوم اور جنگ میں تباہ حال جاپانی قوم اپنی زبان کی مضبوط بنیادوں کے باعث آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں جبکہ انگریز کی تیارکردہ غلامانہ مصنوعی سیکولرقیادت کے مقروض لہجوں نے آج پاکستان کو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھا ہے۔ قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعرا ومحققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں، دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منواسکے۔ لیکن وطن عزیزکا مقتدر سیکولر طبقہ جو ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہے قومی ترقی کی راہ میں بدیسی و غلامانہ زبان کی بیساکھیوں کے باعث سدراہ ہے۔ یہ طبقہ اپنے سیکولر خیالات کو انگریزی تہذیب کے مکروہ لبادے میں ’’جدیدیت‘‘کی ملمع کاری کو قوم میں نفوذ کرنا چاہتا ہے لیکن اب اس طبقے کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، انشاء اﷲ تعالی۔

کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ اقوام عالم کوان کی مادری یاقومی زبان سے محروم کردیاجائے۔وطن عزیزمیں ایک وقت کے اندر کئی کئی زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صریحاََنسل نوپرناروابوجھ ہیں۔ایک بچہ مادری زبان سیکھتا ہے، اسی میں سوچتا ہے، اسی میں خواب بھی دیکھتا ہے، اسی مادری زبان میں دل اور جذبات کو بھی دخیل کرتا ہے۔ جب تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو اسے مسجد بھیج دیا جاتا ہے، یہاں اسے مذہبی زبان، عربی، سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسے عربی کے حروف تہجی سکھائے جائے ہیں، ان کا تلفظ ازبر کرایا جاتا ہے، عربی قواعد لسانیات سے جزوی واقفیت کروائی جاتی ہے جس کے باعث وہ قرآن مجید کی قرات و تلاوت اور اپنی مذہبی رسوم و عبادات کی بجاآوری کے قابل ہوجاتا ہے۔ اسی دوران اسے گلی محلے کی دکانوں پر ’’چیز‘‘ لیتے ہوئے یا راستہ پوچھتے بتاتے ہوئے یا کسی انکل سے یا مسجد کے مولانا صاحب سے یا کسی باجی یا آنٹی سے بات کرنی ہو یا گھرمیں آئے مہمانوں سے کوئی سوال جواب یا تعارف کا مرحلہ درپیش ہوتو اسے اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ یہ اردو زبان پورے جنوبی ایشیاء میں کم وبیش سو فیصد لوگ کسی نہ کسی درجے میں سمجھتے، بولتے اور لکھتے ہیں اور رابطہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پھرجب اسے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کروایا جاتا ہے تو یہ لسانی ستم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جہاں سات سمندرپارکی زبان آکاس بیل کی مانند ایک ناسور بن کر اس سے تاحیات چمٹ جاتی ہے۔ اسے انگریزی زبان کا بے مقصد بوجھ اپنی تعلیمی کمر پر لادنا ہوتا ہے، بدیسی قوم کی طرح اسی کے لہجے میں اپنامنہ ٹیڑھا کر کرکے اس کی زبان بولنی پڑتی ہے۔ جو بچہ اس غلامانہ زبان کو اپنااوڑھنا بچھونا بنالے، اسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا مصنوعی رنگ ڈھنگ اختیارکرلے، اسی زبان کے نشیب و فراز میں اپنے لہجے کو ڈھال لے تو وہ طالب علم اپنے اساتذہ کا چہیتا اور اس تعلیمی ادارے کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے، وہ اپنے تعلیمی درجے تعلیم کے اعلی مقامات اور انعامات کا مستحق بھی گردانا جاتا ہے اور اگلے تعلیمی مرحلوں میں بھی اسے ترجیحی تفوق حاصل رہتا ہے۔

دیگرزبانوں میں اچھے مقامات کا حامل کسی زبان کا ماہر تو شاید ہوجائے لیکن اس زبان میں پڑھائے جانے والا مواد کس حد تک اس کے ذہن نشین ہوا ہے ؟؟؟اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس کی وجہ ایک سادہ سا نفسیاتی جائزہ ہے کہ بچے کی بچگانہ اور محدود ذہنی صلاحیت کو اگر صرف مواد کے سمجھنے پر لگایا جائے تب اس میں کامیابی کے کتنے فیصد امکانات ہوں گے اور جب اس کی ذہنی صلاحیت پر پہلے غیرزبان سمجھنے کا اضافی وغیرفطری بوجھ اور پھر مواد کے سمجھنے کا کام اس کے ذمہ لگایا جائے تب اس کی کارکردگی کتنے فیصد ہوپائے گی۔ اس تجزیے کے نتائج اظہرمن الشمس ہیں جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کوئی غیرزبان سیکھنے میں آدھی صدی بھی صرف کردے تب بھی اس زبان کو بطورمادری زبان کے بولنے والوں کے برابرتو دورکی بات ہے اس کے عشرعشیر جتنا بھی کچھ مقام حاصل نہیں کرپائے گا۔ انسان کی اصل زبان وہی ہے جو اس کی مادری زبان ہے۔ تاہم کوئی بھی قوم اپنی نسل کو غیرزبان سے نجات دلاکر اپنی مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے علوم و معارف میں بہت اعلی مقام یقیناََ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ تخلیقیت کا تعلق ہمیشہ سے مادری زبان سے رہتا ہے۔

مسلمانوں نے اس کرہ ارض پر کم و بیش ایک ہزارسال حکومت کی لیکن کسی قوم کو اس کی مادری زبان یا مقامی تہذیب سے محروم نہیں کیا۔سیکولر گورا سامراج تین سوسال تک انسانوں کی گردنوں پرمسلط رہا اور ہر جگہ اس نے مقامی تہذیب کو تاراج کیا. اپنا تمدن زبردستی مسلط کیا اور علاقائی و مادری زبان چھین کر قوموں کو گونگا بہرا بنانے کا عالمی انسانی مجرم بن گیا۔ اسلام نے فرد کو کسی حد تک غلام رکھنے کی مشروط و محدود اجازت دی تھی لیکن اس سیکولراور لبرل استبداد نے پوری کی پوری قوموں کو اپنا غلام بنایا اور تعلیمی غلامی، تہذیبی غلامی، لسانی غلامی، دفاعی غلامی اور ذہنی غلامی سمیت نہ معلوم کتنی غلامیوں کے طوق ان کی گردنوں میں ڈالے اور اپنی زبان کی ہتھکڑیاں انہیں پہناکر مغربی جمہوری نظام کی بیڑیوں کے ذریعے ان اقوام کی رفتارکار کو انتہائی سست بنادیا تاکہ وہ کبھی بھی ہمارے سے آگے قدم نہ بڑھاکر ہمیشہ ہمارے دست نگر رہیں۔ مادری زبان کا یہ عالمی دن ہر قوم کو یہ احساس دلاتا ہے کہ عالمی گاؤں ’’گلوبل ویلج‘‘ کے نام پر لسانی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں سے کلیتاََ بچایا جائے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی طاغوت کا آلہ کاربننے کی بجائے کل عصری علوم کو دنیا بھر کی مادری زبانوں میں منتقل کرنے کا عالمی انسانی فریضہ سرانجام دے تاکہ کل انسانیت کسی ایک زبان کی اجارہ داری سے نکل کر اس کرہ ارض کو آفاقی و آسمانی تعلیمات کے مطابق امن و آشتی اور پیارومحبت کی آماج گاہ بناسکے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_71.html



چند مشہور جاہلانہ جملے اور ان کے جواب

چند مشہور جاہلانہ جملے اور ان کے جواب
جملہ: نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑگئے،
جواب: حدیث مبارکہ میں ہے؛
جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑایا
اس نے کفر کا ارتکاب کیا
(اگرچہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)
جملہ: "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے."
جواب: بالکل غلط، بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود دین اسلام میں موجود ہیں،
جن سے تجاوز کرنا جائز نہیں.
جملہ: "نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی-
یعنی ساری زندگی گناہوں میں گزری اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
جواب: 100% غلط... !
بحیثیت مسلمان لاکھوں، کروڑوں گناہ سرزد ہونے کے بعد بھی حج کو جائے گا، تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنے قریب پائے گا.
گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو. اگر سچی توبہ کرکے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے. فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
ترجمہ: اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقیناً بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔
[سورہ طه: آیت نمبر 82]
(”بلی حج کو چلی“ یہ کہنا شعائر اسلام کی توہین ہے اس لئے ایسا کوئی بھی جملہ جس سے اسلام و مسلمین کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، اُس سے گریز کریں۔)
جملہ: آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے
جواب: اللہ فرماتا ہے
```الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً```
“(1440 سال پہلے )
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.“ (سورہ المائدہ,آیت نمبر 3)
جملہ: آخر اللہ کو ہماری یاد آہی گئی
جواب: اللہ فرماتا ہے.
َمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّاً
ترجمہ: تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
[سورہ مريم: آیت نمبر 64]
جملہ: کہاں رہتے ہو؟ اوو خدا کے پچھواڑے؟
جواب: خدا کے لئے کچھ بھی غائب نہیں ہے. تو خود سوچیں اس کا پچھواڑا کیسے ہوسکتا ہے مگر جملہ بولنے والے نے رب العزت کی کتنی بڑی توہین کردی ہے.
جملہ: زمانہ بہت خراب ہوگیا ہے، زمانہ بڑا غدار ہے
جواب: حدیث القدسی: ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے. وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ “میں“ ہوں ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں.
(متفق علیہ)
جملہ: فلاں بہت منحوس ہے وغیرہ وغیرہ۔
جواب: بالکل غلط. یہ وہمی لوگوں کی باتیں ہیں۔ اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ محض توہم پرستی ہے۔
حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
”تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور
جو بُرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،“
سورة النساء (4, آیات نمبر 79)۔
تنبیہ: لہذا اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کون کون سے ایسے جملے بولتے رہتے ہیں اور وہ جملے کتنے بھاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن رہے ہیں اور ہماری آخرت تباہ ہورہی ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہے.
بولنے سے پہلے سوچیں پھر تولیں پھر بولیں اور جب بھی بولیں بامقصد بولیں.
فضول بولنے سے خاموشی لاکھ درجے بہتر ہے.
خود بھی شعوری طور پر بچیں اور دوسروں کی بھی اصلاح فرمائیں۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا واحسن الجزاء فی الدارین (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
-------
عنوان: اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ایسا كہنا كیسا ہے؟
سوال: اکثر لوگ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، میرا سوال ہے کیا اس طرح کے جملہ سے اللہ تعالیٰ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی نہیں؟ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت یہ جملہ کہے تو اس کے ایمان اور نکاح پر کوئی اثر پڑیگا؟ براہ مہربانی جواب جلدی عنایت فرمائیں۔ شکریہ
جواب نمبر: 179808
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 30-18/M=01/1442
 ”اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں“ اس طرح کا جملہ نہیں کہنا چاہئے۔ اس طرح کہنے سے آدمی کے ایمان و نکاح پر اثر نہیں پڑتا لیکن یہ جملہ (اللہ کے یہاں دیر ہے) بہرحال مناسب نہیں۔ اللہ تعالی کی ذات و صفات ہر قسم کے نقص و کمی سے پاک ہیں۔ اور اللہ تعالی ہر کام کو اپنی مرضی کے مطابق اس کے وقت مقررہ پر انجام دیتے ہیں تو اللہ کے یہاں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_8.html?m=1

Monday, June 7, 2021

کتے کی دس صفات جو اگر انسان میں ہوں تو وہ ’ولی‘ بن جائےکے باوجود (۱) کتے رکھنے کی اجازت کیوں نہیں ہے اور (۲) وہ کیوں ناپاک ہیں؟

کتے 
کی دس صفات جو اگر 
انسان میں ہوں تو وہ ’ولی‘ بن جائے
کے باوجود (۱) کتے رکھنے کی اجازت کیوں 
نہیں ہے اور (۲) وہ کیوں ناپاک ہیں؟
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کتے کے اندر دس صفات ہیں کہ اگر ان میں سے ایک صفت بھی انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ ولی بن سکتا ہے۔
1- کتے کے اندر قناعت ہوتی ہے جو مل جائے یہ اسی پرقناعت کر لیتا ہے راضی ہوجاتا ہے، یہ قانعین یا صابرین کی علامت ہے۔
2- کتا اکثر بھوکا رہتا ہے ۔ یہ صالحین کی علامت ہے۔
3- کوئی دوسرا کتا اس پر زور کی وجہ سے غالب آجائے تو یہ اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے یہ راضیین کی علامت ہے۔
4. کتے کا مالک اگر اس کو مارے تو وہ اپنے مالک کو چھوڑ کر نہیں جاتا یہ صادقین کی علامت ہے۔
5- اگر کتے کا مالک بیٹھا کھانا کھارہا ہو تو یہ باوجود طاقت اور قوت کےاس سے کھانا نہیں چھینتا یہ مساکین کی علامت ہے۔
6- جب مالک اپنے گھر میں ہو تو یہ دورجوتوں کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہے ۔ ادنی جگہ پر راضی ہوجاتا ہے یہ متواضعین کی علامت ہے۔
7- دنیا میں رہنے کے لئے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا یہ متوکلین کی علامت ہے۔
8- رات کو یہ کم سوتا ہے یہ محبین کی علامت ہے۔
9- اگر اس کا مالک اس کو مارے تو یہ تھوڑی دیر کے لئے دور چلا جاتا ہے۔ اوراگر اس کا مالک اس کو دوبارہ روٹی ڈالے تو یہ دوبارہ آکر کھا لیتا ہے ۔ اس سےناراض نہیں ہوتا۔ یہ خاشعین کی علامت ہے. براہ کرم بتلائیں کہ (۱) کتے رکھنے کی اجازت کیوں نہیں ہے اور (۲) وہ کیوں ناپاک ہیں؟
Answer ID: 57299
Bismillah hir-Rahman nir-Rahim 
Fatwa ID: 186-152/Sn=3/1436-U (۱) 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تدخل الملائکة بیتًا فیہ صورة ولا کلب (البخاری، رقم: ۴۰۰۲، ۵/۱۸، بیروت) یعنی رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا، ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے: من اتخذ کلبًا إلاّ کلب ماشیة أو صید أو زرع انتقص من أجرہ کل یوم قیراط (ترمذی، رقم: ۱۴۹، باب ما جاء من أمسک کلبا الخ) یعنی جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔ ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ شکار اور حفاظتی اغراض کے علاوہ محض شوقیہ کتا پالنا شرعاً ممنوع ہے، جس گھر میں اس طرح کا کتا ہوگا اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قابل اعتماد ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اس پر عمل کرے، اس حکم کی علت اور لِم کیا ہے اس کے درپے نہ ہو، اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے، احکام کی حقیقی علتیں اللہ ہی کو معلوم ہیں، مومن کی شان احکام پر عمل کرنا ہے، باقی علماء نے قرآن وحدیث اور شریعت کے مزاج کی روشنی میں کتا کے حرام ہونے اور اس کے ساتھ اختلاط کے عدم جواز کی شرعی مصلحتیں بھی بیان کی ہیں؛ لیکن ان مصلحتوں کو ”ظن“ کے درجے میں رکھنا چاہیے، واقعی مصلحت کیا ہے، اسے اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ ”احکام اسلام عقل کی نظر میں“ میں ہے: کتا باعتبار اوصافِ مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے، چنانچہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان فرمایا ہے․․․․ وہ اوصافِ ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین وذلیل ترین وخسیس ترین حیوانات سے ہے اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدت حرص میں ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدتِ حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑکر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے اور جب اس کی طرف پتھر پھینکو تو وہ فرطِ حرص وغصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے الغرض یہ جانور بڑا حریص وذلیل ودنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا اور نجاست بہ نست حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جو صدہا کتوں کے لیے کافی ہو تو شدتِ حرص وبخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا․․․ پس جب کتے کے ایسے اوصاف مذمومہ ہیں تو جو شخص اسکو کھاتا ہے وہ بھی انہی اوصاف سے متصل ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا اور چونکہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے؛ اس لیے بلاخاص ضرورت کی صورتوں میں اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ ان کی صفات خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفاتِ خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بُعد اختیار کرتے ہیں، چنانچہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے اور سیاست کے ملائکہ (انتظام عالم اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں“ مولفہ حضرت تھانوی ص: ۲۸۵، ۲۸۶، ط: مکتبہ دارالعلوم) 
(۲) کتے کا جسم خواہ خشک ہو یا تر مفتی بہ قول کے مطابق ناپاک نہیں ہے بہ شرطے کہ لگی ہوئی تری فی نفسہ ناپاک نہ ہو، ہاں اس کا لعاب ناپاک ہے، اگر کتا پانی، دودھ وغیرہ سیال چیزوں میں منھ ڈالدے تو وہ پوری کی پوری ناپاک ہوجائیں گی، اسی طرح کپڑے، بدن یا غیرسیال چیزوں پر منھ لگادے تو جتنے حصے پر لعاب لگے اتنا حصہ ناپاک مانا جائیگا۔ والذي صحّ عندي من الروایات في النوادر والأمالي أنہ نجس العین عندہما، عن أبي حنیفة لیس بنجس العین انتہی وہو موافق لما في المحیط، ہذا ما فیہ من الروایة والذي تقتضیہ الدرایة عدم نجاسة عینہ الخ (کبیري ص: ۱۳۹، ط: دار الکتاب) اور دیکھیں احسن الفتاوی (۲/۸۶، ط: زکریا)
Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best
Darul Ifta,
Darul Uloom Deoband, India (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_7.html?m=1

Sunday, June 6, 2021

فالتو بالوں سے نجات پانے کا حکم اور طریقہ کیا ہے؟

فالتو بالوں سے نجات پانے کا حکم اور طریقہ کیا ہے؟
سوال: 
چہرے کے فالتو بال 
صاف کرنا اور بھنویں بنوانے 
کے متعلق مفصل جواب مطلوب ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
الجواب حامدا و مصلیا:
خواتین کے لئے چہرےکے غیرضروری بال، ہاتھ، پاؤں، بازؤں اور پنڈلی کے زائد بالوں کو صاف کرنا جائز ہے اور ان کو صاف کرنے کے لئے دوائی کا استعمال بھی درست ہے۔ (مأخذہٗ التبویب : ۷۸۳/۷۶،۵۰۰/۱۱)
حاشية ابن عابدين – (6 / 407)
وفي حلق شعر الصدر والظهر ترك الأدب كذا في القنية اه ط.
الفتاوى الهندية – (5 / 358)
وعن أبي يوسف رحمه الله تعالى لا بأس بذلك ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يتشبه بالمخنث كذا في الينابيع ونتف الفنيكين بدعة وهما جانبا العنفقة وهي شعر الشفة السفلى كذا في الغرائب ولا ينتف أنفه لأن ذلك يورث الأكلة وفي حلق شعر الصدر والظهر ترك الأدب كذا في القنية.
2. بھنووں کے بال نوچ کر باریک سی لکیر بنالینا اور دونوں بھنووں کے درمیان فاصلہ کرنا جیسا کہ آج کل اس کا عام فیشن ہے ناجائز ہے اور شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ بھنووں کے بال اگر بہت بڑھ گئے ہوں تو ان کو کترکے عام حالت کے مطابق درست کرنے کی گنجائش ہے، تاہم نوچ کر نکالنے سے بلاوجہ جسم کو تکلیف پہنچانا ہے اس لئے نوچ کر نکالنا مناسب نہیں. (ماخذہ التبویب: ۱۴۴۶/۱۲)
صحيح مسلم – (3 / 1678)
عن عبدالله قال لعن الله الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله
كما في تكملة فتح الملهم: (4168/)
عن عبدالله. قال: لعن الله الواشمات والمستوشمات , والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات
كما في تكملة فتح الملهم: (4168/)
قوله:( والنامصات الخ) النمص (بفتح النون وسكون الميم) نتف الشعر , ونمصت المراة الشعر اي نتفته, والنامصة: هي التي شعر الوجه كما في القاموس وتاج العروس . والمتنمصة من تامر امراة بنتف الشعر عن نفسها. واكثر ما تفعله النساء في الحواجب واطراف الوجه ابتغاء للحسن والزينة, وهو حرام بنص هذا الحديث
واللہ تعالی اعلم بالصواب

چہرے کے غیرضروری بالوں کا خاتمہ کیسے کریں؟
چہرے کے فاضل فالتو بالوں کی وجہ سے خواتین پریشان رہتی ہیں. چالیس سال کی عمر کے بعد عموماً چہرے پر غیرضرور بال اگ آتے ہیں. بعض نو عمر بچیوں میں یہ بھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے. چہرے پر اور جسم کے مختلف حصوں پر غیرضروری بال پریشان کن ثابت ہوتے ہیں. لیزر یا کسی اور علاج کی طرف جاتے ہیں تو بہت زیادہ وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور کافی خرچ بھی آتا ہے اور اگر اس کو چھوڑ دیں تو پھر سے غیرضروری بال اُگنا شروع ہوجاتے ہیں۔
غیرضرور ی بالوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے آپ یہ درج ذیل نسخہ آزمائیں اس کے استعمال سے آپ کے فالتو بال ان شآءاللہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں گے ۔
۱۔ سب سے پہلے آپ غیرضروری بالوں کو مخصوص کریم. پاؤڈر یا صابن سے ریمو کیا کریں (تھریڈنگ بھی کرسکتے ہیں یا ویکسنگ بھی)
اگر ابتدائی دور ہے یا پہلے بال ریموو کرتے رہے ہیں اور اب ختم نہیں ہورہے تو اس کے لئے آپ
۱۔ ان بجھا چونا
۲۔ہڑتال ورکیا
دونوں کو ہم وزن لے کر سفوف بنالیں اور ائرٹائٹ برتن میں بند کردیں ۔
جب بال ریموکرنے ہوں تو ایک چائے کا چمچ یہ پاؤڈر انڈے کی سفید میں ملا کر پیسٹ بنالیں اور پیسٹ کو غیرضروری بالوں والی جگہ پر لگائیں ۔
آدھ گھنٹے تک لگا رہنے دیں پھر Butter Knife یا Aplicater کی مدد سے ریمو کریں. پھر اپنا چہرہ پانی سے دھولیں
دوبار ہ بال نہ اُگیں:
آپ کست شیریں لیں اور سونجان تلخ دونوں چیزوں کا پاؤڈر بناکر رکھ لیں
اس کو روزانہ اس جگہ پر لگانا ہے جہاں سے آپ نے بال صاف کئے ہیں
بہت جلد آپ کے بالوں کا بڑھنا کم ہوجائے گا. #ایس_اے_ساگر
http://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post.html?m=1