Monday, November 22, 2021

تعویذ دینے کو ’’روحانی علاج‘‘ کا نام دینا دھوکادہی ہے

تعویذ دینے 
کو ’’روحانی علاج‘‘ 
کا نام دینا دھوکادہی ہے

تعویذ دینا تقوی کی علامت نہیں اور نہ ان کاموں میں زیادہ منہمک ہونا چاہئے، تعویذ کرنا نہ عبادت نہ ثواب، تعویذ کو اپنا مشغلہ بنانا خلاف سنت ہے. عاملین کیلئے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کے قیمتی فرمودات)
انتخاب: استاد محترم مولانا ساجد خان نقشبندی صاحب مدظلہ العالی
1️⃣. تعویذ دینا عالم ہونے اور متقی ہونے کی علامت نہیں:
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس سارا دین ان تعویذ گنڈوں کے اندر منحصر ہے اور جو شخص تعویذ گنڈا کرتا ہے وہ بہت بڑا عالم ہے وہ بہت بڑا نیک آدمی ہے، متقی پرہیزگار ہے، اسی کی تقلید کرنی چاہئے، اس کا معتقد ہونا چاہئے، اور جوشخص تعویذ گنڈا نہیں کرتا یا جس کو تعویذ گنڈا کرنا نہیں آتا اس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اس کو دین کا علم ہی نہیں۔ بہت لوگ میری طرف رجوع کرتے ہیں کہ فلاں مقصد کیلئے تعویذدے دیجئے میں جب ان سے کہتا ہوں کہ مجھے تو تعویذ کرنا نہیں آتا تو وہ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو اتنا بڑا دارالعلوم بناہوا ہے اس میں تعویذ گنڈے ہی سکھائے جاتے ہیں اور اس میں جو درس ہوتے ہیں وہ سب تعویذ اور جھاڑ پھونک کے ہوتے ہیں لہذا جس کو جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا نہیں آتا وہ یہاں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اس لئے جو اصل کام یہاں پر سیکھنے کا تھا وہ تو اس نے سیکھا ہی نہیں 
2️⃣. تعویذ گنڈے میں انہماک مناسب نہیں:
ان لوگوں نے سارا دین تعویذ گنڈے میں سمجھ لیا ہے اور ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہ ہو جس کا علاج کوئی تعویذ نہ ہو، چنانچہ ان کو ہر کام کیلئے تعویذ چاہئے فلاں کام نہیں ہورہا اس کیلئے کیا وظیفہ پڑھوں؟ فلاں کام کیلئے ایک تعویذ دے دیں، لیکن ہمارے اکابر نے اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے کہ جس حد تک حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عمل کیا، اس حد تک ان پر عمل کریں، یہ نہیں کہ دن رات آدمی یہی کام کرتا رہے، اور دین و دنیا کا ہر کام تعویذ گنڈے کے ذریعہ کرے، یہ بات غلط ہے. اگر یہ عمل ہوتا تو پھر سرکار دو عالم کو جہاد کرنے کی کیا ضرورت تھی، بس کافروں پر کوئی ایسی جھاڑ پھونک کرتے کہ وہ سب حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں آکر ڈھیر ہوجاتے. آپ نے اس جھاڑ پھونک پر کبھی کبھی عمل بھی کیا لیکن اتنا غلو اور انہماک بھی نہیں کیا کہ ہر کام کیلئے تعویذ گنڈے استعمال کرے ۔
3️⃣. تعویذ کرنا نہ عبادت نہ ثواب:
یاد رکھئے جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج جائز ہے مگر یہ عبادت نہیں، قرآن کریم کی آیات کو اور قرآن کریم کی سورتوں کو اور اللہ تعالی کے ناموں کو اپنے کسی دنیوی مقصد کیلئے استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جائز ہے لیکن یہ کام عبادت نہیں اس میں ثواب نہیں جیسے آپ کو بخار آیا اور آپ نے دوا پی لی تو یہ دوا پینا جائز ہے لیکن دوا پینا عبادت نہیں بلکہ ایک مباح کام ہے ۔۔۔
4️⃣. تعویذ کرنے کو اپنا مشغلہ بنالینا: 
لہذا اگر کسی شخص کو ساری عمر جھاڑ پھونک کا طریقہ نہ آئے، تعویذ لکھنے کا طریقہ نہ آئے لیکن وہ براہ راست اللہ سے دعا کرے تو یقینا اس کا یہ عمل تعویذ اور جھاڑ پھونک سے بدرجہا افضل اور بہتر ہے، لہذا ہر وقت تعویذ گنڈے میں لگے رہنا یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ۔۔۔ لیکن ہر وقت اس میں انہماک اور غلو کرنا اور اس کو اپنا مشغلہ بنالینا کسی طرح بھی درست نہیں ۔
5️⃣. روحانی علاج کیا ہے؟
اب لوگوں نے یہ تعویذ گنڈے، یہ عملیات یہ وظیفے اور جھاڑ پھونک ان کا نام رکھ لیا ہے ’’روحانی علاج ‘‘ حالانکہ یہ بڑے مغالطے اور دھوکے میں ڈالنے والانام ہے اس لئے کہ روحانی علاج تو دراصل انسان کے اخلاق کی اصلاح کا نام تھا اس کے ظاہری اعمال کی اصلاح اور اس کے باطن کے اعمال کی اصلاح کا نام تھا۔ یہ اصل میں ’’روحانی علاج ‘‘ تھا. مثلا ایک شخص کے اندر تکبر ہے اب یہ تکبر کیسے زائل؟ یا مثلا حسد پیدا ہوگیا، یہ کیسے زائل ہو، یا مثلا بغض پیدا ہوگیا وہ کیسے زائل ہو؟ حقیقت میں اس کا نام روحانی علاج ہے لیکن آج اس تعویذ گنڈے کے علاج کا نام روحانی علاج رکھ دیا ہے جو بڑے مغالطے والا عمل ہے۔
6️⃣. صرف تعویذ دینے سے پیر بن جانا:
اور اگر کسی شخص کا تعویذ گنڈا جھاڑ پھونک اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کامیاب ہوگیا تو اس شخص کے متقی اور پرہیز گار ہونے کی دلیل نہیں، اور نہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص دینی اعتبارسے مقتدی بن گیا ہے وہ تو اللہ تعالی نے الفاط میں تاثیر رکھ دی ہے جو شخص بھی اس کو پڑھے گا تاثیر حاصل ہوجائے گی یہ بات اس لئے بتادی کہ بعض اوقات لوگ یہ دیکھ کر کہ اس کے تعویذ بڑے کارگر ہوتے ہیں اس کی جھاڑ پھونک بڑی کامیاب ہوتی ہے اس کو ’’پیر صاحب‘‘ بنالیتے ہیں اور اس کو اپنا مقتدی قرار دیتے ہیں چاہے اس شخص کی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہو چاہے اس کی زندگی سنت کے مطابق نہ ہو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی اتباع کرنے والا بھی خلاف شرع امور کا ارتکاب کرتے ہیں.
👈 (ماخوذ اصلاحی خطاب جلد ۱۵ عنوان بیان: تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post_62.html

جمعہ کے دن کے فضائل اور اعمال

جمعہ کے دن کے فضائل اور اعمال
جمعہ سب سے بہترین دن ہے۔ (مسلم: 854)
جمعہ سب سے افضل دن ہے۔ (نسائی: 1284) (ترمذی: 3339)
جمعہ تمام دِنوں کا سردار ہے۔ (ابن ماجہ: 1084)
جمعہ سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے۔ (ابن ماجہ: 1084)
جمعہ کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں. (ابن ماجہ: 1637)
جمعہ کی رات اور دن دونوں روشن و چمکدار ہیں۔ (شعب الایمان: 2772)
جمعہ کے دن مَرنے والا عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے۔ (ترمذی: 1074)
جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔ (ترمذی: 3339)
جمعہ کا دن مسلمانوں کا عید کا دن ہے۔ (مؤطاء مالک: 452) (ابن ماجہ: 1098)
جمعہ کے دن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ (سورۃ البروج) (ترمذی: 3339)
جمعہ کے دن جہنم کو دہکایا نہیں جاتا. (ابوداؤد: 1083)
جمعہ کا سلامتی کے ساتھ گزر جانا ہفتہ بھر کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ (شعب الایمان: 3434)
جمعہ کا دن اِس اُمّت کیلئے اہلِ کتاب کے مقابلے میں عطیہ خداوندی ہے۔ (مسلم: 855)
جمعہ کا دن مغفرت کا دن ہے۔ (طبرانی اوسط: 4817)
جمعہ کے دن اَعمال کا اجر بڑھادیا جاتا ہے۔ (طبرانی اوسط: 7895)
پہلا عمل:  جمعہ کے دن صبح کی نماز سے پہلے اِستغفار کرنا
 دوسراعمل: جمعہ کے دن صبح کی نماز کا خصوصی اہتمام
تیسرا عمل: جمعہ کے دن فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دھر پڑھنا
چوتھا عمل: جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا
پانچواں عمل: جمعہ کے دن غسل کرنا
چھٹاعمل: مسواک کرنا
ساتواں عمل: اچھے کپڑے پہننا
آٹھواں عمل: عمامہ باندھنا
نواں عمل: خوشبو لگانا
دسواں عمل: ناخن اور مونچھیں کاٹنا
گیارہواں عمل: جسم کے زائد بالوں کی صفائی
بارہواں عمل: جمعہ کیلئے جلدی جانا
تیرہواں عمل: اَذان کے بعد خرید و فروخت ترک کردینا
چودہواں عمل: جمعہ کیلئے سکون اور وقار کے ساتھ جانا
پندرہواں عمل: جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہونے کی دُعاء
سولہواں عمل: صلاۃ التسبیح پڑھنا
سترہواں عمل: جمعہ کی نماز پڑھنا
اٹھارہواں عمل: جمعہ کی نماز اوّل وقت میں پڑھنا
اُنیسواں عمل: جمعہ کی نماز اور خطبہ کے آداب کو ملحوظ رکھنا
بیسواں عمل: جمعہ کی نماز کے بعد کے اَوراد و اَذکار پڑھنا
اکیسواں عمل: سات جنّت میں لےجانے والے اَعمال
بائیسواں عمل: سورۃ الکہف پڑھنا
تئیسواں عمل: جمعہ کے دن سورۂ ھود پڑھنا
چوبیسواں عمل: جمعہ کے دن سورۂآلِ عمران پڑھنا
پچیسواں عمل: جمعہ کے دن سورۂ یٰسٓ پڑھنا
چھبیسواں عمل: جمعہ کی شب یا دن میں سورۂ دخان پڑھنا
ستائیسواں عمل: جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت کرنا
اٹھائیسواں عمل: جمعہ کے دن ذکر کی کثرت کرنا
انتیسواں عمل: جمعہ کے دن دُعاء کی کثرت کرنا
مستفاد از باقیات صالحات
مفتی منور ابن مصلح الدین شیخ بھاٹاباڑی. دارالافتاء بھاٹاباری. دینی مقالات. مجلس الفتاویٰ 
Mufti Munawwar Bhatabari 
Mufti Munawwar Bhatabari  مفتی منور بھاٹاباری. (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post_20.html

سکھر میں صحابہ کرام کی قبریں

تنبیہات 
سلسلہ نمبر 349
🔘سکھر میں صحابہ کرام کی قبریں

سوال: مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب یہ بات درست ہے؟ سکھر سے کچھ کلومیٹر کے فاصلہ پر محبوب گوٹھ میں واقع تین صحابہ کرام ,حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ, حضرت عمرو بن اخطب رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت معاذ بن عبداللّٰہ جہنی رضی اللّٰہ عنہ کے مرقد مبارک پر جانا نصیب ہوا الحَمْدُ ِلله
مولانا شفیق الرحمان صاحب کراچی
مدیر جامعہ صدیقیہ
🛑الجواب باسمہ تعالی:
اللہ رب العزت نے اس امت پر ایک عظیم الشان احسان یہ فرمایا کہ اس کی تاریخ محفوظ ہے، 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں ہے، لیکن قبروں کے متعلق اگر تحقیق کی جائے تو بمشکل چند ہزار صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبروں کے بارے میں یقیناً کہا جائے گا کہ یہ ان کی قبر ہے، ورنہ تو وہ پھیل گئے، اور رہتی دنیا کیلئے نمونہ بن گئے کہ قربانی ایسی ہوتی ہے، 
البتہ جن حضرات کی تاریخ مل سکی، اسماء الرجال کے علماء نے ولادت، وفیات اور مقام دفن تک کو محفوظ رکھا، لہذا جب بھی کوئی شخص کسی مقام کے بارے میں یا شخصیت کے بارے میں کوئی دعویٰ کرتا ہے، تو اس سے اس دعویٰ کی صداقت پر دلیل اور حوالہ مانگا جاتا ہے، اگر تاریخ اس دعوی کی صداقت کرے تو ٹھیک ہے، اور اگر نہیں، تو محض اندازے، تخمینہ یا کسی شخصیت کے مراقبے سے نہ کوئی تاریخ ثابت ہوسکتی ہے نا ہی کسی قبر کو کسی بزرگ یا صحابی کی قبر قرار دیا جاسکتا ہے، 
• عمرو بن عبسہ کی قبر کا دعوی:
سکھر میں یہ دعوے کیا جاتا ہے کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی قبر تو یقینی ہے باقی دونوں قبروں کے بارے میں یقین نہیں، 
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں، جن کا تذکرہ باقاعدہ ملتا ہے، ان کی وفات کی جگہ بھی بعض کتب میں منقول ہے، لیکن وہ سکھر آئے ہیں، یہاں مدفون ہیں، ایسا تذکرہ کسی بھی کتاب میں موجود نہیں. 
•عمرو بن عبسہ شام میں انتقال کرگئے:
ابن حبان نے الثقات میں لکھا ہے عمرو بن عبسہ بلکل ابتدا میں مسلمان ہوئے تھے شائد چوتھے مسلمان تھے، لیکن آپ علیہ السلام نے ان کو اپنی قوم میں رہنے کا حکم دیا، اور پھر یہ فتح مکہ سے قبل مدینہ منورہ آئے اور وہیں رہے، آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد شام تشریف لے گئے اور وہیں انتقال ہوا.
"عَمْرو بْن عبسة أَبُو نجيح السّلمِيّ جَاءَ إِلَى النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أول الْإِسْلَام فَأسلم وَاسْتَأْذَنَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمكْث مَعَه أَو اللحوق بقَوْمه فَأذن لَهُ بِالرُّجُوعِ إِلَى قومه فَخرج ثمَّ أَتَى النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبل فتح مَكَّة فسكن الشَّام وَبهَا مَاتَ يُقَال إِنَّه رَابِع الْإِسْلَام وَقدم على رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعد الْحُدَيْبِيَة
ابن حبان الثقات
ابن سعد طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ آپ علیہ السلام کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اور وہیں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد شام تشریف لے گئے اور وہیں رہے اور وہیں انتقال ہوا.
"ثُمَّ قَدِمَ عَلَى رَسُول اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَعْدَ ذَلِكَ الْمَدِينَةَ فَصَحِبَهُ وَسَمِعَ مِنْهُ وَرَوَى عَنْهُ. ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إلى الشَّامِ فَنَزَلَهَا إِلَى أَنْ مَاتَ بِهَا."
 ابن سعد الطبقات الکبری
•عمرو بن عبسہ حمص میں انتقال ہوا:
ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ عمرو بن عبسہ شام میں رہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال حمص میں ہوا، اور ان کا نزول حمص یقینی ہے،
وقال الحَاكِمُ أَبُو أَحْمَدَ: قد سكن عَمْرو بن عَبَسة الشام، ويقال: إنه مات بحمص. "نزل عمرو حمص باتفاق."
(< جـ4/ص 545>) سیر اعلام النبلاء
امام ابن حجر کہتے ہیں کہ غالبا ان کا انتقال حضرت عثمان کے دور میں ہوا، کیونکہ فتنے کے دور میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں، اور نہ ہی دور معاویہ رضی اللہ عنہ میں ان کا تذکرہ ملتا ہے.
"ابن حجر: وأظنه مات في أواخر خلافة عثمان، فإني لم أر له ذكراً في الفتنة ولا في خلافة معاوية. [4] 
"كتاب الاستيعاب (ص 492)، رقم (1748)، الإصابة (ص 984)، رقم (6772).
حمص میں مدفون صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبروں پر لکھی گئی کتاب میں عمرو بن عبسہ کو مدفون حمص لکھا گیا ہے.
توفي في مدينة حمص
^ "مقامات وأضرحة الصحابة في حمص...
•عمرو بن أخطب رضی اللہ عنہ
یہ خزرج قبیلے کے صغار صحابہ میں سے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختلف غزوات میں شریک ہوئے، آپ علیہ السلام نے ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تھا، یہ سو سال سے زائد عمر تک زندہ رہے، اور ان کے سر اور داڑھی میں چند بال ہی سفید تھے، 
"ابوزَيْد الأَنْصَارِيّ. هو مشهور بكنيته، يقال:
إنه من بني الْحَارِث بْن الخزرج، غزا مع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غزوات، ومسح رَسُول اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم على رأسه، ودعا له بالجمال، فيقال: إنه بلغ مائة سنة ونيفا، وما فِي رأسه ولحيته إلا نبذ من شعر أبيض، هو جدّ عزرة ابن ثَابِت. 
امام ذہبی کہتے ہیں کہ ان کا انتقال عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ہوا، جبکہ ابن کثیر نے ان کو 71 میں انتقال ہونے والوں میں ذکر کیا.
"توفي في عهد عبدالملك بن مروان، وذكره ابن كثير الدمشقي في البداية والنهاية في وفيات سنة 71 هـ
سیر اعلام النبلاء 
احادیث کی تحقیق کرنے والے ایک ادارے کی تحقیق کے مطابق ان کی رہائش بصرہ میں تھی اور انتقال بھی وہیں ہوا.
"الأسم: عمرو بن أخطب بن رفاعة بن محمود بن بشر بن عبدالله بن الضيف بن أحمر بن عدي بن ثعلبة بن حارثة بن عمرو بن عامر
الشهرة: عمرو بن أخطب الأنصاري , الكنيه: أبوزيد
النسب : الأنصاري, البصري
الرتبة : صحابي
عاش في : البصرة
مات في : البصرة
توفي عام : 80"
▫️تاریخی نکتہ:
سکھر کی فتح محمد بن قاسم کے ہاتھوں ہوئی، یہ ولید بن عبدالملک کا زمانہ تھا، 
ملاحظہ فرمائیں. 
"دس رمضان المبارک 92ہجری مطابق 28اکتوبر 711ء کا دن تھا کہ اروڈ نزد روہڑی ضلع سکھر کے مقام پر راجہ داہر کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی"
جبکہ عمرو بن أخطب رضی اللہ عنہ کا انتقال عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ہی ہوچکا تھا، جبکہ ابن کثیر نے ان کی وفات فتح سکھر سے تقریباً اکیس سال قبل بیان کی ہے، تو پھر کیسے ان کی قبر محبوب گوٹھ میں بن گئی. 
•معاذ بن عبداللّٰہ الجہنی
تیسری قبر کے بارے میں دعوے ہے کہ یہ صحابی معاذ بن عبداللّٰہ جہنی کی ہے، 
سب سے پہلی بات کہ اس نام کا کوئی جہنی صحابی ہی نہیں، جہینہ قبیلے کے تقریباً 107 صحابہ کرام کے نام محفوظ ہیں، جن میں ان کا نام شامل نہیں، البتہ ان کے والد کا نام موجود ہے،
        یہ تابعی ہیں
ان کی وفات کا سال 118 ہجری بتایا جاتا ہے، ان کی زندگی مدینہ منورہ میں ہی گزری، البتہ دفن کا مقام معلوم نہیں، 
: مُعَاذُ بنُ عَبْدِاللهِ ابن خُبَيْبْ الجُهني
لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ وَرَوَى عَنْهُ.
(وَمَاتَ قَدِيمًا{ توفي سنة ثماني عشرة ومائة}. وَكَانَ قَلِيلَ، الْحَدِيثِ).
"قُلْتُ: هو معروف مِنْ رواية معاذ بن عبدالله بن حبيب الجهني، عن أبيه. واسم الجهني خبيب. بالمعجمة مصغّر. فالله أعلم.)) الإصابة في تمييز الصحابة."
 "الأسم: معاذ بن عبد الله بن خبيب
الشهرة: معاذ بن عبد الله الجهني
النسب: المدني, الجهني
الرتبة: ثقة
عاش في: المدينة
توفي عام: 118"
        🔘 خلاصہ کلام:
تاریخ صرف اس لئے بیان کی جاتی ہے کہ کسی بھی دعوے کی صداقت کو پرکھا جاسکے.
ان قبور کے بارے میں جو دعوے ہے، اس دعوے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں، جبکہ مضبوط مورخین کے اقوال اور کتابیں ان دعوؤں کو درست قرار نہیں دیتی، ہماری تحقیق کے مطابق سوائے سنی سنائی باتوں کے اور کوئی ایسی دلیل نہیں کہ ان قبروں کو صحابہ کرام کی قبریں قرار دیا جائے، 
لہذا یہی کہا جائے گا کہ یہ تینوں قبریں جن حضرات کی طرف منسوب ہیں، یہ ان حضرات کی قبریں نہیں ہوسکتی.
《واللہ اعلم بالصواب》(کتبه: عبدالباقی اخونزادہ) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے

اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے 

قَالَ حَدَّثَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ الْقِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً ـ قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ هُنَيَّةً ـ فَقُلْتُ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ قَالَ: ‏"‏أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَاىَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ"‏‏.‏

=====================

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرآت کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں: 

«اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَاىَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ» 

اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال! (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

---------------------------

Narrated Abu Huraira:

Allah's Messenger (ﷺ) used to keep silent between the Takbir and the recitation of Qur'an and that interval of silence used to be a short one. I said to the Prophet (ﷺ) "May my parents be sacrificed for you! What do you say in the pause between Takbir and recitation?" The Prophet (ﷺ) said, "I say, 'Allahumma, baa`id baini wa baina khatayaya kama baa`adta baina l-mashriqi wa l-maghrib. Allahumma, naqqini min khatayaya kama yunaqqa th-thawbu l-abyadu mina d-danas. Allahumma, ighsil khatayaya bi l-maa'i wa th-thalji wa l-barad (O Allah! Set me apart from my sins (faults) as the East and West are set apart from each other and clean me from sins as a white garment is cleaned of dirt (after thorough washing). O Allah! Wash off my sins with water, snow and hail.)" Reference : Sahih al-Bukhari 744. (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post_22.html



Monday, November 1, 2021

کسی کو وعظ و نصیحت کرنے کے آداب کیا ہیں

کسی 
کو وعظ و نصیحت 
کرنے کے آداب کیا ہیں؟؟؟
نیز دعاء میں سجع لگانا کیسا ہے؟؟؟

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:حَدِّثْ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ، فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلَاثَ مِرَارٍ، وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا الْقُرْآنَ، وَلَا أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ، فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلُّهُمْ، وَلَكِنْ أَنْصِتْ فَإِذَا أَمَرُوكَ، فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ ، فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ، فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ، يَعْنِي لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ الِاجْتِنَابَ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہو تو دو مرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دینا، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات (بشکل وعظ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں، بلکہ (ایسے مقام پر) تمہیں خاموش رہنا چاہئے۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیں اپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہشمند ہوں اور دعا میں قافیہ بندی سے پرہیز کرتے رہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 6337 کتاب الدعوات)
نوٹ: سجع کا مطلب کہ تکلف کے ساتھ ایسے جملے استعمال کرنا جو ہم وزن ہوں، جسے قافیہ ملانا بھی کہتے ہیں۔
اگر بلاقصد سجع ہوجائے تو قباحت نہیں ہے۔ عمداً بطور تکلف ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ریا نمود بھی ممکن ہے جو شرک خفی ہے الا ماشآءاللہ۔
واضح رہے کہ نصیحت کا لفظ عام طور پر بھلائی کی بات بتانے اور نیک مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کہ جس شخص کو نصیحت کی جارہی ہو، اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قرآن و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثیر تعداد میں ہر طبقۂ انسانیت کے لئے نصائح اور اس کا طریقہ کار موجود ہے، اور اچھے انداز میں نصیحت کا تذکرہ اور اس کے ثمرات و نتائج تک قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اور اسی بابت قرآن مجید سورۃ اعراف میں آیت نمبر 62 سے لے کر 79 تک یکے بعد دیگرے تین ذی قدر انبیاء کرام حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح علیہم الصلوۃ والسلام کے احوال میں ان کی نصیحت کا ذکر موجود ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے کسی قسم کا کوئی اجر یا معاوضہ نہیں مانگتے بل کہ ہم تو تمہیں نصیحت کرنے کے لئے آئے ہیں۔
قرآن مجید میں رب العزت کے فرمان ذی شان کا مفہوم: "اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو امداد دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، بُرے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے قبول کرو اور یاد رکھو۔" (النحل)
قرآن مجید نے حضرت لقمان علیہ السلام جو کہ اللہ کے محبوب بندے اور صاحب حکمت تھے، ان کی ان نصیحتوں کو بھی نقل کیا، جو اُنھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ یہ ساری نصیحتیں سورۃ لقمان میں موجود ہیں۔ انہیں سات بنیادی نکات سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی نصیحت کا آغاز توحید سے کیا اور اسے چند اخلاقی امور پر ختم کیا ہے، ان میں سے دو کا تعلق عبادات اور باقی ماندہ پانچ کا تعلق معاملات اور رہن سہن سے ہے۔ انھوں نے شرک سے اجتناب کا حکم فرمایا، اور یہ احساس دلایا کہ تمہیں ہر وقت تمہارا رب دیکھ رہا ہے اور تم یہ یاد رکھو کہ وہ علیم اور خبیر ہے، ہمیشہ نماز قائم کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہمیشہ سر انجام دیتے رہو، مصائب پر صبر کرو، کبر و غرور سے اجتناب کرو اور رفتار و آواز میں میانہ روی اختیار کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کے مسلمان پر حقوق کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک نصیحت کے متعلق ذکر فرمایا کہ جب تم سے وہ نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو۔
نصائح کے باب میں یہ فرمان بہت اہم ہے، یوں کہ: ’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مال داری کو اپنی تنگ دستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘ (المستدرک)
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نصیحت عام حالات میں سنّت ہے مگر جب کوئی نصیحت کی بات سننے کی خواہش ظاہِر کرے تو پھر اسے نصیحت کرنا ضروری ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات، کتاب الجنائز)
نصیحت کے آداب و طریقہ کار:
نصیحت کس کو اور کیسے کرنی ہے، یہ سب سے اہم باب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز نصیحت بہت دل نشیں اور خوب صورت ہوتا تھا جس میں موقع کی مناسبت اور نزاکت کا خصوصاً خیال رکھا جاتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب کسی کی کوئی ناگوار بات معلوم ہوتی تو اصلاح کا یہ حسین انداز ہوتا کہ اس کا پردہ رکھتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسے ایسے کہتے ہیں۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ: لوگوں کو ہر جمعے یعنی ہر ہفتے میں ایک دفعہ حدیث بیان کیا کر اور اگر تو اسے نہیں مانتا تو دو دفعہ بیان کر اور اگر تو بہت زیادہ کرنا چاہتا ہے تو تین دفعہ بیان کر اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرنا، اور میں تجھے اس حال میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں لگے ہوئے ہوں پھر تم انھیں وعظ سنانا شروع کردو، تاکہ ان کی باتیں ختم ہو جائیں، پھر وہ اُکتا جائیں، لیکن خاموش رہیں، پھر اگر وہ تجھے حکم دیں تو اس حال میں انھیں حدیثیں سناؤ کہ وہ اس کا شوق رکھتے ہوں۔ دعا میں مسجع مقفیٰ (یعنی شاعرانہ) الفاظ سے بچو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو پایا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔
حضرت قاضی فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن پردہ پوشی اور نصیحت کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس فاسق و فاجر بدنام کرتا اور شرم و عار دلاتا ہے۔ (جامع العلوم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو اپنے مسلمان بھائی کو اس گناہ جس سے وہ توبہ کر چکا کے ذریعے عار دلائے تو وہ عار دلانے والا اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ خود گناہ نہ کر لے۔‘‘ (ترمذی)
کاش ہمیں بھی اِصلاح کا ڈھنگ آجائے، ہمارا تو اکثر حال یہ ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورت شرعی سب کے سامنے نام لے کر یا اُسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھائیں گے کہ بے چارے کے راز و عیوب بھی کھول کر رکھ دیں گے۔
خود اپنے ضمیر سے ہی پوچھ لیجئے کہ یہ سمجھانا ہُوا یا اسے ذلیل کرنا ہُوا۔۔۔۔ ؟
اس طرح سُدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا ۔۔۔۔۔؟
یاد رکھئے! اگر ہمارے رعب سے سامنے والا چُپ ہو گیا، یا مان گیا، تب بھی اُس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو بُغض و کینہ اور غیبت و تہمت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اسی لئے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جس کسی نے اپنی دینی بہن کو اعَلانیہ نصیحت کی اُس نے اُسے عیب لگایا اور جس نے چپکے سے کی تو اُسے زینت بخشی۔ (شعب الایمان)
جضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نصیحت کے باب میں ارشادات ملاحظہ ہوں جو کہ اس عنوان کا بہترین اور کامل درس ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ: ’’لوگوں کے سامنے کسی کو نصیحت کرنا اس کی شخصیت کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اور جب کسی نوجوان کو ملامت کرو تو اس کی غلطیوں کو لائق عذر سمجھو تاکہ تمہاری سختی سے وہ ہٹ دھرم نہ بن جائے۔‘‘
’’اپنے دوست کو نیکی کے ساتھ ملامت کرو اور انعام کے ذریعے اس کے شر کو دور کردو۔
جو چیز گناہ و معصیت نہ ہو اس پر زیادہ ملامت نہ کرو۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب و رسولہ (#ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post.html