چند مشہور جاہلانہ جملے اور ان کے جواب
جملہ: نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑگئے،
جواب: حدیث مبارکہ میں ہے؛
جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑایا
اس نے کفر کا ارتکاب کیا
(اگرچہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)
جملہ: "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے."
جواب: بالکل غلط، بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود دین اسلام میں موجود ہیں،
جن سے تجاوز کرنا جائز نہیں.
جملہ: "نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی-
یعنی ساری زندگی گناہوں میں گزری اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
جواب: 100% غلط... !
بحیثیت مسلمان لاکھوں، کروڑوں گناہ سرزد ہونے کے بعد بھی حج کو جائے گا، تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنے قریب پائے گا.
گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو. اگر سچی توبہ کرکے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے. فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
ترجمہ: اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقیناً بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔
[سورہ طه: آیت نمبر 82]
(”بلی حج کو چلی“ یہ کہنا شعائر اسلام کی توہین ہے اس لئے ایسا کوئی بھی جملہ جس سے اسلام و مسلمین کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، اُس سے گریز کریں۔)
جملہ: آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے
جواب: اللہ فرماتا ہے
```الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً```
“(1440 سال پہلے )
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.“ (سورہ المائدہ,آیت نمبر 3)
جملہ: آخر اللہ کو ہماری یاد آہی گئی
جواب: اللہ فرماتا ہے.
َمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّاً
ترجمہ: تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
[سورہ مريم: آیت نمبر 64]
جملہ: کہاں رہتے ہو؟ اوو خدا کے پچھواڑے؟
جواب: خدا کے لئے کچھ بھی غائب نہیں ہے. تو خود سوچیں اس کا پچھواڑا کیسے ہوسکتا ہے مگر جملہ بولنے والے نے رب العزت کی کتنی بڑی توہین کردی ہے.
جملہ: زمانہ بہت خراب ہوگیا ہے، زمانہ بڑا غدار ہے
جواب: حدیث القدسی: ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے. وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ “میں“ ہوں ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں.
(متفق علیہ)
جملہ: فلاں بہت منحوس ہے وغیرہ وغیرہ۔
جواب: بالکل غلط. یہ وہمی لوگوں کی باتیں ہیں۔ اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ محض توہم پرستی ہے۔
حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
”تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور
جو بُرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،“
سورة النساء (4, آیات نمبر 79)۔
تنبیہ: لہذا اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کون کون سے ایسے جملے بولتے رہتے ہیں اور وہ جملے کتنے بھاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن رہے ہیں اور ہماری آخرت تباہ ہورہی ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہے.
بولنے سے پہلے سوچیں پھر تولیں پھر بولیں اور جب بھی بولیں بامقصد بولیں.
فضول بولنے سے خاموشی لاکھ درجے بہتر ہے.
خود بھی شعوری طور پر بچیں اور دوسروں کی بھی اصلاح فرمائیں۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا واحسن الجزاء فی الدارین (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
-------
عنوان: اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ایسا كہنا كیسا ہے؟
سوال: اکثر لوگ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، میرا سوال ہے کیا اس طرح کے جملہ سے اللہ تعالیٰ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی نہیں؟ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت یہ جملہ کہے تو اس کے ایمان اور نکاح پر کوئی اثر پڑیگا؟ براہ مہربانی جواب جلدی عنایت فرمائیں۔ شکریہ
جواب نمبر: 179808
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 30-18/M=01/1442
”اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں“ اس طرح کا جملہ نہیں کہنا چاہئے۔ اس طرح کہنے سے آدمی کے ایمان و نکاح پر اثر نہیں پڑتا لیکن یہ جملہ (اللہ کے یہاں دیر ہے) بہرحال مناسب نہیں۔ اللہ تعالی کی ذات و صفات ہر قسم کے نقص و کمی سے پاک ہیں۔ اور اللہ تعالی ہر کام کو اپنی مرضی کے مطابق اس کے وقت مقررہ پر انجام دیتے ہیں تو اللہ کے یہاں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/06/blog-post_8.html?m=1
No comments:
Post a Comment