Thursday, July 29, 2021

مٹی اور گوبر کے مخلوط سے لپی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

مٹی 
اور گوبر کے مخلوط 
سے لپی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
باسمہ تعالیٰ
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں نماز جنازہ ایسی جگہ پڑھی جاتی ہے، جہاں مٹی اور گوبر سے مخلوط گارے سے گوبری پھیری جاتی ہے۔ ایک مرتبہ جب نماز پڑھنے کے لئے جنازہ رکھا گیا تو ایک مفتی صاحب نے کہا کہ یہاں نماز پڑھنا جائز نہیں؛ اس لئے کہ گوبری پھیرنے کی وجہ سے یہ زمین ناپاک ہوگئی اور حوالہ میں ”باقیات فتاویٰ رشیدیہ“ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ پیش کیا جس میں یہ ہے کہ ”جس گارے میں گوبر ملا ہو وہ نجس ہے؛ مگر زمین دیوار اُس سے لہسنا (لیپنا) درست ہے پھر جب خشک ہوجائے تو بغیر کچھ بچھائے اُس پرنماز نہیں ہوگی؛ مگر جب گوبر کو مٹی بالکل فنا کردے اور گوبر کا اثر باقی نہ رہے تو زمین اور دیوار پاک ہوجاتی ہے۔“ (۱۳۴-۱۳۵)
اتفاق سے وہاں ایک مفتی صاحب اور موجود تھے. انھوں نے کہا کہ نماز ہوجائے گی؛ کیونکہ گوبری پھیرنے کی وجہ سے زمین ناپاک نہیں ہوتی خصوصاً جب سوکھ جائے اور حوالہ میں شامی کی عبارت ”السّرقین اذا جعل فی الطین للتّطیین لا ینجس لأن فیہ ضرورة الی اسقاط نجاستہ لأنہ لا یتہیّأ الاّ بہ“ (شامی، ۱/۴۹۰، دارالکتاب) اور استدلال کے طور پر کہا کہ جب ضرورت کی وجہ سے گارے میں گوبرکی نجاست کو ساقط کرتے ہوئے اُس کے ناپاک نہ ہونے کا حکم ہے تو اُس پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست ہے۔
جب مفتیانِ کرام میں اختلاف ہوگیا تو اُس وقت تو نمازِجنازہ دوسری جگہ پڑھ لی گئی پھر یہ طے ہوا کہ دونوں مفتیوں کے بتائے ہوئے حکم کو لکھ کر دارالعلوم بھیجا جائے؛ تاکہ محقق ومدلل طور پر جواب معلوم ہوجائے۔
سو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا گوبر اور مٹی سے مخلوط گارے سے پھیری ہوئی گوبری پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
اگر درست ہے تو پھر گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مرجوح ہونے کی کیا وجہ ہے اور اگر درست نہیں ہے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ صحیح ہے تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کا مآخذ کیا ہے؟
اور پھر شامی کی عبارت کے مرجوح ہونے کی تصریحات فقہیہ کی روشنی میں کیا وجہ ہے؟ نیز اِس گوبری پر نماز درست ہونے کی صورت میں سوکھی اور گیلی گوبری کا حکم برابر ہے یا کچھ تفصیل ہے؟
براہ کرم عبارات فقہیہ کی روشنی میں محقق ومدلل طور سے ایسا فتویٰ تحریر کریں جس سے فریقین کا دل مطمئن ہوجائے، عین نوازش ہوگی۔                                        
فقط والسلام
المستفتی: محمد ثاقب مظفرنگری
متعلّم دارالعلوم دیوبند
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: 
مذکورہ مسئلے میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ درست ہے اور علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت بھی صحیح ہے اور دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، دراصل یہاں دو چیزیں ہیں، ایک ہے فرش، دیوار وغیرہ کو مٹی اور گوبر کے مخلوط گارے سے لیپنا اور دوسری چیز ہے اس پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔ پہلے امر کا جواب یہ ہے کہ یہ ضرورتاً جائز ہے اور بربنائے ضرورت اس کی نجاست ساقط ہے، یعنی اصلاً تو مسجد کو ایسی مٹی سے لیپنا ممنوع ومکرو ہ ہے جس میں ناپاکی ملی ہوئی ہو؛ لیکن اگر مٹی میں گوبر ملادیاگیا ہو تو اس سے لیپنے کی گنجائش اس معنی کر ہے کہ لیپنے کا مقصد اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا؛ اس لئے ضرورةً اس کی نجاست معاف ہے ولا تطیینہ بنجس قولہ (ولا تطیینہ بنجس) فی الفتاویٰ الہندیہ: یکرہ أن یطین المسجد بطین قد بل بماء نجس بخلاف السرقین اذا جعل فیہ الطین، لأن فی ذلک ضرورة وہو تحصیل غرض لا یحصل الّا بہ کذا فی السراجیہ (شامی زکریا ۲/۴۲۹ باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا) علامہ عبدالقادر رافعی رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں کہ یہ ضرورت بھی علامہ شامی کے زمانے میں تھی ہمارے زمانے میں اس کی بھی ضرورت نہیں رہی قولہ: بخلاف السرقین“ الظاہر أن ہذا فی زمنہم لتحقق الضرورة، لا فی زماننا لعدم تحققہا (تقریرات رافعی) حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں: ”اگر پاک مٹی کے ساتھ گوبر ملا کر گارا بنایا جائے یا اس سے زمین لیپی جائے تو اس گارے پر بربنائے ضرورت ناپاکی کا حکم نہیں لگے گا.“ (کتاب المسائل/۱۰۸) دوسرے امر کا جواب یہ ہے کہ اس پر مصلیٰ وغیرہ کچھ بچھائے بغیر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست نہیں گویا تطیین کے باب میں ضرورةً پاک ہے؛ لیکن جواز صلوٰة کے باب میں ناپاکی کا حکم برقرار رہے گا اور اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کوئی زمین پر پیشاب کردے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو زکاة الارض یُبسہا کے پیش نظر اس پر نماز پڑھنا درست ہے؛ لیکن اس جگہ سے تیمم کرنا درست نہیں؛ اس لیے کہ تیمم کے لئے پاک مٹی کی شرط ہے فَتَیَمَّمُواْ صَعِیداً طَیِّباً الآیة، ہاں اگر مٹی، گوبر کو بالکل فنا کردے اور گوبر کا اثر باقی نہ رہے تو اب انقلابِ ماہیت کے بعد وہ جگہ پاک ہوجائے گی اور اس پر ننگے پیر نماز پڑھنا درست ہے اور گوبری خواہ سوکھا ہو یا گیلا ہرصورت میں ناپاک ہے، محض خشک ہونے سے پاکی کا حکم نہ ہوگا؛ جب تک کہ انقلابِ ماہیت نہ ہوجائے وقیل أیہما کان نجساً فالطین نجس، واختارہ ابواللیث وصححہ فی الخانیة وغیرہا وقوّاہ فی شرح المنیة وحکم بفساد بقیة الأقوال، تأمل وصححہ فی المحیط أیضاً بخلاف السرقین اذا جعل فی الطّین للتطیین لا ینجس لأن فیہ ضرورة الی اسقاط نجاستہ؛ لأنہ لا یتہیأ الّا بہ (شامی زکریا ۱/۵۶۵)                              
فقط واللہ اعلم
وقار علی غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند        
۵/۶/۱۴۳۸ ھ
الجواب صحیح
--------------------------------
گوبر سے لپائی کی ہوئی جگہ پر نماز پڑھنا
سوال: گاؤں کے مکانات کچے ہوتے ہیں، ان میں عورتیں لپائی کرتی ہیں مٹی کے ساتھ گوبر مکس کرکے، اس سے لپائی کا کام کیا جاتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ اس کے اوپر سوکھنے کے بعد نماز  ہوتی ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر مٹی کے ساتھ گوبر ملاکر دیواروں پر لپائی کی گئی  ہو، زمین اور فرش پر اس کی لپائی نہ کی گئی  ہو تو اس  جگہ نماز پڑھنا جائز ہے، اَطراف کی دیواروں پر گوبر کی لپائی سے نماز میں کوئی حرج نہیں آئے گا، اور اگر اس مٹی ملے گوبر سے زمین اور فرش کی لپائی کی جاتی ہو اوراس میں  گوبر نظر آرہا ہو تو اس کے  اوپر کسی چیز کو بچھائے بغیر نماز پڑھنا جائز نہیں ہوگا، ہاں اس کے سوکھنے کے بعد اس کے اوپر جائے نماز یا کوئی چادر بچھا کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر گوبر کی لپائی کے بعد اس کے اوپر مٹی کا لیپ بھی کردیا جائے جس سے گوبر چھپ جائے اور اس کی بدبو بھی محسوس نہ ہو تو  یہ زمین پاک ہوگی اور اس کے اوپر نماز پڑھنا جائز ہوگا۔
الفتاوى الهندية (1/ 58):
’’تطهير النجاسة من بدن المصلي وثوبه والمكان الذي يصلي عليه واجب. هكذا في الزاهدي في باب الأنجاس‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 626):
’’ومبسوط على نجس إن لم يظهر لون أو ريح.
(قوله: مبسوط على نجس إلخ) قال في المنية: وإذا أصابت الأرض نجاسة ففرشها بطين أو جص فصلى عليها جاز وليس هذا كالثوب، ولو فرشها بالتراب ولم يطين، إن كان التراب قليلاً بحيث لو استشمه يجد رائحة النجاسة لاتجوز وإلا تجوز. اهـ. قال في شرحها: وكذا الثوب إذا فرش على النجاسة اليابسة؛ فإن كان رقيقاً يشف ماتحته أو توجد منه رائحة النجاسة على تقدير أن لها رائحةً لا يجوز الصلاة عليه، وإن كان غليظاً بحيث لايكون كذلك جازت. اهـ. ثم لايخفى أن المراد إذا كانت النجاسة تحت قدمه أو موضع سجوده؛ لأنه حينئذٍ يكون قائماً أو ساجداً على النجاسة لعدم صلوح ذلك الثوب لكونه حائلاً، فليس المانع هو نفس وجود الرائحة حتى يعارض بأنه لو كان بقربه نجاسة يشم ريحها لا تفسد صلاته، فافهم.‘‘ 
فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر: 144001200525
--------------------------------
عنوان: گوبر سے لیپے ہوئے فرش پر چلنے كا حكم
سوال: اگر کسی نے بھیگے پاوٴں سے گوبر سے لیپے ہوئے گھر میں ہٹنے لگے تو اس کی پاکی کا کیا حکم ہے؟
جواب نمبر: 164562
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1301-1039/SN=1/1440
اگر گوبر سے لیپا ہوا فرش اس نوعیت کا ہو کہ اس پر چلنے سے پاوٴں پر نجاست (گوبر یا گوبر سے ملی ہوئی مٹی یا تراوٹ) کا اثر نہ لگتا ہو تو اس پر چلنے سے پاوٴں ناپاک نہیں ہوں گے اگر چہ چلنے کی وجہ سے فرش پر پیروں کا نشان پڑ جائے۔
في غنیة المستملي: وکذا إن مشی علی أرض نجسة بعد ما غسل رجلیہ فابتلت الأرض من بلل رجلیہ واسود وجہ الأرض، أي: بالنسبة إلی لونہ الأول؛ لکن لم یظہر أثر البلل المتصل بالأرض في رجلیہ لم تتنجس رجلہ ، وجازت صلاتہ بدون إعادة غسلہا لعدم ظہور عین النجاسة في جمیع ذلک ، والطاہر بیقین لایصیر نجساً إلا بیقین مثلہ۔ (ص: ۱۷۵، ط: أشرفیہ۔ نیز دیکھیں: حاشیة الطحطاوي علی المراقي ، ص: ۸۵، ط: أشرفیہ؛ البزازیة علی ہامش الہندیة: ۴/۲۳، ط: دارالکتاب؛ البحر الرائق: ۱/۴۰۱، زکریا؛ الہندیة: ۱/۴۷، ط: دارالکتاب)۔
---------------------------------
سوال: خشک اوپلوں پر ننگے پاوں کھڑے ہوکر جنازہ پڑھا جوامام نہیں تھا کیا اسکی ادا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق :
جی اداء جائز ہے۔
قول أبي حنيفة : إذا أصابتها النجاسة ويبست الأرض وذهبت عين النجاسة فقد طهرت.
قال في البحر الرائق في الفقه الحنفي: وتطهر الأرض المتنجسة بالجفاف إذا ذهب أثر النجاسة فتجوز الصلاة عليها ، ولا يجوز التيمم منها (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://mastooraat.blogspot.com/2021/07/blog-post_29.html?m=1

No comments:

Post a Comment