لنگی
(انشائیہ)
جاوید نہال حشمی
مجھے یقین ہے عنوان دیکھتے ہی آپ نے پورا مضمون ایک ہی نشست میں پڑھ لینے کا من بنا لیا ہوگا۔آپ کے تجسس کا سبب میں سمجھ سکتا ہوں۔ کسی شریف آدمی پر جب کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو تماش بین چٹخارے لے لے کر ہمہ تن گوش و چشم ہوجاتے ہیں۔ بے چاری لنگی! اتنی سیدھی سادی کہ صرف ایک سیدھی سِلائی میں ہی عزت و ناموس کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ سادگی ایسی کہ ہر طرح کے زِپ، بٹن، اِزار بند اور پاکٹ وغیرہ سے مبرّا۔ شریف اتنی کہ ”اُلٹے سیدھے“ سے کوئی لینا دینا نہیں کیوں کہ دونوں سِرے اوپر نیچے کے بھید بھاؤ سے یکسر آزاد ہوتے ہیں۔ مخلص اتنی کہ ”ظاہر و باطن“ ایک۔ فرمانبردار اس قدر کہ اوپر سے پہنیں یا نیچے سے، کیا مجال کہ کسی قسم کی مزاحمت کا مظاہرہ کرے۔ ہر موقع کے لئے سہولت فراہم کرنے والی لنگی کو اگر کوئی شخص، چاہے وہ پڑھا لکھا پروفیسر ہی کیوں نہ ہو، غلط کام کے لئے استعمال کرے تو اس میں بے چاری لنگی کا کیا قصور؟ ویسے بھی خالص مردانہ لباس ہونے کے باوجود اسے مؤنث کی حیثیت دینا گونگی لنگی پر ظلم ہی تو ہے۔
یوں تو لنگی کے ایک نہیں کئی فائدے ہیں لیکن ”ایمرجنسی صورتِ حال“ میں اس کی افادیت کا احساس شدت سے ہوتا ہے، بشرطیکہ ٹائلیٹ میں آگے سے کوئی موجود نہ ہو! ... نہ ناڑے میں گرہ پڑنے کا خوف، نہ بٹن کھلنے میں تاخیر سے پیدا شدہ انتہائی خفّت آمیز نتیجے کا خدشہ۔ پردہ اُٹھنے سے پردہ گرنے تک تمام اہم رول خوش اسلوبی سے انجام پاتے ہیں۔
ہوادار اتنی کہ پسینہ اور اس سے ہونے والی خارش سے نجات کی ضامن بھی ہے۔ اس کے باوجود نئی نسل اسے ”غیرمہذب“ لباس قرار دیتے ہوئے اسے تحقیر آمیز نگاہ سے دیکھتی ہے، حالانکہ اس کی فراہم شدہ سہولیات میں سے ایک بہت اہم سہولت یہ بھی ہے کہ آپ اس کی مدد سے مسجد یا دفتر جانے سے قبل کھلم کھلا سب کے سامنے پاجامہ یا پتلون تبدیل کرسکتے ہیں، نہ باتھ روم میں جانے کی ضرورت نہ کمرے کا دروازہ بند کرنے کی مجبوری، اور نہ ہی گمچھے یا تولئے کا احسان لینے کی حاجت۔ لنگی کی اہمیت سے واقف لوگوں میں سے کچھ تو اسے بستر تک ہی محدود رکھتے ہیں مگر زیادہ تر لوگ پورا وقت گھر میں ”لنگی نشیں“ ہوتے ہیں جب کہ عاشقانِ لنگی پڑوس کی مسجد سے لے کر مقامی بازار تک لنگی نشینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ واحد لباس ہے جو علاقائی عصبیت کا شکار بھی ہے۔ جنوبی ہند میں اکثر اسے پہن کر دفتروں اور پارلیمان میں بھی بڑی شان سے جایا جاتا ہے جب کہ شمالی ہند میں اسے پہن کر گھر سے باہر قدم نکالنا جہالت، گنوارپن اور بدتہذیبی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب میرے ایک پڑوسی کو لنگی میں بازار جاتے دیکھ کر اس کے ایک بے تکلف دوست نے کمنٹ کیا ”کیوں بھائی، کھجلی ہوئی ہے یا ختنۂ ثانی؟“ تو میں نے دوسرے دن سے ہی لنگی میں بالکنی میں بھی نکلنا چھوڑ دیا۔ ویسے بھی لنگی کو بدنام کرنے میں بھائی لوگوں نے کوئی کسر کہاں چھوڑی ہے۔ لنگی کے اوپر صرف بنیان پہنے اور سر پر ٹوپی رکھے دیکھ لیں تو بےساختہ کہہ اُٹھتے ہیں: ”یار، خاندانی قصائی لگ رہے ہو!“
بعض لوگ اس کی خامیاں بتانے کے لئے کہتے ہیں اسے پہن کر دوڑ نہیں لگائی جاسکتی. ارے بھائی، خواہ مخواہ دوڑ لگانا ویسے بھی شریفوں کا شیوہ نہیں، اور اگر زبردستی دوڑے تو رہی سہی شرافت بھی کھل کر نیچے گرسکتی ہے۔ لیکن مشق ہو تو دوڑ کیا اچھل کود بھی ممکن ہے جیسا کہ بالی ووڈ کنگ شاہ رُخ خان نے ”لنگی ڈانس“ کے ذریعہ ثابت کرکے دکھا دیا۔ میرا تو خیال ہے کہ لنگی کی مقبولیت کے باعث ہی بائیک بنانے والوں نے اسکوٹر کے ڈیزائین کی طرف بھی توجہ دی ہوگی۔
شرٹ پتلون پرانے ہوجائیں تو سوائے پونچھا کے لئے استعمال کرنے کے ان کا اور کوئی مصرف نہیں ہوتا مگر لنگیاں پرانی ہوکر بھی نومولود بچوں کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ غریب کی گٹھری بھی عموماً لنگی کی ہی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
لنگی کی اور کتنی خوبیاں گنواؤں۔ چلتے چلتے بس اتنا کہہ دوں کہ اگر آپ لنگی میں باہر نکلیں اور تیز ہوا کے جھکّڑ چلنے لگیں تو ہالی ووڈ کی مشہور ہیروئن میریلن مونرو کا کلاسک پوز دینے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا! (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post.html?m=1
No comments:
Post a Comment