Wednesday, October 17, 2018

نکاح میں مہر اور اس کے احکام

نکاح میں مہر اور اس کے احکام

نکاح میں مہر کا رکھنا ضروری ہے اور مہر معاف کروانے کے لئے مقرّر نہیں کیا جاتا بلکہ ادا کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے۔ اس لئے مہر معاف کروانے کی بجائے ادا کرنا چاہئے!
قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے:
''وَاٰتُوْا النِّسَاءَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَۃً'' (النسائ:٣)
''اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے دو''
کہہ کر عورتوں کو ان کا مہر دینے کی بات کہی ہے وہیں یہ بھی فرمایا ہے:
''فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْئًا مَرِیْئًا'' (النسائ:٣)
''اگر وہ اپنی خوشی سے تمہیں اس میں سے کچھ دیں تو اسے شوق سے کھاؤ''۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہر عورت کا حق اور اس کی ملکیت ہے، جس طرح مہر کی شکل میں ملی ہوئی رقم یا چیز کو وہ کسی دوسرے آدمی کو دینے کا اختیار رکھتی ہے اسی طرح اسے یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اس رقم کو شوہر کو دے دے یا پھر رقم لینے سے پہلے اس کا کچھ حصہ یا پورا حصہ معاف کردے۔
اس آیت کریمہ میں عورتوں کی جانب سے مہر کی رقم معاف کرنے پر اس سے فائدہ اٹھانے کی بات کہی گئی ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے جب عورت اپنی خوشی سے مہر معاف کرے۔ اس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔
آج کل مہر کی معافی کا رواج کچھ اس قسم کا ہے کہ آدمی شادی کی دیگر غیر ضروری چیزوں پر لاکھوں خرچ کردیتا ہے اس لئے کہ لوگ دیکھ کر واہ واہ کہیں مگر مہر دینے کی بات آتی ہے تو مہر دینے کی بجائے پہلی ہی رات بیوی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے کہ وہ مہر معاف کردے۔ بے چاری اس موقع پر شوہر نامدار کا مہر معاف نہ کرے تو کیا کرے؟ یہ تو ایک قسم کا دباؤ ہوگیا جوکہ ناجائز ہے۔ دباؤ کی صرف یہی ایک شکل نہیں ہے کہ کوئی شخص مار یا دھمکی کے ذریعہ کسی کو ایسے کام پر مجبور کرے جو وہ نہ کرنا چاہتا ہو۔ دباؤ کی ایک شکل جو کہ ہمارے معاشرہ میں عام ہے، یہ بھی ہے کہ کسی شخص سے کسی بات کو ایسے موقع پر کہا جائے کہ وہ انکار نہ کرسکے۔ یہاں اسی قسم کا اکراہ (دباؤ) پایا جاتا ہے۔
صرف عورتیں ہی کیوں معاف کریں:
مرد اپنی چالاکی سے بہت سارے ایسے راستے نکال لیتا ہے جو اس کے فائدے کے لئے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ اس کے لئے مذہب کا بھی جھوٹا سہارا لیتا ہے۔
اب مہر کی معافی کا مسئلہ ہی لیں۔ عورت سے معاف کروانے کی درخواست کرتا ہے مگر خلع کے موقع پر پوری کوشش ہوتی ہے کہ مہر ہی نہیں اس سے زیادہ کی رقم بھی مل جائے تو اچھا ہے۔
ایک موقع پر مہر کے تعلق ہی سے قرآن مجید نے مردوں اور عورتوں دونوں کو ایک دوسرے کو رخصت دینے پر ابھارا ہے:
''وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَافَرَضْتُمْ اِلَّا اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَاَنْ تَعْفُوْااَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ''۔ (البقرۃ:٢٣٧)
''اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے''۔
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ مردوں کو مخاطب کرکے خاص طور پر کہا گیا ہے کہ اگر تم اپنا حصہ معاف کردو یعنی آدھے مہر کی بجائے مکمل مہر دے دو تو زیادہ بہتر ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مخاطب مرد و عورت دونوں ہیں مگر راجح بات یہی ہے کہ اس حصہ کے مخاطب مرد ہیں۔
مرد کو اس بات پر خاص طور پر اس وجہ سے ابھارا گیا کیوں کہ مرد صاحب اختیار ہوتا ہے۔ روزی کمانے کی ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے اس وجہ سے اس کے لئے آدھے کی بجائے پورا مہر دینا عورت پر احسان ہوگا۔
مہر کے تعلق سے دوسری بے اعتدالی:
بات مہر کی چل رہی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مہر کے تعلق سے معاشرہ میں رائج چند بے اعتدالیوں کی طرف توجہ دلاتا چلوں:
مہر کو ادھار کرنا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں عام اصول یہ تھا کہ نکاح کے وقت ہی جو بھی مہر مقرر ہوتا تھا ادا کردیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک صحابی کے پاس کچھ نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جاؤ اگر لوہے کی انگوٹھی ملے تو وہی لے آؤ۔ جب انہوں نے کہا کہ یہ بھی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کی سورتیں یاد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کو یاد کروانے کو کہا اور اسی کو مہر قرار دیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ بعد میں جب تمہارے پاس ہوگا تو اسے مہر دے دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے بارے میں سنتے کہ اس نے شادی کرلی ہے تو پوچھتے کہ مہر میں کیا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر فوری طور پر ادا کرنا زیادہ مناسب ہے۔
ہمارے معاشرہ میں آج کل حالت یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی قاضی صاحب دریافت کرتے ہیں کہ مہر معجل (اسی وقت) یا مہر مؤجل (ادھار) میں سے کون سا مہر دینا ہے؟ ٹیبل کرسی پر لاکھوں خرچ کرنے کے بعد مہر مؤجل یعنی ادھار باندھ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے اور مہر ادا نہیں ہوتا ہے۔ بعض جگہ تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ساتھ میں رہتے ہوئے پوری زندگی گذار دیتے ہیں مگر مہر کی رقم ادھار ہی رہتی ہے۔ یہ شرعی حکم کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبوی دور میں بھی ایک دو ایسے بھی واقعات سامنے آئے کہ مہر اسی وقت ادا نہ کرکے بعد میں ادا کیا گیا مگر ایسا کم ہی ہوا یا کسی مجبوری کے تحت ہوا۔ اس سے اس قدر تو معلوم ہوتا ہے کہ مہر کو ادھار کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کو عادت بنالینا اور لڑکی والوں کا فوری طور پر مہر کے مطالبہ کی بجائے زیادہ سے زیادہ رقم پر مہر باندھنے پر اصرار کرنا اور وہ بھی یہ سوچ کر کہ یہ مہر کی رقم اگر کبھی طلاق کی نوبت آئی تو شوہر کو دینا ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ ساری باتیں غیر مناسب ہیں۔ مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مہر کی رقم ادا کرنے کا وقت نکاح کی بجائے طلاق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے معاملوں میں لاپروائی سے محفوظ رکھے.
سوال: مہر کیا ہوتا ہے، اور کیوں دیا جاتا ہے اور شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ مہر کب دینا چاہئے اور کتنا دینا چاہئے؟ بہت سے لوگوں سے شرعی مہر کے بارے میں سنا ہے۔ یہ شرعی مہر کیا ہوتی ہے، کیا مہر فاطمہ کو ہی شرعی مہر کہا جاتا ہے؟ اگر مہر نہ دیں تو کیا شادی ہوجاتی ہے؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں.
جواب: عقد نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی سے جماع کرنے کا حق اور ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، مہر اسی حق و ملکیت کے معاوضہ کا نام ہے، جس کی ادائیگی شوہر پر شرعاً لازم ہے،
اسم للمال الذي یجب في النکاح علی الزوج في مقابلة البضع الخ کذا في الشامي: ج۴ ص۲۲۰،
مہر کی ادائیگی کا شریعت میں حکم ہے، نیز نکاح کی وجہ سے شوہر کو بیوی پر ایک طرح کی ملکیت حاصل ہوتی ہے، لہٰذا بیوی کو اس ملکیت کے بدلے مال دلایا جاتا ہے، اس لئے کہ عورت محترم ہے اور بغیر معاوضہ کے اس پر کوئی حق ثابت کرنے میں اس کی اہانت ہے۔
قال في الھدایة: ولأنہ حق الشرع وجوبًا إظھارًا لشرف المحل الخ․ ج۲ ص۳۲۴، مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم اور ضروری ہے۔
قال تعالیٰ: اَن تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ (النساء:۲۴)
بہتر یہ ہے کہ بیوی سے پہلی ملاقات کے وقت مہر اس کے حوالہ کردیا جائے۔ اس کا بھی رواج ہے کہ نکاتح کے وقت مہر بیوی کے ولی کو حوالہ کردیا جاتا ہے اور ولی منکوحہ کو وہ مہر پہنچادیتا ہے، یہ طریقہ بھی اچھا ہے۔ "شرعی مہر" کی اصطلاح شریعت میں نہیں ہے یہ عوام کی اصطلاح ہے اور اس سے اقل مہر مراد ہوتا ہے جس کی مقدار ۱۰ درہم ہے جو موجودہ وزن کے اعتبار سے 30 گرام 618 ملی گرام چاندی ہے، البتہ اگر کسی جگہ عرف مہر فاطمی کو شرعی مہر کہنے کا ہو تو وہاں مہر شرعی سے مہر فاطمی مراد ہوتی ہے جس کی مقدار موجودہ وزن کے اعتبار سے ڈیڑھ کلو گرام (1.5kg) 30 گرام اور 900 ملی گرام چاندی ہے، مہر نہ دینے سے نکاح کی درستگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ بیوی کو یہ اختیار ہے کہ جب تک شوہر مہر معجل ادا نہ کرے بیوی اپنے کو شوہر کے حوالے نہ کرے۔

No comments:

Post a Comment