Monday, October 18, 2021

تہجد ‏کے ‏اعمال ‏

تہجد ‏کے ‏اعمال

تہجد کا لغوی معنی بیداری ہے، بعض کہتے ہیں: بیداری اور خواب دونوں کے ہیں، اور تہجد کے شرعی معنی رات کی نماز کے ہیں، یعنی شریعت میں تہجد خاص طور پر رات کی نماز کو کہا جاتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص تہجد کے وقت اٹھ کر نوافل ادا نہ کرسکے، بلکہ کچھ ذکراذکار، دعائیں وغیرہ کرلے، تو اسے تہجد پڑھنے کا ثواب تو نہ ملے گا، البتہ اس وقت کی بابرکت ساعتوں سے وہ محروم نہیں رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کذا فی فتح الباری:

تفسیر التھجد بالشھر معروف فی اللغۃ وھو من الاضداد یقال تہجد اذا سھر وتہجد اذا نام حکاہ الجوہری وغیرہ ومنھم من فرق بینھما فقال ہجرت نمت وتہجدت سشھرت حکاہ ابو عبیدۃ و صاحب العین فعلی ھذا اصل التہجد النوم ومعنی تہجدت طرحت التی النوم وقال الطبری التہجد السھر بعد نومۃ ثم ساقہ عن جماعۃ من السلف وقال ابن الفارس المتہجد المصلی وقال کراع التہجد صلوۃ اللیل خاصۃ۔ (ج: ٣ ص: ۵٩٢)ماخذ: دارالافتاء الاخلاص کراچی. فتوی نمبر: 2426

سوکر اٹھنے کی سنتیں:

نیند سے بیدار ہوتے ہی دونوں ہاتھوں سے چہرہ اور آنکھوں کو ملنا،

اور یہ دعا پڑھنا،

الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا الیہ النشور.
ترجمہ: سب تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ھیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا یے."
جب سوکر اٹھیں تو مسواک کرلیں.
وضو میں دوبارہ مسواک کی جاۓ گی. سوکر اٹھتے ھی مسواک کرلینا علیحدہ سنت ہے.
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین مرتبہ ہاتھوں کو اچھی طرح دھولیں.
(شمائل ص ۱۸. بخاری ص ۹۳۶. ابوداؤد ص ۳۳۵. مشکوۃ ج ۱ ص ۲۰۸)
------
تہجد کی نماز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ سے کوئی خاص دعا وارد نہیں ہے، یہ رات کی عموما طویل نماز ہے، اس نماز میں رب سے جو چاہیں مانگیں، جتنی چاہیں رات کے اندھیرے میں اپنے خالق ومالک کے سامنے آنسو بہائیں ۔ اللہ رات میں بندوں کو خوب نوازتا ہے بلکہ رات میں اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا؟ 

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ رات کو جب کبھی، اچانک بیدار ہوتے تو دس بار ”اللہ اکبر“ کہتے اور دس بار تہلیل کرتے یعنی کہتے۔ لاالہ الا اللہ ”نہیں ہے کوئی حاکم مگر اللہ “۔ اور اس کے بعد دس بار یہ دعا پڑھتے۔ اللھم انی اعوذبک من ضیق الدنیا ومن ضیق یوم القیمة ” اے اللہ میں دنیا کی تنگی اور آخرت کی تنگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضور ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے۔

لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی واسئلک رحمتک اللھم زدنی علما ولا تزع قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمة انک انت الوھاب (ابوداﺅد) ” اے اللہ تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ، تو پاک ہے اور برتر ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں ، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما اور میرے دل کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کر ، اور مجھے اپنی جانب سے رحمت عطا فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا ہے “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو اور کہے۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ الحمد للہ وسبحان اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ” نہیں کوئی حاکم مگر اللہ صرف وہی حاکم ہے ، اسکے ساتھ کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے ، تعریف اسی کی ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، وہی پاک ہے، ہر عیب سے۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ اللہ ہی بڑا ہے، کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ کے ذریعہ ہی ہے، جو بلند اور عظیم ہے “۔ اور پھر وہ یہ دعا کرے۔ اللھم اغفرلی ”اے اللہ ، مجھے بخش دے “۔ یا کوئی اور دعا کرے تو یہ دعا قبول ہوگی اور اگر وہ وضو کرکے نماز بھی ادا کرے تو نماز قبول ہوگی (بخاری)۔ ایک بار حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس رات گزاری۔ فرماتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے آسمان کی طرف سراٹھایا اور سورة آل عمران کی دس آیات انا فی خلق السموت سے آخر تک تلاوت کیں. تہجد کی نماز کے لئے دعائے استفتاح کا ثبوت ملتا ہے، وہ یہ ہے:

«اللهم لك الحمد،‏‏‏‏
أنت نور السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏
ولك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏
ولك الحمد،‏‏‏‏
أنت الحق ووعدك حق،‏‏‏‏
وقولك حق،‏‏‏‏ ولقاؤك حق،‏‏‏‏
والجنة حق،‏‏‏‏ والنار حق،‏‏‏‏
والساعة حق،‏‏‏‏ والنبيون حق،‏‏‏‏
ومحمد حق،
اللهم لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت،‏‏‏‏
وإليك أنبت،‏‏‏‏ وبك خاصمت،
‏‏‏‏ وإليك حاكمت،‏‏‏‏
فاغفر لي ما قدمت وما أخرت،‏‏‏‏ وما أسررت،‏‏‏‏ وما أعلنت،‏‏‏‏ أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت».

ترجمہ: اے اللہ! تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے،
تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں
تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے،
تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں
اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں.
اے اللہ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا،
پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
اس دعاء کے متعلق بخاری میں مذکور ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا قام منَ الليلِ يتهَجَّدُ قال: اللهمَّ لك الحمدُ، (صحيح البخاري: 1120).
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعاء پڑھتے:
اللهم لك الحمدُ....
صحیح بخاری میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں:

كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يدعو من الليلِ: (اللهم لك الحمدُ... (صحيح البخاري: 7385)

اس کا معنی بھی قریب قریب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں یہ دعاء پڑھتے: 

اللهم لك الحمدُ....
صحیح ابن خزیمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مذکور ہے: 

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام للتهجد قال بعد ما يكبر : اللهم لك الحمد.... (صحیح ابن خزیمۃ: 1152)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تجہد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کے بعد کہتے: اللهم لك الحمد....
اس پہ امام ابن خزیمہ نے باب باندھا ہے:
((باب ذكر الدليل على أن النبي إنما كان يحمد بهذا التحميد ويدعو بهذا الدعاء لافتتاح صلاة الليل بعد التكبير لا قبل))
.ترجمہ: اس بات کے ذکر میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے بعد، نہ کہ اس سے پہلے اس حمد اور دعا کے ساتھ تہجد کی نماز کا افتتاح کرتے۔ اب بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز شروع کرتے تو دعائے استفتاح کے طور پر مذکورہ ثنا کے ذریعہ اللہ سے دعا کرتے، اگر کوئی اس کے علاوہ بھی ثنا پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے رات میں سورہ آل عمران کی آخری آیات پڑھیں اس کے لئے پوری رات قیام کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

نمازِتہجد کی نیت کا طریقہ اور تہجد کی نماز کا وقت

سوال: تہجد کی نماز کی نیت کیسے کرتے ہیں اور یہ فجر کی نماز سے کتنا پہلے ادا کی جاتی ہے؟

جواب: 1: نماز تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کررہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد  کی نیت اس طرح کرے: "نَوَیتُ أَن أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْ صَلَاةِ التَّهَجُّدِ سُنَّةَ النَّبِیِّ ﷺ، یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ "میں دوو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں"  اللہ اکبر، نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھے گا،  تب بھی تہجد کی نماز ہوجائےگی۔

2: تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے،  باقی عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہوجائےگی، نیز تہجد کے  لیے سونا شرط نہیں ہے، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ’’معارف القرآن ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے، اور یہ لفظ دو متضاد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اور جاگنے بیدارہونے کے بھی ...... اسی رات کی نماز کو اصطلاح شرع میں نمازتہجد کہا جاتا ہے،اور عموماً اس کا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ کچھ دیر سوکر اٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ نماز تہجد ہے، لیکن تفسیر مظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت (ومن اللیل فتهجدبه) کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نماز کے لیے سونے کو ترک کردو، اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے اسی طرح شروع ہی میں نماز کے لیے نیند کو مؤخرکرکے نمازپڑھنے پر بھی صادق ہے، اس لیے نماز تہجد کے لیے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں، پھر بعض روایات حدیث سے بھی تہجد کے اسی عام معنی پر استدلال کیا ہے۔ امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجد کی جو تعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہر اس نمازپرصادق ہے جو عشاء کے بعد پڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیند کے بعد پرمحمول کیا جائے گا‘‘۔

اس کا حاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہونا شرط نہیں، اور الفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں، لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہا ہے کہ نمازآخر رات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی‘‘۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وروى الطبراني مرفوعا «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل» وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ." (کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:24، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144209201757- دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post_18.html


No comments:

Post a Comment