فقہی سمینار
آج کا سوال نمبر ۱۳۰
٣٠ذی القعدہ ١٤٣٦ھ مطابق ۱۵ ستمبر
٢٠١٥ع بروز سہ شنبہ
اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟
آج کل مدارس میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ کسی کے یہاں میت ہو یا نیا دکان مکان بنایا جائے تو ایصال ثواب کے لئے یا خیر وبرکت کے لئے طلباء کو مدعو کیا جاتا ہے اور دعوت بھی ہوتی ہے اور کوئی ھدیةً رقوم بھی پیش کرتا ہے تو کیا اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا اور اس پر ھدیہ لینا صحیح ہے؟
صحیح طریقہ کیا ہے؟ ؟
اور کیا مدارس میں پڑھائی کے وقت طلباء کو بھیجا جاسکتا ہے؟
مفصل ومدلل بحث فرمائیں....
الجواب باسم ملہم الصواب
اجتماعی قرآن خوانی کئی خرابیوں کی وجہ سے ممنوع اور قابل ترک ہے،
بہشتی زیور میں ہے:
میت کے لئے چالیس دن تک قرآن خوانی کروانے کا حکم
سوال: محلے میں ایک شخص کا انتقال ہوگیا تو لوگ چالیس دن تک پورے محلے میں مکان در مکان قرآن خوانی کا سلسلہ چلاتے ہیں اس دوران اگر دوسرے شخص کا انتقال ہوجائے تو دوسرا چلہ شروع ہوجاتا ہے آیا اس مروجہ قرآن خوانی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟
جواب: اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن مجید پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ثابت ہے مگر آجکل قرآن خوانی محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے اگر رسم کی غرض سے اجتماع کرکے ایصال ثواب کرتا ہے تو جائز نہیں کیونکہ اجتماع کرکے ایصال ثواب کرنے کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایصال ثواب کا صحیح طریقہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کرکے ایصال ثواب کرے۔ (تسھیل بہشتی زیور: 1/62 طبع گھر) فتاویٰ عثمانیہ: 1/102 طبع
نیز دیوبند کا فتویٰ ملاحظہ ہو:
1) کیا اسلام میں قرآن خوانی کی اجازت ہے؟
(2) اگر نہیں تو کیوں؟
Jul 05,2007
Answer: 1156
(فتوى: 461/ن = 449/ن)
(1) مروجہ قرآن خوانی جائز نہیں ہے۔
(2) اس لئے کہ اس میں اجتماع کا التزام کیا جاتا ہے، دعوت و شیرینی وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والوں کو قرآن پڑھنے پر نذرانہ وغیرہ دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کو کھانا کھلایا اور ناشتہ وغیرہ کروایا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے والے اسی وجہ سے قرآن پڑھتے ہیں جو کہ اجرت و معاوضہ کی شکل ہوجاتی ہے اور یہ کہ دعوت خوشی کے مواقع میں مشروع ہے نہ کہ غمی کے مواقع میں، ان تمام وجوہات وغیرہ کی بنا پر مروجہ قرآن خوانی ناجائز ہے: یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث بعد الأسبوع... واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص (رد المحتار: 3/148، ط زکریا دیوبند) ویکرہ لاتخاذ الضیافة من الطعام من أھل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وھی بدعة مستقبحة (رد المحتار: 3/148، ط زکریا دیوبند)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا یجوز لأن فیہ بالقراءة و إعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال. (رد المحتا: 9/77، ط زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
دوسری بات اس پر اجرت لینا،
فتاویٰ زکریا میں ہے:
قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے،
علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس پر ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایاہے؛ شفاء العلیل و بل الغلیل فی حکم الوصیۃ بالختمات والتہالیل، اس میں آپ نے اس مسئلہ پر بالتفصیل کلام فرمایاہے، عدم جواز پر چند احادیث فرمائی مثلاﹰ،
قال رسول اللہﷺ اقرئوا القرآن ولا تاکلوا بہ ولا تجفوا عنہ ولا تغلوا فیہ ولا تستکثروا بہ
(فتاویٰ زکریا ۲، ۶۶۳)
عربی فتویٰ ملاحظہ ہو،
حكم أخذ الأجرة على قراءة القرآن
=======================================
س: ما حكم أخذ الأجرة على قراءة القرآن؟
ج : الحمد لله، تلاوة القرآن عمل صالح وعبادة عظيمة، مع التدبر والتفكر بآياته ، والعمل بما فيه من الأحكام.
وأخذ الأجرة على قراءة القرآن يجوز إذا كان ذلك للتعليم، قال بذلك جمهور أهل العلم ، وأجازه الحنفية المتأخرون للضرورة، خشية ضياع القرآن.
و يمكن القول إنه ينبغي لمعلم القرآن عند الحاجة أخْذ الأجرة من جهة عامة، و يمكن أن يجعل ذلك مقابل تفرُّغه، وحبذا لو أنه جعل الأجرة مقابل ضبط الطلاب وتربيتهم، وتعليمهم مادة أخرى بجانب القرآن .
وأما اسْتِئْجَارُ القُرّاء لأجل التِّلاوَةِ، وَإِنْ صَارَ مُتَعَارَفًا عليه كما يحصل في المآتم والمناسبات، فلا يجوز، قال بذلك أئمة الحنفية والحنابلة، لأَنَّهُ بدعةٌ مُحدثة و مُخَالَفةٌ لِلنَّصّوص، و منها حديث عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شِبْلٍ قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : (اقْرَءُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَغْلُوا فِيهِ وَلَا تَجْفُوا عَنْهُ وَلَا تَأْكُلُوا بِهِ وَلَا تَسْتَكْثِرُوا بِهِ) رواه أحمد برقم 15529 وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة برقم 3057. و تلاوة القرآن قربةٌ وعبادة، وأخذ الأجرة على القرَب والعبادات كالصلاة والصوم لا يجوز .
وأما حديث (أحق ما أخذتم عليه أجرًا كتاب الله) متفق عليه، فهو خاص بأخذ أجرة على الرقية بالقرآن، جمعاً بينه وبين الأحاديث الزاجرة عن أخذ أجرة أو هدية على قراءة القرآن أو تعليمه.
و ننصح إخواننا حمَلَة القرآن أن يطلبوا الرزق من الوجوه المباحة والمكاسب الطيبة بعيدا عن الشبهات ، وبالله التوفيق .
الشيخ محمد الصادق مغلس
الشيخ أمين علي مقبل
الشيخ أحمد حسان(غائب بعذر)
الشيخ مراد القدسي
تیسری بات،
طلباء کو پڑھائی کے وقت میں بھیجنا تو اس کے لئے مدرسہ کے ذمے دار اور مہتمم کی اجازت سے بھیجا جاسکتا ہے
(فتاویٰ محمودیہ ۳، ۹۳)
فقط،
ابراہیم علیانی
Thursday, October 18, 2018
اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment