واقعہ قربانی قرآن کی زبانی
بقلم: مولانا ندیم احمد انصاری
واقعۂ قربانی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان حضرات کے بارے میں اختصار کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے، جن حضرات نے اس مبارک عمل کو پہلے پہل انجام دیا اور جن کی رسمِ عاشقی ہمارے لئے عبادت بنادی گئی۔ یہ واقعہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا، پہلے ہم ان دونوں کے متعلق نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کردیں، اس کے بعد اصل واقعے کو بیان کریں گے۔ ان شآءاللہ
عہدِعتیق کے سفرِتلوین میں ہے کہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سام بن نوح کی اولاد کے دسویں سلسلے میں تھے اور آپ علیہ السلام کلدانیوں کے شہر ’اُور‘ میں پیدا ہوئے تھے، کہا جاتا ہے کہ یہ وہی شہر ہے، جو ولایت حلب میں اُوقار کے نام سے مشہور ہے، بعض تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کوفہ کے شہر ’کوئی‘ میں پیدا ہوئے تھے، سفرِ تلوین سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ اُن کی عمر ۹۹ سال تھی، بشارت دی کہ وہ اُن کی نسل کو پھیلائے گا اور فلسطین کی سرزمین میں اس کی حکومت قائم کرے گا، نیز ان کا نام ’اِبرام‘ کی بجائے ’ابراہیم‘ قرار دیا۔ ابراہیم کا پہلا جزو ’اِب‘ عربی کا ’اَب‘ ہے، جس کے معنی ’باپ‘ ہیں اور ’راہیم‘ کلدانی زبان می جمہور یا عوام کو کہتے ہیں، گویا ابراہیم کے معنی لوگوں کا باپ ہوئے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم ’ابٌ راحمٌ‘ رحم کرنے والا باپ کی بدلی ہوئی شکل ہے، اس صورت میں دونوں جزو عربی ہوں گے۔
آپ علیہ السلام کے والد یا چچا کا نام تارح یا آزر تھا، آپ علیہ السلام کی قوم ’صابی‘ یعنی ستارہ پرست تھی، مگر آپ علیہ السلام کی فطرتِ سلیمہ نے بچپن ہی میں صائبیت ۔۔۔ جوکہ بُت پرستی ہی کی ایک شکل تھی ۔۔۔ سے انکار کردیا اور ہر قسم کی ترغیب و ترہیب سے بے پروا ہو کر اعلان کردیا کہ میں نے تو ہر طرف سے کٹ کر زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کی طرف اپنا رُخ کرلیا ہے، میں مشرکوں میں شامل نہیں رہ سکتا۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام معصوم ہوتے ہیں اور ان کی یہ عصمت ان سے پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لئے بھی جُدا نہیں ہوتی۔ حق پرستی کے جُرم میں بادشاہِ وقت نے آپؑ کو آگ میں ڈال دیا، مگر بحکمِ الٰہی وہ آگ آپ کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی۔
اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوکر آپ علیہ السلام نے عراق سے شام کی طرف ہجرت کی، شام سے آپ علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کو ساتھ لے کر بغرضِ تبلیغ مصر گئے، مصر سے پھر شام لوٹ آئے اور وہیں قیام فرمایا۔ شام کے قیام کے زمانے میں جب کہ آپ علیہ السلام بوڑھے ہو گئے تھے، حضرت ہاجرہؑ جو کہ آپ کی بیوی حضرت سارہؑ کی باندی تھیں اور جنھیں اُنھوں نے آپ علیہ السلام علیہ السلام کو ہبہ کردیا تھا اور آپ علیہ السلام نے ان سے نکاح کرلیا تھا، ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، پھر کچھ مدت کے بعدحضرت سارہؑ کے بطن سے حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہ حکمِ خداوندی اپنے پہلے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہؑ کے ساتھ حجاز کے اس چٹیل میدان میں چھوڑ آئے، جو یمن سے شام جانے والے قافلوں کی گزر گاہ تھی۔ اُن کی بھوک و پیاس دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وہاں زم زم کا چشمہ جاری کیا، اس چشمے کی وجہ سے جُرہم کے قبیلے نے وہاں سکونت اختیار کی اور شہرِمکہ کی آبادی کی بنیاد پڑگئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کبھی کبھی اپنی بیوی اور بچّے کو دیکھنے کے لئے مکہ آتے اور اس شہر کی آبادی اور اس کے باشندوں کی دینی و دنیوی خوش حالی کی دعاء فرماتے رہتے تھے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑ ے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کی مدد سے خدا کے مقدس گھر کعبہ کو تعمیر کیا، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی اس کے امام و متولی قرار پائے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نکاح خاندانِ جرہم ہی میں ہوا تھا، آپ علیہ السلام کی اولاد خوب پھلی پھولی اور انھیں کی ایک شاخ ’قریش‘ کہلائی اور قریش کے سب سے زیادہ معزز گھرانے بنوہاشم میں خدا کے آخری نبی محمد ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحب زادے حضرت اسحاقؑ ملکِ شام ہی میں رہے، ان کی نسل سے بہت سے نبی پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام انہی کے بیٹے تھے، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا، اسی لئے ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔
حضرت ابراہیم علیہ و علیٰ نبینا الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی خدا پرستی، حق گوئی اور فدا کاری کا بہترین نمونہ ہے، اسی لئے قرآنِ کریم میں انھیں (حنیفاً مسلماً) سب طرف سے کٹ کر خدا کا ہوجانے والا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کے دینے والا جیسے اوصاف سے یاد کیا گیا ہے اور اسلام کو ملّتِ ابراہیم ؑ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام اپنے فضائل میں حضورِاکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے ممتاز ہیں۔ (قاموس القرآن بتصرف)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی یوں تو ابتلا و آزمائش سے گھری رہی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مقربین کا یونہی امتحان لیا جاتا ہے تاکہ کوئی کھوکھلا دعویٰ نہ کرسکے لیکن ان آزمائشوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر قدم پر تسلیم و رضا کا پیکر بنے رہے، جس کے نتیجے میں خیرِاُمم کو بھی اس برگزیدہ ہستی کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بچپن ہی میں جب بادشاہِ وقت نے توحید کی بات پر جمے رہنے کے جُرم میں آگ میں ڈالا تھا، اس وقت بھی انھوں نے فرشتوں تک کی مدد لینے سے انکار کرکے صبر و استقامت کے ساتھ توحیدِخالص کا ثبوت پیش کیا تھا، اس کے بعد بڑھاپے میں ملے ہوئے اکلوتے شیرخوار بیٹے اور نیک بیوی کو وادیٔ غیرذی زرع میں چھوڑکر مکمل تسلیم و رضا کا ثبوت فراہم کیا۔ اسی پر بس نہیں، جب وہ بیٹا قوتِ بازو بننے کے قابل ہوا تو خواب میں اللہ تعالیٰ کا حکم و اشارہ پاکر اسے بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تمام واقعات اور خصوصاً بیٹے کی قربانی کا یہ واقعہ ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو بلا چوں و چرا مان لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر جبینِ نیاز خم کردینا ہی مسلمان کا شیوع ہے اور ہر سال عیدالاضحی و حج کے موقع پر اس خاندانِ خلیل اللہ کی ان عاشقانہ اداؤں کو دہرانے کا مقصد اسی جذبے کو موجزن کرنا ہے کہ کسی بھی حال میں اطاعت اور تسلیم و رضا کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔
معارف الحدیث میں ہے کہ دس ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں امتِ مسلمہ کے موسّس ومورثِ اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم واشارہ پاکر اپنے لختِ جگر سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی رضامندی سے قربانی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پر چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم ورضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق ومحبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ وسلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمالی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر ’امامت‘ کا تاج رکھ دیا اور ان کی اس نقل کو قیامت تک کے لئے ’رسمِ عاشقی‘ قرار دے دیا، پس اِس دن کو اُس عظیم تاریخی واقعے کی حیثیت سے تہوار قرار دے دیا گیا، چوں کہ امتِ مسلمہ ملتِ ابراہیمی کی وارث اور اسوۂ خلیلی کی نمائندہ ہے، اس موقع پر یعنی دس ذی الحجہ میں پورے عالمِ اسلامی کا حج میں اجتماع اور اس کے مناسکِ حج میں قربانی وغیرہ اس واقعے کی گویا اصل واول درجے کی یادگار ہیں اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عیدالاضحی کی تقریبات؛ نماز وقربانی وغیرہ اس کی گویا نقل اور دوم درجے کی یادگار ہیں، انھیں وجوہات کی بنا پر اس دن کو ’یوم العید‘ یعنی عید کا دن کہتے ہیں۔ (ملخصاً)
آگے ہم قرآنِ کریم کی سورۂ صافات کی آیاتِ مبارکہ (۹۹ تا ۱۰۷) کے حوالے سے قربانی کا پورا واقعہ پیش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نصیحت لینے والا بنائے، آمین۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ۔
اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ آپ علیہ السلام کے وطن میں آپ کے بھانجے حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی اور آپ ؑ پر ایمان لانے والا نہیں تھا اور یہاں رب کی طرف جانے سے مراد دارالکفر کو ترک کرکے کسی ایسے مقام پر جانا ہے، جہاں حقیقی رب کی عبادت سے روکنے والا کوئی نہ ہو۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت سارہ اور بھانجے حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ عراق کے مختلف مقامات کا سفر طے کیا اور باالآخر شام میں سکونت اختیار کی، اس وقت تک آپؑ کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے آپؑ نے دعاء فرمائی؛
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔
اے میرے رب! مجھے کوئی نیک بیٹا عطا فرما۔
چناں چہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کو ایک نیک فرزند کی خوش خبری سنائی گئی، جیسا کہ ارشاد ہے؛
فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ۔
پس ہم نے ایک حلیم المزاج بیٹے کی خوش خبری دی۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے بیٹے کی آپؑ کو بشارت سنائی، جو کہ حلیم المزاج و صاحبِ برداشت ہو اور حلیم بھی اس درجے کا کہ باپ نے اپنے خواب سناکر خود انھیں ذبح کرنے پر مشورہ کیا تو نہایت متانت کے ساتھ اس عظیم ترین امتحان کے لیے اس بیٹے نے خود کو پیش کر دیا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ ٰیبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ۔
پس جب وہ (بیٹا اس عمر کو) پہنچا کہ ان کے ساتھ دوڑنے لگے، تو (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے) کہا؛ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کرتا ہوں۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ خلیل علیہ السلام نے یہ خواب تین راتوں تک مسلسل دیکھا اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس طرح حضرتِ خلیل ؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ نیز خواب کے ذریعے اس حکم کے نازل ہونے میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ خلیل ؑ کی آزمائش تام ہو اور باوجود تاویلات کی گنجائش کے حضرت خلیل ؑ اس پر سرِتسلیم خم کردیں، جو مزاجِ یار میں آئے۔ اس آیت میں فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْی کہہ کر حضرت ابراہیم ؑ کی مشکلوں کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ بڑھاپے کی اکلوتی اولاد جب ایسی عمر کو پہنچ گئی، جب کہ وہ اپنے باپ کی قوّتِ بازو بنے، اس وقت کہا جارہا ہے کہ اسے ہمارے حکم و اشارہ پاکر قربان کردو۔
فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی۔
تو تم دیکھو تمھارا کیا خیال ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت اسماعیل ؑ کو بھی آزمانا چاہتے تھے کہ دیکھیں ابن خلیل کیا جواب دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس کا والد خلیل اللہ ہو اس کا فرزند بھی ذبیح اللہ ہی ہوگا، نیز اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑ کو بھی حکمِ الٰہی کی تکمیل میں اپنا شریک کرلیا، عین ممکن تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آگے کا مرحلہ باپ بیٹے، دونوں کے لئے دشوار ہوتا۔ اب بیٹے نے بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے حامی بھردی اور ظاہر ہے کہ جسے خود آگے چل کر منصبِ نبوت پر فائز ہونا تھا، اس کا اور کیا جواب ہوسکتا تھا، ارشادِ ربانی ہے؛
قَالَ ٰٓیاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرْ۔
انھوں نے کہا؛ اے ابّا! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، آپ کر گزریئے۔
دیکھئے حضرت اسماعیل علیہ السلام میں سپاس گزاری اور ذہانت وغیرہ کی صفات کس درجے موجود تھیں کہ انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب سنانے پر جواباً اسے اللہ کے حکم سے تعبیر کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر کامل رضا کا اظہار کیا اور اپنے والدِ بزرگوار کو اطمینان دلایا کہ
سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔
اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
اس جواب میں اوّل تو انھوں نے ادب کے ساتھ ’ان شآءاللہ‘ کا استعمال کیا، دوسرے خود کو اس عظیم ترین آزمائش پر صبر کرنے والا کہنے کے بجائے تواضع و انکساری کے ساتھ عرض کیا کہ جیسے اللہ کے اور بہت سے بندے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، آپ انھیں میں مجھے بھی شامل پائیں گے۔ اس میں خودپسندی کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود نہیں اور یہی اللہ کے نیک بندوں کی شان ہوتی ہے۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا۔
پس جب وہ دونوں جھک گئے (اللہ کے حکم کے آگے، اَسْلَمَ کے صحیح معنی جھک جانا ہی ہیں)۔
یعنی جب باپ بیٹے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے پر کمر کس لی۔۔۔یہاں یہ جو ارشاد ہوا (لَمَّآ) یعنی ’جب‘ آگے اس کا جواب یعنی ’تب‘ کیا ہوا کا ذکر نہیں، جس سے یہ بتلانا اور جتلانا مقصود ہے کہ ان دونوں باپ بیٹے کا یہ معاملہ اس قدر محیرالعقول اور حیرت انگیز ہے، جس کو الفاظ کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔ الغرض! جب ان دونوں میں سے ایک نے اللہ کے لیے ذبح ہونے کا اور دوسرے نے ذبح کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا، تو بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی، جس پر انھوں نے ہر مرتبہ اسے سات کنکریاں مارکر بھگادیا اور آج تک لاکھوں مسلمان ہر سال اسی یاد کو تازہ کرتے ہوئے حج کے موقع پر منیٰ کے میدان میں جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں۔
وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔
اور (باپ نے بیٹے کو) پیشانی کے بَل لٹا دیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس طرح کروٹ کے بَل لٹایا کہ پیشانی کا ایک کنارہ زمین سے لگ گیا اور لغت کے اعتبار سے یہی تفسیر راجح ہے کہ جبین عربی زبان میں پیشانی کی دونوں کروٹوں کو اور پیشانی کے درمیانی حصّے کو جبہہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے نبوّت کا پورا زور ڈال کر اور چھری تیز کرکے اپنے رب کے حکم کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دوسری طرح چھری کو یہ اجازت نہ تھی کہ اسماعیل علیہ السلام کا ایک رواں بھی کاٹے، جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور چُھری کے درمیان پیتل کا ایک ٹکڑا حائل کردیا۔ یہ باپ بیٹے یوں ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے میں مشغول تھے، آگے واقعہ یوں پیش آیا؛
وَنَادَیْنٰہُاَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ۔
اور ہم نے انھیں پُکارا؛ اے ابراہیم!
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نظر اٹھاکر دیکھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مینڈھا لئے کھڑے ہیں، جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل علیہ السلام نے پیش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہ مینڈھا ذبح کروایا گیا اور ارشاد ہوا؛
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا-
تم نے اپنا خواب سچاکر دکھایا۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا نہ کہ انھیں پورے طور پر ذبح ہوتے ہوئے، جیسا کہ آیتِ مبارکہ کے ظاہر الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔ اس کے بعد اس عظیم ترین امتحان کا نتیجہ بھی بیان کیا جارہا ہے؛
اِنَّاکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۔
ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں، بے شک! یہ صریح آزمائش تھی۔
واقعی ان باپ بیٹوں کا اپنے تمام تر جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا، اس سے بڑی اور کیا آزمائش ہو سکتی ہے، پھر وہ تو اس بات کو جانتے بھی نہ تھے کہ عین موقع پر اللہ تعالیٰ بیٹے کی جگہ جانور کو فدیہ بنادیں گے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہوا؛
وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔
اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔
اس ذبیحے کو عظیم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بھیجا گیا تھا۔ (بامداد معارف القرآن وہدایت کے چراغ وغیرہ) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post_26.html?m=1
No comments:
Post a Comment