Saturday, October 6, 2018

اللہ تبارک وتعالٰی برائی کو برائی سے نہیں دھوتا

اللہ
تبارک وتعالٰی برائی
کو برائی سے نہیں دھوتا

قادسیہ
کی لڑائی میں حضرت سعد رضی
اللہ تعالٰی عنہ کا خط

عراق کی لڑائی کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارادہ خود لڑائی میں شرکت فرمانے کا تھا، عوام اور خواص دونوں قسم کے مجمعوں سے کئی روز تک اس میں مشورہ ہوتا رہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خود شریک ہونا زیادہ مناسب ہے یا مدینہ رہ کر لشکروں کو روانہ کرتے رہنے کا انتظام زیادہ مناسب ہے۔ عوام کی رائے تھی کہ خود شرکت مناسب ہے اور خواص کی رائے تھی کہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے۔ مشوروں کی گفتگو میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی کا بھی تذکرہ آگیا۔ ان کو سب نے پسند کرلیا کہ ان کو بھیجا جاوے تو بہت مناسب ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جانے کی ضرورت نہیں۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے بہادر اور عرب کے شیروں میں شمار ہوتے تھے۔ غرض یہ تجویز ہوگئی اور ان کو بھیج دیا گیا۔ جب قادسیہ پر حملہ کیلئے پہنچے، تو شاہِ کسریٰ نے ان کے مقابلہ کیلئے رستم کو جو مشہور پہلوان تھا تجویز کیا۔ رستم نے ہر چند کوشش کی اور بادشاہ سے بار بار اس کی درخواست کی کہ مجھے اپنے پاس رہنے دیں۔ خوف کا غلبہ تھا مگر اظہار اس کا کرتا تھا کہ میں یہاں سے لشکروں کے بھیجنے میں اور صلاح مشورہ میں مدد دوں گا۔ مگر بادشاہ نے جس کا نام یَزدِجَرد تھا، قبول نہ کیا اور اس کو مجبوراً جنگ میں شریک ہونا پڑا۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ جب روانہ ہونے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو وصیت فرمائی جس کے الفاظ کا مختصر ترجمہ یہ ہے۔ ’’سعد! تمہیں یہ بات دھوکہ میں نہ ڈالے کہ تم حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ماموں کہلاتے ہو اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صحابی ہو۔ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں دھوتے، بلکہ برائی کو بھلائی سے دھوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اور بندوں کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے، اس کے یہاں صرف اس کی بندگی مقبول ہے۔ اللہ کے یہاں شریف رذیل سب برابر ہیں سب ہی اس کے بندے ہیں، اور وہ سب کا رب ہے۔ اس کے انعامات بندگی سے حاصل ہوتے ہیں۔ ہر اَمر میں اس چیز کو دیکھنا جو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا طریقہ تھا وہی عمل کی چیز ہے۔ میری اس نصیحت کو یاد رکھنا۔ تم ایک بہت بڑے کام کیلئے بھیجے جا رہے ہو۔ اس سے چھٹکارا صرف حق کے اتباع سے ہوسکتا ہے، اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو خوبی کا عادی بنانا۔ اللہ کے خوف کو اختیار کرنا اور اللہ کا خوف دو باتوں میں جمع ہوتا ہے اس کی اطاعت میں اور گناہ سے پرہیز کرنے میں اور اللہ کی اطاعت جس کو بھی نصیب ہوئی، دنیا سے بغض اور آخرت کی محبت سے نصیب ہوئی۔
اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت بشاشت سے لشکر لے کر روانہ ہوئے، جس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے رستم کو لکھا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں:
فَاِنَّ مَعِیَ قَوْماً یُّحِبُّوْنَ الْمَوْتَ کَمَا یُحِبُّوْنَ الْاَعَاجِمَ الْخَمْرَ
(بیشک میرے ساتھ ایسی جماعت ہے جو موت کو ایسا ہی محبوب رکھتی ہے جیسا کہ تم لوگ شراب پینے کو محبوب رکھتے ہو۔)
فضائلِ اعمال، ص ۱۲۰ بحوالہ مشاہیر الاسلا م، سعد بن ابی وقاص، حروبہ، (۵۱۲)۔ الکامل في التاریخ، سنۃ أربع عشرۃ، ذکر ابتداء أمر القادسیۃ، (۱/۴۰۸)۔

No comments:

Post a Comment