Monday, October 18, 2021

يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلالِ وَجْهِكَ وَلِعَظِيمِ سُلْطَانِكَ دعاء کی تحقیق اور اس دعا کو کب پڑھا جائے؟

عنوان: 
یا رب لک الحمد 
کما ینبغی لجلال وجھک الخ حدیث
سوال: یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک ولعظیم سلطانک مفتی صاحب! سنا ہے کہ اس کا ثواب فرشتے نہیں لکھ سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ خود اس کا ثواب مرحمت فرمائینگے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي،‏‏‏‏ حدثنا صدقة بن بشيرمولى العمريين،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ سمعت قدامة بن إبراهيم الجمحي  يحدث،‏‏‏‏ انه كان يختلف إلى عبدالله بن عمر بن الخطاب،‏‏‏‏ وهو غلام وعليه ثوبان معصفران،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ فحدثنا عبدالله بن عمر،‏‏‏‏ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ حدثهم:‏‏‏‏ "ان عبدا من عباد الله،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ يا رب،‏‏‏‏ لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك،‏‏‏‏ ولعظيم سلطانك،‏‏‏‏ فعضلت بالملكين،‏‏‏‏ فلم يدريا كيف يكتبانها،‏‏‏‏ فصعدا إلى السماء،‏‏‏‏ وقالا:‏‏‏‏ يا ربنا،‏‏‏‏ إن عبدك قد قال مقالة،‏‏‏‏ لا ندري كيف نكتبها،‏‏‏‏ قال الله عز وجل:‏‏‏‏ وهو اعلم بما قال عبده،‏‏‏‏ ماذا قال:‏‏‏‏ عبدي؟ قالا:‏‏‏‏ يا رب،‏‏‏‏ إنه قال:‏‏‏‏ يا رب،‏‏‏‏ لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك،‏‏‏‏ وعظيم سلطانك،‏‏‏‏ فقال الله عز وجل لهما:‏‏‏‏ اكتباها كما قال عبدي،‏‏‏‏ حتى يلقاني،‏‏‏‏ فاجزيه بها".
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا: «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» ”اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے“، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے  «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ  دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا۔
(سنن ابن ماجہ: 405، ط، رحمانیہ کراچی)
مذکورہ بالا حدیث سنن ابن ماجہ میں ذکرکی گئی ہے.
امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس کی سند پر کلام فرمایا ہے۔
هذا إسناد فيه مقال، قدامة بن إبراهيم ذكره ابن حبان في الثقات وصدقه بن بشير لم أر من جرحه ولا من وثقه وباقي رجال الإسناد ثقات. (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: 489، ط دارالکتب العلمیہ بیروت)
اس کی سند میں کلام ہے، قدامہ بن ابراہیم کو علامہ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ قراد دیا ہے اور دوسرا روای صدقہ بن بشیر ہے جوکہ مجہول ہے۔
امام طبرانی نے المعجم الاوسط (101/9، رقم الحدیث: 9249, ط دارالحرمین) میں اس روایت کو ایک اور سند سے نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ "لا يروى هذا الحديث عن عبدالله بن عمر إلا بهذا الإسناد، تفرد به صدقة بن بشير. یہ روایت عبداللہ بن عمر سے صرف اسی سند کے ساتھ مروی ہے اور صدقة بن بشير اس کے نقل کرنے میں متفرد ہیں۔
خلاصہ کلام:
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، لیکن دعاء کے الفاظ درست ہیں، اور اس قسم کی ضعیف روایات فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہیں، اس لئے اس روایت کو ثواب کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں، اور اس کو بیان بھی کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (100728-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
----------------------
عنوان: 
يَا رَبِّ لَكَ الْحَمْدُ 
كَمَا يَنْبَغِي لِجَلالِ وَجْهِكَ 
وَلِعَظِيمِ سُلْطَانِكَ دعاء کی تحقیق 
اور اس دعا کو کب پڑھا جائے؟؟؟

سوال: السلام عليكم، تفسير ابن کثیر میں باب حمد میں (یارب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك) لکھا ہے، اس حمد کو اپنی اولاد کو سکھانے کی غرض سے دسترخوان پر بٹھاکر کھانا کھانے کی دعاء کے بعد تھوڑی دیر تک اس کو پڑھنا ٹھیک ہے؟ اگر اس کا ترجمہ یوں کروں۔ یا اللہ تیری تعریف کروں اتنی اتنی اتنی کہ جتنی آپکی چاہت اور اتنی اتنی اتنی کہ جتنا تیرا نور اور اتنی اتنی اتنی کہ جتنی آپکی عظمت، کیا یہ سب مناسب ہے؟ براہ مہربانی میرے اس سوال کا جواب درس حدیث کے کسی بزرگ استاد سے پوچھ کر دیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی میرے تمام مسلمان بھائی بہنوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ جزاک اللہ خیر

جواب: مذکورہ دعاء سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں وارد ہے۔
حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي , حدثنا صدقة بن بشير مولى العمريين , قال: سمعت قدامة بن إبراهيم الجمحي يحدث , انه كان يختلف إلى عبد الله بن عمر بن الخطاب , وهو غلام وعليه ثوبان معصفران , قال: فحدثناعبد الله بن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , حدثهم:" ان عبدا من عباد الله , قال: يا رب , لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك , ولعظيم سلطانك , فَعَضَّلَتْ بِالْمَلَكَيْنِ , فلم يدريا كيف يكتبانها , فصعدا إلى السماء , وقالا: يا ربنا , إن عبدك قد قال مقالة , لا ندري كيف نكتبها , قال الله عز وجل: وهو اعلم بما قال عبده , ماذا قال: عبدي؟ قالا: يا رب , إنه قال: يا رب , لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك , وعظيم سلطانك , فقال الله عز وجل لهما: اكتباها كما قال عبدي , حتى يلقاني , فاجزيه بها".
(سنن ابن ماجه، كتاب الأدب، بَابُ: فَضْلِ الْحَامِدِين، حدیث نمبر: 3801)

ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا: «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» ”اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں، جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے“، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے، جسے ہم نہیں جانتے کہ کیسے لکھیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا، اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو، جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا“
واضح رہے کہ اس دعا کے پڑھنے اور سیکھنے، سکھانے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، جس وقت چاہیں، پڑھ لیں اور بچوں کو بھی سکھائیں۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی. (103672-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post_65.html




صلوة التوبہ پڑھنے کا طریقہ

عنوان:
صلوة التوبہ
پڑھنے کا طریقہ

سوال: مفتی صاحب! صلاۃ التوبہ کا طریقہ بتا دیجئے۔ جزاك الله خيراً
جواب: توبہ کا افضل طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل "صلاۃ التوبہ"  کی نیت سے پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت اور شرمندگی کے ساتھ  اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کریں، حقوق العباد ذمہ میں ہوں تو ان کی جلد سے جلد ادائیگی یا اصحابِ حقوق سے معافی کی کوشش کریں، گزشتہ فرائض جو باقی ہیں، جیسے: نمازیں، روزے، زکوۃ وغیرہ ان کی ادائیگی کی ترتیب بنائیں، آئندہ کے لیے متبعِ سنت نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، بری صحبت سے اجتناب کریں۔ اگر کسی کا حق ذمے میں باقی ہے اور اس کا انتقال ہوچکا ہو تو اگر مالی حق ہو تو اس کے ورثاء تک وہ رقم پہنچائیں، اگر کوشش کے باوجود ورثاء ملنے کا امکان نہ ہو تو اتنی رقم صاحبِ حق کی طرف سے صدقے کی نیت سے کسی غریب مستحق کو دے دیں اور اگر مالی حق کے علاوہ کوئی حق ہے، مثلاً: کسی کی غیبت کی یا کسی کا دل دکھایا ہو تو صاحبِ حق کے لیے استغفار اور دعا کرتے رہیں، حسبِ توفیق کچھ صدقہ کرکے اس کا ثواب اصحابِ حقوق تک پہنچادیں، اس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں آپ کی معافی پیدا کردیں گے اور وہ روزِ قیامت آپ کو معاف کردیں گے۔

باجماعت صلوة التوبہ پڑھنے کا حکم:

سورج گرہن کے وقت صلاۃ الکسوف، صلاۃ الاستسقاء اور تراویح کے علاوہ کسی بھی نفل نماز کی جماعت کے ساتھ ادائیگی ثابت نہیں ہے، اس لئے فقہاء نے تداعی (یعنی لوگوں کو دعوت دے کر اہتمام) کے ساتھ نفل نماز کی جماعت کرنے کو منع کیا ہے اور اگر پابندی کے ساتھ نفل نماز کی جماعت کی جائے، تب تو سخت کراہت ہے۔
لہذا صلوة التسبیح، صلوة التوبه وغیرہ کو انفرادی طورر پر ادا کرنا چاہئے، جماعت سے ادا کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
وفی الحلبی:
"واعلم أن النفل بالجماعة علی سبيل التداعي مكروه".
(تتمات من النوافل، ص٤٣٢، ط: سهيل اكيدمي)
وفی تنویر الابصار مع الدر المختار
"(ولایصلی الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي؛ بأن يقتدي أربعة بواحد".
(قبيل باب إدراك الفريضة، ج٢، ص٤٨- ٤٩، ط: سعيد)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی (103897-No)
(نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post_4.html


تہجد ‏کے ‏اعمال ‏

تہجد ‏کے ‏اعمال

تہجد کا لغوی معنی بیداری ہے، بعض کہتے ہیں: بیداری اور خواب دونوں کے ہیں، اور تہجد کے شرعی معنی رات کی نماز کے ہیں، یعنی شریعت میں تہجد خاص طور پر رات کی نماز کو کہا جاتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص تہجد کے وقت اٹھ کر نوافل ادا نہ کرسکے، بلکہ کچھ ذکراذکار، دعائیں وغیرہ کرلے، تو اسے تہجد پڑھنے کا ثواب تو نہ ملے گا، البتہ اس وقت کی بابرکت ساعتوں سے وہ محروم نہیں رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کذا فی فتح الباری:

تفسیر التھجد بالشھر معروف فی اللغۃ وھو من الاضداد یقال تہجد اذا سھر وتہجد اذا نام حکاہ الجوہری وغیرہ ومنھم من فرق بینھما فقال ہجرت نمت وتہجدت سشھرت حکاہ ابو عبیدۃ و صاحب العین فعلی ھذا اصل التہجد النوم ومعنی تہجدت طرحت التی النوم وقال الطبری التہجد السھر بعد نومۃ ثم ساقہ عن جماعۃ من السلف وقال ابن الفارس المتہجد المصلی وقال کراع التہجد صلوۃ اللیل خاصۃ۔ (ج: ٣ ص: ۵٩٢)ماخذ: دارالافتاء الاخلاص کراچی. فتوی نمبر: 2426

سوکر اٹھنے کی سنتیں:

نیند سے بیدار ہوتے ہی دونوں ہاتھوں سے چہرہ اور آنکھوں کو ملنا،

اور یہ دعا پڑھنا،

الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا الیہ النشور.
ترجمہ: سب تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ھیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا یے."
جب سوکر اٹھیں تو مسواک کرلیں.
وضو میں دوبارہ مسواک کی جاۓ گی. سوکر اٹھتے ھی مسواک کرلینا علیحدہ سنت ہے.
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین مرتبہ ہاتھوں کو اچھی طرح دھولیں.
(شمائل ص ۱۸. بخاری ص ۹۳۶. ابوداؤد ص ۳۳۵. مشکوۃ ج ۱ ص ۲۰۸)
------
تہجد کی نماز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ سے کوئی خاص دعا وارد نہیں ہے، یہ رات کی عموما طویل نماز ہے، اس نماز میں رب سے جو چاہیں مانگیں، جتنی چاہیں رات کے اندھیرے میں اپنے خالق ومالک کے سامنے آنسو بہائیں ۔ اللہ رات میں بندوں کو خوب نوازتا ہے بلکہ رات میں اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا؟ 

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ رات کو جب کبھی، اچانک بیدار ہوتے تو دس بار ”اللہ اکبر“ کہتے اور دس بار تہلیل کرتے یعنی کہتے۔ لاالہ الا اللہ ”نہیں ہے کوئی حاکم مگر اللہ “۔ اور اس کے بعد دس بار یہ دعا پڑھتے۔ اللھم انی اعوذبک من ضیق الدنیا ومن ضیق یوم القیمة ” اے اللہ میں دنیا کی تنگی اور آخرت کی تنگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضور ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے۔

لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی واسئلک رحمتک اللھم زدنی علما ولا تزع قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمة انک انت الوھاب (ابوداﺅد) ” اے اللہ تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ، تو پاک ہے اور برتر ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں ، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما اور میرے دل کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کر ، اور مجھے اپنی جانب سے رحمت عطا فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا ہے “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو اور کہے۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ الحمد للہ وسبحان اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ” نہیں کوئی حاکم مگر اللہ صرف وہی حاکم ہے ، اسکے ساتھ کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے ، تعریف اسی کی ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، وہی پاک ہے، ہر عیب سے۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ اللہ ہی بڑا ہے، کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ کے ذریعہ ہی ہے، جو بلند اور عظیم ہے “۔ اور پھر وہ یہ دعا کرے۔ اللھم اغفرلی ”اے اللہ ، مجھے بخش دے “۔ یا کوئی اور دعا کرے تو یہ دعا قبول ہوگی اور اگر وہ وضو کرکے نماز بھی ادا کرے تو نماز قبول ہوگی (بخاری)۔ ایک بار حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس رات گزاری۔ فرماتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے آسمان کی طرف سراٹھایا اور سورة آل عمران کی دس آیات انا فی خلق السموت سے آخر تک تلاوت کیں. تہجد کی نماز کے لئے دعائے استفتاح کا ثبوت ملتا ہے، وہ یہ ہے:

«اللهم لك الحمد،‏‏‏‏
أنت نور السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏
ولك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏
ولك الحمد،‏‏‏‏
أنت الحق ووعدك حق،‏‏‏‏
وقولك حق،‏‏‏‏ ولقاؤك حق،‏‏‏‏
والجنة حق،‏‏‏‏ والنار حق،‏‏‏‏
والساعة حق،‏‏‏‏ والنبيون حق،‏‏‏‏
ومحمد حق،
اللهم لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت،‏‏‏‏
وإليك أنبت،‏‏‏‏ وبك خاصمت،
‏‏‏‏ وإليك حاكمت،‏‏‏‏
فاغفر لي ما قدمت وما أخرت،‏‏‏‏ وما أسررت،‏‏‏‏ وما أعلنت،‏‏‏‏ أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت».

ترجمہ: اے اللہ! تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے،
تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں
تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے،
تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں
اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں.
اے اللہ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا،
پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
اس دعاء کے متعلق بخاری میں مذکور ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا قام منَ الليلِ يتهَجَّدُ قال: اللهمَّ لك الحمدُ، (صحيح البخاري: 1120).
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعاء پڑھتے:
اللهم لك الحمدُ....
صحیح بخاری میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں:

كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يدعو من الليلِ: (اللهم لك الحمدُ... (صحيح البخاري: 7385)

اس کا معنی بھی قریب قریب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں یہ دعاء پڑھتے: 

اللهم لك الحمدُ....
صحیح ابن خزیمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مذکور ہے: 

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام للتهجد قال بعد ما يكبر : اللهم لك الحمد.... (صحیح ابن خزیمۃ: 1152)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تجہد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کے بعد کہتے: اللهم لك الحمد....
اس پہ امام ابن خزیمہ نے باب باندھا ہے:
((باب ذكر الدليل على أن النبي إنما كان يحمد بهذا التحميد ويدعو بهذا الدعاء لافتتاح صلاة الليل بعد التكبير لا قبل))
.ترجمہ: اس بات کے ذکر میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے بعد، نہ کہ اس سے پہلے اس حمد اور دعا کے ساتھ تہجد کی نماز کا افتتاح کرتے۔ اب بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز شروع کرتے تو دعائے استفتاح کے طور پر مذکورہ ثنا کے ذریعہ اللہ سے دعا کرتے، اگر کوئی اس کے علاوہ بھی ثنا پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے رات میں سورہ آل عمران کی آخری آیات پڑھیں اس کے لئے پوری رات قیام کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

نمازِتہجد کی نیت کا طریقہ اور تہجد کی نماز کا وقت

سوال: تہجد کی نماز کی نیت کیسے کرتے ہیں اور یہ فجر کی نماز سے کتنا پہلے ادا کی جاتی ہے؟

جواب: 1: نماز تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کررہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد  کی نیت اس طرح کرے: "نَوَیتُ أَن أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْ صَلَاةِ التَّهَجُّدِ سُنَّةَ النَّبِیِّ ﷺ، یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ "میں دوو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں"  اللہ اکبر، نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھے گا،  تب بھی تہجد کی نماز ہوجائےگی۔

2: تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے،  باقی عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہوجائےگی، نیز تہجد کے  لیے سونا شرط نہیں ہے، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ’’معارف القرآن ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے، اور یہ لفظ دو متضاد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اور جاگنے بیدارہونے کے بھی ...... اسی رات کی نماز کو اصطلاح شرع میں نمازتہجد کہا جاتا ہے،اور عموماً اس کا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ کچھ دیر سوکر اٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ نماز تہجد ہے، لیکن تفسیر مظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت (ومن اللیل فتهجدبه) کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نماز کے لیے سونے کو ترک کردو، اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے اسی طرح شروع ہی میں نماز کے لیے نیند کو مؤخرکرکے نمازپڑھنے پر بھی صادق ہے، اس لیے نماز تہجد کے لیے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں، پھر بعض روایات حدیث سے بھی تہجد کے اسی عام معنی پر استدلال کیا ہے۔ امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجد کی جو تعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہر اس نمازپرصادق ہے جو عشاء کے بعد پڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیند کے بعد پرمحمول کیا جائے گا‘‘۔

اس کا حاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہونا شرط نہیں، اور الفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں، لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہا ہے کہ نمازآخر رات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی‘‘۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وروى الطبراني مرفوعا «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل» وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ." (کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:24، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144209201757- دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post_18.html


Tuesday, October 12, 2021

کھانے ‏کے ‏آداب

کھانے کے آداب 
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
ارباب عقل و دانش کا مقصد حیات یہ ہے کہ وہ جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا شرف حاصل کریں، لیکن اس شرف کے حصول کا ذریعہ علم و عمل کا مجموعہ ہے۔علم کی تحصیل اور عمل کی مداومت جسمانی قوت و طاقت اور سلامتی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور جسم کی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ انسان بھوک کے وقت، ضرورت کے مطابق غذا استعمال کرے۔ اسی لئے کسی بزرگ کا قول ہے کہ کھانا بھی دین کا ایک جزء ہے۔ پروردگار عالم نے بھی غذا کی اہمیت سے آگاہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:-
كُلُوا مِنَ الطَّيِّباتِ وَ اعْمَلُوا صالِحاً۔ 
پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو اور نیک عمل کرتے رہو۔ (سورۃ المؤمنون۔ آیت 51)۔​
جو شخص علم، عمل اور تقویٰ پر قدرت حاصل کرنے کے لئے کھانا کھائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو قابو میں رکھے، جانوروں کی طرح منھ نہ چلائے، کیونکہ کھانا دین کا جزء ہے اور علم و عمل کا واحد ذریعہ ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس عمل میں بھی دین کے انوار ظاہر ہوں۔ دین کے انوار سے ہماری مراد کھانے کے آداب و سنتیں ہیں۔ کھانے والے کو چاہئے کہ وہ ان آداب و سنن کی رعایت کرے تاکہ نفس بے مہار نہ ہو۔ کھانے کا عمل شریعت کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ آداب و سنن کی رعایت کے ساتھ کھانے کا استعمال نہ صرف یہ کہ اجر و ثواب کا باعث ہوگا بلکہ اس کے ذریعہ گناہوں سے بچنے کی توفیق بھی ہوگی۔ احادیث سے ثابت ہے کہ بندہ کو اس لقمے کا ثواب بھی دیا جاتا ہے جو وہ اپنی بیوی کے منھ میں ڈالتا ہے۔ (بخاری-سعد ابن ابی وقاص)۔ یہ اجرو ثواب اس صورت میں ہے کہ انسان محض دین کی خاطر اور دین کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق یہ لقمہ کھلائے۔ ذیل کے ابواب میں ہم کھانے پینے کے آداب بیان کرتے ہیں۔
کھانے کے آداب: کھانا چار طریقوں پر کھایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ تنہا کھائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مجمع کے ساتھ کھائے، تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آنے والے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کرے اور چوتھا طریقہ یہ ہے کہ دعوت وغیرہ کی تخصیص ہوجائے۔ ذیل میں ہم ان چار طریقوں کے آداب الگ الگ بیان کریں گے۔
تنہا کھانے کے آداب:-
ان میں سے کچھ آداب کھانا کھانے سے پہلے کے ہیں، کچھ کا تعلق کھانے کے وقت سے ہے اور کچھ فراغت کے بعد سے متعلق ہیں۔ کھانے سے پہلے درج ذیل سات آداب ملحوظ رہنے چاہئیں۔
پہلا ادب: یہ ہے کہ کھانا حلال ہو، پاک و طاہر ہو اور جائز طریقے سے شریعت اور تقویٰ کے تقاضوں کے مطابق حاصل کیا گیا ہو۔ حصول رزق کی خاطر نہ دین میں مداہنت کی جائے، نہ خواہشات نفسانی کا اتباع کیا جائے اور نہ وہ ذرائع استعمال کئے جائیں جو شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و طیب رزق کھانے کا حکم دیا ہے اور باطل طریقے پر مال کھانے سے منع کیا ہے، یہ ممانعت قتل کی ممانعت پر مقدم ہے۔ اس سے اکل حلال کی اہمیت اور اکل حرام کی قباحت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ فرمایا:-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ۔
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ، لیکن تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو۔ (سورۃ النساء، آیت نمبر 29)​
دوسرا ادب: یہ ہے کہ کھانے سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: -
الوضوء قبل الطعام ينفي الفقر وبعده ينفي اللمم۔ 
کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا غربت دور کرتا ہے، اور کھانے بعد ہاتھ دھونا رنج دور کرتا ہے۔ (مسندالشہاب۔ موسیٰ الرضا)​
ہاتھ دھونے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ کام کرنے سے ہاتھ گرد آلود ہو جاتے ہیں۔ نظافت کا تقاضہ یہ ہے کہ دسترخوان پر بیٹھنے سے پہلے انہیں دھولیا جائے۔ جس طرح نماز عبادت ہے اور اس سے پہلے وضو کیا جاتا ہے، اسی طرح کھانا بھی عبادت ہے، اس سے پہلے بھی ہاتھ دھونے چاہئیں۔
تیسرا ادب: یہ ہے کھانا اس دسترخوان پر رکھا جائے جو زمین پر بچھا ہوا ہو۔ اونچا دسترخوان رکھنے کی بہ نسبت یہ فعل رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ مبارک سے زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب آپ کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تو آ پ اسے زمین پر رکھتے۔ (احمد-عن حسن مرسلاً)
زمین پر کھانا رکھ کھانا تواضع اور انکساری کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو دسترخوان پر رکھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوان اور کشتی پر کبھی کھانا نہیں کھایا، لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ لوگ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے۔ فرمایا، دسترخوان پر۔ (بخاری)۔ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چار چیزیں نئی پیدا ہوئی ہیں، اونچے دسترخوان، چھلنیاں، اشنان اور شکم سیر ہوکر کھانا۔ یہاں یہ بات واضح کردینی چاہئے کہ دسترخوان پر کھانا بہتر ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اونچے دسترخوان پر کھانا ناجائز یا مکروہ ہے۔ اس سلسلے میں کوئی ممانعت ثابت نہیں ہے۔ ان چیزوں کو نو ایجاد کہا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نو ایجاد چیز بدعت نہیں ہے، بلکہ بدعت وہ ہے جس کے مقابل کوئی سنت ہو، اور اس سے شریعت کے کسی حکم کی نفی ہورہی ہو۔ بلکہ بعض حالات میں اسباب کے تغیر اور تبدیلی کی وجہ سے بدعت کا ایجاد کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اونچے دسترخوان میں صرف یہ مصلحت ہے کہ کھانا زمین سے بلند رہے، اور کھانے میں سہولت ہو، اس طرح کی کوئی مصلحت خلاف شریعت نہیں ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی کوئی کراہت ہے۔
چوتھا ادب: یہ ہے کہ دسترخوان پر مسنون طریقے کے مطابق بیٹھے اور آخر تک اسی طرح بیٹھا رہے۔ چنانچہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی دوزانو ہوکر اپنے دونوں پاؤں کی پشت پر بیٹھتے، اور کبھی دایاں پاؤں کھڑا کرلیتے اور بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور کھانا تناول فرماتے۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں تکیہ لگاکر کھانا نہیں کھاتا۔ (بخاری ) تکیہ لگاکر پانی پینا معدہ کے لئے مضر ہے، تکیہ لگاکر یا لیٹ کر کھانا کھانا مکروہ ہے اور صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔
پانچواں ادب: یہ ہے کہ کھانے میں لذت، آرام طلبی اور عیش کوشی کی نیت نہ کرے بلکہ یہ نیت کرے کہ کھانے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت پر قدرت حاصل ہوگی۔ بندے کے کھانا بھی اطاعت ہی ہونا چاہئے۔ کم کھانے کی بھی نیت کرے کیونکہ عبادت کی نیت اسی وقت معتبر ہوگی جب کم کھانے کا ارادہ ہوگا، شکم سیر ہوکر کھانا عبادت کے لئے مانع ہے۔ اس نیت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ کھانے کی طرف اسی وقت ہاتھ بڑھائے جب بھوک محسوس کرے۔ اس کے بعد یہ ضروری ہے کہ شکم سیر ہونے سے پہلے کھانے ہاتھ کھینچ لے۔ جو شخص بھوک کے وقت کھانا کھائے گا، اور کم کھائے گا وہ کبھی ڈاکٹر کا محتاج نہیں ہوگا۔
چھٹا ادب: یہ ہے کہ جو کھانا موجود ہو اسی پر خوش رہے، لذت کام و دہن کی خاطر زیادہ کی جستجو نہ کرے۔ اگر دسترخوان پر صرف روٹی ہو تو اس کی تعظیم کا تقاضہ یہ ہے کہ سالن کا انتظار نہ کیا جائے، روٹی کی تعظیم کا یہ حکم احادیث میں ہے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت آجائے اور وقت میں گنجائش ہو تو پہلے کھانا کھالے۔ نماز پر کھانے کی تقدیم میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ نماز میں دلجمعی رہے گی، دھیان نہیں بٹے گا۔
ساتواں ادب: یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ کھلانے کی کوشش کرے، خواہ اپنے بچوں کو ساتھ بٹھا کر کھلائے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
فاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ۔
اپنے کھانے پر جمع رہو یعنی مل کر اور اللہ کا نام لے کر کھاؤ، اس سے تمہارے کھانے میں برکت ہو گی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ-وحشی ابن حرب)
ذیل میں وہ آداب بیان کیے جا رہے ہیں جن کا تعلق عین کھانے کی حالت سے ہے۔ اس میں پہلا ادب یہ ہے کہ بسم اللہ سے ابتدا کرے، اور آخر میں الحمدللہ کہے۔ اگر ہر لقمے کے ساتھ بسم اللہ کہے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ یہ ثابت ہو کہ کھانے کی ہوس نے اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کیا۔ اس موقع پر بلند آواز سے بسم اللہ کہنا اچھا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی توفیق ہو جائے اور وہ بھی یہ سعادت حاصل کر سکیں۔ دائیں ہاتھ سے کھانا کھائے۔ نمکین چیز سے شروع کرے اور آخر میں بھی نمکین چیز کھائے۔ لقمہ چھوٹا ہونا چاہیے۔ کھانا اچھی طرح چبا کر کھائے۔ جب تک پہلا لقمہ ختم نہ ہو دوسرے لقمے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ منھ کا کھانا ختم کیے بغیر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانا عجلت پسندی پر دلالت کرتا ہے، اس سے پرہیز کرے۔ کسی کھانے کی برائی نہ کرے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کھانے کی برائی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کا معمول یہ تھا کہ اگر کھانا پسند ہوتا تو تناول فرما لیتے ، ناپسند ہوتا تو چھوڑ دیتے۔ (بخاری و مسلم -ابوہریرہ)۔
کھانا ہمیشہ اپنے سامنے سے کھانا چاہیے، ہاں اگر پھل، خشک میوے یا مٹھائی وغیرہ ہو تو دوسرے طرف سے اٹھا کر کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ارشاد نبوی ہے: کل مما یلیک ۔ یعنی کھانا اس طرف سے کھاؤ جو تمہارے قریب ہو۔ (بخاری و مسلم-عمر بن ابی سلمہ)۔ پیالے یا پلیٹ کے درمیان سے مت کھائے، روٹی بھی درمیان سے نہیں کھانی چاہیے، مثلاً اس طرح کہ درمیانی حصہ کھا لے اور کنارے چھوڑ دے۔ اگر روٹی توڑنے کی ضرورت پیش آئے تو ٹکڑا توڑلے، لیکن چھری وغیرہ سے نہ کاٹے (ابن حبان-ابوہریرہ)۔ پکا ہوا گوشت بھی چھری سے نہ کاٹے بلکہ دانتوں سے کاٹ کر کھائے، حدیث میں چھری وغیرہ سے گوشت کاٹنے سے منع فرمایا گیا ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ دانتوں سے گوشت جدا کرو (ابن ماجہ- صفوان بن امیہ، ترمذی، ابن ماجہ-عائشہ)
پیالہ وغیرہ روٹی کے اوپر نہ رکھنا چاہیے، البتہ روٹی پر سالن رکھا جا سکتا ہے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: 
أكرموا الخبز، فان الله تبارك وتعالى أنزلہ من بركات السماء۔ 
یعنی روٹی کی تعظیم کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی برکتوں کے ضمن میں روٹی نازل کی ہے۔ (حاکم-عائشہ) روٹی سے ہاتھ صاف کرنا بھی بے ادبی ہے، ارشاد نبوی ہے:
إذا وقعت لقمة أحدكم فليأخذها فليمط ما كان بها من أذى وليأكلها ولا يدعها للشيطان، ولا یمسح یدہ بالمندیل حتی یلعق اصا بعہ فانہ لا یدری فی ای طعامہ تکون البركة۔ 
یعنی اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھالے، اور جو مٹی وغیرہ لگ گئی ہو وہ صاف کر لے اور اس لقمے کو شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے۔ اور جب تک کھانے کے بعد انگلیاں نہ چاٹ لے رومال سے صاف نہ کرے، اسے کیا معلوم کہ برکت کس کھانے میں ہے۔ (مسلم-انس و جابر)
گرم کھانے کو پھونک مار کر ٹھنڈا کرنا بھی مکروہ ہے، بلکہ اگر کھانا گرم ہوتو تھوڑی دیر صبر کرے۔ چھوارے، کھجور اور میوے وغیرہ طاق کھائے۔ کھجور اور گٹھلی ایک برتن میں جمع نہ کرے، نہ ہاتھ میں رکھے بلکہ منھ سے گٹھلی نکال کر ہاتھ کی پشت پر رکھے اور نیچے ڈال دے۔ ہر اس چیز کا جس میں گٹھلی یا بیج وغیرہ ہو یہی حال ہے۔ ہڈی وغیرہ چیزوں کو کھانے کے برتن میں نہ رکھے بلکہ الگ ڈال دے۔ کھانے کے دوران زیادہ پانی نہ پیے، البتہ اگر حلق میں کچھ پھنس جائے تو پینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ کھانے کے دوران زیادہ پانی پینے سے معدہ کو نقصان پہنچتا ہے۔
پانی پینے کے آداب یہ ہیں کہ گلاس یا کٹورے وغیرہ کو دائیں ہاتھ میں لے، بسم اللہ پڑھ کر پیے، آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے کر پیے۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
مصوا الماء مصا، ولا تعبوه عبا، فإن الكباد من العب۔ 
یعنی پانی چوس کر پیو، بڑے گھونٹ لگاتار مت پیو، اس سے جگر کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ (ابومنصور دیلمی-انس)
کھڑے ہو کر اور لیٹ کر پانی نہیں پینا چاہیے۔ جس برتن میں پانی پیے اس کے زیریں حصے کو اچھی طرح دیکھ لے کہ کہیں سے پانی تو نہیں ٹپک رہا۔ پینے سے پہلے پانی پر نظر ڈال لے کہ کوئی کیڑا وغیرہ پانی میں نہ ہو۔ پانی پیتے ہوئے ڈکار نہ لے، نہ سانس لے بلکہ ضرورت ہو تو برتن منھ سے الگ کر دے ، پھر سانس لے اور الحمدللہ کہے۔ پیاس باقی ہو تو بسم اللہ کہہ کر دوبارہ شروع کرے۔
اگر بہت سے لوگ ایک وقت میں ایک ہی برتن سے پانی پئیں تو دائیں جانب سے آغاز کرنا چاہیے۔ پانی تین سانس میں پیے، ابتداء میں بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ کہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر شروع کرے، پہلے سانس پر الحمدللہ، دوسرے سانس پر الحمدللہ رب العالمین اور تیسرے سانس پر الحمدللہ رب العالمین الرحمٰن الرحیم کہے۔
کھانے کے بعد کے آداب یہ ہیں کہ پیٹ بھرنے سے پہلے ہاتھ روک لے، انگلیاں چاٹے، انہیں رومال سے صاف کرے، پھر پانی سے دھوئے۔ دسترخوان پر پڑے ہوئے ریزے اٹھا کر کھا لے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: 
من اکل ما یسقط من المائدہ عاش فی سعۃ وامن من الفقر والبرص الجذام وصرف عن ولدۃ الحمق۔ 
یعنی جو شخص دسترخوان سے ریزے اٹھاکر کھائے گا اسے رزق میں وسعت حاصل ہوگی اور وہ فقرو تنگدستی، برص اور جذام سے محفوظ رہے گا اور اسے بیوقوف اولاد نہیں دی جائے گی۔ (کتاب الثواب- جابر)
کھانے کے بعد خلال کرے، خلال کرنے سے جو ریزے وغیرہ نکلیں انہیں تھوک دے، البتہ زبان کی نوک سے جو ریزے نکلیں انہیں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خلال کے بعد کلی کرے۔ اس سلسلے میں اہل بیت رضوان االلہ علیہم اجمعین سے ایک اثر بھی منقول ہے، برتن میں لگا ہوا سالن چاٹ لے اور اس کا دھوون پی لے، اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ دل میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا شکر ادا کرے کہ اس نے کھانا کھلایا اور بہترین رزق عطا کیا۔ حلال غذا کھانے کے بعد یہ دعا پڑھ لے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ 
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان یعنی فرمانبردار بنایا۔۔۔​
اجتماعی طور پر کھانے کے آداب:-
یہ آداب ان آداب کے علاوہ ہیں جو تنہا کھانے میں ملحوظ رہنے چاہئیں۔
پہلا ادب: یہ ہے کہ اگر مجمع میں کوئی شخص عمر یا علم و فضل میں سب سے بڑا ہو تو خود کھانے کی ابتدا نہ کرے بلکہ بڑوں کا انتظار کرے۔ لیکن اگر خود مقتدا ہو تو کھانے والوں کے جمع ہو جانے کے بعد شروع کر دے، لوگوں کو زیادہ انتظار کی زحمت نہ دے۔
دوسرا ادب: یہ ہے کہ کھانے کے وقت خاموش نہ رہیں۔ عجمیوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ دسترخوان پر بیٹھنے کے بعد ایک دوسرے سے گفتگو نہیں کرتے تھے، مسلمانوں کو ان کی عادت اختیار نہ کرنی چاہئے، بلکہ کھانے کے وقت اچھی باتیں کریں، سلف صالحین کے وہ قصے اور اقوال بیان کریں جو کھانے وغیرہ سے متعلق منقول ہیں۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ اپنے اس رفیق کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے جو کھانے میں اس کا شریک ہے، یعنی اس سے زیادہ کھانے کا ارادہ نہ کرے۔ اگر شریک الطعام کی مرضی یہ ہو کہ اس کا رفیق کم کھائے تو زیادہ کھانا حرام ہو جاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے شریک الطعام کے لیے ایثار کرے، ایک مرتبہ میں دو کھجوریں نہ کھائے، اگر دوسرے لوگ ایک ایک کھجور کھا رہے ہوں تو اجازت کے بغیر زیادہ کھانا صحیح نہیں ہوگا۔ اگر شریک الطعام کم کھارہا ہو تو اسے کھانے کی ترغیب دے، اور کھانے کے لیے کہے، لیکن تین مرتبہ سے زیادہ نہ کہے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایک بات تین مرتبہ سے زیادہ نہیں فرمایا کرتے تھے. (بخاری-انس)۔
چوتھا ادب: یہ ہے کہ اس طرح کھائے کہ شریک الطعام کو کہنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ایک عالم فرماتے ہیں کہ بہترین کھانے والا وہ ہے جس کے ساتھی کو کہنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ لو گوں کے دیکھنے کی وجہ سے وہ چیز چھوڑدے جس کی خواہش ہو، یہ تکلف ہے، بلکہ دسترخوان پر بیٹھنے کے بعد وہی عمل کرنا چاہیے جس کا تنہائی میں عادی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تنہائی میں بھی آداب کی رعایت ہونی چاہیے تاکہ مجمع میں تکلف نہ ہو۔ تاہم اگر مجمع میں اس خیال سے کم کھائے کہ دوسرے لوگ زیادہ کھا لیں، یا یہ نقطہ نظر ہو کہ صاحب خانہ کو کفایت ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر دوسرے لوگوں کا ساتھ دینے کے خیال سے زیادہ کھا لے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ یہ دونوں عمل مستحسن ہیں۔
حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا دستور یہ تھا کہ اپنے دوستوں کے سامنے عمدہ عمدہ کھجوریں رکھتے جاتے اور فرماتے کہ جو شخص زیادہ کھجوریں کھائے گا اسے ایک گٹھلی کے بدلے میں ایک درہم دوں گا۔ چنانچہ کھانے کے بعد گٹھلیاں گنی جاتیں اور زیادہ کھانے والے کو انعام دیا جاتا۔ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ طریقہ کار حجاب دور کرنے اور نشاط و رغبت پیدا کرنے میں بڑا مؤثر ہے۔ جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے دوستوں میں سب سے زیادہ محبت اس شخص سے ہے جو سب سے زیادہ کھائے، اور بڑے بڑے لقمے اٹھائے، وہ شخص میرے لئے بوجھ بن جاتا ہے جو کھانے کے دوران اپنی خبرگیری کروائے۔ جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ دوستوں کی محبت کی پہچان یہ ہے کہ وہ اس کے گھر آکر اچھی طرح کھائیں۔۔۔
پانچواں ادب:- سلفچی = (برتن جو مہمانوں کے ہاتھ منھ دھلوانے کے لیے استعمال ہوتا تھا، آج کل واش بیسن ہوتا ہے)۔
سلفچی میں ہاتھ دھونے کو برا نہیں سمجھا گیا ہے، اس میں تھوک بھی سکتا ہے اور کلی بھی کر سکتا ہے لیکن مجمع عام میں ایسا نہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص تعظیم کے خیال سے سلفچی پیش کرے تو قبول کر لے۔ ایک سلفچی میں متعدد لوگ بیک وقت ہاتھ دھو سکتے ہیں بلکہ یہی صورت تواضع سے زیادہ قریب ہے۔ یہ ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ ایک شخص کے دھونے کے بعد پانی پھینک دیا جائے پھر دوسرا شخص دھوئے، بلکہ سلفچی میں پانی اکٹھا ہونا افضل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک طشت میں سب مل کر ہاتھ دھویا کرو۔ کلی آہستہ سے کرے، ہاتھ بھی آہستہ آہستہ دھوئے تاکہ پانی کے چھینٹے دوسرے لوگوں پر نہ پڑیں ، اور نہ پانی فرش پر گرے۔ صاحب خانہ کو چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کے ہاتھ خود دھلوائے۔
چھٹا ادب: یہ ہے کہ ساتھ کھانے والوں کو نہ تکے اور نہ ان کے کھانے پر نظر رکھے، بلکہ نگاہیں نیچی رکھے اور کھانے میں مشغول رہے۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ اس کے کھانے کے بعد لوگ ہاتھ روک لیں گے اور کھانے سے گریز کریں گے تو ہاتھ نہ روکے، بلکہ آہستہ آہستہ کھاتا رہے تاکہ دوسرے لوگ اطمینان کے ساتھ فارغ ہو جائیں۔ اگر کسی وجہ سے کھانے کی خواہش نہ ہو تو معذرت کر دے تاکہ لوگ بدستور کھانے میں مشغول رہیں۔
ساتواں ادب: یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کرے جو دوسروں کو برا معلوم ہو ، مثلاً یہ کہ پیالے میں ہاتھ نہ جھاڑے، نہ لقمہ اٹھاتے ہوئے کھانے کے برتنوں پر اپنا سر جھکائے۔ اگر منھ میں سے کوئی چیز نکال کر پھینکنی ہو تو کھانے والوں کی طرف سے رخ پھیر کر بائیں ہاتھ سے نکالے۔ چکنائی سے آلودہ لقمے کو سرکہ میں نہ ڈبوئے اور نہ سرکہ سے تر لقمے کو چکنائی کے برتن میں ڈالے۔ دانت سے کاٹا ہوا ٹکڑا شوربے یا سرکے وغیرہ میں نہ ڈالے۔ گندی اور طبیعت مکدر کرنے والی گفتگو سے بھی اجتناب کرے۔
(امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے "آداب الاکل" کے ابواب نہایت شرح و بسط سے بیان کئے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ اہم باتیں کسی قدر اختصار کے ساتھ پیش کردی جائیں)۔
کھانا پیش کرنے کے آداب:-
پہلا ادب: یہ ہے کہ کھانے وغیرہ کی تیاری میں کسی قسم کا کوئی تکلف نہ کرے بلکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو پیش کردے۔ اگر گھر میں کچھ نہ ہو اور نہ اتنا روپیہ پاس ہوکہ انتظام کرسکے تو قرض لے کر اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض علماء نے تکلف کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اپنے دوستوں کو وہ چیز کھلائے جو خود نہ کھائے، یعنی معیار سے عمدہ اور قیمتی کھانا انہیں کھلائے۔ فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تکلف کی وجہ سے لوگوں کا ملنا جلنا کم ہوگیا ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں ایک دوست کے پاس جایا کرتا تھا، وہ میرے لئے تکلف کرتے اور کھانے میں زبردست اہتمام کرتے ۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ تنہائی میں نہ تم ایسا کھانا کھاتے ہو اور نہ میں کھاتا ہوں، پھر اس تکلف اور اہتمام کی کیا ضرورت ہے۔ اب صرف دو راستے ہیں، یا تو تم اس تکلف کو بالائے طاق رکھ دو یا میں آنا موقوف کردوں۔ میرے دوست نے تکلف ختم کردیا، اس بے تکلفی کی بنا پر ہم ہمیشہ ساتھ رہے اور کبھی کسی قسم کی کدورت پیدا نہیں ہوئی۔
دوسرا ادب: آنے والے کے لئے ہے کہ وہ اپنے میزبان سے کسی متعین چیز کی فرمائش نہ کرے۔ بعض اوقات اس کی خواہش کی تکمیل دشوار ہوتی ہے۔ اگر میزبان اپنے مہمان کو کھانے کی تجویز کا اختیار دے تو وہ کھانا تجویز کرے جس کا حصول آسان ہو اور جس کی تیاری میں میزبان کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہی مسنون طریقہ ہے کہ جب بھی حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپ نے وہی چیز پسند فرمائی جو سہل الحصول تھی۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ میزبان اپنے مہمان کو کھانے پر آمادہ کرے اور اس کی خواہش دریافت کرے، مگر شرط یہ ہے کہ میزبان کی طبیعت اس فرمائش کی تکمیل کے لیے آمادہ ہو، اس سلسلے میں دل پر جبر کرنا صحیح نہیں ہے۔
چوتھا ادب: یہ ہے کہ آنے والے سے یہ مت دریافت کرے کہ آپ کے لیے کھانا لاؤں؟ گھر میں جو کچھ پکا ہو ، لا کر سامنے رکھ دے۔ ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارا کوئ بھائی تم سے ملنے آئے تو اس سے یہ مت پوچھو کہ کیا آپ کھائیں گے، یا میں کھانا لاؤں؟۔ بلکہ تم کھانا لے آؤ، اگر وہ کھا لے تو بہتر ہے، ونہ واپس لے جاؤ۔
مہمان سے متعلق آداب:-
یہ طریقہ مسنون نہیں ہے کہ کسی کے پاس بلا اطلاع کھانے کا وقت ملحوظ رکھ کر پہنچے، یہ اچانک آنے میں داخل ہے۔ اگر کوئی شخص اچانک کھانے کے وقت پہنچا، لیکن اس کا مقصد کھانا نہیں تھا تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب تک صاحب خانہ اجازت نہ دے کھانے میں شریک نہ ہو، صاحب خانہ کھانے کے لیے کہے تو کھانے میں تامل کرے اور عذر کردے، ہاں اگر دیکھے کہ صاحب خانہ براہ محبت کھانے کے لیے بلا رہا ہے اور دل سے اس کی شرکت کا متمنی ہے تو شریک ہو جائے۔ اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور اپنے کسی بھائی کے پاس کھانے کے وقت کا لحاظ کئے بغیر اس غرض سے جائے کہ وہ اسے کھانا کھلا دے گا تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
اگر یہ یقین ہو کہ صاحب خانہ اس کا بہترین دوست ہے، وہ اس کی آمد سے اور کھانے سے خوش ہوتا ہے، تو اس کی اجازت کے بغیر بھی کھاسکتا ہے، کیونکہ اجازت کا مقصد رضا ہے اور صورت حال مستقل رضا مندی پر دلالت کرتی ہے۔ بعض لوگ مہمانوں کو کھانے کے لیے قسم دے کر مجبور کرتے ہیں اور صریح طور پر اجازت دے دیتے ہیں لیکن دل میں رضا مندی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا کھانا اجازت کے باوجود مکروہ ہے۔ بعض لوگ گھر پر موجود نہیں ہوتے اور نہ صراحتاً اجازت دیتے ہیں لیکن دل میں وہ مہمانوں کے آنے اور ان کے کھانے سے خوشی محسوس کرتے ہیں، ایسے لوگوں کا کھانا اچھا ہے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے، بریرہ رضی اللہ عنہا اس وقت کہیں گئی ہوئی تھیں۔ آپ نے ان کا کھانا تناول فرمایا۔ وہ کھانا کسی نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ کیا تھا، آپ نے فرمایا: 
بلغت الصدقۃ محلھا۔ 
یعنی صدقہ اپنے ٹھکانے لگ گیا۔ (بخاری ومسلم-عائشہ) آپ نے حضرت بریرہ کا کھانا ان کی اجازت کے بغیر اسی لیے تناول فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ جب بریرہ کو معلوم ہوگا تو وہ بے حد خوش ہوگی۔ گھر میں داخل ہونے کی اجازت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔
ضیافت کرنے اور کھانا کھلانے کے فضائل:-
ضیافت کرنے اور مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کرنے کے بڑے فضائل ہیں۔ جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ جب تم اپنے بھائیوں کے سامنے دسترخوان پر بیٹھو تو دیر تک بیٹھے رہو، اس لئے کہ یہ گھڑی تمہاری عمر میں محسوب نہیں ہوگی۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی ذات پر، ماں باپ، اہل و عیال اور دوسرے رشتہ داروں پر جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کا حساب لیا جائے گا لیکن جو خرچ برادران اسلام کو کھانا کھلانے میں ہوتا ہے اس کا محاسبہ نہیں ہوگا۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: 
لا تزال الملائکۃ تصلی علیٰ احدکم ما دامت مائدتہ موضوعۃ بین یدیہ حتیٰ ترفع۔ 
یعنی فرشتے تم میں سے ایک شخص کے لئے رحمت کی دعا میں مشغول رہتے ہیں جب تک کہ اس کا دسترخوان اس کے سامنے بچھارہے اور اٹھ نہ جائے۔ (طبرانی۔ عائشہ)
خراسان کے بعض علماء کے متعلق منقول ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کے سامنے اتنا کھانا رکھتے تھے کہ ان سے کھایا نہیں جاتا تھا، فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کا علم ہے کہ جب بھائی کھانے سے ہاتھ روک لیں تو جو شخص ان کا بچا ہوا کھانا کھاتا ہے، اس کھانے کا حساب نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر میں بہترین زاد راہ رکھنا اور دوستوں کی خاطر خرچ کرنا بڑائی کی علامت ہے۔ عہدصحابہ میں یہ بھی دستور تھا کہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کے لئے جمع ہوتے اور کچھ نہ کچھ کھاکر رخصت ہوتے۔ کہتے ہیں کہ محبت اور اخلاص کے ساتھ بھائیوں کا اجتماع دنیاوی عمل نہیں بلکہ دینی عبادت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ يقولُ يَومَ القِيامَةِ: يا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي، قالَ: يا رَبِّ وكيفَ أُطْعِمُكَ؟ وأَنْتَ رَبُّ العالَمِينَ، قالَ: أما عَلِمْتَ أنَّه اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أما عَلِمْتَ أنَّكَ لو أطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذلكَ عِندِي۔ یعنی قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمائیں گے، اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ شخص کہے گا۔ اے میرے رب میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ عزوجل فرمائیں گے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا لیکن تم نے اسے نہیں کھلایا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اگر تم اس کو کھانا کھلاتے تو اس کا ثواب میرے پاس پاتے۔ (صحیح مسلم-ابو ہریرہ)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے لئے بیٹھنے سے پہلے ایسے لوگوں کی تلاش میں جاتے جو کھانے پر آپ کا ساتھ دے سکیں۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:
یا رسول اللہ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ قَالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ۔ 
یعنی کیسا اسلام بہترین ہے؟ فرمایا، کھانا کھلانا اور سلام کہنا۔ صحیح بخاری و مسلم)۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: 
لا خیر فیمن لا یضیف۔ 
یعنی جو شخص مہمان کی ضیافت نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔ (احمد-عقبہ بن عامر)۔
ضیافت کے آداب:-
پہلا ادب: دعوت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ فسّاق و فجار کی دعوت نہ کرے، بلکہ نیک اور پرہیزگار لوگوں کو مدعو کرے۔ کسی شخص نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:
أَكَلَ طَعَامَكُ الْأَبْرَارُ، یعنی تیرا کھانا نیک لوگ کھائیں (ابوداؤد-انس)۔
دوسرا ادب: یہ ہے کہ فقراء کی دعوت کرے اور خاص طور پر مال داروں کو مدعو نہ کرے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
شرالطعام الطعام الوليمة، يدعى لها الأغنياء ويترك الفقراء۔ 
یعنی بدترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں مال داروں کو دعوت دی جائے اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے۔ (بخاری و مسلم-ابوہریرہ)۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ دعوتوں میں اپنے اعزہ و اقرباء کو ضرور بلائے، انہیں مدعو نہ کرنا قطع رحمی کے مترادف ہے۔ دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں کی دعوت میں ترتیب ملحوظ رکھے، ایسا نہ ہوکہ بعض لوگوں کی دعوت سے بعض دوسرے لوگوں کو شکایت کا موقع ملے اور انہیں تکلیف ہو۔
چوتھا ادب: یہ ہے کہ دعوت سے فخرو مباہات اور نام و نمود کی نیت نہ کرے بلکہ داعی کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے بھائیوں کے دل اپنی طرف مائل کررہا ہے اور کھانا کھلانے اور مؤمنین کے دلوں کو خوش کرنے کے سلسلے میں سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کی اتباع کررہا ہے۔
پانچواں ادب: یہ ہے کہ ان لوگوں کی دعوت سے گریز کرے جن کے بارے میں یہ علم ہو کہ وہ اپنے اعذار کے باعث شریک نہ ہوسکیں گے، یا یہ کہ اس طرح کی دعوتیں ان کے مزاج کے خلاف ہیں۔ وہ بھی آگئے تو حاضرین کی موجودگی ان کے لئے زحمت و پریشانی کا باعث ہوگی۔
چھٹا ادب: یہ ہے کہ دعوت صرف ان لوگوں کی کرے جن کی قبولیت کا دل سے خواہش مند ہو، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کی دعوت کی جائے کہ دل سے اس کی آمد ناپسند ہو تو داعی پر ایک گناہ ہوگا، اور اگر مدعو نے دعوت قبول کرلی تو داعی پر دو گناہ ہوں گے کیونکہ اس شخص نے مدعو کو برا جاننے کے باوجود کھانے پر آمادہ کیا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ داعی دل سے اس کی آمد پر متفق نہیں ہے تو وہ کبھی نہ آتا۔
متقی کو کھانا کھلانے سے تقویٰ پر اور فاسق کو کھانا کھلانے سے فسق پر اعانت ہوتی ہے۔ ایک درزی نے حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ میں بادشاہوں کے کپڑے سیتا ہوں، کیا میرا یہ عمل ظلم کی اعانت کے مترادف ہے۔ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ ظلم کی اعانت تو وہ لوگ کرتے ہیں جن سے تم سوئی اور دھاگا خریدتے ہو، تم ظلم کی اعانت کرنے کی بجائے نفس ظلم کا ارتکاب کررہے ہو۔۔۔
دعوت قبول کرنے کے آداب:-
دعوت قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ بعض علماء نے اسے واجب بھی کہا ہے۔ دعوت قبول کرنے کے پانچ آداب ہیں۔
پہلا ادب: یہ ہے کہ مالدار اور غریب کا فرق نہ کرےکہ اگر کسی مالدار کے یہاں دعوت ہو تو منظور کر لے اور غریب کے یہاں ہو تو انکار کر دے۔ اس طرح کا امتیاز تکبر کے دائرے میں آتا ہے۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم غلام اور مسکین سب کی دعوت قبول فرما لیا کرتے تھے۔ (ترمذی، ابن ماجہ-انس)۔ ایک مرتبہ امام حسن رضی اللہ عنہ کچھ فقراء اور مساکین کے پاس سے گزرے۔ یہ وہ لوگ تھے جو راستوں پر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے روٹی کے چند ٹکڑے ریت پر پھیلا رکھے تھے۔ امام حسن رضی اللہ عنہ خچر پر تشریف لے جارہے تھے کہ کسی فقیر نے انہیں روک کر کہا کہ اے نواسہ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔ آپ خچر سے اترے اور یہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گئے کہ اللہ تعالیٰ متکبرین کو محبوب نہیں رکھتا، ان کے ساتھ کھانا کھایا اور سلام کرکے خچر پر سوار ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبول کی، اب تم میری دعوت قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی دعوت سر آنکھوں پر، ہم ضرور حاضر ہوں گے۔ امام حسن رضی اللہ عنہ نے انہیں دعوت کا وقت بتلایا۔ جب وہ لوگ آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی خاطر مدارات کی، بہترین کھانے کھلائے اور خود بھی ان کے پاس بیٹھ کر کھانا کھایا۔
دوسرا ادب: یہ ہے کہ دعوت قبول کرنے سے محض اس لئے انکار نہ کرے کہ داعی کا گھر فاصلے پر واقع ہے۔ اگر فاصلہ اتنا ہوکہ عادتاً اس کا طے کرنا دشوار نہ ہو تو دعوت قبول کرلے۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے انکار نہ کرے بلکہ دعوت میں جائے، اگر محسوس کرے کہ داعی کی خوشی روزہ افطار کرنے میں ہے تو روزہ افطار کرلے اور نیت یہ کرے کہ میں اپنے اس عمل کے ذریعہ ایک مسلمان بھائی کے دل کو خوشی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہوں۔ افطار کا تعلق نفلی روزے سے ہے، فرض روزے سے نہیں ہے۔ اگر داعی کے دل کا حال معلوم نہ ہو تو ظاہری حال پر اعتماد کرتے ہوئے افطار کر لینا چاہیے۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو کہ وہ بتکلف دعوت کررہا ہے اور افطار کرنے سے اس کو کوئی خوشی نہیں ہو گی تو عذر کردے، افطار نہ کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے ہم نشینوں کی خاطر روزہ افطار کرنا بہترین نیکی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ داعی کا دل خوش کرنے کی نیت سے افطار کرنا عبادت بھی ہے اور خوش خلقی کا مظہر بھی، اس کا ثواب روزے سے زیادہ ہے۔
چوتھا ادب: دعوت قبول کرنا ہر حالت میں ضروری نہیں ہے، بلکہ بعض صورتوں میں دعوت مسترد بھی کی جا سکتی ہے، مثلاً یہ کہ کھانا مشتبہ ہو، وہ جگہ جہاں کھانا کھلایا جا رہا ہو، ناجائز طریقہ سے حاصل کی گئی ہو یا اس جگہ کوئی برائی ہو، مثلاً ریشمی فرش، چاندی کے برتن، دیواروں یا چھتوں پر جاندار کی تصویریں ہوں، گانا بجانا ہورہا ہو، لوگ لہو و لعب، غیبت، چغلی، بہتان تراشی، جھوٹ اور فریب کی باتوں میں مشغول ہوں، یا اسی طرح دوسری بدعتیں ہوں تو دعوت قبول کرنے کا استحباب باقی نہیں رہتا۔ اگر داعی ظالم، بدعتی، فاسق، شرپسند، متکبر اور شیخی خور ہو تو اس کی دعوت بھی رد کی جاسکتی ہے۔
پانچواں ادب: یہ ہے کہ دعوت قبول کرنے سے ایک وقت پیٹ بھر کھانے کی نیت نہ کرے، اگر یہ نیت کرے گا تو قبول دعوت دنیا کا عمل قرار پائے گا ، بلکہ نیت صحیح ہونی چاہیے تاکہ قبول دعوت آخرت کا عمل محسوب ہو اور اس کی صورت یہ ہے کہ دعوت قبول کرنے میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی نیت کرے۔ اور یہ بھی نیت کرے کہ اگر دعوت قبول کروں گا تو میرا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو گا کیونکہ ارشاد نبوی ہے: 
من لم یجب الداعی فقد عصی اللہ ورسولہ۔ 
یعنی جس شخص نے داعی کی دعوت قبول نہیں کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ (بخاری ومسلم-ابو ہریرہ)۔ یہ نیت بھی ہونی چاہیے کہ دعوت میں شرکت کے ذریعہ مجھے اپنے بھائی سے ملنے کا موقع بھی ملے گا، اس طرح مدعو ان لوگوں میں شمار ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔ ایک حدیث (قدسی) میں ہے: 
وَجَبَتْ مَحبَّتِي للمُتَزَاوِرِينَ فيَّ، وَالمُتَباذِلِينَ فيَّ۔ 
یعنی میری محبت میرے لیے آپس میں ملاقات کرنے والوں اور میرے لیے آپس میں خرچ کرنے والوں کے لیے واجب ہے۔ (صحیح مسلم- ابوہریرہ) دعوت میں بذل و انفاق (خرچ) پہلے سے موجود ہےجس کا تعلق داعی سے ہے، اب مدعو کو چاہیے کہ زیارت و ملاقات کی نیت کر کے دوسرا پہلو بھی مکمل کردے۔ ایک نیت یہ ہونی چاہیے کہ میں یہ دعوت اس لیے قبول کر رہا ہوں تاکہ لوگ میرے متعلق بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں یا یہ خیال نہ کریں کہ دعوت مسترد کر کے میں نے مسلمان بھائی کی تحقیر کی ہے۔ اگر کوئی شخص دعوت قبول کرتے وقت یہ تمام نیتیں کرے تو اس کے اجر و ثواب کا کیا ٹھکانا، لیکن اگر ان میں سے ایک نیت بھی کی تو ان شاءاللہ قربت کا باعث ہو گی۔ ایک بزرگ فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر عمل میں میری ایک نیت ہو، یہاں تک کھانے اور پینے میں بھی نیت کروں۔ نیت کے سلسلے میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: 
کہإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (بخاری و مسلم-عمر فاروق)۔ 
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نیت صرف مباح امور اور طاعات میں مؤثر ہوتی ہے، ان امور میں مؤثر نہیں ہوتی جن سے منع کیا گیا ہے۔۔۔
دعوت میں شرکت کرنے کے آداب:-
پہلا ادب: یہ ہے کہ جب داعی کے گھر پہنچے تو صدر مقام یا کسی نمایاں جگہ پر نہ بیٹھے بلکہ تواضع اور انکساری کے اظہار کے لیے کسی معمولی جگہ بیٹھنے کی کوشش کرے۔
دوسرا ادب: یہ ہے کہ آنے میں تاخیر نہ کرے، اس سے خواہ مخواہ دوسرے شرکاء کو یا خود صاحب خانہ کو انتظار کی زحمت ہو گی اور نہ آنے میں اتنی جلدی کرے کہ صاحب خانہ پریشان ہو جائے اور دعوت کی تیاری کے بجائے اسے آنے والوں کے استقبال میں مصروف ہونا پڑے۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ اگر مجمع زیادہ ہو تو گھس کر نہ بیٹھے، نہ دوسروں کے لیے تنگی پیدا کرے۔ اگر صاحب خانہ کسی جگہ بیٹھنے کے لیے کہے تو بلا تردد وہاں بیٹھ جائے، کیونکہ بعض اوقات میزبان بیٹھنے والوں کی ترتیب قائم کر لیتے ہیں۔ اب اگر آنے والے اس کی ترتیب کے خلاف بیٹھیں گے تو اسے بلاوجہ زحمت ہوگی۔ اگر شرکاء میں سے کچھ لوگ کسی اونچی یا نمایاں جگہ بیٹھنے کے لیے کہیں تو تواضع کرے اور معذرت کر دے۔ سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کے لیے تواضع یہ بھی ہے کہ معمولی جگہ بیٹھنے کے لیے راضی ہوجائے۔ (مکارم الاخلاق- طلحہ بن عبید)۔
چوتھا ادب: یہ ہے کہ جس کمرے میں عورتیں بیٹھی ہوئی ہوں یا کسی بڑے کمرے کا کوئی گوشہ ان کے لیے پردہ ڈال کر مخصوص کرلیا گیا ہو تو اس کے سامنے مت بیٹھے۔
پانچواں ادب: یہ ہے کہ جس دروازے سے کھانا آ رہا ہو ادھر نہ دیکھے، یہ بے صبری اور حرص و ہوس علامت ہے۔
چھٹا ادب: یہ ہے کہ برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے، اس کی مزاج پرسی کرے۔ میزبان کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمانوں کو قبلہ کی سمت، وضو اور بیت الخلا کی جگہ ضرور بتلا دے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔
ساتواں ادب: یہ ہے کہ میزبان کے گھر میں داخل ہونے کے بعد اگر کسی خلاف شرع چیز پر نظر پڑے تو اسے دور کر دے بشرطیکہ دور کرنے پر قادر ہو، ورنہ زبان سے ناپسندیدگی ظاہر کرے اور واپس چلا آئے۔
کھانا لانے کے آداب:-
پہلا ادب: یہ ہے کہ کھانا پیش کرنے میں عجلت کرے کیونکہ اس میں مہمانوں کی تعظیم ہے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآل وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ واليومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، 
یعنی جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمانوں کی تعظیم کرے۔ (بخاری و مسلم)۔
اگر اکثر لوگ آجائیں اور مدعوئین میں سے دو چار لوگ مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے ہوں تو حاضرین کی خدمت میں کھانا پیش کرنا اس سے بہتر ہے کہ تاخیر سے آنے والوں کا انتظار کیا جائے، اور جو لوگ آچکے ہوں انہیں انتظار کی زحمت دی جائے۔ اگر کوئی غریب شخص وقت مقررہ پر نہ پہنچ سکا ہو، یا کوئی ایسا شخص رہ گیا ہو جس کے بارے میں گمان ہو کہ کھانا شروع کردینے سے اس کی دل شکنی ہوگی تو انتظار میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
دوسرا ادب: یہ ہے کہ کھانے کی مختلف قسموں کو مہمانوں کے سامنے رکھنے میں ترتیب کا لحاظ رکھے۔ اگر پھل اور میوے وغیرہ بھی کھانے کے پروگرام میں شامل ہوں تو پہلے یہی چیزیں پیش کرے کیونکہ ازروئے طب یہ امر مناسب ہے، اس طرح کی چیزیں جلد ہضم ہو جاتی ہیں، معدہ میں سب سے پہلے ان کا پہنچنا مفید ہے۔ فواکہ کے بعد ثرید پیش کرے (ثرید عربوں کی مرغوب ترین غذا ہے، گوشت میں روٹی چُور کر یہ غذا تیار کی جاتی ہے) ۔ ثرید کے متعلق سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: 
فَضْلَ عَائِشَةَ علَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ علَى سَائِرِ الطَّعَامِ۔ 
یعنی عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت۔ (شمائل الترمذی-انس)۔ اگر دستر خوان پر کوئی میٹھی چیز موجود ہو تو یہ ایک عمدہ اور مکمل ترین دعوت ہے۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ لذیذ اور پسندیدہ کھانے پہلے پیش کیے جائیں تاکہ لوگ حسب خواہش کھا لیں۔ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ پہلے کثیف اور نسبتاً غیر لذیذ غذائیں سامنے رکھتے ہیں، جب لوگ پیٹ بھر کھا لیتے ہیں تو پسندیدہ غذائیں لاتے ہیں۔ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ شکم سیر ہونے کے باوجود لوگ زیادہ کھا لیتے ہیں، یہ طریقہ خلاف سنت ہے۔ پہلے زمانے میں لوگوں کا یہ طریقہ تھا کہ تمام کھانے ایک ساتھ دسترخوان پر رکھ دیتے تھے اور کھانے کے برتن بھی ترتیب سے لگا دیتے تھے تاکہ ہر شخص وہی کھانا کھائے جس کی اسے خواہش ہو۔ اگر کسی شخص کے دسترخوان پر کھانے کی ایک ہی قسم ہوتی تو وہ بلاتکلف اس کا اظہار کردیتا تاکہ لوگ اس سے بہتر کھانے کا انتظار نہ کریں۔ ایک عالم اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ میں شام گیا، وہاں میرے ایک شناسا عالم نے مجھے کھانے پر مدعو کیا اور دسترخوان پر کھانے کی ایک قسم رکھی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے یہاں عراق میں یہ قسم کھانے کے آخر میں پیش کی جاتی ہے، میرے میزبان کہنے لگے کہ ہمارے یہاں بھی یہی دستور ہے۔ وہ عالم کہتے ہیں کہ مجھے ان کا جواب سن کر سخت ندامت ہوئی اور اس وقت یہ احساس ہوا کہ ان کے گھر میں کھانے کی دوسری اقسام تیار نہیں ہیں۔
چوتھا ادب: یہ ہے کہ جب تک لوگ اچھی طرح فارغ نہ ہو جائیں اور ہاتھ نہ روک لیں اس وقت تک دسترخوان نہ اٹھائے، ممکن ہے بعض لوگ اپنی پسندیدہ غذا آخر میں کھانا چاہتے ہوں یا ابھی شکم سیر نہ ہوئے ہوں۔ ایک صوفی تھے ستوری، انہیں مزاح کا بہترین ذوق تھا۔ کسی نے ان کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دنیادار شخص نے ان کی دعوت کی، کچھ اور لوگ بھی مدعو تھے۔ دستر خوان پر بھُنا ہوا بکرا رکھا گیا، میزبان فطرتاً بخیل تھا، جب اس نے دیکھا کہ مہمانوں نے بکرے کے ساتھ دست درازی شروع کردی تو بڑا گھبرایا، نوکروں کو آواز دی اور حکم دیا کہ یہ باقی ماندہ بکرا گھر میں بچوں کے لیے لے جائیں۔ جب نوکر بکرا اٹھا کر لے چلے تو ستوری بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیے، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کہاں چلے۔ کہنے لگے کہ گھر میں جا رہا ہوں ، بچوں کے ساتھ کھاؤں گا۔ میزبان یہ سن کر نادم ہوئے اور نوکروں سے کہا کہ وہ یہ گوشت دسترخوان پر رہنے دیں۔ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ میزبان مہمانوں سے پہلے اپنا ہاتھ نہ روکے بلکہ جب سب لوگ فارغ ہو جائیں تو کھانا موقوف کرے، درمیان میں توقف کرنے سے مہمان شرمائیں گے۔
پانچواں ادب: یہ ہے کہ اتنا کھانا پیش کرے جو مدعوئین کو کافی ہو جائے، کم ہونے کی صورت میں مہمان نوازی پر حرف آئے گا اور زیادہ ہونے میں نام و نمود اور ریاکاری کا گمان ہو گا، ہاں اگر اس خیال سے زیادہ کھانا پیش کرے کہ لوگ زیادہ کھائیں تو یہ صورت مستحن ہے۔ اب اگر وہ لوگ تمام کھانا کھا جائیں تو خوش ہو اور کچھ بچ جائے تو اسے باعث برکت سمجھے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے گھر والوں کا حصہ الگ کر دیا جائے تاکہ وہ بچے ہوئے کھانے کے منتظر نہ رہیں۔ دوسروں کی حق تلفی کر کے ضیافتیں کرنا ایک طرح کی خیانت ہے۔ اگر دسترخوان پر کھانا بچ جائے تو مہمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بچا ہوا کھانا اپنے ساتھ لے جائیں، ہاں اگر صاحب خانہ بطیب خاطر اجازت دے دے، یا قرائن سے یہ معلوم ہوکہ اس فعل سے صاحب خانہ خوش ہوگا تو بچا ہوا کھانا ساتھ لے جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
مہمان کی واپسی کے آداب:-
پہلا ادب: یہ ہے کہ گھر کے دروازے تک مہمان کے ساتھ آئے۔ یہ طریقہ مسنون ہے، اس سے مہمان کی تعظیم وتکریم ہوتی ہے جس کا حکم حدیث میں موجود ہے: 
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ واليومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، 
یعنی جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمانوں کی تعظیم کرے۔ (بخاری و مسلم)۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شاہ حبش کا بھیجا ہوا وفد جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بنفس نفیس وفد کے اراکین کی خدمت کی، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ، آپ زحمت نہ فرمائیں، ہم لوگ ان کی خدمت کے لیے کافی ہیں۔ فرمایا، ایسا نہیں ہوسکتا، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے رفقاء کی تعظیم کی تھی جب وہ لوگ حبشہ گئے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے حسن سلوک کی مکافات کروں۔ مہمان کا اکرام یہ ہے کہ اس سے خندہ روئی کے ساتھ ملے، آنے جانے کے وقت، دسترخوان پر کھانے سے پہلے یا بعد میں جب بھی موقع ہو اچھی طرح گفتگو کرے۔
دوسرا ادب: یہ ہے کہ مہمان اپنے میزبان کے گھر سے خوش دلی کے ساتھ رخصت ہو، اگرچہ اس کی خاطر خواہ تواضع میں کوتاہی ہوئی ہو۔ خوش دلی کے ساتھ رخصت ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ شخص خوش اخلاق بھی ہے اور متواضع بھی۔ ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ انہیں کسی نے کھانے پر مدعو کیا اور ایک شخص کو بلانے کے لیے بھیجا۔ وہ بزرگ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے، جب واپس آئے تو معلوم ہوا کہ فلاں شخص کے یہاں دعوت ہے، اس کا قاصد بلانے کے لیے آیا تھا۔ اسی وقت پہنچے، معلوم ہوا کہ تمام مدعوئین رخصت ہوچکے ہیں، دسترخوان اٹھایا جا چکا ہے۔ آواز دی تو صاحب خانہ باہر آئے اور عرض کیا کہ آپ تاخیر سے تشریف لائے، سب لوگ کھا کر چلے گئے ہیں، پوچھا، کچھ بچا ہے؟ عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں بچا۔ فرمایا، کیا ایک ٹکڑا بھی نہیں بچا؟ اس نے جواب دیا کہ افسوس ایک ٹکڑا بھی نہیں بچا۔ کہا، ہانڈی لے آؤ، میں اسے ہی صاف کر لوں گا۔ صاحب خانہ نے عرض کیا، حضور وہ بھی دھو دی گئی ہے۔ یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور خوشی خوشی گھر تشریف لے آئے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اس میں خوشی کا کیا موقع ہے، اس نے آپ کو دعوت دی تھی اور پھر بغیر کھلائے پلائے واپس کردیا۔ فرمایا، اس نے ہمیں اچھی نیت کے ساتھ بلایا تھا اور اچھی نیت کے ساتھ واپس کیا ہے۔ حقیقت میں تواضع اور حسن اخلاق کے یہی معنی ہیں۔
تیسرا ادب: یہ ہے کہ صاحب خانہ کی اجازت لے کر رخصت ہو۔ جتنی دیر وہاں ٹھہرے اس کے حقوق کی رعایت کرے۔ تین دن سے زیادہ قیام نہ کرے۔ یہ ممکن ہے کہ میزبان اپنے مہمان کے طویل قیام سے اکتا جائے اور مجبور ہو کر مزید قیام سے معذرت کردے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: 
الضیافۃ ثلاثۃ ایام فیما زاد فصدقۃ۔ 
یعنی مہمان داری تین دن کی ہے، تین دن کے بعد صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم-ابو شریح) ۔ لیکن اگر صاحب خانہ خلوص دل کے ساتھ مزید قیام پر اصرار کرے تو تین دن سے زیادہ ٹھہرنا بھی جائز ہے۔ ہر گھر میں ایک بستر مہمانوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِامْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ۔ 
یعنی ایک بستر مرد کے لیے ہے، ایک بستر عورت کے لیے ہے، تیسرا بستر مہمان کے لیے اور چھوتھا شیطان کے لیے ہے۔ (صحیح مسلم- جابر)
کھانے کے طبی اور شرعی آداب (اوامرو نواہی):-
پہلا ادب (شرعی): ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بازار میں کھانا کمینہ پن ہے۔ انہوں نے یہ قول سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس سے مختلف ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے عہد مبارک میں چلتے پھرتے کھا لیتے تھے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)۔ ان میں مطابقت کی صورت یہ ہے کہ بعض لوگوں کے حق میں بازار میں کھانا تواضع اور بے تکلفی ہے، اس لیے اگر وہ بازار میں کھانے پینے کا شغل کریں تو کوئی حرج نہیں ہے اور بعض لوگوں کے حق میں بے غیرتی ہے، اس لیے ان کا کھانا مکروہ ہے۔ اگر کسی شخص کے تمام اعمال ایسے نہ ہوں گے تو بازار میں کھانا اس کے حق میں بے غیرتی اور حرص و ہوس کی زیادتی پر دلالت کرے گا۔ لیکن اگر کسی شخص کے تمام حالات تواضع اور بے تکلفی کا مظہر ہوں تو اس کا بازار میں کھانا بھی بے تکلفی اور تواضع شمار ہوگا۔
دوسرا ادب (طبی): حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جو شخص نمک سے اپنے کھانے کی ابتدا کرے اللہ تعالیٰ ستّر قسم کی بلاؤں سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔ جو شخص روزانہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھائے اس کے پیٹ کے تمام کیڑے ختم ہو جائیں گے۔ جو شخص ہر روز کشمش کے اکیس دانے کھائے اس کے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہو گی۔ گوشت کھانے سے گوشت زیادہ ہوتا ہے، حلوے کھانے سے پیٹ پھول جاتا ہے، خصیتین لٹک جاتے ہیں۔ گائے کا گوشت مرض ہے، اس کا دودھ شفا ہے، اس کا گھی دوا ہے اور اس کی چربی اپنے برابر مرض دور کرتی ہے۔ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجوروں سے بہتر کوئی دوا نہیں ہے۔ مچھلی سے جسم پگھل جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور مسواک کرنے سے بلغم دور ہوتا ہے۔ جو شخص طویل زندگی کا خواہش مند ہو اسے چاہیے کہ صبح کا کھانا سویرے کھائے، شام کی غذا میں کمی کرے، جوتا پہنے، گھی کا استعمال بھی لوگوں کے حق میں بڑا مفید ہے، عورتوں کے پاس کم سے کم جائے اور اپنے ذمے کم سے کم قرض کرے۔
تیسرا ادب (طبی): حجاج نے کسی طبیب سے کہا کہ میرے لیے کوئی مناسب، مفید اور مستقل طور پر استعمال کیا جانے والا نسخہ تجویز کر دو۔ طبیب نے نسخہ لکھ کر دیا " صرف جوان عورتوں سے شادی کرنا، جوان جانوروں کا گوشت کھانا، پکنے والی چیز جب تک اچھی طرح نہ پک جائے استعمال مت کرنا، بیماری کے بغیر دوا نہ کھانا،کچے پھل اور میوے ہر گز مت کھانا، ہر چیز اچھی طرح چبا کر کھانا، وہ غذا استعمال کرناجس کی خواہش ہو، کھانے کے بعد پانی مت پینا اور اگر پانی پی لو تو اس کے بعد کھانے سے اجتناب کرنا، پیشاب پاخانہ مت روکنا، رات کا کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا اور دن کا کھانا کھانے کے بعد قیلولہ کرنا"۔ اطباء کہتے ہیں کہ جس طرح بہتی نہر کے پانی پر بند لگانے سے ارد گرد کی چیزیں خراب ہوجاتی ہیں اسی طرح پیشاب کو روکنے سے تمام جسم میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
چوتھا ادب (طبی): رات کو نہ کھانے سے بڑھاپا جلد آتا ہے، اہل عرب کہتے ہیں کہ صبح کا کھانا چھوڑ دینے سے کولہوں کی چربی پگھل جاتی ہے۔ ایک حکیم نے اپنے لڑکے سے کہا کہ جب تک اپنی عقل ساتھ نہ لے لو گھر سے باہر مت نکلنا، مطلب یہ ہے کہ کچھ کھائے پیے بغیر گھر سے باہر مت جاؤ۔ کھانے کو عقل اس لیے کہا کہ اس سے غصہ دور ہوتا ہے، حلم باقی رہتا ہے اور بازار کی چیزیں دیکھ کر منھ میں پانی نہیں آتا۔ کسی شخص نے ایک موٹے شخص کو دیکھ کر کہاکہ میں تمہارے جسم پر تمہارے دانتوں کا بنا ہوا لباس دیکھ رہا ہوں، آخر یہ کیسے ہوا؟ موٹے نے جواب دیا کہ گیہوں کا چھنا ہوا آٹا اور چھوٹے دنبوں کا گوشت کھاتا ہوں، بنفشہ کا تیل جسم پر ملتا ہوں اور سوتی کپڑا پہنتا ہوں۔
پانچواں ادب (طبی):-
تندرست کے لیے پرہیز کرنا اتنا ہی مضر ہے جتنا بیمار کے لیے پرہیز نہ کرنا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص پرہیز کرتا ہے گویا اسے بیماری کا یقین ہے اور صحت میں شک ہے۔ صحت کے سلسلے میں اس طرح کی احتیاط بہتر ہے۔ سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ کھجوریں کھا رہے ہیں اور ان کی آنکھ دُکھ رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: صہیب تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجوریں کھا رہے ہو، عرض کیا : یا رسول اللہ، میں اپنی تندرست آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں۔ یہ سن کر حضور علیہ الصلاۃ والسلام مسکرا دیے۔ (ابن ماجہ- صہیب)
چھٹا ادب (شرعی): جس گھر میں میت ہوجائے اس کے مکینوں کے لیے کھانا بھیجنا مستحب ہے۔ حضرت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والے میت کی تجہیز و تکفین کی مصروفیت اور غم و اندوہ کی وجہ سے کھانا تیار نہیں کر سکیں گے، اس لیے ان کے کھانے کے لیے کچھ لے جاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا نظم کرنا مسنون ہے۔ اگر اس طرح کا کھانا مجمع میں آئے تو حاضرین اسے کھاسکتے ہیں، لیکن اگر کسی نے نوحہ کرنے والی عورتوں کے لیے بھیجاہو تو یہ کھانا نہ کھائے۔
ساتواں ادب (شرعی): ظالم کا کھانا نہ کھائے لیکن اگر وہ مجبور کرے اور انکار میں نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو تھوڑا سا کھا لے۔ اگر دسترخوان پر عمدہ کھانا بھی موجود ہو تو اسے ہاتھ نہ لگائے۔ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب انہیں قید کی سزا ملی تو کئی روز تک کھانا نہیں کھایا۔ ان کی ایک دینی بہن تھیں، جب انہیں معلوم ہوا کہ ذوالنون مصری جیل کا کھانا نہیں کھارہے تو انہوں نے الگ سے کھانا پکاکر داروغہ زندان کے ذریعہ اندر بھجوایا۔ انہوں نے یہ کھانا بھی نہیں لیا، بہن کو پتا چلا تو بہت ناراض ہوئیں۔ ذوالنون نے کہا کہ میں تمہارا بھیجا ہوا کھانا ضرور کھالیتا مگر یہ ظالم داروغہ زندان کے ذریعہ مجھے ملا تھا۔ یہ ورع و تقویٰ کا انتہائی درجہ ہے۔
آٹھواں ادب: فتح موصلی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بغرض ملاقات حاضر ہوئے، بشر نے اپنے خادم احمد جلاء کو کچھ درہم دیے اور کہا کہ بازار سے بہترین قسم کی روٹی اور سالن خرید لاؤ، احمد کہتے ہیں کہ میں نے صاف ستھری روٹی خریدی اور۔۔۔ دودھ اور کچھ عمدہ کھجوریں خریدیں اور فتح موصلی کے سامنے لا کر رکھ دیں۔ انہوں نے کھانا کھایا اور باقی اپنےساتھ لے گئے۔ بشرحافی نے مجھ سے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں نے اچھا کھانا لانے کے لیے کیوں کہا تھا، ہم نے عرض کیا ، نہیں۔ فرمایا: اچھا کھانا کھا کر آدمی خلوص دل کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہے ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ فتح موصلی نے مجھ سے کھانا کھانے کے لیے کیوں نہیں کہا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہمان کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ میزبان کو کھانے کے لیے کہے، اور کیا تم جانتے ہو کہ فتح موصلی بچا ہوا کھانا اپنے ساتھ کیوں لے گئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آدمی کا توکل صحیح ہوتا ہے تو اپنے ساتھ زاد راہ رکھنا اس کے لیے مضر نہیں ہوتا۔
(نواں ادب (طبی): امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کھانے کے چار طریقے ہیں، ایک انگلی سے کھانا، یہ طریقہ باری تعالیٰ کی خفگی کا باعث ہے۔ دو انگلیوں سے کھانا، یہ تکبر کی علامت ہے۔ تین انگلیوں سے کھانا، یہ مسنون طریقہ ہے۔ چار انگلیوں سے کھانا، یہ طریقہ شدت حرص پر دلالت کرتا ہے۔ چار چیزیں بدن کو طاقتور بناتی ہیں، گوشت کھانا، خوشبو سونگھنا، بغیر جماع کے نہانا، سوتی کپڑا پہننا۔ چار چیزیں جسم کو کمزور کر دیتی ہیں، زیادہ صحبت کرنا، زیادہ غمگین رہنا، نہار منھ زیادہ پانی پینا، کھٹائی زیادہ کھانا۔ چار چیزوں سے بینائی بڑھتی ہے، قبلہ کی طرف رُخ کر کے بیٹھنا، سوتے وقت سرمہ لگانا، سبزہ کی طرف دیکھنا اور صاف ستھرے کپڑے پہننا۔ چار چیزوں سے نگاہ کمزور ہوتی ہے، نجاست دیکھنا، سولی دیے ہوئے شخص کو دیکھنا، عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا، قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا۔ چار چیزیں قوت جماع میں اضافہ کرتی ہیں، چڑیوں کا گوشت کھانا، اطریفل اکبر استعمال کرنا، پستہ کھانا، جرجیر کھانا۔ سونے کے چار طریقے ہیں، چت لیٹ کر سونا انبیاء کرام کا طریقہ ہےکیونکہ یہ لوگ زمین و آسمان کی تخلیق میں غورو فکر کرتے ہیں، دائیں کروٹ سے سونا علماء اور عابدین کا طریقہ ہے، بائیں کروٹ سے سونا بادشاہوں کا طریقہ ہے تاکہ کھانا ہضم ہو جائے، پیٹ کے بل سونا شیاطین کا طریقہ ہے۔ چار چیزوں سے عقل بڑھتی ہے، لایعنی گفتگو ترک کرنا، مسواک کرنا، علماء و صلحاء کی مجلسوں میں بیٹھنا۔ چار چیزیں عبادت میں شمار ہوتی ہیں، وضو کر کے چلنا، بکثرت سجدے کرنا، مسجد میں بیٹھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وبائی امراض میں مفید ترین چیز بنفشہ کا تیل ہے، اسے پینا بھی چاہیے اور جسم پر ملنا بھی چاہیے ۔۔۔
کھانے کے طبی اور شرعی آداب (اوامرو نواہی):-
پہلا ادب (شرعی): ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بازار میں کھانا کمینہ پن ہے۔ انہوں نے یہ قول سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس سے مختلف ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے عہد مبارک میں چلتے پھرتے کھا لیتے تھے۔(ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)۔ ان میں مطابقت کی صورت یہ ہے کہ بعض لوگوں کے حق میں بازار میں کھانا تواضع اور بے تکلفی ہے، اس لیے اگر وہ بازار میں کھانے پینے کا شغل کریں تو کوئی حرج نہیں ہے اور بعض لوگوں کے حق میں بے غیرتی ہے، اس لیے ان کا کھانا مکروہ ہے۔ اگر کسی شخص کے تمام اعمال ایسے نہ ہوں گے تو بازار میں کھانا اس کے حق میں بے غیرتی اور حرص و ہوس کی زیادتی پر دلالت کرے گا۔ لیکن اگر کسی شخص کے تمام حالات تواضع اور بے تکلفی کا مظہر ہوں تو اس کا بازار میں کھانا بھی بے تکلفی اور تواضع شمار ہوگا۔
دوسرا ادب (طبی): حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جو شخص نمک سے اپنے کھانے کی ابتدا کرے اللہ تعالیٰ ستّر قسم کی بلاؤں سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔ جو شخص روزانہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھائے اس کے پیٹ کے تمام کیڑے ختم ہو جائیں گے۔ جو شخص ہر روز کشمش کے اکیس دانے کھائے اس کے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہو گی۔ گوشت کھانے سے گوشت زیادہ ہوتا ہے، حلوے کھانے سے پیٹ پھول جاتا ہے، خصیتین لٹک جاتے ہیں۔ گائے کا گوشت مرض ہے، اس کا دودھ شفا ہے، اس کا گھی دوا ہے اور اس کی چربی اپنے برابر مرض دور کرتی ہے۔ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجوروں سے بہتر کوئی دوا نہیں ہے۔ مچھلی سے جسم پگھل جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور مسواک کرنے سے بلغم دور ہوتا ہے۔ جو شخص طویل زندگی کا خواہش مند ہو اسے چاہیے کہ صبح کا کھانا سویرے کھائے، شام کی غذا میں کمی کرے، جوتا پہنے، گھی کا استعمال بھی لوگوں کے حق میں بڑا مفید ہے، عورتوں کے پاس کم سے کم جائے اور اپنے ذمے کم سے کم قرض کرے۔
تیسرا ادب (طبی): حجاج نے کسی طبیب سے کہا کہ میرے لیے کوئی مناسب، مفید اور مستقل طور پر استعمال کیا جانے والا نسخہ تجویز کردو۔ طبیب نے نسخہ لکھ کر دیا " صرف جوان عورتوں سے شادی کرنا، جوان جانوروں کا گوشت کھانا، پکنے والی چیز جب تک اچھی طرح نہ پک جائے استعمال مت کرنا، بیماری کے بغیر دوا نہ کھانا،کچے پھل اور میوے ہرگز مت کھانا، ہر چیز اچھی طرح چبا کر کھانا، وہ غذا استعمال کرناجس کی خواہش ہو، کھانے کے بعد پانی مت پینا اور اگر پانی پی لو تو اس کے بعد کھانے سے اجتناب کرنا، پیشاب پاخانہ مت روکنا، رات کا کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا اور دن کا کھانا کھانے کے بعد قیلولہ کرنا"۔ اطباء کہتے ہیں کہ جس طرح بہتی نہر کے پانی پر بند لگانے سے ارد گرد کی چیزیں خراب ہوجاتی ہیں اسی طرح پیشاب کو روکنے سے تمام جسم میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
چوتھا ادب (طبی): رات کو نہ کھانے سے بڑھاپا جلد آتا ہے، اہل عرب کہتے ہیں کہ صبح کا کھانا چھوڑدینے سے کولہوں کی چربی پگھل جاتی ہے۔ ایک حکیم نے اپنے لڑکے سے کہا کہ جب تک اپنی عقل ساتھ نہ لے لو گھر سے باہر مت نکلنا، مطلب یہ ہے کہ کچھ کھائے پیے بغیر گھر سے باہر مت جاؤ۔ کھانے کو عقل اس لیے کہا کہ اس سے غصہ دور ہوتا ہے، حلم باقی رہتا ہے اور بازار کی چیزیں دیکھ کر منھ میں پانی نہیں آتا۔ کسی شخص نے ایک موٹے شخص کو دیکھ کر کہاکہ میں تمہارے جسم پر تمہارے دانتوں کا بنا ہوا لباس دیکھ رہا ہوں، آخر یہ کیسے ہوا؟ موٹے نے جواب دیا کہ گیہوں کا چھنا ہوا آٹا اور چھوٹے دنبوں کا گوشت کھاتا ہوں، بنفشہ کا تیل جسم پر ملتا ہوں اور سوتی کپڑا پہنتا ہوں۔ (آداب الاکل۔ کھانے کے آداب۔ کتاب احیاء علوم الدین از امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post_12.html




Thursday, October 7, 2021

القاب وآداب کے استعمال میں توازن کی ضرورت

🔹القاب 
وآداب کے استعمال 
میں توازن کی ضرورت:
خاکساری کو بلندی کا لقب کہتے ہیں

انسان کی شخصیت صرف اس کے خاص نام سے ہی نہیں اس کی کنیت، لقب، تخلص اور خطاب سے بھی پہچانی جاتی ہے، اس وقت مجھے بطورخاص القاب اور ضمناً کسی نام کے دیگر متعلقات کا ایک غیرمربوط تذکرہ کرنا ہے، ابن الجوزی (م: 597ھ) کہتے ہیں:
’’ألقاب جمع لقب: وھواسم یدعی به الإنسان سوی الاسم الذي سمّي به (زاد المسیر، المکتب الاسلامی، بیروت، 7؍467)
(القاب لقب کی جمع ہے: یہ اس نام کو کہتے ہیں جس سے کسی شخص کو پکارا جاتا ہے، اور یہ اس کے اصل نام کے علاوہ ہوتا ہے).
القاب کا استعمال ہر دور میں کثرت سے ہوتا آیا ہے، جاہلی دور میں القاب زیادہ تر خطر پسندی، شجاعت، مہارت یا کسی جسمانی وصف یا عیب کی بنیاد پر دیئے جاتے تھے، چنانچہ جاہلی شاعر ثابت بن جابر (و: 85ق۔ ھ) کو ’’تأبّط شرًّا‘‘ (خطرات کو گلے لگانے والا) کا خطاب دیا گیا، زمانۂ ما بعد میں بھی اس کا اثر باقی رہا، مخضرمی شاعر میمون بن قیس (و:7ھ) کو اس کے ضعف بصارت کی وجہ سے ’’الأعشی‘‘ کہا گیا اور چونکہ وہ اپنے اشعار زیادہ تر ترنّم سے پڑھتا تھا اس لئے اسے ’’صَنّاجة العرب‘‘ کا بھی خطاب ملا، عہدعباسی میں عبدالسلام بن رغبان (و:235ھ) کو ’’دیک الجن‘‘ کا خطاب دیا گیا چونکہ اس کی آنکھوں کا رنگ عام انسانوں سے بہت مختلف تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو القاب دیئے وہ ان کے ذاتی اوصاف وکمالات کو بیان کرتے ہیں، فاروق وصدیق، ذوالنورین، اسداللہ، امین ہذہ الامۃ، ذوالیدین، ذوالاذنین، ذوالشہادتین وغیرہ اسی قسم کے القاب ہیں۔
عہدعباسی سے یہ مزاج پروان چڑھا کہ ہر خلیفہ خود اپنا لقب اختیار کرنے لگا، یہ القاب ہادی، مہدی، ناصر لِدین اللہ، حاکم بامراللہ سے شروع ہوکر سیف الدولۃ، عضد الدولۃ، رکن الدین، معزالدین والدنیا تک پہنچے، اندلس میں یہ ذوق ایک دوسرے رنگ میں ابھرا، یہاں کے القاب میں کامیاب وظفرمند اور بلند اقبال ہونے کی طرف اشارے ہوتے تھے، ظافرومنصور اور ذوالوزارتین وغیرہ اس کے نمونے ہیں، بعض علاقوں میں عربی القاب کو ترک کرکے فارسی وترکی القاب کو رواج دیا گیا، بیگ، پاشا اور افندی وغیرہ اسی دور کی یادگار ہیں، دکن کی آصفجاہی سلطنت (مملکت آصفیہ) میں بھی نظام الملک، ناصرجنگ، مظفرجنگ، صلابت جنگ، سکندرجاہ، ناصرالدولہ، افضل الدولہ اور آصف جاہ جیسے عربی، فارسی اور اردو کے شاہکار القاب استعمال ہوئے۔
 دوسری طرف علماء ومشائخ کو شیخ الاسلام، حجۃ الاسلام اور ناصر السنۃ وغیرہ کے القاب سے یاد کیا گیا، فقہاء عراق میں سادگی غالب تھی، وہ اپنی نسبت کسی خاندانی پیشہ کی یا قبیلہ ومحلہ کی جانب کرلینا کافی سمجھتے تھے جیسے ’’جصاص‘‘ (چونا بنانے والا یا چونا فروخت کرنے والا)، اور ’’قدوری‘‘ (ہانڈی یا دیگچی کا کاروبار کرنے والا) وغیرہ، جب کہ اہل خراسان وماوراء النہر مبالغہ کی حد تک بھاری بھرکم القاب استعمال کرتے تھے، جیسے شمس الائمہ، فخرالاسلام، صدرالاسلام، صدرجہاں، صدرالشریعہ وغیرہ (الفوائد البہیہ، عبدالحی فرنگی محلی، ص: 239)، ہندوستان میں ان القاب کے ساتھ ساتھ شمس العلماء، حکیم الامت، حکیم الاسلام اور مفکراسلام وغیرہ کے القاب بجا طور پر ان کی مستحق شخصیات کے لئے استعمال کے گئے، اور سچ مچ وہ عربی شاعر کے اس شعر کے مصداق تھے  ؎  وقلّماأبصرتْ عیناک ذا لقبٍ
إلا ومعناہ إن فَتّشتَ في لقبه
(تم نے کسی صاحب لقب کو نہیں دیکھا ہوگا مگر ذرا تلاش کرنے پر اس کے اوصاف اس کے لقب میں مل سکتے ہیں)
مغربی ممالک القاب سے ہمیشہ دور رہے، انہوں نے Sir اور Mister پر اکتفا کیا، اور آخرالذکر کے لئے تو صاحب رتبہ ہونا بھی شرط نہیں، البتہ عالم عرب میں شاہان وشہزادگان مملکت کے لئے انگریزی کی طرح صرف King یا Prince کے ہم معنی کسی لفظ مثلا ’’الأمیر‘‘ یا ’’الملِک‘‘ کو کافی نہیں سمجھا گیا، بلکہ مختلف عہدے داروں کے لئے ’’فخامة الرئیس‘‘، ’’جلالة الملک‘‘، ’’معالي الأمیر‘‘ اور ’’سموّ الأمیر‘‘ وغیرہ کے زوردار القاب استعمال کئے گئے، یہ قابل تعریف ہے کہ سعودی عرب کے فرماں روا اب اپنے لئے خادم الحرمین کا لقب اختیار کرتے ہیں، ویسے تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ لقب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا (النوادرالسلطانیہ والمحاسن الیوسفیہ، بہاء الدین بن شداد)، ان کے بعد سلطنت عثمانیہ کے اولین حاکم سلطان سلیم اول اور عہد غلامان کے دو مشہور حکمراں سلطان اشرف سیف الدین برسبائی اور ملک ناصر الدین محمد بن قلاوون نے بھی یہ لقب اختیار کیا، آل سعود کی بات کی جائے تو ملک فیصل نے غلاف کعبہ پر لکھے ہوئے لقب ’’صاحب الجلالة‘‘ کو خادم الحرمین سے تبدیل کروایا تھا، لیکن باضابطہ طور پر یہ لقب پہلی بار شاہ فہد کے لئے استعمال ہوا، اور اب اس لقب سے ملقب شاہ عبداللہ کے بعد تیسرے فرماں روا شاہ سلمان ہیں۔   
اسماء رجال اور اصول حدیث کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ایک ہی محدث کو اس کے نام، لقب اور کنیت تینوں سے ذکر کیا جاتا تھا، اور ایک ہی نہیں کئی کئی کنیتیں بھی ہوتی تھیں، اپنی روایت کے عیب اور نقص کو چھپانے کے لئے بعض رواۃ شیوخ کے معروف نام کی بجائے ان کے غیرمعروف نام یا کنیت ذکر کرتے تھے، تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ یہ شیخ وہی صاحب ہیں جن کا ضعف جگ ظاہر ہے، اس حیلہ سازی کو اصول حدیث کے ماہرین ’’تدلیس الشیوخ‘‘ کہتے ہیں، فن حدیث میں القاب پر باضابطہ کتابیں لکھی گئیں، امام ذہبی (م: 847 ھ) کی کتاب ’’ذات النقاب في الألقاب‘‘ اور حافظ ابن حجر (م: 852 ھ) کی ’’نزهة الألباب في الألقاب‘‘وغیر اسی سلسلہ کی کتابیں ہیں.
یہ تو رہی بات فن حدیث میں کنیت یا لقب وغیرہ کے استعمال کی؛ ایک ہی شخص یا شخصیت کے لیے دودو چار چار مفرد ومرکب القاب کے استعمال میں ہمارا ’’مدرسائی ذوق‘‘ بھی کچھ کم نہیں، مثالیں دیکھنی ہوں تو مدارس کے سالانہ جلسوں کے اشتہارات جمع کرلیجئے، اس وقت تو میرے پاس ان میں سے ایک نمونہ بھی نہیں لیکن جو القاب بار بار دیکھنے کی وجہ سے میرے کمزور حافظہ میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:نمونۂ سلف ،عارف باللہ ،مقرر شعلہ بیاں، خطیب دوراں، سحبان اللسان، مناظر اسلام، مفکراسلام وغیرہ، یہ اور ان جیسے القاب ناموں سے پہلے حضرت مولانا، اور ناموں کے بعد مُدّظلہ العا لی، حفظہ اللہ، دامت برکاتہم اور قبلہ وغیرہ کے علاوہ ہیں، استادامام بخش ناسخ (م: 1838ء) نے تو ’’قاتل کی آستیں‘‘ کو بھی لقب سے نواز دیا:
یہ اس کے ہے ساعدوں کا عالم کہ جس نے دیکھا ہوا وہ بیدم
’’نیامِ  تیغِ   قضائے مبرم‘‘ لقب ہے قاتل  کی آستیں کا
لکھنؤ میں مجھ سے ایک پوسٹ ماسٹر نے کہا کہ ڈاکٹر کے نام سے پہلے سر (sir) یا آنریبل (Honourable) وغیرہ لکھنے کا معمول نہیں، لیکن علماء کے خطوط میں ’’مولانا‘‘ کے علاوہ نام سے پہلے اور اس کے بعد اتنے اضافوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، ہم نے کہا کہ انگریزی اور اردو کا مذاق اس سلسلہ میں مختلف ہے، چنانچہ ہم اردو میں بسا اوقات یہی حسن سلوک ڈاکٹروں کے ساتھ بھی کرتے ہیں اور بلاتکلف ’’جناب ڈاکٹر ۔۔۔ صاحب‘‘ اور ’’عزت مآب منسٹر ۔۔۔ صاحب‘‘ وغیرہ کی ’’ترکیبیں‘‘ استعمال کرتے ہیں، یہ تو تھا صحیح یا غلط استدلال صرف اس مقصد سے کہ اپنی بات اونچی رہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارا یہ ذوق اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ جب ہم رومن خط میں اردو لکھ رہے ہوتے ہیں تو بھی رعایت انگریزی کے بجائے اردو کے لسانی آداب کی ہی کی جاتی ہے، مدارس کے داخلہ فارم جب طلبہ سے پر کرائے جاتے ہیں تو ولدیت کے خانہ میں کم ایسے طلبہ ہیں جو اپنے والد کے نام کے ساتھ جناب، حضرت، مولانا اور صاحب وغیرہ کا اضافہ نہ کرتے ہوں، احترام مانع ہوتا ہے کہ والدمحترم کا نام قلم پہ آئے اور عزت وشرف کے مخصوص الفاظ کے بغیر لکھا جائے۔
اب مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب انھیں کوئی سرکاری فارم پر کرنا ہوتا ہے، وہاں مولانا کے لئے ML اور صاحب کے لئے SB کے شارٹ کٹس استعمال کئے جاتے ہیں، میرے ایک دوست کو اسی SB کے چکر میں ایک سال تک پاسپورٹ آفس کے چکر کاٹنے پڑے کہ اس اختصار کا Full Form بتائیں کیا ہے؟ اس سلسلہ میں بڑے مزے کی حکایتیں ہیں، ہم ندوۃ العلماء میں زیرتعلیم تھے، دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر میرے ایک شناسا نے ندوہ کے شعبۂ ادب میں داخلہ لیا، آئی کارڈ بنا تو انھوں نے اپنے نام کے ساتھ F.D. لکھا، میں نے پوچھا: آپ تو کیرالا یا تملناڈو کے نہیں جہاں اس طرح کے انگریزی شارٹ کٹس مثلا P.K. اور U.P. وغیرہ ناموں کے ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں! 
وہ کہنے لگے: حیرت ہے آپ اتنی بات نہیں سمجھتے، F.D. کا فل فورم ہے’’فاضل دیوبند‘‘، مجھے اس پر بے ساختہ ہنسی آگئی، وہ پھر گویا ہوئے: آپ بھی عجیب آدمی ہیں، دیکھئے ہم علماء کو انگریزی والوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے، کچھ ایسے شارٹ کٹس رکھئے جنکی تہجی سے آگے وہ کچھ سوچ بھی نہ سکیں، ابھی چند دنوں پہلے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اسی طرز پہ اگر ’’فاضل مظاہرعلوم‘‘ کا شارٹ کٹ بنانا ہوتو F.M. بناسکتے ہیں!!!
بہرحال بات چل رہی تھی القاب وآداب اور خطاب کی، پہلے مسلم حکومتوں کی جانب سے خاص خاص خطابات دیئے جاتے تھے، ’’شمس العلماء‘‘، ’’محسن الملک‘‘، وغیرہ مسلم حکومتوں کے دیئے ہوئے یادگار القاب ہیں، جو شخصیتیں واقعی غیرمعمولی احترام کی مستحق ہیں؛ ہمیں تو انھیں القاب وآداب سے ہی یاد کرنا چاہئے، عربی مثل ہے: 
’’الجار أحقّ بصقبه والمرء أحقّ بلقبه‘‘ 
(پڑوسی اپنے قریبی گھر کا اور (عظیم) انسان اپنے لقب کا زیادہ مستحق ہوتا ہے)، اور سچ یہ ہے کہ لقب کسی آدمی کی قدرومنزلت اور شخصی اوصاف کا آئینہ دار ہوتا ہے، اور بسا اوقات بعض شخصیات ایسی گوناگوں صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں کہ ایک لقب سے ان کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، ہر شخص اپنی پسند اور ترجیح کے اعتبار سے ان کو القاب سے نوازنا چاہتا ہے:
عباراتُنا شتّی وحسنک واحدٌ
وکلٌّ إلی ذاک الجمالِ یُشیرُ
(ہمارے الفاظ مختلف ہیں لیکن آپ کا حسن ایک ہی ہے، اور ہر ایک اسی جمال جہاں آرا کی طرف اشارہ کررہا ہے)
اور سچ یہ ہے کہ القاب سے ایسی عظیم شخصیتوں کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان شخصیتوں کے نام سے القاب کو زندگی مل جاتی ہے، اطالوی فلاسفر نکولو میکاولی (م:1527ء) نے کہا تھا: "It is not titles that honor men,but men that honor titles" (القاب شخصیتوں کو عزت نہیں دیتے، شخصیتیں القاب کو قابل احترام بنادیتی ہیں)۔
 خلیل مطران (م: 1949ء) نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے ؎                        
له  من  الشِّیَم  الغرّاء مملکة
إن کان ذا لقبٍ أو غیرَ ذي لقبِ
(دلوں پر اس کے اخلاق کریمانہ کی حکومت ہے،وہ صاحب لقب ہو یا نہ ہو)
لیکن یہ الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں کہ ہر کس وناکس کو کوئی بڑا لقب دے کر بہ تکلف اس کی قدر ومنزلت کا قائل کرنے کی کوشش کی جائے، اس کو ستائش کے خول یا تعریف کے قفس زریں میں بند کردیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے کہ بلاوجہ تعریف میں مبالغہ سے کام لیا جائے، وفد بنی عامر نے تعریف پہ تعریف شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’قولوا بقولکم أوبعضَ قولکم، ولا یستجرینّکم الشیطان‘‘ (أبوداؤد: 4808، باب في کراهية التمادح) 
(بس اپنی اسی بات پر یا انھیں میں سے بعض باتوں پر اکتفا کرو، شیطان تم سے دھیرے دھیرے وہ بات نہ کہلوادے جو درست نہ ہو) عبقری اور عظیم شخصیات القاب کی بیساکھیوں پر چل کر ترقی کے زینے طے نہیں کرتیں، ان کی تمام تر ترقیات ان کے خلوص، سعی پیہم اور جانفشانیوں کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں، لیکن اب نقل ’’کارناموں‘‘ کی نہیں ’’کار‘‘ اور ’’ناموں‘‘ کی ہونے لگی ہے، پچھلی صدی کی نامور اور عبقری شخصیات میں علامہ محمد انور بن معظم شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام آتا ہے، ان کو ایک تحریر میں مولانا یوسف بنوری رحمۃ علیہ نے ’’الشیخ الحِبرالبَحر مولانا محمد أنور شاہ‘‘ لکھا، علامہ نے جب یہ تحریر دیکھی، جوابی تحریر میں تواضعا اس سے منع فرمادیا اور لکھا: ’’آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے‘‘۔
 یہ تھی علماء کی تواضع، اور ان کی ترجیح، اب صورت حال مختلف ہے، القاب میں بیجا بناؤسنگار بھی جاری ہے، اور طرفہ یہ کہ جو حضرات ان سے نوازے جاتے ہیں، وہ واقعی خود کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں، ایک جلسہ میں شرکت کا موقع ملا، وہاں ایک صاحب تشریف رکھتے تھے جو شہر میں تعلیمی خدمات کے لئے یوں شہرت رکھتے تھے کہ وہ کئی اداروں کی ورکنگ کمیٹی میں دخل رکھتے تھے، ناظم جلسہ نے ان کو دعوت سخن دیتے ہوئے کہا: ’’شہرِ ۔۔۔ کے سرسید جناب فلاں صاحب ۔۔۔‘‘ جبکہ اداروں سے منسلک ہونا اور بات ہے اور کسی تعلیمی یا اصلاحی نظریہ کا محرک ہونا ایک بالکل دوسری بات، اسی طرح ایک صاحب نے ایک جلسہ میں نظامت کرتے ہوئے مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کیا، اور فرطِ محبت یاجوشِ نظامت میں کہہ گئے: ’’دنیا کے سب سے بڑے مؤرخ حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"اس جملہ کو ’’بلا تبصرہ‘‘ پڑھئے اور خود نتیجہ نکالئے کہ اس سے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام متعین ہورہا ہے یا محض گرمجوشی کا اظہار!"
حضرت مولانا خود فرمایا کرتے تھے: "موسم کی طرح ہر لفظ کا ایک درجۂ حرارت یا درجۂ برودت ہوتا ہے، ’’حضرت‘‘ کا لفظ تو ایسا ’’بے اعتبار‘‘ یا ’’بااعتبار‘‘ ہوگیا کہ واقعی کسی بڑی شخصیت کے لیے صرف حضرت کا لفظ کافی نہیں رہا، چونکہ ’’ملاّ‘‘ بھی حضرت ہوگئے اور ’’جمّن‘‘ بھی حضرت، ضرورت ہے القاب وآداب کے استعمال میں واقعیت اور توازن کی، دنیا کی قیادت کا منصب حقیقت پسندی کا طالب ہے، بے جا الفاظ سے کھیلنے کا نہیں، احمد فراز نے سچ کہا تھا:                                                        
مانگے تانگے کی قَبائیں دیر تک رہتی نہیں         
یار لوگوں کے  لقب القاب مت دیکھا کرو
بقلم: محمد اعظم ندوی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post.html?m=1