Monday, November 1, 2021

کسی کو وعظ و نصیحت کرنے کے آداب کیا ہیں

کسی 
کو وعظ و نصیحت 
کرنے کے آداب کیا ہیں؟؟؟
نیز دعاء میں سجع لگانا کیسا ہے؟؟؟

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:حَدِّثْ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ، فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلَاثَ مِرَارٍ، وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا الْقُرْآنَ، وَلَا أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ، فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلُّهُمْ، وَلَكِنْ أَنْصِتْ فَإِذَا أَمَرُوكَ، فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ ، فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ، فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ، يَعْنِي لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ الِاجْتِنَابَ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہو تو دو مرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دینا، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات (بشکل وعظ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں، بلکہ (ایسے مقام پر) تمہیں خاموش رہنا چاہئے۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیں اپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہشمند ہوں اور دعا میں قافیہ بندی سے پرہیز کرتے رہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 6337 کتاب الدعوات)
نوٹ: سجع کا مطلب کہ تکلف کے ساتھ ایسے جملے استعمال کرنا جو ہم وزن ہوں، جسے قافیہ ملانا بھی کہتے ہیں۔
اگر بلاقصد سجع ہوجائے تو قباحت نہیں ہے۔ عمداً بطور تکلف ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ریا نمود بھی ممکن ہے جو شرک خفی ہے الا ماشآءاللہ۔
واضح رہے کہ نصیحت کا لفظ عام طور پر بھلائی کی بات بتانے اور نیک مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کہ جس شخص کو نصیحت کی جارہی ہو، اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قرآن و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثیر تعداد میں ہر طبقۂ انسانیت کے لئے نصائح اور اس کا طریقہ کار موجود ہے، اور اچھے انداز میں نصیحت کا تذکرہ اور اس کے ثمرات و نتائج تک قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اور اسی بابت قرآن مجید سورۃ اعراف میں آیت نمبر 62 سے لے کر 79 تک یکے بعد دیگرے تین ذی قدر انبیاء کرام حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح علیہم الصلوۃ والسلام کے احوال میں ان کی نصیحت کا ذکر موجود ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے کسی قسم کا کوئی اجر یا معاوضہ نہیں مانگتے بل کہ ہم تو تمہیں نصیحت کرنے کے لئے آئے ہیں۔
قرآن مجید میں رب العزت کے فرمان ذی شان کا مفہوم: "اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو امداد دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، بُرے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے قبول کرو اور یاد رکھو۔" (النحل)
قرآن مجید نے حضرت لقمان علیہ السلام جو کہ اللہ کے محبوب بندے اور صاحب حکمت تھے، ان کی ان نصیحتوں کو بھی نقل کیا، جو اُنھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ یہ ساری نصیحتیں سورۃ لقمان میں موجود ہیں۔ انہیں سات بنیادی نکات سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی نصیحت کا آغاز توحید سے کیا اور اسے چند اخلاقی امور پر ختم کیا ہے، ان میں سے دو کا تعلق عبادات اور باقی ماندہ پانچ کا تعلق معاملات اور رہن سہن سے ہے۔ انھوں نے شرک سے اجتناب کا حکم فرمایا، اور یہ احساس دلایا کہ تمہیں ہر وقت تمہارا رب دیکھ رہا ہے اور تم یہ یاد رکھو کہ وہ علیم اور خبیر ہے، ہمیشہ نماز قائم کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہمیشہ سر انجام دیتے رہو، مصائب پر صبر کرو، کبر و غرور سے اجتناب کرو اور رفتار و آواز میں میانہ روی اختیار کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کے مسلمان پر حقوق کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک نصیحت کے متعلق ذکر فرمایا کہ جب تم سے وہ نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو۔
نصائح کے باب میں یہ فرمان بہت اہم ہے، یوں کہ: ’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مال داری کو اپنی تنگ دستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘ (المستدرک)
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نصیحت عام حالات میں سنّت ہے مگر جب کوئی نصیحت کی بات سننے کی خواہش ظاہِر کرے تو پھر اسے نصیحت کرنا ضروری ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات، کتاب الجنائز)
نصیحت کے آداب و طریقہ کار:
نصیحت کس کو اور کیسے کرنی ہے، یہ سب سے اہم باب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز نصیحت بہت دل نشیں اور خوب صورت ہوتا تھا جس میں موقع کی مناسبت اور نزاکت کا خصوصاً خیال رکھا جاتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب کسی کی کوئی ناگوار بات معلوم ہوتی تو اصلاح کا یہ حسین انداز ہوتا کہ اس کا پردہ رکھتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسے ایسے کہتے ہیں۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ: لوگوں کو ہر جمعے یعنی ہر ہفتے میں ایک دفعہ حدیث بیان کیا کر اور اگر تو اسے نہیں مانتا تو دو دفعہ بیان کر اور اگر تو بہت زیادہ کرنا چاہتا ہے تو تین دفعہ بیان کر اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرنا، اور میں تجھے اس حال میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں لگے ہوئے ہوں پھر تم انھیں وعظ سنانا شروع کردو، تاکہ ان کی باتیں ختم ہو جائیں، پھر وہ اُکتا جائیں، لیکن خاموش رہیں، پھر اگر وہ تجھے حکم دیں تو اس حال میں انھیں حدیثیں سناؤ کہ وہ اس کا شوق رکھتے ہوں۔ دعا میں مسجع مقفیٰ (یعنی شاعرانہ) الفاظ سے بچو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو پایا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔
حضرت قاضی فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن پردہ پوشی اور نصیحت کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس فاسق و فاجر بدنام کرتا اور شرم و عار دلاتا ہے۔ (جامع العلوم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو اپنے مسلمان بھائی کو اس گناہ جس سے وہ توبہ کر چکا کے ذریعے عار دلائے تو وہ عار دلانے والا اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ خود گناہ نہ کر لے۔‘‘ (ترمذی)
کاش ہمیں بھی اِصلاح کا ڈھنگ آجائے، ہمارا تو اکثر حال یہ ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورت شرعی سب کے سامنے نام لے کر یا اُسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھائیں گے کہ بے چارے کے راز و عیوب بھی کھول کر رکھ دیں گے۔
خود اپنے ضمیر سے ہی پوچھ لیجئے کہ یہ سمجھانا ہُوا یا اسے ذلیل کرنا ہُوا۔۔۔۔ ؟
اس طرح سُدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا ۔۔۔۔۔؟
یاد رکھئے! اگر ہمارے رعب سے سامنے والا چُپ ہو گیا، یا مان گیا، تب بھی اُس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو بُغض و کینہ اور غیبت و تہمت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اسی لئے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جس کسی نے اپنی دینی بہن کو اعَلانیہ نصیحت کی اُس نے اُسے عیب لگایا اور جس نے چپکے سے کی تو اُسے زینت بخشی۔ (شعب الایمان)
جضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نصیحت کے باب میں ارشادات ملاحظہ ہوں جو کہ اس عنوان کا بہترین اور کامل درس ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ: ’’لوگوں کے سامنے کسی کو نصیحت کرنا اس کی شخصیت کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اور جب کسی نوجوان کو ملامت کرو تو اس کی غلطیوں کو لائق عذر سمجھو تاکہ تمہاری سختی سے وہ ہٹ دھرم نہ بن جائے۔‘‘
’’اپنے دوست کو نیکی کے ساتھ ملامت کرو اور انعام کے ذریعے اس کے شر کو دور کردو۔
جو چیز گناہ و معصیت نہ ہو اس پر زیادہ ملامت نہ کرو۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب و رسولہ (#ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post.html

No comments:

Post a Comment