Thursday, October 7, 2021

القاب وآداب کے استعمال میں توازن کی ضرورت

🔹القاب 
وآداب کے استعمال 
میں توازن کی ضرورت:
خاکساری کو بلندی کا لقب کہتے ہیں

انسان کی شخصیت صرف اس کے خاص نام سے ہی نہیں اس کی کنیت، لقب، تخلص اور خطاب سے بھی پہچانی جاتی ہے، اس وقت مجھے بطورخاص القاب اور ضمناً کسی نام کے دیگر متعلقات کا ایک غیرمربوط تذکرہ کرنا ہے، ابن الجوزی (م: 597ھ) کہتے ہیں:
’’ألقاب جمع لقب: وھواسم یدعی به الإنسان سوی الاسم الذي سمّي به (زاد المسیر، المکتب الاسلامی، بیروت، 7؍467)
(القاب لقب کی جمع ہے: یہ اس نام کو کہتے ہیں جس سے کسی شخص کو پکارا جاتا ہے، اور یہ اس کے اصل نام کے علاوہ ہوتا ہے).
القاب کا استعمال ہر دور میں کثرت سے ہوتا آیا ہے، جاہلی دور میں القاب زیادہ تر خطر پسندی، شجاعت، مہارت یا کسی جسمانی وصف یا عیب کی بنیاد پر دیئے جاتے تھے، چنانچہ جاہلی شاعر ثابت بن جابر (و: 85ق۔ ھ) کو ’’تأبّط شرًّا‘‘ (خطرات کو گلے لگانے والا) کا خطاب دیا گیا، زمانۂ ما بعد میں بھی اس کا اثر باقی رہا، مخضرمی شاعر میمون بن قیس (و:7ھ) کو اس کے ضعف بصارت کی وجہ سے ’’الأعشی‘‘ کہا گیا اور چونکہ وہ اپنے اشعار زیادہ تر ترنّم سے پڑھتا تھا اس لئے اسے ’’صَنّاجة العرب‘‘ کا بھی خطاب ملا، عہدعباسی میں عبدالسلام بن رغبان (و:235ھ) کو ’’دیک الجن‘‘ کا خطاب دیا گیا چونکہ اس کی آنکھوں کا رنگ عام انسانوں سے بہت مختلف تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو القاب دیئے وہ ان کے ذاتی اوصاف وکمالات کو بیان کرتے ہیں، فاروق وصدیق، ذوالنورین، اسداللہ، امین ہذہ الامۃ، ذوالیدین، ذوالاذنین، ذوالشہادتین وغیرہ اسی قسم کے القاب ہیں۔
عہدعباسی سے یہ مزاج پروان چڑھا کہ ہر خلیفہ خود اپنا لقب اختیار کرنے لگا، یہ القاب ہادی، مہدی، ناصر لِدین اللہ، حاکم بامراللہ سے شروع ہوکر سیف الدولۃ، عضد الدولۃ، رکن الدین، معزالدین والدنیا تک پہنچے، اندلس میں یہ ذوق ایک دوسرے رنگ میں ابھرا، یہاں کے القاب میں کامیاب وظفرمند اور بلند اقبال ہونے کی طرف اشارے ہوتے تھے، ظافرومنصور اور ذوالوزارتین وغیرہ اس کے نمونے ہیں، بعض علاقوں میں عربی القاب کو ترک کرکے فارسی وترکی القاب کو رواج دیا گیا، بیگ، پاشا اور افندی وغیرہ اسی دور کی یادگار ہیں، دکن کی آصفجاہی سلطنت (مملکت آصفیہ) میں بھی نظام الملک، ناصرجنگ، مظفرجنگ، صلابت جنگ، سکندرجاہ، ناصرالدولہ، افضل الدولہ اور آصف جاہ جیسے عربی، فارسی اور اردو کے شاہکار القاب استعمال ہوئے۔
 دوسری طرف علماء ومشائخ کو شیخ الاسلام، حجۃ الاسلام اور ناصر السنۃ وغیرہ کے القاب سے یاد کیا گیا، فقہاء عراق میں سادگی غالب تھی، وہ اپنی نسبت کسی خاندانی پیشہ کی یا قبیلہ ومحلہ کی جانب کرلینا کافی سمجھتے تھے جیسے ’’جصاص‘‘ (چونا بنانے والا یا چونا فروخت کرنے والا)، اور ’’قدوری‘‘ (ہانڈی یا دیگچی کا کاروبار کرنے والا) وغیرہ، جب کہ اہل خراسان وماوراء النہر مبالغہ کی حد تک بھاری بھرکم القاب استعمال کرتے تھے، جیسے شمس الائمہ، فخرالاسلام، صدرالاسلام، صدرجہاں، صدرالشریعہ وغیرہ (الفوائد البہیہ، عبدالحی فرنگی محلی، ص: 239)، ہندوستان میں ان القاب کے ساتھ ساتھ شمس العلماء، حکیم الامت، حکیم الاسلام اور مفکراسلام وغیرہ کے القاب بجا طور پر ان کی مستحق شخصیات کے لئے استعمال کے گئے، اور سچ مچ وہ عربی شاعر کے اس شعر کے مصداق تھے  ؎  وقلّماأبصرتْ عیناک ذا لقبٍ
إلا ومعناہ إن فَتّشتَ في لقبه
(تم نے کسی صاحب لقب کو نہیں دیکھا ہوگا مگر ذرا تلاش کرنے پر اس کے اوصاف اس کے لقب میں مل سکتے ہیں)
مغربی ممالک القاب سے ہمیشہ دور رہے، انہوں نے Sir اور Mister پر اکتفا کیا، اور آخرالذکر کے لئے تو صاحب رتبہ ہونا بھی شرط نہیں، البتہ عالم عرب میں شاہان وشہزادگان مملکت کے لئے انگریزی کی طرح صرف King یا Prince کے ہم معنی کسی لفظ مثلا ’’الأمیر‘‘ یا ’’الملِک‘‘ کو کافی نہیں سمجھا گیا، بلکہ مختلف عہدے داروں کے لئے ’’فخامة الرئیس‘‘، ’’جلالة الملک‘‘، ’’معالي الأمیر‘‘ اور ’’سموّ الأمیر‘‘ وغیرہ کے زوردار القاب استعمال کئے گئے، یہ قابل تعریف ہے کہ سعودی عرب کے فرماں روا اب اپنے لئے خادم الحرمین کا لقب اختیار کرتے ہیں، ویسے تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ لقب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا (النوادرالسلطانیہ والمحاسن الیوسفیہ، بہاء الدین بن شداد)، ان کے بعد سلطنت عثمانیہ کے اولین حاکم سلطان سلیم اول اور عہد غلامان کے دو مشہور حکمراں سلطان اشرف سیف الدین برسبائی اور ملک ناصر الدین محمد بن قلاوون نے بھی یہ لقب اختیار کیا، آل سعود کی بات کی جائے تو ملک فیصل نے غلاف کعبہ پر لکھے ہوئے لقب ’’صاحب الجلالة‘‘ کو خادم الحرمین سے تبدیل کروایا تھا، لیکن باضابطہ طور پر یہ لقب پہلی بار شاہ فہد کے لئے استعمال ہوا، اور اب اس لقب سے ملقب شاہ عبداللہ کے بعد تیسرے فرماں روا شاہ سلمان ہیں۔   
اسماء رجال اور اصول حدیث کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ایک ہی محدث کو اس کے نام، لقب اور کنیت تینوں سے ذکر کیا جاتا تھا، اور ایک ہی نہیں کئی کئی کنیتیں بھی ہوتی تھیں، اپنی روایت کے عیب اور نقص کو چھپانے کے لئے بعض رواۃ شیوخ کے معروف نام کی بجائے ان کے غیرمعروف نام یا کنیت ذکر کرتے تھے، تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ سکیں کہ یہ شیخ وہی صاحب ہیں جن کا ضعف جگ ظاہر ہے، اس حیلہ سازی کو اصول حدیث کے ماہرین ’’تدلیس الشیوخ‘‘ کہتے ہیں، فن حدیث میں القاب پر باضابطہ کتابیں لکھی گئیں، امام ذہبی (م: 847 ھ) کی کتاب ’’ذات النقاب في الألقاب‘‘ اور حافظ ابن حجر (م: 852 ھ) کی ’’نزهة الألباب في الألقاب‘‘وغیر اسی سلسلہ کی کتابیں ہیں.
یہ تو رہی بات فن حدیث میں کنیت یا لقب وغیرہ کے استعمال کی؛ ایک ہی شخص یا شخصیت کے لیے دودو چار چار مفرد ومرکب القاب کے استعمال میں ہمارا ’’مدرسائی ذوق‘‘ بھی کچھ کم نہیں، مثالیں دیکھنی ہوں تو مدارس کے سالانہ جلسوں کے اشتہارات جمع کرلیجئے، اس وقت تو میرے پاس ان میں سے ایک نمونہ بھی نہیں لیکن جو القاب بار بار دیکھنے کی وجہ سے میرے کمزور حافظہ میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:نمونۂ سلف ،عارف باللہ ،مقرر شعلہ بیاں، خطیب دوراں، سحبان اللسان، مناظر اسلام، مفکراسلام وغیرہ، یہ اور ان جیسے القاب ناموں سے پہلے حضرت مولانا، اور ناموں کے بعد مُدّظلہ العا لی، حفظہ اللہ، دامت برکاتہم اور قبلہ وغیرہ کے علاوہ ہیں، استادامام بخش ناسخ (م: 1838ء) نے تو ’’قاتل کی آستیں‘‘ کو بھی لقب سے نواز دیا:
یہ اس کے ہے ساعدوں کا عالم کہ جس نے دیکھا ہوا وہ بیدم
’’نیامِ  تیغِ   قضائے مبرم‘‘ لقب ہے قاتل  کی آستیں کا
لکھنؤ میں مجھ سے ایک پوسٹ ماسٹر نے کہا کہ ڈاکٹر کے نام سے پہلے سر (sir) یا آنریبل (Honourable) وغیرہ لکھنے کا معمول نہیں، لیکن علماء کے خطوط میں ’’مولانا‘‘ کے علاوہ نام سے پہلے اور اس کے بعد اتنے اضافوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، ہم نے کہا کہ انگریزی اور اردو کا مذاق اس سلسلہ میں مختلف ہے، چنانچہ ہم اردو میں بسا اوقات یہی حسن سلوک ڈاکٹروں کے ساتھ بھی کرتے ہیں اور بلاتکلف ’’جناب ڈاکٹر ۔۔۔ صاحب‘‘ اور ’’عزت مآب منسٹر ۔۔۔ صاحب‘‘ وغیرہ کی ’’ترکیبیں‘‘ استعمال کرتے ہیں، یہ تو تھا صحیح یا غلط استدلال صرف اس مقصد سے کہ اپنی بات اونچی رہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارا یہ ذوق اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ جب ہم رومن خط میں اردو لکھ رہے ہوتے ہیں تو بھی رعایت انگریزی کے بجائے اردو کے لسانی آداب کی ہی کی جاتی ہے، مدارس کے داخلہ فارم جب طلبہ سے پر کرائے جاتے ہیں تو ولدیت کے خانہ میں کم ایسے طلبہ ہیں جو اپنے والد کے نام کے ساتھ جناب، حضرت، مولانا اور صاحب وغیرہ کا اضافہ نہ کرتے ہوں، احترام مانع ہوتا ہے کہ والدمحترم کا نام قلم پہ آئے اور عزت وشرف کے مخصوص الفاظ کے بغیر لکھا جائے۔
اب مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب انھیں کوئی سرکاری فارم پر کرنا ہوتا ہے، وہاں مولانا کے لئے ML اور صاحب کے لئے SB کے شارٹ کٹس استعمال کئے جاتے ہیں، میرے ایک دوست کو اسی SB کے چکر میں ایک سال تک پاسپورٹ آفس کے چکر کاٹنے پڑے کہ اس اختصار کا Full Form بتائیں کیا ہے؟ اس سلسلہ میں بڑے مزے کی حکایتیں ہیں، ہم ندوۃ العلماء میں زیرتعلیم تھے، دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر میرے ایک شناسا نے ندوہ کے شعبۂ ادب میں داخلہ لیا، آئی کارڈ بنا تو انھوں نے اپنے نام کے ساتھ F.D. لکھا، میں نے پوچھا: آپ تو کیرالا یا تملناڈو کے نہیں جہاں اس طرح کے انگریزی شارٹ کٹس مثلا P.K. اور U.P. وغیرہ ناموں کے ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں! 
وہ کہنے لگے: حیرت ہے آپ اتنی بات نہیں سمجھتے، F.D. کا فل فورم ہے’’فاضل دیوبند‘‘، مجھے اس پر بے ساختہ ہنسی آگئی، وہ پھر گویا ہوئے: آپ بھی عجیب آدمی ہیں، دیکھئے ہم علماء کو انگریزی والوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے، کچھ ایسے شارٹ کٹس رکھئے جنکی تہجی سے آگے وہ کچھ سوچ بھی نہ سکیں، ابھی چند دنوں پہلے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اسی طرز پہ اگر ’’فاضل مظاہرعلوم‘‘ کا شارٹ کٹ بنانا ہوتو F.M. بناسکتے ہیں!!!
بہرحال بات چل رہی تھی القاب وآداب اور خطاب کی، پہلے مسلم حکومتوں کی جانب سے خاص خاص خطابات دیئے جاتے تھے، ’’شمس العلماء‘‘، ’’محسن الملک‘‘، وغیرہ مسلم حکومتوں کے دیئے ہوئے یادگار القاب ہیں، جو شخصیتیں واقعی غیرمعمولی احترام کی مستحق ہیں؛ ہمیں تو انھیں القاب وآداب سے ہی یاد کرنا چاہئے، عربی مثل ہے: 
’’الجار أحقّ بصقبه والمرء أحقّ بلقبه‘‘ 
(پڑوسی اپنے قریبی گھر کا اور (عظیم) انسان اپنے لقب کا زیادہ مستحق ہوتا ہے)، اور سچ یہ ہے کہ لقب کسی آدمی کی قدرومنزلت اور شخصی اوصاف کا آئینہ دار ہوتا ہے، اور بسا اوقات بعض شخصیات ایسی گوناگوں صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں کہ ایک لقب سے ان کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، ہر شخص اپنی پسند اور ترجیح کے اعتبار سے ان کو القاب سے نوازنا چاہتا ہے:
عباراتُنا شتّی وحسنک واحدٌ
وکلٌّ إلی ذاک الجمالِ یُشیرُ
(ہمارے الفاظ مختلف ہیں لیکن آپ کا حسن ایک ہی ہے، اور ہر ایک اسی جمال جہاں آرا کی طرف اشارہ کررہا ہے)
اور سچ یہ ہے کہ القاب سے ایسی عظیم شخصیتوں کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان شخصیتوں کے نام سے القاب کو زندگی مل جاتی ہے، اطالوی فلاسفر نکولو میکاولی (م:1527ء) نے کہا تھا: "It is not titles that honor men,but men that honor titles" (القاب شخصیتوں کو عزت نہیں دیتے، شخصیتیں القاب کو قابل احترام بنادیتی ہیں)۔
 خلیل مطران (م: 1949ء) نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے ؎                        
له  من  الشِّیَم  الغرّاء مملکة
إن کان ذا لقبٍ أو غیرَ ذي لقبِ
(دلوں پر اس کے اخلاق کریمانہ کی حکومت ہے،وہ صاحب لقب ہو یا نہ ہو)
لیکن یہ الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں کہ ہر کس وناکس کو کوئی بڑا لقب دے کر بہ تکلف اس کی قدر ومنزلت کا قائل کرنے کی کوشش کی جائے، اس کو ستائش کے خول یا تعریف کے قفس زریں میں بند کردیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے کہ بلاوجہ تعریف میں مبالغہ سے کام لیا جائے، وفد بنی عامر نے تعریف پہ تعریف شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’قولوا بقولکم أوبعضَ قولکم، ولا یستجرینّکم الشیطان‘‘ (أبوداؤد: 4808، باب في کراهية التمادح) 
(بس اپنی اسی بات پر یا انھیں میں سے بعض باتوں پر اکتفا کرو، شیطان تم سے دھیرے دھیرے وہ بات نہ کہلوادے جو درست نہ ہو) عبقری اور عظیم شخصیات القاب کی بیساکھیوں پر چل کر ترقی کے زینے طے نہیں کرتیں، ان کی تمام تر ترقیات ان کے خلوص، سعی پیہم اور جانفشانیوں کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں، لیکن اب نقل ’’کارناموں‘‘ کی نہیں ’’کار‘‘ اور ’’ناموں‘‘ کی ہونے لگی ہے، پچھلی صدی کی نامور اور عبقری شخصیات میں علامہ محمد انور بن معظم شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام آتا ہے، ان کو ایک تحریر میں مولانا یوسف بنوری رحمۃ علیہ نے ’’الشیخ الحِبرالبَحر مولانا محمد أنور شاہ‘‘ لکھا، علامہ نے جب یہ تحریر دیکھی، جوابی تحریر میں تواضعا اس سے منع فرمادیا اور لکھا: ’’آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے‘‘۔
 یہ تھی علماء کی تواضع، اور ان کی ترجیح، اب صورت حال مختلف ہے، القاب میں بیجا بناؤسنگار بھی جاری ہے، اور طرفہ یہ کہ جو حضرات ان سے نوازے جاتے ہیں، وہ واقعی خود کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں، ایک جلسہ میں شرکت کا موقع ملا، وہاں ایک صاحب تشریف رکھتے تھے جو شہر میں تعلیمی خدمات کے لئے یوں شہرت رکھتے تھے کہ وہ کئی اداروں کی ورکنگ کمیٹی میں دخل رکھتے تھے، ناظم جلسہ نے ان کو دعوت سخن دیتے ہوئے کہا: ’’شہرِ ۔۔۔ کے سرسید جناب فلاں صاحب ۔۔۔‘‘ جبکہ اداروں سے منسلک ہونا اور بات ہے اور کسی تعلیمی یا اصلاحی نظریہ کا محرک ہونا ایک بالکل دوسری بات، اسی طرح ایک صاحب نے ایک جلسہ میں نظامت کرتے ہوئے مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کیا، اور فرطِ محبت یاجوشِ نظامت میں کہہ گئے: ’’دنیا کے سب سے بڑے مؤرخ حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"اس جملہ کو ’’بلا تبصرہ‘‘ پڑھئے اور خود نتیجہ نکالئے کہ اس سے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام متعین ہورہا ہے یا محض گرمجوشی کا اظہار!"
حضرت مولانا خود فرمایا کرتے تھے: "موسم کی طرح ہر لفظ کا ایک درجۂ حرارت یا درجۂ برودت ہوتا ہے، ’’حضرت‘‘ کا لفظ تو ایسا ’’بے اعتبار‘‘ یا ’’بااعتبار‘‘ ہوگیا کہ واقعی کسی بڑی شخصیت کے لیے صرف حضرت کا لفظ کافی نہیں رہا، چونکہ ’’ملاّ‘‘ بھی حضرت ہوگئے اور ’’جمّن‘‘ بھی حضرت، ضرورت ہے القاب وآداب کے استعمال میں واقعیت اور توازن کی، دنیا کی قیادت کا منصب حقیقت پسندی کا طالب ہے، بے جا الفاظ سے کھیلنے کا نہیں، احمد فراز نے سچ کہا تھا:                                                        
مانگے تانگے کی قَبائیں دیر تک رہتی نہیں         
یار لوگوں کے  لقب القاب مت دیکھا کرو
بقلم: محمد اعظم ندوی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/10/blog-post.html?m=1

No comments:

Post a Comment