Tuesday, June 8, 2021

مادری زبان کا پس منظر و پیش منظر کیا ہے؟؟؟

مادری
زبان کا پس منظر
و پیش منظر 
کیا ہے؟؟؟

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات، خیالات اور اپنے جذبات دوسرے انسان تک منتقل کرتا ہے۔ زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے، یہ مافی الضمیر کے اظہار کا ایک وقیع ذریعہ ہے۔ زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے۔ انسانی معاشروں میں بولی جانی زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں۔ زبان کے ذریعے جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کا اظہار کرتا ہے وہاں دوسرا انسان بھی زبان کے ذریعے سے ہی پہلے کے ما فی الضمیر کا دراک کرتا ہے۔ کسی انسان کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اس کا انداہ لگاسکے پس یہ زبان ہی ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
انسان کی پہلی زبان ’’رونا‘‘ ہے۔ ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتا ہے۔ اسی رونے میں اس کی بھوک پوشیدہ ہوتی ہے، اسی رونے میں اس کی پیاس ہویدا ہوتی ہے، اسی رونے سے وہ اپنی تکلیف اور درد کا احساس دلاتا ہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکر جاگنے کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اس کی ماں ہی سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے، رونے کی کوئی تراکیب نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قواعد بھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے۔ بہت تجربہ کار ڈاکٹر اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اس کا بخوبی ادراک کرلیتی ہے، حالانکہ ’’ماں‘‘ نے ’’ماں‘‘ بننے کا کوئی کورس نہیں کیا ہوتا بس ماں کے سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ کرکے اس تکلیف کی وضاحت کردیتا ہے۔ بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اس کا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھا ہوا سبق وہ بڑھاپے کی دہلیز پر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ ماں کی گود کے اثرات بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہوکر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر کندان کرکے توہمیشہ کے لئے امر کردی جائے۔ یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اسی طرف ہی مڑتا چلا جاتا ہے۔ اسی لئے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے گھٹی میں پلایا ہے۔ جیسے امریکی بچوں کو اسامہ کا خوف مائیں اپنے دودھ میں پلاتی ہیں اور اسرائیلی ماؤں نے حماس کا خوف یہودی بچوں کو دودھ میں پلایا ہے وغیرہ۔ مادری زبان بھی اسی طرح کا پڑھایا ہوا سبق ہوتا ہے۔
ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتا ہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی ہے کیونکہ ’’مادر‘‘ فارسی زبان میں ’’ماں‘‘ کو کہتے ہیں۔ زبان سیکھنا ایک طویل مرحلے کا مرہون منت ہوتا ہے۔ کوئی زبان، اس کے قوائد، اس کی لغت اور اس کے دیگر اسرارورموز ایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اللہ تعالی کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کرلیتا ہے کہ ساری عمر کے لئے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو اس زبان کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان خالص ہوتی ہے اور دیگر زبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپنا آپ گم نہیں کر بیٹھتی تو ایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کا جھمگٹا ہوتا ہے جہاں وہ زبان اپنا تاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے۔ مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے پس منظر میں اس علاقے کا، اس تہذیب کا، اس ثقافت کا اور انکی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتا ہے۔ زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔ مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کررہی ہوتی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کررہی ہوتی ہے۔ مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں، مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اس کا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔
مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت النبی ﷺ کے واقعات سے بخوبی میسر آتاہے۔ یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ دیہاتوں کی زبان، دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والے کسی زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہواکرتے ہیں۔عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے والی پرورش ان کی زبان کے پس منظر میں ان کی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک تو محدود نہیں ہوتی اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضع طور پر اثر پزیر رہتے ہیں۔شاید انہیں مقاصد کی خاطر آپ ﷺ کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔ اسی طرح دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں ۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔ معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے. اس کے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کا کام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔
مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مدد ملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے ،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر رہا ہے. چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پ
ذیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں، نیا ادب تخلیق ہوتا ہے، استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ جس طرح قوموں کے درمیان اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے ،جوجوزبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔وطن عزیز،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سی مادری زبانیں ہیں جنہیں علاقائی زبانیں بھی کہا جاسکتا ہے ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم علاقوں میں ان زبانوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام،عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب ،دورغلامی کی باقیات،انگریزی زبان میں ہے۔ بعض اوقات تو اس غیرضروری حد تک انگریزی زبان کو استعمال کیا جاتا ہے کہ اگرانگریز بھی ہوتے تو شرماجاتے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی آزاد نہیں ہوئے؟ دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی تعلیم حاصل کرنے جائے تو پہلے اسی وہاں کی قومی زبان سکھائی جاتی ہے اور پھر اسی زبان میں اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔

چین کے انقلابی راہنما ماؤزے تنگ بہت اچھی انگریزی جانتے تھے لیکن عالمی انگریزراہنماؤں سے بھی جب ملتے تو درمیان میں اپنی زبان کا مترجم بٹھاتے، وہ سب سمجھتے تھے کہ انگریزکیا کہہ رہا ہے لیکن مترجم کے ترجمے کے بعد جواب دیتے۔ انگریزکوئی لطیفہ سناتا تو سمجھ چکنے کے باوجود مترجم کے ترجمہ کرنے پر ہی ہنستے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جب جاپان فتح کیا تو شاہ جاپان نے ان سے ایک ہی بات کہی کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا۔ نشے کی ماری ہوئی چینی قوم اور جنگ میں تباہ حال جاپانی قوم اپنی زبان کی مضبوط بنیادوں کے باعث آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں جبکہ انگریز کی تیارکردہ غلامانہ مصنوعی سیکولرقیادت کے مقروض لہجوں نے آج پاکستان کو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھا ہے۔ قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعرا ومحققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں، دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منواسکے۔ لیکن وطن عزیزکا مقتدر سیکولر طبقہ جو ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہے قومی ترقی کی راہ میں بدیسی و غلامانہ زبان کی بیساکھیوں کے باعث سدراہ ہے۔ یہ طبقہ اپنے سیکولر خیالات کو انگریزی تہذیب کے مکروہ لبادے میں ’’جدیدیت‘‘کی ملمع کاری کو قوم میں نفوذ کرنا چاہتا ہے لیکن اب اس طبقے کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، انشاء اﷲ تعالی۔

کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ اقوام عالم کوان کی مادری یاقومی زبان سے محروم کردیاجائے۔وطن عزیزمیں ایک وقت کے اندر کئی کئی زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صریحاََنسل نوپرناروابوجھ ہیں۔ایک بچہ مادری زبان سیکھتا ہے، اسی میں سوچتا ہے، اسی میں خواب بھی دیکھتا ہے، اسی مادری زبان میں دل اور جذبات کو بھی دخیل کرتا ہے۔ جب تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو اسے مسجد بھیج دیا جاتا ہے، یہاں اسے مذہبی زبان، عربی، سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسے عربی کے حروف تہجی سکھائے جائے ہیں، ان کا تلفظ ازبر کرایا جاتا ہے، عربی قواعد لسانیات سے جزوی واقفیت کروائی جاتی ہے جس کے باعث وہ قرآن مجید کی قرات و تلاوت اور اپنی مذہبی رسوم و عبادات کی بجاآوری کے قابل ہوجاتا ہے۔ اسی دوران اسے گلی محلے کی دکانوں پر ’’چیز‘‘ لیتے ہوئے یا راستہ پوچھتے بتاتے ہوئے یا کسی انکل سے یا مسجد کے مولانا صاحب سے یا کسی باجی یا آنٹی سے بات کرنی ہو یا گھرمیں آئے مہمانوں سے کوئی سوال جواب یا تعارف کا مرحلہ درپیش ہوتو اسے اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ یہ اردو زبان پورے جنوبی ایشیاء میں کم وبیش سو فیصد لوگ کسی نہ کسی درجے میں سمجھتے، بولتے اور لکھتے ہیں اور رابطہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پھرجب اسے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کروایا جاتا ہے تو یہ لسانی ستم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جہاں سات سمندرپارکی زبان آکاس بیل کی مانند ایک ناسور بن کر اس سے تاحیات چمٹ جاتی ہے۔ اسے انگریزی زبان کا بے مقصد بوجھ اپنی تعلیمی کمر پر لادنا ہوتا ہے، بدیسی قوم کی طرح اسی کے لہجے میں اپنامنہ ٹیڑھا کر کرکے اس کی زبان بولنی پڑتی ہے۔ جو بچہ اس غلامانہ زبان کو اپنااوڑھنا بچھونا بنالے، اسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا مصنوعی رنگ ڈھنگ اختیارکرلے، اسی زبان کے نشیب و فراز میں اپنے لہجے کو ڈھال لے تو وہ طالب علم اپنے اساتذہ کا چہیتا اور اس تعلیمی ادارے کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے، وہ اپنے تعلیمی درجے تعلیم کے اعلی مقامات اور انعامات کا مستحق بھی گردانا جاتا ہے اور اگلے تعلیمی مرحلوں میں بھی اسے ترجیحی تفوق حاصل رہتا ہے۔

دیگرزبانوں میں اچھے مقامات کا حامل کسی زبان کا ماہر تو شاید ہوجائے لیکن اس زبان میں پڑھائے جانے والا مواد کس حد تک اس کے ذہن نشین ہوا ہے ؟؟؟اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس کی وجہ ایک سادہ سا نفسیاتی جائزہ ہے کہ بچے کی بچگانہ اور محدود ذہنی صلاحیت کو اگر صرف مواد کے سمجھنے پر لگایا جائے تب اس میں کامیابی کے کتنے فیصد امکانات ہوں گے اور جب اس کی ذہنی صلاحیت پر پہلے غیرزبان سمجھنے کا اضافی وغیرفطری بوجھ اور پھر مواد کے سمجھنے کا کام اس کے ذمہ لگایا جائے تب اس کی کارکردگی کتنے فیصد ہوپائے گی۔ اس تجزیے کے نتائج اظہرمن الشمس ہیں جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کوئی غیرزبان سیکھنے میں آدھی صدی بھی صرف کردے تب بھی اس زبان کو بطورمادری زبان کے بولنے والوں کے برابرتو دورکی بات ہے اس کے عشرعشیر جتنا بھی کچھ مقام حاصل نہیں کرپائے گا۔ انسان کی اصل زبان وہی ہے جو اس کی مادری زبان ہے۔ تاہم کوئی بھی قوم اپنی نسل کو غیرزبان سے نجات دلاکر اپنی مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے علوم و معارف میں بہت اعلی مقام یقیناََ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ تخلیقیت کا تعلق ہمیشہ سے مادری زبان سے رہتا ہے۔

مسلمانوں نے اس کرہ ارض پر کم و بیش ایک ہزارسال حکومت کی لیکن کسی قوم کو اس کی مادری زبان یا مقامی تہذیب سے محروم نہیں کیا۔سیکولر گورا سامراج تین سوسال تک انسانوں کی گردنوں پرمسلط رہا اور ہر جگہ اس نے مقامی تہذیب کو تاراج کیا. اپنا تمدن زبردستی مسلط کیا اور علاقائی و مادری زبان چھین کر قوموں کو گونگا بہرا بنانے کا عالمی انسانی مجرم بن گیا۔ اسلام نے فرد کو کسی حد تک غلام رکھنے کی مشروط و محدود اجازت دی تھی لیکن اس سیکولراور لبرل استبداد نے پوری کی پوری قوموں کو اپنا غلام بنایا اور تعلیمی غلامی، تہذیبی غلامی، لسانی غلامی، دفاعی غلامی اور ذہنی غلامی سمیت نہ معلوم کتنی غلامیوں کے طوق ان کی گردنوں میں ڈالے اور اپنی زبان کی ہتھکڑیاں انہیں پہناکر مغربی جمہوری نظام کی بیڑیوں کے ذریعے ان اقوام کی رفتارکار کو انتہائی سست بنادیا تاکہ وہ کبھی بھی ہمارے سے آگے قدم نہ بڑھاکر ہمیشہ ہمارے دست نگر رہیں۔ مادری زبان کا یہ عالمی دن ہر قوم کو یہ احساس دلاتا ہے کہ عالمی گاؤں ’’گلوبل ویلج‘‘ کے نام پر لسانی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں سے کلیتاََ بچایا جائے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی طاغوت کا آلہ کاربننے کی بجائے کل عصری علوم کو دنیا بھر کی مادری زبانوں میں منتقل کرنے کا عالمی انسانی فریضہ سرانجام دے تاکہ کل انسانیت کسی ایک زبان کی اجارہ داری سے نکل کر اس کرہ ارض کو آفاقی و آسمانی تعلیمات کے مطابق امن و آشتی اور پیارومحبت کی آماج گاہ بناسکے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_71.html



No comments:

Post a Comment