Thursday, July 29, 2021

مٹی اور گوبر کے مخلوط سے لپی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

مٹی 
اور گوبر کے مخلوط 
سے لپی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
باسمہ تعالیٰ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں نماز جنازہ ایسی جگہ پڑھی جاتی ہے، جہاں مٹی اور گوبر سے مخلوط گارے سے گوبری پھیری جاتی ہے۔ ایک مرتبہ جب نماز پڑھنے کے لئے جنازہ رکھا گیا تو ایک مفتی صاحب نے کہا کہ یہاں نماز پڑھنا جائز نہیں؛ اس لئے کہ گوبری پھیرنے کی وجہ سے یہ زمین ناپاک ہوگئی اور حوالہ میں ”باقیات فتاویٰ رشیدیہ“ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ پیش کیا جس میں یہ ہے کہ ”جس گارے میں گوبر ملا ہو وہ نجس ہے؛ مگر زمین دیوار اُس سے لہسنا (لیپنا) درست ہے پھر جب خشک ہوجائے تو بغیر کچھ بچھائے اُس پرنماز نہیں ہوگی؛ مگر جب گوبر کو مٹی بالکل فنا کردے اور گوبر کا اثر باقی نہ رہے تو زمین اور دیوار پاک ہوجاتی ہے۔“ (۱۳۴-۱۳۵)
اتفاق سے وہاں ایک مفتی صاحب اور موجود تھے. انھوں نے کہا کہ نماز ہوجائے گی؛ کیونکہ گوبری پھیرنے کی وجہ سے زمین ناپاک نہیں ہوتی خصوصاً جب سوکھ جائے اور حوالہ میں شامی کی عبارت ”السّرقین اذا جعل فی الطین للتّطیین لا ینجس لأن فیہ ضرورة الی اسقاط نجاستہ لأنہ لا یتہیّأ الاّ بہ“ (شامی، ۱/۴۹۰، دارالکتاب) اور استدلال کے طور پر کہا کہ جب ضرورت کی وجہ سے گارے میں گوبرکی نجاست کو ساقط کرتے ہوئے اُس کے ناپاک نہ ہونے کا حکم ہے تو اُس پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست ہے۔
جب مفتیانِ کرام میں اختلاف ہوگیا تو اُس وقت تو نمازِجنازہ دوسری جگہ پڑھ لی گئی پھر یہ طے ہوا کہ دونوں مفتیوں کے بتائے ہوئے حکم کو لکھ کر دارالعلوم بھیجا جائے؛ تاکہ محقق ومدلل طور پر جواب معلوم ہوجائے۔
سو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا گوبر اور مٹی سے مخلوط گارے سے پھیری ہوئی گوبری پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
اگر درست ہے تو پھر گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مرجوح ہونے کی کیا وجہ ہے اور اگر درست نہیں ہے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ صحیح ہے تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کا مآخذ کیا ہے؟
اور پھر شامی کی عبارت کے مرجوح ہونے کی تصریحات فقہیہ کی روشنی میں کیا وجہ ہے؟ نیز اِس گوبری پر نماز درست ہونے کی صورت میں سوکھی اور گیلی گوبری کا حکم برابر ہے یا کچھ تفصیل ہے؟
براہ کرم عبارات فقہیہ کی روشنی میں محقق ومدلل طور سے ایسا فتویٰ تحریر کریں جس سے فریقین کا دل مطمئن ہوجائے، عین نوازش ہوگی۔                                        
فقط والسلام
المستفتی: محمد ثاقب مظفرنگری
متعلّم دارالعلوم دیوبند
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: 
مذکورہ مسئلے میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ درست ہے اور علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت بھی صحیح ہے اور دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، دراصل یہاں دو چیزیں ہیں، ایک ہے فرش، دیوار وغیرہ کو مٹی اور گوبر کے مخلوط گارے سے لیپنا اور دوسری چیز ہے اس پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔ پہلے امر کا جواب یہ ہے کہ یہ ضرورتاً جائز ہے اور بربنائے ضرورت اس کی نجاست ساقط ہے، یعنی اصلاً تو مسجد کو ایسی مٹی سے لیپنا ممنوع ومکرو ہ ہے جس میں ناپاکی ملی ہوئی ہو؛ لیکن اگر مٹی میں گوبر ملادیاگیا ہو تو اس سے لیپنے کی گنجائش اس معنی کر ہے کہ لیپنے کا مقصد اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا؛ اس لئے ضرورةً اس کی نجاست معاف ہے ولا تطیینہ بنجس قولہ (ولا تطیینہ بنجس) فی الفتاویٰ الہندیہ: یکرہ أن یطین المسجد بطین قد بل بماء نجس بخلاف السرقین اذا جعل فیہ الطین، لأن فی ذلک ضرورة وہو تحصیل غرض لا یحصل الّا بہ کذا فی السراجیہ (شامی زکریا ۲/۴۲۹ باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا) علامہ عبدالقادر رافعی رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں کہ یہ ضرورت بھی علامہ شامی کے زمانے میں تھی ہمارے زمانے میں اس کی بھی ضرورت نہیں رہی قولہ: بخلاف السرقین“ الظاہر أن ہذا فی زمنہم لتحقق الضرورة، لا فی زماننا لعدم تحققہا (تقریرات رافعی) حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں: ”اگر پاک مٹی کے ساتھ گوبر ملا کر گارا بنایا جائے یا اس سے زمین لیپی جائے تو اس گارے پر بربنائے ضرورت ناپاکی کا حکم نہیں لگے گا.“ (کتاب المسائل/۱۰۸) دوسرے امر کا جواب یہ ہے کہ اس پر مصلیٰ وغیرہ کچھ بچھائے بغیر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست نہیں گویا تطیین کے باب میں ضرورةً پاک ہے؛ لیکن جواز صلوٰة کے باب میں ناپاکی کا حکم برقرار رہے گا اور اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کوئی زمین پر پیشاب کردے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو زکاة الارض یُبسہا کے پیش نظر اس پر نماز پڑھنا درست ہے؛ لیکن اس جگہ سے تیمم کرنا درست نہیں؛ اس لیے کہ تیمم کے لئے پاک مٹی کی شرط ہے فَتَیَمَّمُواْ صَعِیداً طَیِّباً الآیة، ہاں اگر مٹی، گوبر کو بالکل فنا کردے اور گوبر کا اثر باقی نہ رہے تو اب انقلابِ ماہیت کے بعد وہ جگہ پاک ہوجائے گی اور اس پر ننگے پیر نماز پڑھنا درست ہے اور گوبری خواہ سوکھا ہو یا گیلا ہرصورت میں ناپاک ہے، محض خشک ہونے سے پاکی کا حکم نہ ہوگا؛ جب تک کہ انقلابِ ماہیت نہ ہوجائے وقیل أیہما کان نجساً فالطین نجس، واختارہ ابواللیث وصححہ فی الخانیة وغیرہا وقوّاہ فی شرح المنیة وحکم بفساد بقیة الأقوال، تأمل وصححہ فی المحیط أیضاً بخلاف السرقین اذا جعل فی الطّین للتطیین لا ینجس لأن فیہ ضرورة الی اسقاط نجاستہ؛ لأنہ لا یتہیأ الّا بہ (شامی زکریا ۱/۵۶۵)                              
فقط واللہ اعلم
وقار علی غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند        
۵/۶/۱۴۳۸ ھ
الجواب صحیح
--------------------------------
گوبر سے لپائی کی ہوئی جگہ پر نماز پڑھنا
سوال: گاؤں کے مکانات کچے ہوتے ہیں، ان میں عورتیں لپائی کرتی ہیں مٹی کے ساتھ گوبر مکس کرکے، اس سے لپائی کا کام کیا جاتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ اس کے اوپر سوکھنے کے بعد نماز  ہوتی ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر مٹی کے ساتھ گوبر ملاکر دیواروں پر لپائی کی گئی  ہو، زمین اور فرش پر اس کی لپائی نہ کی گئی  ہو تو اس  جگہ نماز پڑھنا جائز ہے، اَطراف کی دیواروں پر گوبر کی لپائی سے نماز میں کوئی حرج نہیں آئے گا، اور اگر اس مٹی ملے گوبر سے زمین اور فرش کی لپائی کی جاتی ہو اوراس میں  گوبر نظر آرہا ہو تو اس کے  اوپر کسی چیز کو بچھائے بغیر نماز پڑھنا جائز نہیں ہوگا، ہاں اس کے سوکھنے کے بعد اس کے اوپر جائے نماز یا کوئی چادر بچھا کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر گوبر کی لپائی کے بعد اس کے اوپر مٹی کا لیپ بھی کردیا جائے جس سے گوبر چھپ جائے اور اس کی بدبو بھی محسوس نہ ہو تو  یہ زمین پاک ہوگی اور اس کے اوپر نماز پڑھنا جائز ہوگا۔
الفتاوى الهندية (1/ 58):
’’تطهير النجاسة من بدن المصلي وثوبه والمكان الذي يصلي عليه واجب. هكذا في الزاهدي في باب الأنجاس‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 626):
’’ومبسوط على نجس إن لم يظهر لون أو ريح.
(قوله: مبسوط على نجس إلخ) قال في المنية: وإذا أصابت الأرض نجاسة ففرشها بطين أو جص فصلى عليها جاز وليس هذا كالثوب، ولو فرشها بالتراب ولم يطين، إن كان التراب قليلاً بحيث لو استشمه يجد رائحة النجاسة لاتجوز وإلا تجوز. اهـ. قال في شرحها: وكذا الثوب إذا فرش على النجاسة اليابسة؛ فإن كان رقيقاً يشف ماتحته أو توجد منه رائحة النجاسة على تقدير أن لها رائحةً لا يجوز الصلاة عليه، وإن كان غليظاً بحيث لايكون كذلك جازت. اهـ. ثم لايخفى أن المراد إذا كانت النجاسة تحت قدمه أو موضع سجوده؛ لأنه حينئذٍ يكون قائماً أو ساجداً على النجاسة لعدم صلوح ذلك الثوب لكونه حائلاً، فليس المانع هو نفس وجود الرائحة حتى يعارض بأنه لو كان بقربه نجاسة يشم ريحها لا تفسد صلاته، فافهم.‘‘ 
فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر: 144001200525
--------------------------------
عنوان: گوبر سے لیپے ہوئے فرش پر چلنے كا حكم
سوال: اگر کسی نے بھیگے پاوٴں سے گوبر سے لیپے ہوئے گھر میں ہٹنے لگے تو اس کی پاکی کا کیا حکم ہے؟
جواب نمبر: 164562
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1301-1039/SN=1/1440
اگر گوبر سے لیپا ہوا فرش اس نوعیت کا ہو کہ اس پر چلنے سے پاوٴں پر نجاست (گوبر یا گوبر سے ملی ہوئی مٹی یا تراوٹ) کا اثر نہ لگتا ہو تو اس پر چلنے سے پاوٴں ناپاک نہیں ہوں گے اگر چہ چلنے کی وجہ سے فرش پر پیروں کا نشان پڑ جائے۔
في غنیة المستملي: وکذا إن مشی علی أرض نجسة بعد ما غسل رجلیہ فابتلت الأرض من بلل رجلیہ واسود وجہ الأرض، أي: بالنسبة إلی لونہ الأول؛ لکن لم یظہر أثر البلل المتصل بالأرض في رجلیہ لم تتنجس رجلہ ، وجازت صلاتہ بدون إعادة غسلہا لعدم ظہور عین النجاسة في جمیع ذلک ، والطاہر بیقین لایصیر نجساً إلا بیقین مثلہ۔ (ص: ۱۷۵، ط: أشرفیہ۔ نیز دیکھیں: حاشیة الطحطاوي علی المراقي ، ص: ۸۵، ط: أشرفیہ؛ البزازیة علی ہامش الہندیة: ۴/۲۳، ط: دارالکتاب؛ البحر الرائق: ۱/۴۰۱، زکریا؛ الہندیة: ۱/۴۷، ط: دارالکتاب)۔
---------------------------------
سوال: خشک اوپلوں پر ننگے پاوں کھڑے ہوکر جنازہ پڑھا جوامام نہیں تھا کیا اسکی ادا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق :
جی اداء جائز ہے۔
قول أبي حنيفة : إذا أصابتها النجاسة ويبست الأرض وذهبت عين النجاسة فقد طهرت.
قال في البحر الرائق في الفقه الحنفي: وتطهر الأرض المتنجسة بالجفاف إذا ذهب أثر النجاسة فتجوز الصلاة عليها ، ولا يجوز التيمم منها (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post_29.html?m=1

Monday, July 26, 2021

مادری زبان کا پس منظر و پیش منظر کیا ہے؟

مادری زبان کا پس منظر و پیش منظر کیا ہے؟

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات، خیالات اور اپنے جذبات دوسرے انسان تک منتقل کرتا ہے۔ زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے، یہ مافی الضمیر کے اظہار کا ایک وقیع ذریعہ ہے۔ زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے ۔انسانی معاشروں میں بولی جانی زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں۔ زبان کے ذریعے جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کا اظہار کرتا ہے وہاں دوسرا انسان بھی زبان کے ذریعے سے ہی پہلے کے مافی الضمیر کا دراک کرتا ہے۔ کسی انسان کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اس کا انداہ لگاسکے. پس یہ زبان ہی ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔

انسان کی پہلی زبان ’’رونا‘‘ ہے۔ ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتا ہے۔ اسی رونے میں اسکی بھوک پوشیدہ ہوتی ہے، اسی رونے میں اس کی پیاس ہویداہوتی ہے، اسی رونے سے وہ اپنی تکلیف اور درد کا احساس دلاتا ہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکر جاگنے کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اسکی ماں ہی سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے، رونے کی کوئی تراکیب نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قوائدبھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے۔ بہت سے تجربہ کار ڈاکٹر اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اس کا بخوبی ادراک کرلیتی ہے، حالانکہ ’’ماں‘‘ نے ’’ماں‘‘ بننے کا کوئی کورس نہیں کیا ہوتا بس ماں کے سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ کرکے اس تکلیف کی وضاحت کردیتا ہے۔ بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اس کا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھا ہوا سبق وہ بڑھاپے کی دہلیز پر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ ماں کی گود کے اثرات بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہوکر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر کندان کرکے توہمیشہ کے لیے امر کردی جائے۔ یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اسی طرف ہی مڑتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے دودھ میں پلایا ہے۔ جیسے امریکی بچوں کو اسامہ کا خوف مائیں اپنے دودھ میں پلاتی ہیں اور اسرائیلی ماؤں نے حماس کا خوف یہودی بچوں کو دودھ میں پلایا ہے وغیرہ۔ مادری زبان بھی اسی طرح کا پڑھایا ہوا سبق ہوتا ہے۔

ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتا ہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی ہے کیونکہ ’’مادر‘‘ فارسی زبان میں ’’ماں‘‘ کو کہتے ہیں۔ زبان سیکھنا ایک طویل مرحلے کامرہون منت ہوتا ہے۔ کوئی زبان، اس کے قوائد، اس کی لغت اور اس کے دیگر اسرارورموز ایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اللہ تعالی کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کرلیتا ہے کہ ساری عمر کے لئے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تواس زبان کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان خالص ہوتی ہے اور دیگر زبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپنا آپ گم نہیں کر بیٹھتی تو ایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کا جھمگٹا ہوتا ہے جہاں وہ زبان اپنا تاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کررہی ہوتی ہے۔ مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے پس منظر میں اس علاقے کا، اس تہذیب کا، اس ثقافت کا اور ان کی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتا ہے۔ زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔ مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کررہی ہوتی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کررہی ہوتی ہے۔ مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں، مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کروانے کے لئے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسکا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔

مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت النبی ﷺ کے واقعات سے بخوبی میسر آتا ہے۔ یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ دیہاتوں کی زبان،دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والے کسی زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہوا کرتے ہیں۔ عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے والی پرورش ان کی زبان کے پس منظر میں ان کی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک تو محدود نہیں ہوتی اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضع طور پر اثر پزیر رہتے ہیں۔ شاید انہیں مقاصد کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔ اسی طرح دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیئے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اس کے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کرلیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اس کے لئے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کا کام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔

مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے، نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر رہا ہے. چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پزیر رہتی ہے، نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں، نیا ادب تخلیق ہوتا ہے، استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ جس طرح قوموں کے درمیان اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے، جو جو زبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔ وطن عزیز، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سی مادری زبانیں ہیں جنہیں علاقائی زبانیں بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم علاقوں میں ان زبانوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب ،دورغلامی کی باقیات،انگریزی زبان میں ہے۔ بعض اوقات تو اس غیرضروری حد تک انگریزی زبان کو استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر انگریز بھی ہوتے تو شرماجاتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ابھی آزاد نہیں ہوئے؟ دنیا بھر جہاں بھی کوئی تعلیم حاصل کرنے جائے تو پہلے اسی وہاں کی قومی زبان سکھائی جاتی ہے اور پھر اسی زبان میں اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔

چین کے انقلابی راہنماماؤزے تنگ بہت اچھی انگریزی جانتے تھے لیکن عالمی انگریز راہنماؤں سے بھی جب ملتے تو درمیان میں اپنی زبان کا مترجم بٹھاتے، وہ سب سمجھتے تھے کہ انگریزکیا کہہ رہا ہے لیکن مترجم کے ترجمے کے بعد جواب دیتے۔ انگریزکوئی لطیفہ سناتا تو سمجھنے کے باوجود مترجم کے ترجمہ کرنے پر ہی ہنستے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکیوں نے جب جاپان فتح کیا تو شاہ جاپان نے ان سے ایک ہی بات کہی کہ میری قوم سے میری زبان مت چھیننا۔ نشے کی ماری ہوئی چینی قوم اور جنگ میں تباہ حال جاپانی قوم اپنی زبان کی مضبوط بنیادوں کے باعث آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتی ہیں جبکہ انگریز کی تیارکردہ غلامانہ مصنوعی سیکولرقیادت کے مقروض لہجوں نے آج پاکستان کوذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رکھا ہے۔قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعرا و محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے. ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور ان کے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں، دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا آپ منواسکے۔ لیکن وطن عزیزکا مقتدر سیکولرطبقہ جو ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہے قومی ترقی کی راہ میں بدیسی و غلامانہ زبان کی بیساکھیوں کے باعث سدراہ ہے ۔یہ طبقہ اپنے سیکولر خیالات کوانگریزی تہذیب کے مکروہ لبادے میں ’’جدیدیت‘‘ کی ملمع کاری کو قوم میں نفوذ کرنا چاہتا ہے لیکن اب اس طبقے کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، انشاء اﷲ تعالی۔

کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ اقوام عالم کوان کی مادری یا قومی زبان سے محروم کردیا جائے۔ وطن عزیزمیں ایک وقت کے اندر کئی کئی زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صریحاََنسل نوپرناروابوجھ ہیں۔ایک بچہ مادری زبان سیکھتا ہے، اسی میں سوچتا ہے، اسی میں خواب بھی دیکھتا ہے، اسی مادری زبان میں دل اور جذبات کو بھی دخیل کرتاہے۔ جب تھوڑاسا بڑاہوتا ہے تو اسے مسجد بھیج دیا جاتا ہے، یہاں اسے مذہبی زبان، عربی، سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسے عربی کے حروف تہجی سکھائے جائے ہیں، ان کا تلفظ ازبر کروایا جاتا ہے، عربی قوائد لسانیات سے جزوی واقفیت کروائی جاتی ہے جس کے باعث وہ قرآن مجید کی قرات و تلاوت اور اپنی مذہبی رسوم و عبادات کی بجاآوری کے قابل ہوجاتا ہے۔ اسی دوران اسے گلی محلے کی دکانوں پر ’’چیز‘‘ لیتے ہوئے یا راستہ پوچھتے بتاتے ہوئے یا کسی انکل سے یا مسجد کے مولانا صاحب سے یا کسی باجی یا آنٹی سے بات کرنی ہو یا گھر میں آئے مہمانوں سے کوئی سوال جواب یا تعارف کا مرحلہ درپیش ہوتو اسے اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ یہ اردو زبان پورے جنوبی ایشیاء میں کم وبیش سو فیصد لوگ کسی نہ کسی درجے میں سمجھتے، بولتے اور لکھتے ہیں اور رابطہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پھر جب اسے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کروایا جاتا ہے تو یہ لسانی ستم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جہاں سات سمندر پارکی زبان آکاس بیل کی مانند ایک ناسوربن کر اس سے تاحیات چمٹ جاتی ہے۔ اسے انگریزی زبان کا بے مقصد بوجھ اپنی تعلیمی کمرپر لادناہوتاہے ،بدیسی قوم کی طرح اسی کے لہجے میں اپنا منہ ٹیڑھاکر کرکے اس کی زبان بولنی پڑتی ہے۔جو بچہ اس غلامانہ زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے، اسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا مصنوعی رنگ ڈھنگ اختیارکرلے، اسی زبان کے نشیب و فراز میں اپنے لہجے کو ڈھال لے تووہ طالب علم اپنے اساتذہ کا چہیتا اور اس تعلیمی ادارے کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے، وہ اپنے تعلیمی درجے تعلیم کے اعلی مقامات اورانعامات کا مستحق بھی گردانا جاتا ہے اور اگلے تعلیمی مرحلوں میں بھی اسے ترجیحی تفوق حاصل رہتا ہے۔

دیگر زبانوں میں اچھے مقامات کا حامل کسی زبان کا ماہر تو شاید ہوجائے لیکن اس زبان میں پڑھائے جانے والا مواد کس حد تک اس کے ذہن نشین ہوا ہے؟ اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس کی وجہ ایک سادہ سا نفسیاتی جائزہ ہے کہ بچے کی بچگانہ اور محدود ذہنی صلاحیت کواگر صرف موادکے سمجھنے پر لگاجائے تب اس میں کامیابی کے کتنے فیصد امکانات ہوں گے اور جب اس کی ذہنی صلاحیت پر پہلے غیرزبان سمجھنے کا اضافی وغیرفطری بوجھ اور پھر مواد کے سمجھنے کا کام اس کے ذمہ لگایا جائے تب اس کی کارکردگی کتنے فیصد ہوپائے گی۔ اس تجزیے کے نتائج اظہر من الشمس ہیں جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کوئی غیرزبان سیکھنے میں آدھی صدی بھی صرف کردے تب بھی اس زبان کوبطورمادری زبان کے بولنے والوں کے برابرتودورکی بات ہے اس کے عشرعشیر جتنابھی کچھ مقام حاصل نہیں کرپائے گا۔انسان کی اصل زبان وہی ہے جو اس کی مادری زبان ہے۔ تاہم کوئی بھی قوم اپنی نسل کو غیرزبان سے نجات دلاکر اپنی مادری زبان میں تعلیم کے ذریعے علوم و معارف میں بہت اعلی مقام یقیناََ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ تخلیقیت کا تعلق ہمیشہ سے مادری زبان سے رہتا ہے۔

مسلمانوں نے اس کرہ ارض پر کم و بیش ایک ہزارسال حکومت کی لیکن کسی قوم کواس کی مادری زبان یا مقامی تہذیب سے محروم نہیں کیا۔ سیکولر گورا سامراج تین سوسال تک انسانوں کی گردنوں پر مسلط رہا اور ہر جگہ اس نے مقامی تہذیب کو تاراج کیا. اپنا تمدن زبردستی مسلط کیا اور علاقائی و مادری زبان چھین کر قوموں کو گونگا بہرا بنانے کا عالمی انسانی مجرم بن گیا۔ اسلام نے فرد کو کسی حد تک غلام رکھنے کی مشروط و محدود اجازت دی تھی لیکن اس سیکولراور لبرل استبداد نے پوری کی پوری قوموں کو اپنا غلام بنایا اور تعلیمی غلامی، تہذیبی غلامی، لسانی غلامی، دفاعی غلامی اور ذہنی غلامی سمیت نہ معلوم کتنی غلامیوں کے طوق ان کی گردنوں میں ڈالے اور اپنی زبان کی ہتھکڑیاں انہیں پہناکر مغربی جمہوری نظام کی بیڑیوں کے ذریعے ان اقوام کی رفتارکار کو انتہائی سست بنادیا تاکہ وہ کبھی بھی ہم سے آگے قدم نہ بڑھاکر ہمیشہ ہمارے دست نگر رہیں۔ مادری زبان کا یہ عالمی دن ہر قوم کو یہ احساس دلاتا ہے کہ عالمی گاؤں ’’گلوبل ویلج‘‘ کے نام پر لسانی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں سے کلیتاََ بچایا جائے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ عالمی طاغوت کا آلہ کار بننے کی بجائے کل عصری علوم کو دنیا بھر کی مادری زبانوں میں منتقل کرنے کا عالمی انسانی فریضہ سرانجام دے تاکہ کل انسانیت کسی ایک زبان کی اجارہ داری سے نکل کر اس کرہ ارض کو آفاقی و آسمانی تعلیمات کے مطابق امن و آشتی اور پیارومحبت کی آماج گاہ بناسکے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post_60.html




واقعہ قربانی قرآن کی زبانی

واقعہ قربانی قرآن کی زبانی

بقلم: مولانا ندیم احمد انصاری

واقعۂ قربانی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان حضرات کے بارے میں اختصار کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے، جن حضرات نے اس مبارک عمل کو پہلے پہل انجام دیا اور جن کی رسمِ عاشقی ہمارے لئے عبادت بنادی گئی۔ یہ واقعہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا، پہلے ہم ان دونوں کے متعلق نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کردیں، اس کے بعد اصل واقعے کو بیان کریں گے۔ ان شآءاللہ
عہدِعتیق کے سفرِتلوین میں ہے کہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سام بن نوح کی اولاد کے دسویں سلسلے میں تھے اور آپ علیہ السلام کلدانیوں کے شہر ’اُور‘ میں پیدا ہوئے تھے، کہا جاتا ہے کہ یہ وہی شہر ہے، جو ولایت حلب میں اُوقار کے نام سے مشہور ہے، بعض تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کوفہ کے شہر ’کوئی‘ میں پیدا ہوئے تھے، سفرِ تلوین سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ اُن کی عمر ۹۹ سال تھی، بشارت دی کہ وہ اُن کی نسل کو پھیلائے گا اور فلسطین کی سرزمین میں اس کی حکومت قائم کرے گا، نیز ان کا نام ’اِبرام‘ کی بجائے ’ابراہیم‘ قرار دیا۔ ابراہیم کا پہلا جزو ’اِب‘ عربی کا ’اَب‘ ہے، جس کے معنی ’باپ‘ ہیں اور ’راہیم‘ کلدانی زبان می جمہور یا عوام کو کہتے ہیں، گویا ابراہیم کے معنی لوگوں کا باپ ہوئے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم ’ابٌ راحمٌ‘ رحم کرنے والا باپ کی بدلی ہوئی شکل ہے، اس صورت میں دونوں جزو عربی ہوں گے۔
آپ علیہ السلام کے والد یا چچا کا نام تارح یا آزر تھا، آپ علیہ السلام کی قوم ’صابی‘ یعنی ستارہ پرست تھی، مگر آپ علیہ السلام کی فطرتِ سلیمہ نے بچپن ہی میں صائبیت ۔۔۔ جوکہ بُت پرستی ہی کی ایک شکل تھی ۔۔۔ سے انکار کردیا اور ہر قسم کی ترغیب و ترہیب سے بے پروا ہو کر اعلان کردیا کہ میں نے تو ہر طرف سے کٹ کر زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کی طرف اپنا رُخ کرلیا ہے، میں مشرکوں میں شامل نہیں رہ سکتا۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام معصوم ہوتے ہیں اور ان کی یہ عصمت ان سے پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لئے بھی جُدا نہیں ہوتی۔ حق پرستی کے جُرم میں بادشاہِ وقت نے آپؑ کو آگ میں ڈال دیا، مگر بحکمِ الٰہی وہ آگ آپ کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی۔
اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوکر آپ علیہ السلام نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی، شام سے آپ علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کو ساتھ لے کر بغرضِ تبلیغ مصر گئے، مصر سے پھر شام لوٹ آئے اور وہیں قیام فرمایا۔ شام کے قیام کے زمانے میں جب کہ آپ علیہ السلام بوڑھے ہو گئے تھے، حضرت ہاجرہؑ جو کہ آپ کی بیوی حضرت سارہؑ کی باندی تھیں اور جنھیں اُنھوں نے آپ علیہ السلام علیہ السلام کو ہبہ کردیا تھا اور آپ علیہ السلام نے ان سے نکاح کرلیا تھا، ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، پھر کچھ مدت کے بعدحضرت سارہؑ کے بطن سے حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہ حکمِ خداوندی اپنے پہلے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہؑ کے ساتھ حجاز کے اس چٹیل میدان میں چھوڑ آئے، جو یمن سے شام جانے والے قافلوں کی گزر گاہ تھی۔ اُن کی بھوک و پیاس دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں زم زم کا چشمہ جاری کیا، اس چشمے کی وجہ سے جُرہم کے قبیلے نے وہاں سکونت اختیار کی اور شہرِمکہ کی آبادی کی بنیاد پڑگئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کبھی کبھی اپنی بیوی اور بچّے کو دیکھنے کے لئے مکہ آتے اور اس شہر کی آبادی اور اس کے باشندوں کی دینی و دنیوی خوش حالی کی دعاء فرماتے رہتے تھے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑ ے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کی مدد سے خدا کے مقدس گھر کعبہ کو تعمیر کیا، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی اس کے امام و متولی قرار پائے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نکاح خاندانِ جرہم ہی میں ہوا تھا، آپ علیہ السلام کی اولاد خوب پھلی پھولی اور انھیں کی ایک شاخ ’قریش‘ کہلائی اور قریش کے سب سے زیادہ معزز گھرانے بنوہاشم میں خدا کے آخری نبی محمد ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحب زادے حضرت اسحاقؑ ملکِ شام ہی میں رہے، ان کی نسل سے بہت سے نبی پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام انہی کے بیٹے تھے، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا، اسی لئے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔
حضرت ابراہیم علیہ و علیٰ نبینا الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی خدا پرستی، حق گوئی اور فدا کاری کا بہترین نمونہ ہے، اسی لئے قرآنِ کریم میں انھیں (حنیفاً مسلماً) سب طرف سے کٹ کر خدا کا ہوجانے والا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کے دینے والا جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے اور اسلام کو ملّتِ ابراہیم ؑ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام اپنے فضائل میں حضورِاکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے ممتاز ہیں۔ (قاموس القرآن بتصرف)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی یوں تو ابتلا و آزمائش سے گھری رہی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مقربین کا یونہی امتحان لیا جاتا ہے تاکہ کوئی کھوکھلا دعویٰ نہ کرسکے لیکن ان آزمائشوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر قدم پر تسلیم و رضا کا پیکر بنے رہے، جس کے نتیجے میں خیرِاُمم کو بھی اس برگزیدہ ہستی کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بچپن ہی میں جب بادشاہِ وقت نے توحید کی بات پر جمے رہنے کے جُرم میں آگ میں ڈالا تھا، اس وقت بھی انھوں نے فرشتوں تک کی مدد لینے سے انکار کرکے صبر و استقامت کے ساتھ توحیدِخالص کا ثبوت پیش کیا تھا، اس کے بعد بڑھاپے میں ملے ہوئے اکلوتے شیرخوار بیٹے اور نیک بیوی کو وادیٔ غیرذی زرع میں چھوڑکر مکمل تسلیم و رضا کا ثبوت فراہم کیا۔ اسی پر بس نہیں، جب وہ بیٹا قوتِ بازو بننے کے قابل ہوا تو خواب میں اللہ تعالیٰ کا حکم و اشارہ پاکر اسے بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تمام واقعات اور خصوصاً بیٹے کی قربانی کا یہ واقعہ ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو بلا چوں و چرا مان لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر جبینِ نیاز خم کردینا ہی مسلمان کا شیوع ہے اور ہر سال عیدالاضحی و حج کے موقع پر اس خاندانِ خلیل اللہ کی ان عاشقانہ اداؤں کو دہرانے کا مقصد اسی جذبے کو موجزن کرنا ہے کہ کسی بھی حال میں اطاعت اور تسلیم و رضا کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔
معارف الحدیث میں ہے کہ دس ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں امتِ مسلمہ کے موسّس ومورثِ اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم واشارہ پاکر اپنے لختِ جگر سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی رضامندی سے قربانی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پر چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم ورضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق ومحبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ وسلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمالی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر ’امامت‘ کا تاج رکھ دیا اور ان کی اس نقل کو قیامت تک کے لئے ’رسمِ عاشقی‘ قرار دے دیا، پس اِس دن کو اُس عظیم تاریخی واقعے کی حیثیت سے تہوار قرار دے دیا گیا، چوں کہ امتِ مسلمہ ملتِ ابراہیمی کی وارث اور اسوۂ خلیلی کی نمائندہ ہے، اس موقع پر یعنی دس ذی الحجہ میں پورے عالمِ اسلامی کا حج میں اجتماع اور اس کے مناسکِ حج میں قربانی وغیرہ اس واقعے کی گویا اصل واول درجے کی یادگار ہیں اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عیدالاضحی کی تقریبات؛ نماز وقربانی وغیرہ اس کی گویا نقل اور دوم درجے کی یادگار ہیں، انھیں وجوہات کی بنا پر اس دن کو ’یوم العید‘ یعنی عید کا دن کہتے ہیں۔ (ملخصاً)
آگے ہم قرآنِ کریم کی سورۂ صافات کی آیاتِ مبارکہ (۹۹ تا ۱۰۷) کے حوالے سے قربانی کا پورا واقعہ پیش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نصیحت لینے والا بنائے، آمین۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ۔
اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ آپ علیہ السلام کے وطن میں آپ کے بھانجے حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی اور آپ ؑ پر ایمان لانے والا نہیں تھا اور یہاں رب کی طرف جانے سے مراد دارالکفر کو ترک کرکے کسی ایسے مقام پر جانا ہے، جہاں حقیقی رب کی عبادت سے روکنے والا کوئی نہ ہو۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت سارہ اور بھانجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ عراق کے مختلف مقامات کا سفر طے کیا اور باالآخر شام میں سکونت اختیار کی، اس وقت تک آپؑ کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے آپؑ نے دعاء فرمائی؛
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔
اے میرے رب! مجھے کوئی نیک بیٹا عطا فرما۔
چناں چہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کو ایک نیک فرزند کی خوش خبری سنائی گئی، جیسا کہ ارشاد ہے؛
فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ۔
پس ہم نے ایک حلیم المزاج بیٹے کی خوش خبری دی۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے بیٹے کی آپؑ کو بشارت سنائی، جو کہ حلیم المزاج و صاحبِ برداشت ہو اور حلیم بھی اس درجے کا کہ باپ نے اپنے خواب سناکر خود انھیں ذبح کرنے پر مشورہ کیا تو نہایت متانت کے ساتھ اس عظیم ترین امتحان کے لیے اس بیٹے نے خود کو پیش کر دیا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ ٰیبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ۔
پس جب وہ (بیٹا اس عمر کو) پہنچا کہ ان کے ساتھ دوڑنے لگے، تو (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے) کہا؛ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کرتا ہوں۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ خلیل علیہ السلام نے یہ خواب تین راتوں تک مسلسل دیکھا اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس طرح حضرتِ خلیل ؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ نیز خواب کے ذریعے اس حکم کے نازل ہونے میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ خلیل ؑ کی آزمائش تام ہو اور باوجود تاویلات کی گنجائش کے حضرت خلیل ؑ اس پر سرِتسلیم خم کردیں، جو مزاجِ یار میں آئے۔ اس آیت میں فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْی کہہ کر حضرت ابراہیم ؑ کی مشکلوں کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ بڑھاپے کی اکلوتی اولاد جب ایسی عمر کو پہنچ گئی، جب کہ وہ اپنے باپ کی قوّتِ بازو بنے، اس وقت کہا جارہا ہے کہ اسے ہمارے حکم و اشارہ پاکر قربان کردو۔
فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی۔
تو تم دیکھو تمھارا کیا خیال ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت اسماعیل ؑ کو بھی آزمانا چاہتے تھے کہ دیکھیں ابن خلیل کیا جواب دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس کا والد خلیل اللہ ہو اس کا فرزند بھی ذبیح اللہ ہی ہوگا، نیز اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑ کو بھی حکمِ الٰہی کی تکمیل میں اپنا شریک کرلیا، عین ممکن تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آگے کا مرحلہ باپ بیٹے، دونوں کے لئے دشوار ہوتا۔ اب بیٹے نے بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے حامی بھردی اور ظاہر ہے کہ جسے خود آگے چل کر منصبِ نبوت پر فائز ہونا تھا، اس کا اور کیا جواب ہوسکتا تھا، ارشادِ ربانی ہے؛
قَالَ ٰٓیاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرْ۔
انھوں نے کہا؛ اے ابّا! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، آپ کر گزریئے۔
دیکھئے حضرت اسماعیل علیہ السلام میں سپاس گزاری اور ذہانت وغیرہ کی صفات کس درجے موجود تھیں کہ انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب سنانے پر جواباً اسے اللہ کے حکم سے تعبیر کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر کامل رضا کا اظہار کیا اور اپنے والدِ بزرگوار کو اطمینان دلایا کہ
سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔
اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
اس جواب میں اوّل تو انھوں نے ادب کے ساتھ ’ان شآءاللہ‘ کا استعمال کیا، دوسرے خود کو اس عظیم ترین آزمائش پر صبر کرنے والا کہنے کے بجائے تواضع و انکساری کے ساتھ عرض کیا کہ جیسے اللہ کے اور بہت سے بندے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، آپ انھیں میں مجھے بھی شامل پائیں گے۔ اس میں خودپسندی کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود نہیں اور یہی اللہ کے نیک بندوں کی شان ہوتی ہے۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا۔
پس جب وہ دونوں جھک گئے (اللہ کے حکم کے آگے، اَسْلَمَ کے صحیح معنی جھک جانا ہی ہیں)۔
یعنی جب باپ بیٹے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے پر کمر کس لی۔۔۔یہاں یہ جو ارشاد ہوا (لَمَّآ) یعنی ’جب‘ آگے اس کا جواب یعنی ’تب‘ کیا ہوا کا ذکر نہیں، جس سے یہ بتلانا اور جتلانا مقصود ہے کہ ان دونوں باپ بیٹے کا یہ معاملہ اس قدر محیرالعقول اور حیرت انگیز ہے، جس کو الفاظ کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔ الغرض! جب ان دونوں میں سے ایک نے اللہ کے لیے ذبح ہونے کا اور دوسرے نے ذبح کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا، تو بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی، جس پر انھوں نے ہر مرتبہ اسے سات کنکریاں مارکر بھگادیا اور آج تک لاکھوں مسلمان ہر سال اسی یاد کو تازہ کرتے ہوئے حج کے موقع پر منیٰ کے میدان میں جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں۔
وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔
اور (باپ نے بیٹے کو) پیشانی کے بَل لٹا دیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس طرح کروٹ کے بَل لٹایا کہ پیشانی کا ایک کنارہ زمین سے لگ گیا اور لغت کے اعتبار سے یہی تفسیر راجح ہے کہ جبین عربی زبان میں پیشانی کی دونوں کروٹوں کو اور پیشانی کے درمیانی حصّے کو جبہہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے نبوّت کا پورا زور ڈال کر اور چھری تیز کرکے اپنے رب کے حکم کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دوسری طرح چھری کو یہ اجازت نہ تھی کہ اسماعیل علیہ السلام کا ایک رواں بھی کاٹے، جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور چُھری کے درمیان پیتل کا ایک ٹکڑا حائل کردیا۔ یہ باپ بیٹے یوں ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے میں مشغول تھے، آگے واقعہ یوں پیش آیا؛
وَنَادَیْنٰہُاَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ۔
اور ہم نے انھیں پُکارا؛ اے ابراہیم!
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نظر اٹھاکر دیکھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مینڈھا لئے کھڑے ہیں، جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل علیہ السلام نے پیش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہ مینڈھا ذبح کروایا گیا اور ارشاد ہوا؛
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا-
تم نے اپنا خواب سچاکر دکھایا۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا نہ کہ انھیں پورے طور پر ذبح ہوتے ہوئے، جیسا کہ آیتِ مبارکہ کے ظاہر الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔ اس کے بعد اس عظیم ترین امتحان کا نتیجہ بھی بیان کیا جارہا ہے؛
اِنَّاکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۔
ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں، بے شک! یہ صریح آزمائش تھی۔
واقعی ان باپ بیٹوں کا اپنے تمام تر جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا، اس سے بڑی اور کیا آزمائش ہو سکتی ہے، پھر وہ تو اس بات کو جانتے بھی نہ تھے کہ عین موقع پر اللہ تعالیٰ بیٹے کی جگہ جانور کو فدیہ بنادیں گے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہوا؛
وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔
اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔
اس ذبیحے کو عظیم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھیجا گیا تھا۔ (بامداد معارف القرآن وہدایت کے چراغ وغیرہ) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post_26.html?m=1

لنگی ‏

لنگی 
(انشائیہ)
جاوید نہال حشمی
 
مجھے یقین ہے عنوان دیکھتے ہی آپ نے پورا مضمون ایک ہی نشست میں پڑھ لینے کا من بنا لیا ہوگا۔آپ کے تجسس کا سبب میں سمجھ سکتا ہوں۔ کسی شریف آدمی پر جب کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو  تماش بین چٹخارے لے لے کر ہمہ تن گوش و چشم ہوجاتے ہیں۔  بے چاری لنگی! اتنی سیدھی سادی کہ صرف ایک سیدھی سِلائی میں ہی عزت و ناموس کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ سادگی ایسی کہ ہر طرح کے زِپ، بٹن، اِزار بند اور پاکٹ وغیرہ سے  مبرّا۔ شریف اتنی کہ ”اُلٹے سیدھے“ سے کوئی لینا دینا نہیں کیوں کہ دونوں سِرے اوپر نیچے کے بھید بھاؤ سے یکسر آزاد ہوتے ہیں۔ مخلص اتنی کہ ”ظاہر و باطن“ ایک۔ فرمانبردار اس قدر کہ اوپر سے پہنیں یا نیچے سے، کیا مجال کہ کسی قسم کی مزاحمت کا مظاہرہ کرے۔ ہر موقع کے لئے سہولت فراہم کرنے والی لنگی کو اگر کوئی شخص، چاہے وہ  پڑھا لکھا پروفیسر ہی کیوں نہ ہو،  غلط کام کے لئے استعمال کرے تو اس میں بے چاری لنگی کا کیا قصور؟  ویسے بھی خالص مردانہ لباس ہونے کے باوجود  اسے مؤنث کی حیثیت دینا گونگی لنگی پر ظلم ہی تو ہے۔
یوں تو لنگی کے ایک نہیں کئی فائدے ہیں لیکن ”ایمرجنسی صورتِ حال“ میں اس کی افادیت  کا احساس شدت سے ہوتا ہے، بشرطیکہ ٹائلیٹ میں آگے سے کوئی موجود نہ ہو!  ... نہ ناڑے میں گرہ پڑنے کا خوف، نہ بٹن کھلنے میں تاخیر سے پیدا شدہ انتہائی خفّت آمیز نتیجے کا خدشہ۔ پردہ اُٹھنے سے پردہ گرنے تک تمام اہم رول خوش اسلوبی سے انجام پاتے ہیں۔
ہوادار اتنی کہ پسینہ اور اس سے ہونے والی خارش سے نجات کی ضامن بھی ہے۔ اس کے باوجود نئی نسل اسے ”غیرمہذب“ لباس قرار دیتے ہوئے اسے تحقیر آمیز نگاہ سے دیکھتی ہے، حالانکہ اس کی فراہم شدہ سہولیات میں سے ایک بہت اہم سہولت یہ بھی ہے کہ آپ  اس کی مدد سے مسجد یا دفتر جانے سے قبل کھلم کھلا سب کے سامنے پاجامہ یا پتلون تبدیل کرسکتے ہیں، نہ باتھ روم میں جانے کی ضرورت نہ کمرے کا دروازہ بند کرنے کی مجبوری، اور نہ ہی گمچھے یا تولئے کا احسان لینے کی حاجت۔ لنگی کی اہمیت سے واقف لوگوں میں سے کچھ تو اسے بستر تک ہی محدود رکھتے ہیں مگر زیادہ تر لوگ پورا وقت گھر میں ”لنگی نشیں“ ہوتے ہیں جب کہ عاشقانِ لنگی پڑوس کی مسجد سے لے کر مقامی بازار تک لنگی نشینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
یہ واحد لباس ہے جو علاقائی عصبیت کا شکار بھی ہے۔ جنوبی ہند میں اکثر اسے پہن کر دفتروں اور  پارلیمان میں بھی بڑی شان سے جایا جاتا ہے جب کہ شمالی ہند میں اسے پہن کر گھر سے باہر قدم نکالنا جہالت، گنوارپن اور بدتہذیبی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب میرے ایک پڑوسی کو لنگی میں بازار جاتے دیکھ کر اس کے ایک بے تکلف دوست نے  کمنٹ کیا ”کیوں بھائی، کھجلی ہوئی ہے یا ختنۂ ثانی؟“ تو میں نے دوسرے دن سے ہی لنگی میں بالکنی میں بھی نکلنا چھوڑ دیا۔ ویسے بھی لنگی کو بدنام کرنے میں بھائی لوگوں نے کوئی کسر کہاں چھوڑی ہے۔ لنگی کے اوپر صرف بنیان پہنے اور سر پر ٹوپی رکھے دیکھ لیں تو بےساختہ کہہ اُٹھتے ہیں: ”یار، خاندانی قصائی لگ رہے ہو!“
بعض لوگ اس کی خامیاں بتانے کے لئے کہتے ہیں اسے پہن کر دوڑ نہیں لگائی جاسکتی. ارے بھائی، خواہ مخواہ دوڑ لگانا ویسے بھی شریفوں کا شیوہ نہیں، اور اگر زبردستی دوڑے تو رہی سہی شرافت بھی کھل کر نیچے گرسکتی ہے۔ لیکن مشق ہو تو دوڑ کیا اچھل کود بھی ممکن ہے جیسا کہ بالی ووڈ کنگ شاہ رُخ خان نے ”لنگی ڈانس“ کے ذریعہ ثابت کرکے دکھا دیا۔ میرا تو خیال ہے کہ لنگی کی مقبولیت کے باعث ہی بائیک بنانے والوں نے اسکوٹر کے ڈیزائین کی طرف بھی توجہ دی ہوگی۔
شرٹ پتلون پرانے ہوجائیں تو سوائے پونچھا کے لئے استعمال کرنے کے ان کا اور کوئی مصرف نہیں ہوتا مگر لنگیاں پرانی ہوکر بھی نومولود بچوں کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ غریب کی گٹھری بھی عموماً لنگی کی ہی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
لنگی کی اور کتنی خوبیاں گنواؤں۔ چلتے چلتے بس اتنا کہہ دوں کہ اگر آپ لنگی میں باہر نکلیں اور تیز ہوا کے جھکّڑ چلنے لگیں تو ہالی ووڈ کی مشہور ہیروئن میریلن مونرو کا کلاسک پوز دینے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا! (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post.html?m=1