Monday, November 22, 2021

سکھر میں صحابہ کرام کی قبریں

تنبیہات 
سلسلہ نمبر 349
🔘سکھر میں صحابہ کرام کی قبریں

سوال: مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب یہ بات درست ہے؟ سکھر سے کچھ کلومیٹر کے فاصلہ پر محبوب گوٹھ میں واقع تین صحابہ کرام ,حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ, حضرت عمرو بن اخطب رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت معاذ بن عبداللّٰہ جہنی رضی اللّٰہ عنہ کے مرقد مبارک پر جانا نصیب ہوا الحَمْدُ ِلله
مولانا شفیق الرحمان صاحب کراچی
مدیر جامعہ صدیقیہ
🛑الجواب باسمہ تعالی:
اللہ رب العزت نے اس امت پر ایک عظیم الشان احسان یہ فرمایا کہ اس کی تاریخ محفوظ ہے، 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں ہے، لیکن قبروں کے متعلق اگر تحقیق کی جائے تو بمشکل چند ہزار صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبروں کے بارے میں یقیناً کہا جائے گا کہ یہ ان کی قبر ہے، ورنہ تو وہ پھیل گئے، اور رہتی دنیا کیلئے نمونہ بن گئے کہ قربانی ایسی ہوتی ہے، 
البتہ جن حضرات کی تاریخ مل سکی، اسماء الرجال کے علماء نے ولادت، وفیات اور مقام دفن تک کو محفوظ رکھا، لہذا جب بھی کوئی شخص کسی مقام کے بارے میں یا شخصیت کے بارے میں کوئی دعویٰ کرتا ہے، تو اس سے اس دعویٰ کی صداقت پر دلیل اور حوالہ مانگا جاتا ہے، اگر تاریخ اس دعوی کی صداقت کرے تو ٹھیک ہے، اور اگر نہیں، تو محض اندازے، تخمینہ یا کسی شخصیت کے مراقبے سے نہ کوئی تاریخ ثابت ہوسکتی ہے نا ہی کسی قبر کو کسی بزرگ یا صحابی کی قبر قرار دیا جاسکتا ہے، 
• عمرو بن عبسہ کی قبر کا دعوی:
سکھر میں یہ دعوے کیا جاتا ہے کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی قبر تو یقینی ہے باقی دونوں قبروں کے بارے میں یقین نہیں، 
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں، جن کا تذکرہ باقاعدہ ملتا ہے، ان کی وفات کی جگہ بھی بعض کتب میں منقول ہے، لیکن وہ سکھر آئے ہیں، یہاں مدفون ہیں، ایسا تذکرہ کسی بھی کتاب میں موجود نہیں. 
•عمرو بن عبسہ شام میں انتقال کرگئے:
ابن حبان نے الثقات میں لکھا ہے عمرو بن عبسہ بلکل ابتدا میں مسلمان ہوئے تھے شائد چوتھے مسلمان تھے، لیکن آپ علیہ السلام نے ان کو اپنی قوم میں رہنے کا حکم دیا، اور پھر یہ فتح مکہ سے قبل مدینہ منورہ آئے اور وہیں رہے، آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد شام تشریف لے گئے اور وہیں انتقال ہوا.
"عَمْرو بْن عبسة أَبُو نجيح السّلمِيّ جَاءَ إِلَى النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أول الْإِسْلَام فَأسلم وَاسْتَأْذَنَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمكْث مَعَه أَو اللحوق بقَوْمه فَأذن لَهُ بِالرُّجُوعِ إِلَى قومه فَخرج ثمَّ أَتَى النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبل فتح مَكَّة فسكن الشَّام وَبهَا مَاتَ يُقَال إِنَّه رَابِع الْإِسْلَام وَقدم على رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعد الْحُدَيْبِيَة
ابن حبان الثقات
ابن سعد طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ آپ علیہ السلام کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اور وہیں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد شام تشریف لے گئے اور وہیں رہے اور وہیں انتقال ہوا.
"ثُمَّ قَدِمَ عَلَى رَسُول اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَعْدَ ذَلِكَ الْمَدِينَةَ فَصَحِبَهُ وَسَمِعَ مِنْهُ وَرَوَى عَنْهُ. ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إلى الشَّامِ فَنَزَلَهَا إِلَى أَنْ مَاتَ بِهَا."
 ابن سعد الطبقات الکبری
•عمرو بن عبسہ حمص میں انتقال ہوا:
ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ عمرو بن عبسہ شام میں رہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال حمص میں ہوا، اور ان کا نزول حمص یقینی ہے،
وقال الحَاكِمُ أَبُو أَحْمَدَ: قد سكن عَمْرو بن عَبَسة الشام، ويقال: إنه مات بحمص. "نزل عمرو حمص باتفاق."
(< جـ4/ص 545>) سیر اعلام النبلاء
امام ابن حجر کہتے ہیں کہ غالبا ان کا انتقال حضرت عثمان کے دور میں ہوا، کیونکہ فتنے کے دور میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں، اور نہ ہی دور معاویہ رضی اللہ عنہ میں ان کا تذکرہ ملتا ہے.
"ابن حجر: وأظنه مات في أواخر خلافة عثمان، فإني لم أر له ذكراً في الفتنة ولا في خلافة معاوية. [4] 
"كتاب الاستيعاب (ص 492)، رقم (1748)، الإصابة (ص 984)، رقم (6772).
حمص میں مدفون صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبروں پر لکھی گئی کتاب میں عمرو بن عبسہ کو مدفون حمص لکھا گیا ہے.
توفي في مدينة حمص
^ "مقامات وأضرحة الصحابة في حمص...
•عمرو بن أخطب رضی اللہ عنہ
یہ خزرج قبیلے کے صغار صحابہ میں سے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختلف غزوات میں شریک ہوئے، آپ علیہ السلام نے ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تھا، یہ سو سال سے زائد عمر تک زندہ رہے، اور ان کے سر اور داڑھی میں چند بال ہی سفید تھے، 
"ابوزَيْد الأَنْصَارِيّ. هو مشهور بكنيته، يقال:
إنه من بني الْحَارِث بْن الخزرج، غزا مع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غزوات، ومسح رَسُول اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم على رأسه، ودعا له بالجمال، فيقال: إنه بلغ مائة سنة ونيفا، وما فِي رأسه ولحيته إلا نبذ من شعر أبيض، هو جدّ عزرة ابن ثَابِت. 
امام ذہبی کہتے ہیں کہ ان کا انتقال عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ہوا، جبکہ ابن کثیر نے ان کو 71 میں انتقال ہونے والوں میں ذکر کیا.
"توفي في عهد عبدالملك بن مروان، وذكره ابن كثير الدمشقي في البداية والنهاية في وفيات سنة 71 هـ
سیر اعلام النبلاء 
احادیث کی تحقیق کرنے والے ایک ادارے کی تحقیق کے مطابق ان کی رہائش بصرہ میں تھی اور انتقال بھی وہیں ہوا.
"الأسم: عمرو بن أخطب بن رفاعة بن محمود بن بشر بن عبدالله بن الضيف بن أحمر بن عدي بن ثعلبة بن حارثة بن عمرو بن عامر
الشهرة: عمرو بن أخطب الأنصاري , الكنيه: أبوزيد
النسب : الأنصاري, البصري
الرتبة : صحابي
عاش في : البصرة
مات في : البصرة
توفي عام : 80"
▫️تاریخی نکتہ:
سکھر کی فتح محمد بن قاسم کے ہاتھوں ہوئی، یہ ولید بن عبدالملک کا زمانہ تھا، 
ملاحظہ فرمائیں. 
"دس رمضان المبارک 92ہجری مطابق 28اکتوبر 711ء کا دن تھا کہ اروڈ نزد روہڑی ضلع سکھر کے مقام پر راجہ داہر کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی"
جبکہ عمرو بن أخطب رضی اللہ عنہ کا انتقال عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ہی ہوچکا تھا، جبکہ ابن کثیر نے ان کی وفات فتح سکھر سے تقریباً اکیس سال قبل بیان کی ہے، تو پھر کیسے ان کی قبر محبوب گوٹھ میں بن گئی. 
•معاذ بن عبداللّٰہ الجہنی
تیسری قبر کے بارے میں دعوے ہے کہ یہ صحابی معاذ بن عبداللّٰہ جہنی کی ہے، 
سب سے پہلی بات کہ اس نام کا کوئی جہنی صحابی ہی نہیں، جہینہ قبیلے کے تقریباً 107 صحابہ کرام کے نام محفوظ ہیں، جن میں ان کا نام شامل نہیں، البتہ ان کے والد کا نام موجود ہے،
        یہ تابعی ہیں
ان کی وفات کا سال 118 ہجری بتایا جاتا ہے، ان کی زندگی مدینہ منورہ میں ہی گزری، البتہ دفن کا مقام معلوم نہیں، 
: مُعَاذُ بنُ عَبْدِاللهِ ابن خُبَيْبْ الجُهني
لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ وَرَوَى عَنْهُ.
(وَمَاتَ قَدِيمًا{ توفي سنة ثماني عشرة ومائة}. وَكَانَ قَلِيلَ، الْحَدِيثِ).
"قُلْتُ: هو معروف مِنْ رواية معاذ بن عبدالله بن حبيب الجهني، عن أبيه. واسم الجهني خبيب. بالمعجمة مصغّر. فالله أعلم.)) الإصابة في تمييز الصحابة."
 "الأسم: معاذ بن عبد الله بن خبيب
الشهرة: معاذ بن عبد الله الجهني
النسب: المدني, الجهني
الرتبة: ثقة
عاش في: المدينة
توفي عام: 118"
        🔘 خلاصہ کلام:
تاریخ صرف اس لئے بیان کی جاتی ہے کہ کسی بھی دعوے کی صداقت کو پرکھا جاسکے.
ان قبور کے بارے میں جو دعوے ہے، اس دعوے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں، جبکہ مضبوط مورخین کے اقوال اور کتابیں ان دعوؤں کو درست قرار نہیں دیتی، ہماری تحقیق کے مطابق سوائے سنی سنائی باتوں کے اور کوئی ایسی دلیل نہیں کہ ان قبروں کو صحابہ کرام کی قبریں قرار دیا جائے، 
لہذا یہی کہا جائے گا کہ یہ تینوں قبریں جن حضرات کی طرف منسوب ہیں، یہ ان حضرات کی قبریں نہیں ہوسکتی.
《واللہ اعلم بالصواب》(کتبه: عبدالباقی اخونزادہ) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

No comments:

Post a Comment