Thursday, October 25, 2018

لگ جاؤ امی ابو کے پیچھے

لگ جاؤ امی ابو کے پیچھے

لڑکی کی شادی کی بہترین عمر 20 سال ھے،
اس کے بعد ھر گزرنے والا دن اس کی لڑکپن کی موت ھوتی ھے، 25 -30 سال کی خاتون گھر بیٹھے نفسیاتی طور پر ساس بن جاتی ھے جس طرح ٹوکری میں رکھا پیاز، لہسن اور ادرک خود بخود اُگ آتا ھے، اب شادی ھو بھی جائے تو ایک گھر میں دو ساسیں تو نہیں رہ سکتیں، 20 سال کی لڑکی کے مزاج میں لچک یا 'فلیکسی بلیٹی'  Flexibility ھوتی ھے، وہ ھر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیتی ھے، جبکہ 30 سالہ لڑکی دو چار ایم اے تو کرلیتی ھے مگر دو چار بچے پیدا کرنے کے قابل بھی نہیں رھتی، ایسی بچی کے بچے عموماً شوھر ھی پالتا ھے، مردوں کو ڈبل ایم اے لڑکی چاہئے ھوتی ھے تاکہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاسکے، اور ڈبل ایم اے کرتی لڑکی کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت 35 فیصد رہ جاتی ھے، کچھ لڑکیاں ڈراموں میں تو دلہن بنتی رھتی ھیں مگر اصلی رشتے ٹھکراتی رھتی ھیں کہ اس طرح مارکیٹ ڈاؤن ہوجائے گی، اور جب رشتے ختم ھوجاتے ھیں تو پھر کسی کی دوسری بیوی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رھتا، جب اس نیت سے تعلیم دلائی جائے کہ طلاق کی صورت میں گھر چلائے گی تو 98٪ کیسز میں طلاق ھوہی جاتی ھے؛
انما الاعمال بالنیات
جب اللہ توکل دو تو رانی بن کر کھاتی ھے، ایف اے بہت تعلیم ھے، جب تک رشتہ نہ آئے مزید بھی دلائی جاسکتی ھے مگر آنے والے رشتے کو تعلیم کے لئے مسترد کرنا کفرانِ نعمت ھے جس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا-
بعض والدین تو دعائیں کرتے ھیں کہ کوئی سا بھی رشتہ آئے چار چار بچیاں گھر میں بوڑھی ھورھی ھیں، جبکہ دوسری جانب وہ بھی ھیں جن کے رشتے آتے ھیں تو وہ کبھی برادری کا بہانہ بناکر اور کبھی تعلیم کا بہانہ بناکر رشتہ رد کردیتے ھیں،
اگر 20 سال کی عمر میں شادی ھوجائے تو ایک دو تین سال میں طلاق خدانخواستہ ھو بھی جائے تو لڑکی دوسری جگہ بیاھی جاسکتی ھے یعنی 24 سال تک دوسری شادی کے امکانات بھی 75 ٪ ھوتے ھیں لیکن پہلی شادی ھے 27 سال کی عمر میں کی ، دو چار سال کے دنگل کے بعد طلاق ھو بھی گئی تو 30 سال کی طلاق یافتہ کے شادی کے امکانات نہ ھونے کے برابر ھوتے ھیں، یہ بات معاشرے میں عام ہے، اس کو ایزی نہ لیں پلیز، رہ گیا رزق تو وہ عورت کے مقدر میں ھوتا ھے،
نوٹ کے یہ دونوں ٹکڑے ملتے ھیں تو مالی حالت بہتر ھوجاتی ھے، اکیلا مرد اگر یہ شرط لگالے کہ جب تک وہ کروڑ پتی نہیں بنے گا اور بحریہ ٹاؤن میں کوٹھی نہ ھو تو شادی نہیں کرے گا، تو یقین کریں اس کے سارے بھائی بیاھے جائیں گے اس کی شادی ان شاء اللہ نہیں ھوگی، شادی بہت بڑا بگ بینگ ھوتا ھے حالات میں تبدیلی کا
'ھری اپ بوازئز'
لگ جاؤ امی ابو کے پیچھے .. ہمت اپنی اپنی...

Wednesday, October 24, 2018

غیرمسلم یا شیعہ کے انتقال پر ’’إنا لله و إنا إلیہ راجعون‘‘ پڑھنا

[۱] غیرمسلم یا شیعہ کے انتقال پر ’’إنا لله و إنا إلیہ راجعون‘‘ پڑھنا 

۱۰۶۶- سوال: کسی غیرمسلم یاشیعہ کے انتقال کی خبر سن کر ’’انا لله وانا الیہ راجعون ‘‘ پڑھنا کیسا ہے؟

الجواب حامداً ومصلیا:
غیرمسلم کے انتقال پر، نیز شیعہ کے انتقال پر- جب کہ اس کے عقائد کفریہ ہوں- ’’انا لله الخ ‘‘ پڑھنا درست نہیں ہے۔(۱)
فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
[۲] غیرمسلم کے جنازے کو دیکھ کر کھڑا ہونا اور استرجاع پڑھنا
۱۰۶۷- سوال:
کسی غیرمسلم کے جنازے کو دیکھ کرکھڑے ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ نیز ’’إناللہ وإناإلیہ راجعون‘‘ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
مشتاق علی عبداللہ- ممبئی 
------------------------------
(۱) کافر و شیعہ کی موت کی خبر سننے پر الحمد للہ پڑھنا چاہئے؛ کہ اس کے شرک و کفر کی اور عقائد باطلہ سے اللہ تعالیٰ نے زمین کوپاک کردیا: قال اللہ تعالیٰ:فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَي الْفُلْكِ فَقُلِ الْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ۝۲۸(۲۳- المومنون:۲۸)
قال الآلوسي:فإن الحمد على الإنجاء منهم متضمن للحمد على إهلاكهم، وإنما قيل ما ذكر ولم يقل فقل الحمد لله الذي أهلك القوم الظالمين لأن نعمة الإنجاء أتم، وقال الخفاجي: إن في ذلك إشارة إلى أنه لا ينبغي المسرة بمصيبة أحد ولو عدوا من حيث كونها مصيبة له بل لما تضمنته من السلامة من ضرره أو تطهير الأرض من وسخ شركه وإضلاله.ــــــــــــــ وأنت تعلم أن الحمد هنا رديف الشكر فإذا خص بالنعمة الواصلة إلى الشاكر لا يصح أن يتعلق بالمصيبة من حيث إنها مصيبة وهو ظاهر، وفي أمره عليه السلام بالحمد على نجاة أتباعه إلى أنه نعمة عليه أيضا. (روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني-شهاب الدين محمود بن عبد اللہ الحسيني الألوسي (م:۱۲۷۰هـ): ۹؍۲۳۰، ت: علي عبد الباري عطية،ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
الجواب حامدا و مصلیا:
کافر اور یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ ﷺ (پہلے) کھڑے ہوجاتے تھے۔(۱) لیکن بعد میں آپ نےاس معمول کو ترک فرمادیا تھا۔(مرقات شرح مشکوۃ)[۲] اس لیے کھڑا ہونا اور مذکورہ دعاء
------------------------------
(۱)عن جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنهما، قال: مر بنا جنازة، فقام لها النبي صلى اللہ عليه وسلم وقمنا به، فقلنا: يا رسول اللہ إنها جنازة يهودي، قال: إذا رأيتم الجنازة، فقوموا.(صحیح البخاري:۱؍۱۷۵، رقم الحدیث:۱۳۱۱، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي،ط: دیوبند)
ٍ…عبد الرحمن بن أبي ليلى، قال: كان سهل بن حنيف، وقيس بن سعد قاعدين بالقادسية، فمروا عليهما بجنازة، فقاما، فقيل لهما إنها من أهل الأرض أي من أهل الذمة، فقالا: إن النبي صلى اللہ عليه وسلم مرت به جنازة فقام، فقيل له: إنها جنازة يهودي، فقال: أليست نفسا.(المصدر السابق، رقم الحدیث:۱۳۱۲)
عن جابر بن عبد اللہ، قال: مرت جنازة، فقام لها رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، وقمنا معه فقلنا: يا رسول اللہ، إنها يهودية، فقال: إن الموت فزع، فإذا رأيتم الجنازة فقوموا. (الصحیح لمسلم:۱؍۳۱۰، رقم الحدیث:۷۸- ۹۶۰، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة،ط: دیوبند)
[۲] عن جعفر بن محمد، عن أبيه، أن الحسن بن علي كان جالسا فمر عليه بجنازة، فقام الناس حتى جاوزت الجنازة، فقال الحسن: إنما مر بجنازة يهودي وكان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على طريقها جالسا، فكره أن تعلو رأسه جنازة يهودي، فقام». (المجتبى من السنن = السنن الصغرى للنسائي- أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي (م:۳۰۳هـ):۴؍۴۷، رقم الحدیث:۱۹۲۷،کتاب الجنائز، الرخصة في ترك القيام،ت: عبد الفتاح أبو غدة،ط: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب)
قال الملا علي القاري(م:۱۰۱۴ھـ):(فقام الناس) أي: بعضهم الذين لم يبلغهم النسخ، أو كانوا قائلين بالاستحباب أو الجواز. (حتى جاوزت) أي: تعدت. (الجنازة) من مقابلتهم. (فقال الحسن: إنما مر بجنازة يهودي وكان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على طريقها جالسا وكره أن تعلو رأسه جنازة اليهودي) إيماء إلى أن الإسلام يعلو ولا يعلى عليه.(فقام) أي: عن الطريق لهذا، وهذا إنكار منه رضي اللہ عنه على قيام الناس للجنازة، عكس ما سبق منه من الإنكار على ابن عباس على عدم القيام، ولعل هذا متأخر فيكون بعد تفحصه المسألة وتقررها عنده أن قيامه صلى اللہ عليه وسلم إنما كان لهذه العلة ؛ لأنه اختلفت علل القيام فجعلت تارة للفزع، وأخرى كرامة للملائكة، وأخرى كراهية رفعة جنازة اليهودي على رأسه صلى اللہ عليه وسلم، والأخرى لم تعتبر شيئا من ذلك لاختلاف المقامات، ويمكن جمع العلل بمعلول واحد، إذ العمل بالنيات، أو كان إنكاره على ابن عباس لأنه كان على الطريق، وإنكاره على الناس لأنهم لم يكونوا على الطريق، واللہ أعلم.(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:۳؍۱۲۱۲، رقم الحدیث: ۱۶۸۴،کتاب الجنائز،المشي بالجنازة والصلاة عليها،ط: دار الفكر)
فتاوی فلاحیہ جلد ٣
........
سوال: کیا کسی کافر کی موت کی خبر سن کر "انا للہ وانا إلیہ راجعون" کہنا چاہئے۔ اگر نہیں تو پھر کیا کرنا چاہئے؟ اگر کسی کافر کے ساتھ تعزیت کرنی ہو تو کیسے کریں؟
جواب: اسلم صورت یہ ہے کہ کچھ نہ پڑھے، خاموشی اختیار کرے اور اپنی آخرت کو یاد کرے، غیرمسلم کی تعزیت ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ "اللہ تمھیں اس سے بہتر عطا فرمائے اور تمھیں خیر کی توفیق دے."
جاء یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزیہ ویقول: أخلفک اللہ علیک خیرًا منہ وأصلحک وکان معناہ أصلحکم اللہ بالإسلام یعنی رزقک الإسلام ورزقک ولدًا مسلمًا․ کفایة (شامي)
......
سوال: ہمارے پڑوس میں غیر مسلم لوگ بھی رہتے ہیں۔ آپس میں پڑوسی ہونے کی وجہ سے تعلقات بھی ہیں۔ جب ان کا کوئی آدمی فوت ہوجائے تو کیا ہم ان کی میت کو کندھا دے سکتے ہیں؟ اور جہاں وہ اپنی میت کو آگ سے جلاتے ہیں وہاں ان کے ساتھ جانا جائز ہے ؟ کیا ہم ان کے پاس تعزیت کیلئے جاسکتے ہیں؟ تعزیت میں ہم ان کو کیا کہیں؟
جواب: غیر مسلم پڑوسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے جانا درست ہے او رتعزیت میں یہ الفاظ کہنا چاہئے کہ ”اللہ تعالی اس کا نعم البدل عطا فرمائے؛ “ البتہ میت کو کندھا دینا اور مرگھٹ تک جانا اور ان کے مذہبی امور میں شرکت جائز نہیں، اس سے بچنا چاہئے۔

Thursday, October 18, 2018

اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟

فقہی سمینار 
آج کا سوال نمبر ۱۳۰
٣٠ذی القعدہ  ١٤٣٦ھ  مطابق ۱۵ ستمبر   
٢٠١٥ع  بروز  سہ شنبہ
اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟
آج کل مدارس میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ کسی کے یہاں میت ہو یا نیا دکان مکان بنایا جائے تو ایصال ثواب کے لئے یا خیر وبرکت کے لئے طلباء کو مدعو کیا جاتا ہے اور دعوت بھی ہوتی ہے اور کوئی ھدیةً رقوم بھی پیش کرتا ہے تو کیا اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا اور اس پر ھدیہ لینا صحیح ہے؟
صحیح طریقہ کیا ہے؟ ؟
اور کیا مدارس میں پڑھائی کے وقت طلباء کو بھیجا جاسکتا ہے؟
مفصل ومدلل بحث فرمائیں....
الجواب باسم ملہم الصواب
اجتماعی قرآن خوانی کئی خرابیوں کی وجہ سے ممنوع اور قابل ترک ہے،
بہشتی زیور میں ہے:
میت کے لئے چالیس دن تک قرآن خوانی کروانے کا حکم
سوال: محلے میں ایک شخص کا انتقال ہوگیا تو لوگ چالیس دن  تک پورے محلے میں مکان در مکان قرآن خوانی کا سلسلہ چلاتے  ہیں اس دوران اگر دوسرے شخص کا انتقال ہوجائے تو دوسرا چلہ شروع ہوجاتا ہے آیا اس مروجہ قرآن خوانی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟
جواب: اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن مجید پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ثابت ہے مگر آجکل قرآن خوانی  محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے اگر رسم  کی غرض  سے اجتماع  کرکے ایصال ثواب  کرتا ہے  تو جائز نہیں  کیونکہ اجتماع کرکے ایصال ثواب  کرنے کا  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے  کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایصال ثواب کا صحیح طریقہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کرکے  ایصال ثواب کرے۔ (تسھیل بہشتی زیور: 1/62 طبع گھر) فتاویٰ عثمانیہ: 1/102 طبع
نیز دیوبند کا فتویٰ ملاحظہ ہو:
1) کیا اسلام میں قرآن خوانی کی اجازت ہے؟
(2) اگر نہیں تو کیوں؟
  Jul 05,2007
  Answer: 1156
(فتوى:  461/ن = 449/ن)
(1) مروجہ قرآن خوانی جائز نہیں ہے۔
(2) اس لئے کہ اس میں اجتماع کا التزام کیا جاتا ہے، دعوت و شیرینی وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والوں کو قرآن پڑھنے پر نذرانہ وغیرہ دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کو کھانا کھلایا اور ناشتہ وغیرہ کروایا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والے اسی وجہ سے قرآن پڑھتے ہیں جو کہ اجرت و معاوضہ کی شکل ہوجاتی ہے اور یہ کہ دعوت خوشی کے مواقع میں مشروع ہے نہ کہ غمی کے مواقع میں، ان تمام وجوہات وغیرہ کی بنا پر مروجہ قرآن خوانی ناجائز ہے: یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث بعد الأسبوع... واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص (رد المحتار: 3/148، ط زکریا دیوبند) ویکرہ لاتخاذ الضیافة من الطعام من أھل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وھی بدعة مستقبحة (رد المحتار: 3/148، ط زکریا دیوبند)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا یجوز لأن فیہ بالقراءة و إعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال. (رد المحتا: 9/77، ط زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
دوسری بات اس پر اجرت لینا،
فتاویٰ زکریا میں ہے:
قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے،
علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس پر ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایاہے؛ شفاء العلیل و بل الغلیل فی حکم الوصیۃ بالختمات والتہالیل، اس میں آپ نے اس مسئلہ پر بالتفصیل کلام فرمایاہے، عدم جواز پر چند احادیث فرمائی مثلاﹰ،
قال رسول اللہﷺ اقرئوا القرآن ولا تاکلوا بہ ولا تجفوا عنہ ولا تغلوا فیہ ولا تستکثروا بہ
(فتاویٰ زکریا ۲، ۶۶۳)
عربی فتویٰ ملاحظہ ہو،
حكم أخذ الأجرة على قراءة القرآن
              =======================================
س: ما حكم أخذ الأجرة على قراءة القرآن؟
ج : الحمد لله، تلاوة القرآن عمل صالح وعبادة عظيمة، مع التدبر والتفكر بآياته ، والعمل بما فيه من الأحكام.
وأخذ الأجرة على قراءة القرآن يجوز إذا كان ذلك للتعليم، قال بذلك جمهور أهل العلم ، وأجازه الحنفية المتأخرون للضرورة، خشية ضياع القرآن.
و يمكن القول إنه ينبغي لمعلم القرآن عند الحاجة أخْذ الأجرة من جهة عامة، و يمكن أن يجعل ذلك مقابل تفرُّغه، وحبذا لو أنه جعل الأجرة مقابل ضبط الطلاب وتربيتهم، وتعليمهم مادة أخرى بجانب القرآن .
وأما اسْتِئْجَارُ القُرّاء لأجل التِّلاوَةِ، وَإِنْ صَارَ مُتَعَارَفًا عليه كما يحصل في المآتم والمناسبات، فلا يجوز، قال بذلك أئمة الحنفية والحنابلة، لأَنَّهُ بدعةٌ مُحدثة و مُخَالَفةٌ لِلنَّصّوص، و منها حديث عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِبْلٍ قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : (اقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَغْلُوا فِيهِ وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ) رواه أحمد برقم 15529 وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة برقم 3057. و تلاوة القرآن قربةٌ وعبادة، وأخذ الأجرة على القرَب والعبادات كالصلاة والصوم لا يجوز .
وأما حديث (أحق ما أخذتم عليه أجرًا كتاب الله) متفق عليه، فهو خاص بأخذ أجرة على الرقية بالقرآن، جمعاً بينه وبين الأحاديث الزاجرة عن أخذ أجرة أو هدية على قراءة القرآن أو تعليمه.
و ننصح إخواننا حمَلَة القرآن أن يطلبوا الرزق من الوجوه المباحة والمكاسب الطيبة بعيدا عن الشبهات ، وبالله التوفيق .
الشيخ محمد الصادق مغلس
الشيخ أمين علي مقبل
الشيخ أحمد حسان(غائب بعذر)
الشيخ مراد القدسي
تیسری بات،
طلباء کو پڑھائی کے وقت میں بھیجنا تو اس کے لئے مدرسہ کے ذمے دار اور مہتمم کی اجازت سے بھیجا جاسکتا ہے
(فتاویٰ محمودیہ ۳، ۹۳)
فقط،
ابراہیم علیانی

Wednesday, October 17, 2018

نکاح میں مہر اور اس کے احکام

نکاح میں مہر اور اس کے احکام

نکاح میں مہر کا رکھنا ضروری ہے اور مہر معاف کروانے کے لئے مقرّر نہیں کیا جاتا بلکہ ادا کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے۔ اس لئے مہر معاف کروانے کی بجائے ادا کرنا چاہئے!
قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے:
''وَاٰتُوْا النِّسَاءَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَۃً'' (النسائ:٣)
''اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے دو''
کہہ کر عورتوں کو ان کا مہر دینے کی بات کہی ہے وہیں یہ بھی فرمایا ہے:
''فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْئًا مَرِیْئًا'' (النسائ:٣)
''اگر وہ اپنی خوشی سے تمہیں اس میں سے کچھ دیں تو اسے شوق سے کھاؤ''۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہر عورت کا حق اور اس کی ملکیت ہے، جس طرح مہر کی شکل میں ملی ہوئی رقم یا چیز کو وہ کسی دوسرے آدمی کو دینے کا اختیار رکھتی ہے اسی طرح اسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اس رقم کو شوہر کو دے دے یا پھر رقم لینے سے پہلے اس کا کچھ حصہ یا پورا حصہ معاف کردے۔
اس آیت کریمہ میں عورتوں کی جانب سے مہر کی رقم معاف کرنے پر اس سے فائدہ اٹھانے کی بات کہی گئی ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے جب عورت اپنی خوشی سے مہر معاف کرے۔ اس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔
آج کل مہر کی معافی کا رواج کچھ اس قسم کا ہے کہ آدمی شادی کی دیگر غیر ضروری چیزوں پر لاکھوں خرچ کردیتا ہے اس لئے کہ لوگ دیکھ کر واہ واہ کہیں مگر مہر دینے کی بات آتی ہے تو مہر دینے کی بجائے پہلی ہی رات بیوی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے کہ وہ مہر معاف کردے۔ بے چاری اس موقع پر شوہر نامدار کا مہر معاف نہ کرے تو کیا کرے؟ یہ تو ایک قسم کا دباؤ ہوگیا جوکہ ناجائز ہے۔ دباؤ کی صرف یہی ایک شکل نہیں ہے کہ کوئی شخص مار یا دھمکی کے ذریعہ کسی کو ایسے کام پر مجبور کرے جو وہ نہ کرنا چاہتا ہو۔ دباؤ کی ایک شکل جو کہ ہمارے معاشرہ میں عام ہے، یہ بھی ہے کہ کسی شخص سے کسی بات کو ایسے موقع پر کہا جائے کہ وہ انکار نہ کرسکے۔ یہاں اسی قسم کا اکراہ (دباؤ) پایا جاتا ہے۔
صرف عورتیں ہی کیوں معاف کریں:
مرد اپنی چالاکی سے بہت سارے ایسے راستے نکال لیتا ہے جو اس کے فائدے کے لئے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ اس کے لئے مذہب کا بھی جھوٹا سہارا لیتا ہے۔
اب مہر کی معافی کا مسئلہ ہی لیں۔ عورت سے معاف کروانے کی درخواست کرتا ہے مگر خلع کے موقع پر پوری کوشش ہوتی ہے کہ مہر ہی نہیں اس سے زیادہ کی رقم بھی مل جائے تو اچھا ہے۔
ایک موقع پر مہر کے تعلق ہی سے قرآن مجید نے مردوں اور عورتوں دونوں کو ایک دوسرے کو رخصت دینے پر ابھارا ہے:
''وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَافَرَضْتُمْ اِلَّا اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَاَنْ تَعْفُوْااَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ''۔ (البقرۃ:٢٣٧)
''اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے''۔
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ مردوں کو مخاطب کرکے خاص طور پر کہا گیا ہے کہ اگر تم اپنا حصہ معاف کردو یعنی آدھے مہر کی بجائے مکمل مہر دے دو تو زیادہ بہتر ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مخاطب مرد و عورت دونوں ہیں مگر راجح بات یہی ہے کہ اس حصہ کے مخاطب مرد ہیں۔
مرد کو اس بات پر خاص طور پر اس وجہ سے ابھارا گیا کیوں کہ مرد صاحب اختیار ہوتا ہے۔ روزی کمانے کی ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے اس وجہ سے اس کے لئے آدھے کی بجائے پورا مہر دینا عورت پر احسان ہوگا۔
مہر کے تعلق سے دوسری بے اعتدالی:
بات مہر کی چل رہی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مہر کے تعلق سے معاشرہ میں رائج چند بے اعتدالیوں کی طرف توجہ دلاتا چلوں:
مہر کو ادھار کرنا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں عام اصول یہ تھا کہ نکاح کے وقت ہی جو بھی مہر مقرر ہوتا تھا ادا کردیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک صحابی کے پاس کچھ نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جاؤ اگر لوہے کی انگوٹھی ملے تو وہی لے آؤ۔ جب انہوں نے کہا کہ یہ بھی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کی سورتیں یاد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کو یاد کروانے کو کہا اور اسی کو مہر قرار دیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ بعد میں جب تمہارے پاس ہوگا تو اسے مہر دے دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے بارے میں سنتے کہ اس نے شادی کرلی ہے تو پوچھتے کہ مہر میں کیا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر فوری طور پر ادا کرنا زیادہ مناسب ہے۔
ہمارے معاشرہ میں آج کل حالت یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی قاضی صاحب دریافت کرتے ہیں کہ مہر معجل (اسی وقت) یا مہر مؤجل (ادھار) میں سے کون سا مہر دینا ہے؟ ٹیبل کرسی پر لاکھوں خرچ کرنے کے بعد مہر مؤجل یعنی ادھار باندھ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے اور مہر ادا نہیں ہوتا ہے۔ بعض جگہ تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ساتھ میں رہتے ہوئے پوری زندگی گذار دیتے ہیں مگر مہر کی رقم ادھار ہی رہتی ہے۔ یہ شرعی حکم کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبوی دور میں بھی ایک دو ایسے بھی واقعات سامنے آئے کہ مہر اسی وقت ادا نہ کرکے بعد میں ادا کیا گیا مگر ایسا کم ہی ہوا یا کسی مجبوری کے تحت ہوا۔ اس سے اس قدر تو معلوم ہوتا ہے کہ مہر کو ادھار کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کو عادت بنالینا اور لڑکی والوں کا فوری طور پر مہر کے مطالبہ کی بجائے زیادہ سے زیادہ رقم پر مہر باندھنے پر اصرار کرنا اور وہ بھی یہ سوچ کر کہ یہ مہر کی رقم اگر کبھی طلاق کی نوبت آئی تو شوہر کو دینا ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ ساری باتیں غیر مناسب ہیں۔ مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مہر کی رقم ادا کرنے کا وقت نکاح کی بجائے طلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے معاملوں میں لاپروائی سے محفوظ رکھے.
سوال: مہر کیا ہوتا ہے، اور کیوں دیا جاتا ہے اور شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ مہر کب دینا چاہئے اور کتنا دینا چاہئے؟ بہت سے لوگوں سے شرعی مہر کے بارے میں سنا ہے۔ یہ شرعی مہر کیا ہوتی ہے، کیا مہر فاطمہ کو ہی شرعی مہر کہا جاتا ہے؟ اگر مہر نہ دیں تو کیا شادی ہوجاتی ہے؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں.
جواب: عقد نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی سے جماع کرنے کا حق اور ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، مہر اسی حق و ملکیت کے معاوضہ کا نام ہے، جس کی ادائیگی شوہر پر شرعاً لازم ہے،
اسم للمال الذي یجب في النکاح علی الزوج في مقابلة البضع الخ کذا في الشامي: ج۴ ص۲۲۰،
مہر کی ادائیگی کا شریعت میں حکم ہے، نیز نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی پر ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، لہٰذا بیوی کو اس ملکیت کے بدلے مال دلایا جاتا ہے، اس لئے کہ عورت محترم ہے اور بغیر معاوضہ کے اس پر کوئی حق ثابت کرنے میں اس کی اہانت ہے۔
قال في الھدایة: ولأنہ حق الشرع وجوبًا إظھارًا لشرف المحل الخ․ ج۲ ص۳۲۴، مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم اور ضروری ہے۔
قال تعالیٰ: اَن تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ (النساء:۲۴)
بہتر یہ ہے کہ بیوی سے پہلی ملاقات کے وقت مہر اس کے حوالہ کردیا جائے۔ اس کا بھی رواج ہے کہ نکاتح کے وقت مہر بیوی کے ولی کو حوالہ کردیا جاتا ہے اور ولی منکوحہ کو وہ مہر پہنچادیتا ہے، یہ طریقہ بھی اچھا ہے۔ "شرعی مہر" کی اصطلاح شریعت میں نہیں ہے یہ عوام کی اصطلاح ہے اور اس سے اقل مہر مراد ہوتا ہے جس کی مقدار ۱۰ درہم ہے جو موجودہ وزن کے اعتبار سے 30 گرام 618 ملی گرام چاندی ہے، البتہ اگر کسی جگہ عرف مہر فاطمی کو شرعی مہر کہنے کا ہو تو وہاں مہر شرعی سے مہر فاطمی مراد ہوتی ہے جس کی مقدار موجودہ وزن کے اعتبار سے ڈیڑھ کلو گرام (1.5kg) 30 گرام اور 900 ملی گرام چاندی ہے، مہر نہ دینے سے نکاح کی درستگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ بیوی کو یہ اختیار ہے کہ جب تک شوہر مہر معجل ادا نہ کرے بیوی اپنے کو شوہر کے حوالے نہ کرے۔

Saturday, October 13, 2018

ایمان پر استقامت اور مسلمانوں کی ذہن سازی

ایمان پر استقامت 
اور 
مسلمانوں کی ذہن سازی

یکم اکتوبر ۲۰۱۸ء کو ایک ایسا تکلیف دہ واقعہ پیش آیا، جو مسلمانوں کی آنکھوں کو بے خواب اور کروٹوں کو بے سکون کر دے، مغربی یوپی کے معروف شہر باغپت کے قرب وجوار کے دیہات کا ایک خاندان–جس کے سربراہ کا نام اختر علی ہے — مسلم سماج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مرتد ہوگیا، اور اس نے باضابطہ قانونی کارروائی کو انجام دیتے ہوئے تبدیلیٔ مذہب کا عمل کیا، ابتدائََ تو ۲۰؍ افراد کے مرتد ہونے کی خبر آئی، پھر اطلاع آئی کہ کچھ لوگ تائب ہوگئے ہیں اور ۱۲؍ یا ۱۴؍ افراد ارتداد پر قائم ہیں، اس کا محرک یہ نہیں ہے کہ انہیں اسلام میں کوئی کمی نظر آئی؛ بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ۲۲؍ جولائی کو اختر علی کے بیٹے گلزار علی کی لاش اس کی دوکان میں ملی، مرتد ہونے والے خاندان کا تأثر یہ ہے کہ یہ قتل اسی سماج میں مقتول سے مخاصمت رکھنے والے بعض مسلمانوں نے کیا ہے؛ لیکن اس کو انصاف دلانے میں مسلم سماج نے کوئی مدد نہیں کی، اس کے رد عمل میں ان لوگوں نے اجتماعی طور پرمرتد ہونے کا فیصلہ کرلیا، ظاہر ہے کہ مرتد ہونے والوں کی اس بات میں بظاہر کوئی وزن نہیں ہے،غلطی مسلمانوں کی ہو اور اس کا بدلہ اسلام سے لیا جائے، کیا یہ درست ہو سکتا ہے؟ پھر یہ کہ انصاف کی لڑائی عدالت میں لڑی جاتی ہے اور ظالم کے خلاف کارروائی پولیس کے ذریعہ عمل میں آتی ہے، تو ناراض تو انہیں پولیس سے ہونا چاہئے نہ کہ مسلم سماج سے، جو قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔
اس ناخوشگوار واقعہ کی تہہ میں دو خوشگوار پہلو بھی موجود ہیں، ایک یہ کہ جیسے بہت سے ہندو بھائی مذہب تبدیل کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہندو مذہب میں انہیں کیا خامی نظر آئی؟ مثلاََ: عدم مساوات اور نابرابری، اس واقعہ میں مرتد ہونے والوں کو یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ انہوں نے مذہب اسلام میں فلاں فلاں خامی پائی ہے؛ اس لئے وہ مذہب تبدیل کررہے ہیں؛ لہٰذا یہ مسلمانوں کی شکست؛ لیکن اسلام کی فتح ہے؛ البتہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ ظالم کے مقابلہ مظلوم کی مدد کریں، اس فریضہ سے غفلت کا رد عمل بعض دفعہ کتنا سنگین ہوتا ہے، یہ اس کی ایک مثال ہے!دوسرے: مرتد ہونے والے خاندان کی متعدد خواتین نے اعلان کیا کہ وہ اسلام پر قائم رہیں گی اور ہرگز مذہب تبدیل نہیں کریں گی؛ حالاں کہ ان کے شوہر مرتد ہو چکے تھے، ان کے اس جذبۂ استقامت کو جتنی داد دی جائے، کم ہے، اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ ظلم کیا جاتا ہے، یہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔
لیکن مسلمانوں اور خاص کر علماء، مذہبی جماعتوں اور پیشواؤں کا فریضہ ہے کہ وہ اس بارے میں پوری فکر مندی سے کام لیں، مسلم سماج کو ایسے فتنوں سے بچائیں، جہاں جلسوں، اجتماعات اور جمعہ وعیدین کے خطبات میں اعمال صالحہ کی ترغیب دی جاتی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایمان کی حقیقت اور اس کی ا ہمیت بھی بتائی جائے، جیسے عملی گناہوں کی شناعت بیان کی جاتی ہے، اسی طرح کفروشرک کی برائی بھی ان کے سامنے رکھی جائے، قرآن وحدیث سے بھی انہیں سمجھایا جائے اور عقیدۂ توحید کی معقولیت، اس کی کائنات کی فطرت سے مطابقت اور شرک کی نامعقولیت بھی انہیں سمجھائی جائے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ وضوء اور روزہ کے نواقض کے مسائل تو بتاتے ہیں؛ لیکن نواقض ایمان نہیں بتاتے، یعنی جن باتوں کی وجہ سے انسان کا ایمان ختم ہو جاتا ہے، ان کوبھی بتانا چاہئے، موجودہ حالات میں اس کی ضرورت واہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو ایمان اور ہدایت کی اہمیت سمجھائی جائے، کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حُسن انتخاب سے ملتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہی گیا تھا انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لئے، پھر بھی آپ سے فرمایا گیا کہ ضروری نہیں کہ آپ جسے چاہیں، وہ ہدایت پا جائیں، اللہ تعالیٰ اپنی مشیت خصوصی سے جس کو چاہتے ہیں، ہدایت سے نوازتے ہیں: 
إنک لا تھدي من أحببت ولکن اللہ یھدي من یشاء (قصص: ۵۶) 
تمام رشتوں میں سب سے قربت کا رشتہ بیوی اور اولاد کا ہوتا ہے؛ لیکن حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیوی نیز حضرت نوح کی اولاد کے لئے ہدایت مقدر نہیں ہو سکی، (تحریم: ۱۰-ھود:۵۶) عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مسلمان ہوا بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وحی کی کتابت کروائی؛ لیکن اللہ کی طرف سے اس کے لئے ہدایت پر قائم رہنا مقدر نہیں تھا؛ اس لئے پھر مرتد ہوگیا، پھر فتح مکہ کے موقع سے اس نے توبہ کی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سفارش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توبہ قبول فرمائی، (مسند بزار، حدیث نمبر: ۱۱۵۱) اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر دعاء سکھائی ہے: اے اللہ! ہدایت پانے کے بعد پھر ہمارے دل کو کجی میں مبتلا نہ فرمادیجئے، 
ربنا لاتزغ قلوبنا بعد إذ ھدیتنا (آل عمران: ۸)
ایمان کی اس اہمیت کا تقاضہ ہے کہ ایمان کی حفاظت میں جن آزمائشوں سے گزرنا پڑے، ایک صاحب ایمان ان پر صبر کرے، اور اس کے پایۂ استقامت میں کوئی تزلزل نہ آئے، قرآن مجید میں اہل ایمان اور کفر کی نمائندہ ظالم قوتوں کے درمیان تصادم کے بہت سے واقعات نقل کئے گئے ہیں، ان واقعات مین کہیں ایسا بھی ہوا کہ اہل ایمان کو غلبہ حاصل ہوا، یا ایسا معجزہ ظہور میں آیا کہ کفر کی طاقت پاش پاش ہو گئی؛ لیکن بہت سی دفعہ اہل ایمان کو صبروآزمائش کے مرحلوں سے گزرنا پڑا، اور بظاہر وہ ظلم کی چکی میں پستے رہے، قرآن میں ان واقعات کے تذکرہ کا بظاہر یہی مقصد ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی کامیابی اور نجات کا وعدہ کیا ہے، اور یہ ایک یقینی بات ہے، ان شاء اللہ اہل ایمان ہی آخرت میں سرخرو ہوں گے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیا میں یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ بہر صورت مسلمانوں ہی کو مادی کامیابی حاصل ہوگی، ان کے دشمن یقینی طور پر مغلوب ہوجائیں گے، انہیں تکلیف سے آزمایا نہیں جائے گا اور اُن کے لئے پھولوں کی سیج بچھائی جائے گی؛ بلکہ قرآن نے اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمہیں جان ،مال اوراولاد کے نقصان سے ضرور ہی آزمائیں گے: 
ولنبلونکم بشئي من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات (بقرہ: ۱۵۵)
قرآن مجید میں متعدد واقعات ذکر کئے گئے، جن میں اصحاب ایمان کے بعض گروہوں کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا گیا؛ لیکن کبھی انہوں نے دعوت حق سے منہ نہیں پھیرا، قرآن مجیدمیں ان جادوگروں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کو فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں پورے مصر سے جمع کیا تھا، جب ان جادوگروں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگر نہیں ہیں ؛ بلکہ واقعی اللہ کے نبی ہیں، تو وہ ایمان لے آئے، فرعون نے کہا : میں تم سب کے الٹے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا، اور سولی پر چڑھا دوں گا؛ لیکن ان حضرات نے جواب دیا کہ ہمیں تو یوں بھی اللہ کی طرف لوٹنا ہی ہے، اور اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ ہمیں صبر کرنے کی قوت عطا فرما اور اسلام کی حالت میں اس دنیائے فانی سے اُٹھا: ربنا أفرغ علینا صبراََ وتوفنا مسلمین ( اعراف:۱۲۰-۱۲۶)
قرآن مجید میں ایک اور واقعہ’اصحاب اُخدود‘ کا ذکر کیا گیا ہے، کچھ لوگ جو حقیقی عیسائیت پر قائم تھے، مشرک حکمرانوں نے ان کو تبدیلیٔ مذہب کے لئے مجبور کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ایک بڑی خندق کھود کر آگ سلگائی گئی، تمام اہل ایمان کو اس دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا گیا اور یہ سب کچھ ان کے ساتھ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا گیا: 
وما نقموا منھم إلا أن یؤمنوا باللہ العزیز الحمید (بروج: ۸)؛ 
لیکن اس کے باوجود وہ اس پر ثابت قدم رہے، انہوں نے نذر آتش ہوجانا گوارا کیا؛ لیکن دولت ایمان سے محرومی کو قبول نہیں کیا۔
خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے ایمان کے لئے کتنی قربانیاں دیں؟ سیرت کے صفحات قربانی کے ان نقوش سے روشن ہیں، یہ امیہ ہے، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دوپہر کی دھوپ میں مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں گھسیٹتا اور گھسیٹواتا تھا، پھر ان کے سینہ پر پتھر کی چٹان رکھ دیتا تھا کہ وہ اس گرم ریت پر حرکت بھی نہ کر سکیں، اور کروٹ بھی نہ لے سکیں، پھر کہتا تھا: تم کو مرنے تک اسی طرح رہنا ہے، اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا انکار کرو اور لات وعزیٰ کی مورتیوں کی پوجا کرو، قربان جائیے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر کہ حالاں کہ ایسے حالات میں ایمان پر قائم رہنے کے ساتھ صرف زبان سے کلمۂ کفر کہنے کی گنجائش ہے؛ لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے عشق ایمانی اور جذبۂ قربانی کو یہ بات بھی گوارا نہیں تھی اور ان کی زبان پر’’احد احد‘‘ یعنی ’’اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے‘‘ کا کلمہ جاری رہتا تھا (حلیۃ الاولیاء: ۱؍۱۴۸)
یہ حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، جنہیں اہل مکہ نے گرفتار کرلیا تھا، جب انہیں غزوہ بدر کے بعض مقتولین کے بدلہ میں حرم سے باہر لے کر نکلے؛ تاکہ انہیں قتل کردیا جائے تو ان کی ثابت قدمی کا حال یہ تھا کہ نہ رونا دھونا، نہ آہ وواویلا، نہ جزع وفزع، نہ جان بخشی کی اپیل اور نہ خوشامد، نہ دل کے اطمینان کے ساتھ کلمۂ کفر کا تلفظ کہ جان بچانے کے لئے خود قرآن مجید نے اس کی اجازت دی (سورۂ نحل: ۱۰۶)؛ بلکہ صرف دو رکعت نماز کی اجازت طلب کی اوردوگانہ ادا فرمائی، پھر فرمایا: اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں نماز لمبی کروں تو تم اس کو موت سے گھبراہٹ سمجھوگے تو میں نماز کو لمبی کرتا: 
واللہ لو لا أن تحسبوا أن ما بی جزع لزدت (بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۸۹) 
اس طرح حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ ورسول سے وفاداری کا حق ادا کردیا؛ چنانچہ یہ مسلمانوں کی سنت بن گئی کہ جب بھی کسی مسلمان کو گرفتار کر کے قتل کیا جاتا تو وہ اس سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرتا، (بخاری،حدیث نمبر: ۳۹۸۹)
اس لئے مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونا کوچۂ عشق میں قدم رکھنا ہے، عجب نہیں کہ اس میں آگ کے شعلوں پر چلنا اور کانٹوں بھرے راستہ کو طے کرنا پڑے؛ لیکن جب انسان جان ومال اورعزت وآبرو کی حفاظت کے لئے ایسی آزمائشوں کو برداشت کرتا ہے تو ایمان کی نعمت تو اس سے کہیں بڑھی ہوئی ہے، اس کے لئے تو یہ قربانیاں ہیچ ہیں؛ اس لئے ہر مسلمان کو اللہ سے دعاء کرنی چاہئے کہ ملت اسلامیہ ایسی آزمائشوں سے محفوظ رہے؛ لیکن اس عزم مصمم اور ارادۂ مستحکم کو اس کے سینہ میں جاں گزیں ہونا چاہئے کہ اگر صبر وآزمائش کے مرحلے آئیں گے، تب بھی ہم اپنی وفاداری پر آنچ نہیں آنے دیں گے کہ پروانگی اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی کہ اس میں شمع پر جل مرنے کا جذبہ کامل موجود ہو۔
فتنۂ ارتداد کے مقابلہ کی بہت بڑی ذمہ داری علماء پر ہے، افسوس کہ ہم نے سمجھ لیا کہ ہمارے فرائض مساجد اور مدارس تک محدود ہیں، اس دائرہ سے باہر جیسی کچھ بھی آفت آجائے، اس سے نمٹنا ہمارے فرائض میں شامل نہیں ہے، وہ زیادہ سے زیادہ نفل کے درجہ میں ہے، یہ درست نہیں ہے، یہ اپنے مقام ومرتبہ کے ساتھ ناانصافی اور امت کے ساتھ ظلم وزیادتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
علماء أمتي کأنبیاء بني اسرائیل (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر: ۷۰۲) 
میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں، بنی اسرائیل کے انبیاء کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایک نبی ایک قوم کو اپنی کوششوں کا ہدف اور جدوجہد کا مرکز بناتا تھا، اور اس طرح وہ قوم ہدایت سے سرفراز ہوتی تھی، علماء کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہئے کہ وہ ایک حلقہ کو اپنی کوششوں کا مرکز بنالیں، اور اس حلقہ پر پوری نظر رکھیں کہ کہیں دبے پاؤں ارتداد کا فتنہ آپ کے حلقہ میں داخل تو نہیں ہو رہا ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
إن العلماء ورثۃ الأنبیاء (ابو داؤد: ۳۶۴۱) 
کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے بعض شارحین نے ایک خوبصورت اور بامعنیٰ اشارہ اخذ کیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام  بلا طلب خود ضرورت مندوں تک پہنچتے تھے، تو عالم کو بھی امت کے درمیان بغیر طلب کے پہنچنا چاہئے، جب ہی انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کے وارث ہونے کا حق ادا ہوگا، ضرورت ہے کہ مدارس، مذہبی تنظیمیں، جماعتیں اور علماء ومشائخ اپنی اصلاحی سرگرمیوں کو مساجد، مدارس اور خانقاہوں سے باہر لے کر جائیں ، خود امت کے دروازوں تک پہنچیں، ملت کے دلوں پردستک دیں اور ان کے ایمان واعمال کی حفاظت کو اپنی ضرورت سمجھیں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

https://mastooraat.blogspot.com/2018/10/blog-post_13.html


Tuesday, October 9, 2018

ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﮐﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ

ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﮐﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ

ﻋﺮﺍﻕ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﻠﮏ ﻓﯿﺼﻞ ‏(ﺍﻭﻝ‏) ﮔﮩﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ہے: ”ﮨﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺩﺟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺩﻓﻦ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺑﻦ ﯾﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﺩﻓﻦ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ “
ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮧ ﺩﯼ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﭘﮭﺮ ﯾﮩﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﺋﯿﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮧ ﺩﯼ۔
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ  ﻧﻮﺭﯼ ﺍﻟﺴﻌﯿﺪ ﭘﺎﺷﺎ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ:
”ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺑﺎﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ!“
ﺍﺏ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺁﺧﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﭖ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺩﯾﮟ ﺗﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ جسم مبارک ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮨﯽ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻋﯿﺪﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔
ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﮞ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﺧﺒﺮ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺍﮌﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺣﺞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﺣﺞ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﺳﮑﯿﮟ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﺠﺎﺯ ‘ ﻣﺼﺮ ‘ ﺷﺎﻡ ‘ ﻟﺒﻨﺎﻥ ‘ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ‘ ﺗﺮﮐﯽ ‘ ﺍﯾﺮﺍﻥ ‘ ﺑﻠﻐﺎﺭﯾﮧ ‘ ﺭﻭﺱ ‘ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﮦ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺗﺎﺭ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﯾﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺩﺱ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻟﻨﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﮔﯿﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺑﻦ ﯾﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺩﺟﻠﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﻓﺮﻻﻧﮓ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔
ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﯿﺮﻭﮞ ‘ ﻋﺮﺍﻗﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮦ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺑﻦ ﯾﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ کے جسم ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﻮ ﮐﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ کے جسم مبارک ﮐﺮﯾﻦ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ ﺳﭩﺮﯾﭽﺮ ﭘﺮ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﺁﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﮐﺮﯾﻦ ﺳﮯ ﺳﭩﺮﯾﭽﺮ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﮐﺮﮐﮯ ﺷﺎﮦ ﻓﯿﺼﻞ ‘ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ‘ ﻭﺯﯾﺮ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﮧ ﺗﺮﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﻭﻟﯽ ﻋﮩﺪ ﻣﺼﺮ ﻧﮯ ﺳﭩﺮﯾﭽﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ کے جسم مبارک کو نکالا گیا، ﺩﻭﻧﻮﮞ کے جسم مبارک کے ﮐﻔﻦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺗﮭﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮈﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻼﻣﺖ ﺗﮭﮯ۔ اجسام مبارک ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻗﻄﻌﺎً ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﻮﮞ ﮔﻤﺎﮞ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺗﯿﺰ ﭼﻤﮏ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ۔ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔
ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﮐﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ !!..

Monday, October 8, 2018

چیونگم کے مضر صحت اجزائے ترکیبی

چیونگم کو کچھ صرف وقت گزاری کے لیے، کچھ منہ کی بدبو زائل کر نے کے لیے اور بعض اسے جبڑوں کی ورزش (Exercise) کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو منہ کے ذریعے چیونگم کے غبارے بنا کر لطف اٹھاتے ہیں، جبکہ حیرت انگیز طور پر بعض لوگ اسے دانتوں کی مضبوطی کا باعث بھی گردانتے ہیں۔
عام طور پر لوگ چیونگم کو نگلتے نہیں اور اسی باعث ان کا خیال ہے کہ اس میں کوئی مضرت اور نقصان کی بات نہیں ہے۔ نیز اس بات سے بھی بے فکر ہوتے ہیں کہ چیونگم کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ یہ حقیقت ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ چیونگم کے مضر صحت اجزا ہمارے خون کے بہاؤ کے ساتھ تیزی سے سفر کرتے ہیں اور عمومی نظام ہضم کے فلٹریشن کے عمل سے گزرے بغیر ہی براہ راست منہ کی دیواروں کے ذریعے ہمارے خون میں جذب ہو کر مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
چیونگم کے عام اجزائے ترکیبی
چیونگم کے مختلف برانڈز میں عمومی طور پر استعمال ہونے والے اجزائے ترکیبی یکساں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں: اسپارٹیم (Aspartame)
چیونگم کی تیاری میں اس کیمیائی مادے کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔ غذائی صنعت (Food Industry) اسپارٹیم کو بطور چینی کے استعمال کرتی ہے، حالانکہ یہ اضافی مادہ (Additive) ہے، یعنی تیار شدہ غذا کا ذائقہ بہتر بنانے کی خاطر اس کو شامل کیا جاتا ہے۔ مگر ماہرین کے مطابق اسپارٹیم غذائی صنعت (Food Industry) میں استعمال ہونے والا سب سے خطرناک مادہ ہے۔
بی ایچ ٹی (BHT)
یہ کیمیائی مادہ تکسیدِ مخالف (Antioxidant) اور ایک حفاظتی جزو ترکیبی (Preservative) ہے۔ یہ مادہ غذاؤں کے رنگ، ذائقے اور خوشبو کو طویل عرصے تک بر قرار رکھتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کی رو سے بی ایچ ٹی کی زیادتی انسانی جسم کے اہم اعضا، جگر اور گردوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ الرجی، دانتوں کی تکلیف اور جسمانی کمزوری کا باعث بھی بنتی ہے۔
کیلشیم کیسین پیپٹون کیلشیم (Calcium casein peptone-calcium) طویل و ثقیل نام پر مشتمل یہ مادہ چیونگم کو سفید بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اس مادے میں شامل کیسین سینے کی جلن، بد ہضمی اور الرجی کا باعث بنتے ہیں۔
گم بیس (Gum Base)
چیونگم بنانے والے کئی اجزا کو عوام سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ مینو فیکچررز کا کہنا ہے کہ یہ اجزا ''تجارتی راز'' (Trade Secrets) ہیں اور عوام کا کوئی حق نہیں کہ وہ ان رازوں کو جاننے کی کوشش کریں۔ وہ ان اجزا کے لیے ''گم بیس'' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جبکہ دی ہیلتھ وائز رپورٹ ( The Health Wyze Report) کے مطابق چیونگم بنانے والے گم بیس کے اجزا کو بھی درج ذیل مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں:
1 چیونگم کو لچک فراہم کرنے کے لیے (Elastomers) کا استعمال کیا جاتا ہے۔
2 گم بیس کی مکمل ملاوٹ کے لیے (Plasticizers) استعمال کیا جاتا ہے۔
3 چیونگم کی مجموعی ساخت کی بناوٹ کے لیے (Fillers) کا استعمال کیا جاتا ہے۔
4 گم بیس اور ذائقے کی حفاظت کے لیے تکسیدِ مخالف (Antioxidant) کا استعمال کرتے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ''گم بیس'' ایک عمومی اور مبہم اصطلاح ہے اور یہ خود کئی اجزا کا مجموعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی مبہم اصطلاح استعمال کرنے اور اجزا کے حقیقی نام چھپانے کا مقصد کیا ہے؟
ٹائیٹینیم ڈائی آکسائڈ (Titanium Dioxide)
یہ مادہ چیونگم کی کوٹنگ کرنے میں کام آتا ہے اور بیرونی جلد کے کینسر کا باعث ہے۔
لہٰذا درج بالا تمام مضر صحت اجزائے ترکیبی (Ingredients) میں سے کوئی جز کسی بھی مصنوع میں استعمال ہو تو اس پروڈکٹ کو استعمال کرنے سے قبل اس کے مضر صحت اثرات کا ایک مرتبہ تصور ضرور کیجیے۔ اپنے بچوں کی بہترین نگہداشت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں حرام، ''مشبوہ'' اور مضر صحت اجزائے ترکیبی (Ingredients) کے بارے میں وقتاً فوقتاً معلومات فراہم کی جائیں اور ان اجزا کے نام بھی ان کو یاد کروائے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ بچوں میں یہ شعور بھی بیدار کیا جائے کہ کسی بھی پروڈکٹ کو خریدنے سے پہلے Ingredient list اور Expiry Date کو ضرور چیک کریں کیونکہ یہ جان اللہ پاک کی امانت ہے اور اس کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔

اپنی جائے پیدائش کے علاوہ سرزمین میں انتقال کی فضیلت

اپنی جائے پیدائش کے علاوہ سرزمین میں انتقال کی فضیلت
مدینہ ہی میں پیدا ہونے والے ایک شخص کا مدینہ میں انتقال ہوگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا: کاش کہ اپنی جائے پیدائش کے علاوہ سرزمین میں انتقال کیا ہوتا. ایک شخص نے پوچھا: کیوں اے اللہ کے رسول؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی کا انتقال اپنی جائے پیدائش کے علاوہ مقام میں ہوتا ہے، تو اس کی پیدائش کے مقام سے لے کر موت کے مقام تک جنت میں اس کو جگہ دی جاتی ہے ۱؎
صحیح ابن حبان۳۰۱۰۔
-----------------------
Bismillahirrahmanirrahim
✦ Hadith: jab koi shaksh apne paidayeesh ke muqam par na mar kar kisi aur jagah mar jaye to*
----------
✦ Abdullah bin umar Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki ek sahib ki madina mein maut huyee aur uki paidayeesh bhi madina mein huyee thi , phir Aap Sal-Allahu Alaihi wasallam ne unka janaza padhne ke baad farmaya , kaash wo apne paida hone ki jagah par na mar kar kisi aur mulk ya shahar mein marta , ek shaksh ne arz kiya Kyu ya Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi wasallam ? Aap Sal-Allahu Alaihi wasallam ne farmaya jab koi (muslim) shaksh apne paidayeesh ke muqam par na mar kar kisi aur jagah mar jaye to usko apne paidayeesh ke muqam se lekar maut ke muqam tak ke faasle ki jagah Jannat mein di jayegi
Sunan Ibn majah, Jild 1, 1614-hasan
Sahih Ibn Hibban, 3010
------------
✦ अब्दुल्लाह बिन उमर रदी अल्लाहू अन्हु से रिवायत है की एक साहिब की मदीना में मौत हुई और उकी पैदाईश भी मदीना में हुई थी, फिर आप सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ने उनका जनाज़ा पढ़ने के बाद फरमाया , काश वो अपने पैदा होने की जगह पर ना मर कर किसी और मुल्क या शहर में मरता , एक शख्स ने अर्ज़ किया क्यूँ या रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ? आप सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ने फरमाया जब कोई (मुस्लिम) शख्स अपने पैदाईश के मुक़ाम पर ना मर कर किसी और जगह मर जाए तो उसको अपने पैदाईश के मुक़ाम से लेकर मौत के मुक़ाम तक के फ़ासले की जगह जन्नत में दी जाएगी
सुनन इब्न माज़ा, जिल्द 1, 1614-हसन
सही इब्न हिब्बान , 3010
-------------------------------
Hadith : If a (muslim) man dies somewhere other than his birthplace....
--------------
✦ It was narrated that Abdullah bin Amr Radi Allahu Anhu said “A man died in Al- Madinah, and he was one of those who were born in Al-Madinah. The Prophet (ﷺ) offered the funeral prayer for him and said: “Would that he had died somewhere other than his birthplace.” A man among the people said: “Why, O Messenger of Allah?” He Sal-Allahu Alaihi wasallam said: If a (muslim) man dies somewhere other than his birthplace, a space will be measured for him in Paradise (as big as the distance) from the place where he was born to the place where he died.
Sunan Ibn majah, Book 6, 1614-hasan
Sahih Ibn Hibban, 3010