Thursday, January 31, 2019

مدرسہ کھولا ہے دوکان نہیں

مدرسہ کھولا ہے دوکان نہیں:
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب
_______
مولانا الیاس صاحب فرماتے تھے
حوادثِ زمانہ نے یعنی ضروریات زمانہ نے علم کو مسجد سے باہر نکال دیا ہے، ورنہ علم تو مسجد سے  سیکھنے کی جگہ تھی کیونکہ عوام الناس کے جمع ہونے کی جگہ مسجد ہے عوام الناس کے جڑنے کی جگہ مسجد ہے یہاں پر جڑنے کی لئے کوئی قید نہیں ہے میں حیران یہ ہوتا ہوں کہ  سب سے زیادہ غنی کرنے والا صفت یعنی علم ہے اور سب سے زیادہ اللہ کے غیر سے مستغنی کرنے والا علم  اسکو حاصل کرنے کے بعد بھی لوگ معاش میں مشغول ہوجاتے ہیں حضرت فرماتے تھے جو حکومت کے فنون پڑھاتے ہیں دنیا میں، انکی تمام ضروریات حکومت کے ذمہ ہوتی ہے، یہ حکومت کا جہل پڑھارہے ہیں، ان سے پوچھو تمہارے اسکول کی چھت ٹوٹے گی تو کون ٹھیک کرے گا تمہیں تنخواہ کون دے گا تم بیمار ہوجاؤگے تمہارا علاج کون کروائے گا وہ کہیں گے ہمارا سب فری کیونکہ ہم حکومت کی تعلیم دے رہے ہیں، حکام کے جہل کو پڑھاکر پلنے کا یقین ہے،  پر اللّٰہ کا علم جو اللہ رزاق ہے اس کے علم پڑھاکر اس سے پلنے کا یقین نہیں ہے؟ یہ سوال ہے، امت کو علم کی تعلیم دینے میں معاش کا ارادہ کیا تو بے برکتی آئے گی اگر تعلیم سے مآب کا یعنی آخرت کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ مستغنی کردیں گے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح، یہ یقینی بات ہے حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو قرآن پڑھ کر یا پڑھاکر غنی نہیں ہوا وہ ہم میں سے نہیں ہے
از حضرت جی مولانا محمد سعد صاحب دامت برکاتہم
<https://mastooraat.blogspot.com/2019/01/blog-post_31.html>
مدرسہ کھولا ہے دوکان نہیں:
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب

Friday, January 25, 2019

تجوید کا حکم کیا ہے؟ فن تجوید کا مرتبہ دیگر فنون کے مقابلہ میں کیا ہے؟

تجوید کا حکم کیا ہے؟ فن تجوید کا مرتبہ دیگر فنون کے مقابلہ میں کیا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تجوید کا حکم کیا ہے؟ فن تجوید کا مرتبہ دیگر فنون کے مقابلہ میں کیا ہے؟ تجوید کے خلاف قرآن پڑھنا اور پڑھانا کیسا ہے؟ قرآن کس شخص پر لعنت کرتا ہے، وہ حدیث مع ترجمہ وخلاصہ کے ضرور تحریر فرمائیں، مجہول قرآن پڑھنے والے کی امامت (جب کہ نہ تو لحن جلی کی خبر رکھتا ہو اور نہ لحن خفی کا پتہ ہو) اور مقتدی میں عمدہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے والا حاضر ہو، تو ایسی نماز کا کیا حکم ہوگا؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
تجوید سے اس قدر واقفیت فرض ہے کہ آدمی قرآن شریف بقدرِ ضرورت صحیح پڑھ سکے، جس سے اس کی نماز میں فساد نہ آئے اور پورا فنِ تجوید مہارت کے ساتھ سیکھنا فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر چند حضرات بھی اس میں مہارت پیدا کرلیں تو دوسروں کے
لئے اس میں محنت کرنا ضروری نہیں ہوتا، قرآنِ کریم مجہول پڑھنا کسی حالت میں درست نہیں، اس لئے امام کو متعین کرتے وقت ان باتوں کا لحاظ رکرنا چاہئے؛ لیکن اگر کسی امام کو متعین کردیا گیا اور وہ بہ قدر ضرورت قرأت کرنے پر قادر ہے اور مقتدیوں میں اس سے اچھے پڑھنے والے قاری اور اچھے مجود موجود ہوں، تو ایسی صورت میں امامت کا حق ان مقتدی قاریوں کو نہیں ہے؛ بلکہ متعین امام ہی امامت کا حق دار ہوگا۔
والأخذ بالتجوید حتم لازم، ومن لم یجود القرآن فہو آثم۔ (مقدمۃ جزریۃ ۱۰، حاشیۃ فوائد مکیہ ۳)
واعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولی بالإمامۃ من غیرہ مطلقاً۔ (الدرالمختار مع الرد المحتار ۲؍۲۹۷ زکریا) 
فقط واﷲ تعالی اعلم
املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۱؍۱۴۳۱ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ
-----------------
قرآن پاک کو تجوید سے پڑھنے کی اہمیت:
قرآن کریم اللہ عز وجل کا کلام ہے اس کے حقوق میں ایک اہم ترین اور اولین حق یہ ہے کہ صحت الفاظی اور ضروری قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے۔
قران میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلًا "۔
(المزمل:۴)
(ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ نازل کیا ہے)۔
سے واضح ہے اور ترتیل ہی کہ ساتھ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے؛ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہے:
"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا"۔
اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔
(المزمل:۴)
ترتیل کی تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق حروف کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اور وقفوں کی معرفت ہے تو ترتیل سے قرآن کریم پڑھا جائے گا تب ہی اس کی تلاوت کا حق ادا ہوگا اور ایسی ہی تلاوت پر حسنات اور انعامات خدا وندی کا وعدہ ہے؛ لیکن اگر تلاوت تجوید کی رعایت کے ساتھ نہیں؛بلکہ اس کے خلاف ہے تو اس سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا،
حدیث میں ہے
"زَیِّنُوالْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ"۔
(ابو داؤد،استحباب الترتیل فی القرأت،حدیث نمبر:۱۲۵۶)
اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو ۔
"حَسِّنُو الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُالْقُرْاٰنَ حُسْنًا"۔
(شعب الایمان،
اچھی آواز سے قرآن کوپڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کریم کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔
"اِقْرَؤُالْقُرْاٰٰنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَاَصْوَاتَھَا"۔
(شعب الایمان،حدیث نمبر:۲۵۴۱)
قرآن کریم کو عربی لحن میں پڑھو۔
محقیقین علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ بغیر تجوید قرآن پڑھنے والامستحق ثواب نہیں ہوتا؛ بلکہ گناہ گار ہوتا ہے، علامہ محقق جزری فرماتے ہیں۔
وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ لَازِمٌ
مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ اٰٰ ثْمٌ
لِاَنَّہُ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلاَ وَھٰکَذَا امِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا
ترجمہ:تجوید کا حاصل کرنا ضروری ولازم ہے۔
جو شخص تجوید سے قرآن نہ پڑھے گناہگار ہے ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی نے تجوید ہی کے ساتھ اس کو نازل فرمایا ہے۔
اور اسی طرح اللہ تعالی سے ہم تک پہنچا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا قول ہے: رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ،
(احیاءعلوم الدین،الباب وھی عشرۃ،:۱/۲۸۴)
(مجلۃ المنار،الحکمۃ فی انزال القرآن:۸/۲۵۸)
یعنی بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت اس حالت میں کرتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا جاتا ہے، یہ حدیث عام ہے جو ذیل کے تین جماعتوں کو شامل ہے:
(۱)وہ جو حروف کو غلط پڑھیں
(۲)وہ جو قرآن پر عمل نہ کریں
(۳)وہ جو قرآن کریم کے معنی اور تفسیر میں رد وبدل کریں
حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت ہے کہ وہ خود کسی شخص کو قرآن شریف پڑھارہے تھے اس نے اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآء،کو مد کے بغیر پڑھا تو آپ نے اس کو ٹوکا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا ہے،
تو اس نے دریافت کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کس طرح پڑھایا ہے
تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی اور لِلْفُقَرَآءپر مد کیا
غور کرنے کا مقام ہے کہ حرف یا حرکت کے چھوٹنے یا بدلنے پر نہیں صرف مد کے چھوٹنے پر شاگرد کو ٹوکا جارہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے مطابق پڑھ کر سنایا جارہا ہے؛ تاکہ وہ حرف کو کھینچ کر پڑھنے میں بھی خلاف سنت کا مرتکب نہ ہو۔
اسلئے قرآن کریم کو اسی طرح پڑھاجائے جس طرح وہ نازل ہوا ہے یعنی حروف کو ان کا حق اسی طرح دیا جائے کہ مخارج وصفات اور دیگر قواعد کے اعتبار سے ان کی ادائیگی درست ہو اور بے موقعہ وبے طریقہ وقف نہ کیا جائے۔
ہم عجمی لوگ اپنے انداز گفتگو اور اپنے تلفظ کے مطابق قرآن کو پڑھتے ہیں جیسا کہ ہماری اردو زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ ان کے رسم الخط سے مختلف ہے مثلا ظاہر کو زاہر، مطلب کو متلب، فضل کو فزل، صورت کو سورت، مثال کو مسال بولتے ہیں اور اس کو غلطی شمار نہیں کیاجاتا اور نہ ہی عیب سمجھا جاتا ہے ؛لیکن قرآن کریم میں "ض،ظ" کو "ز ،ط" کو "ت، ص" کو "ث ،ع" کو "ء، ح" کو "ہ" پڑھنا زبردست غلطی ہے ،جس کو علماء نے لحنِ جلی سے تعبیر کیا ہے اس قسم کی غلطیوں سے معنی بدلتے ہیں ۔
لیکن اگر کوئی شخص حتی الوسع کوشش کے باوجود بھی صحیح تلاوت پر قادر نہ ہوسکے تو معذور ہے، اللہ جل شانہ کی شان کریمی سے امید ہے کہ اس کوشش کا بھی اجر ملے گا اور تلاوت کا بھی؛ جہاں تک ہوسکے اچھی آواز اور بہتر انداز سے تلاوت کرنا بے شک مستحب اور مستحسن ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ تجوید کے دائرے سے باہر نہ ہو ،
تجوید کے خلاف قرآن مجید پڑھنے کو لحن کہتے ہیں لحن دو قسم کی ہوتی ہے(۱)لحن جلی(۲)لحن خفی
لحن جلی بڑی غلطی کو کہتے ہیں یعنی صفات لازمہ ومخارج وغیرہ میں غلطی کرنا اور یہ پانچ طرح کی ہیں۔
(۱)حرفوں میں تبدیلی کرنا،جیسے اَلْحَمْدُ کی جگہ اَلْھَمْدُ پڑھنا۔
(۲)حرکتوں کے اندر تبدیلی کرنا جیسے اَنْعَمْتَ کی جگہ اَنْعَمْتُ پڑھنا۔
(۳)متحرک کی جگہ ساکن ،جیسے اَنْشَاَھَا کی جگہ اَنْشَاْھَا پڑھنا یا ساکن کی جگہ متحرک مثلا خَلْقًا کی جگہ خَلَقًا پڑھنا۔
(۴)حرفوں کو گھٹا دیناجیسے لَمْ یُوْلَدْ کو لَمْ یُلَدْ یا حر فوں کو بڑھادیناجیسے لَمْ یَلِدْ کی جگہ لَمْ یَلِیْدْ پڑھنا۔
(۵)مشدد حرفوں کو مخفف جیسے اِیَّاکَ کی جگہ اِیَاک پڑھنا یا مخفف کی جگہ مشدد کرکے پڑھنا جیسے اَظْلَمَ کو اَظَّلَمَ وغیرہ۔
لحن جلی کرکے قرآن شریف پڑھنا حرام ہے بسا اوقات اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے اس سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔
لحن خفی چھوٹی غلطی کو کہتے ہیں ،یعنی صفات محسنہ(وہ صفات جو اچھی سمجھی جاتی ہیں )میں غلطی کرنا اور یہ کئی جگہ ہیں جن میں سے چند مثالیں یہ ہیں۔
(۱)پر کی جگہ باریک پڑھنا جیسے رَبَّکَ میں را کو باریک پڑھنا یا باریک کی جگہ پر پڑھنا جیسے بِاللّٰہِ میں اللہ کے لام کوپُر(موٹا) پڑھنا
(۲)اظہار کی جگہ غنہ کرنا جیسے عذابٌ الیم کے تنوین میں غنہ کرنا یا اخفا کی جگہ اظہار کرنا جیسے یتیماً فاوی کے تنوین میں اظہار کرنا
(۳)مد فرعی کی جگہ مد نہ کرناجیسےوَالسَّمَآءََکو بغیر مد کے پڑھنا
لحن خفی سے قرآن شریف پڑھنا مکروہ ہے، اس لیے اس سے بھی بچنا ضروری ہے ۔
مراتب تجوید
تجوید کے ساتھ قرآن شریف پڑھنے کے تین درجے ہیں
(۱)ترتیل:نہایت آہستہ اور کسی قدر اطمینان سے پڑھنا،جیسے جلسوں میں پڑھا جاتا ہے
(۲)تدویر: نہ بہت تیز نہ بہت آہستہ متوسط طریقے سے پڑھنا ،جیسے عموما ًنمازوں میں پڑھا جاتا ہے
(۳)حدر:تیزی کے ساتھ پڑھنا ؛لیکن تجوید کے خلاف نہ ہو جیسے عام طور پر تراویح میں پڑ ھاجائے
تجوید کا حکم
تجوید کے مطلقاً تمام قواعد کا پڑھنا فرض کفایہ ہے اور قرآن مجید صحیح پڑھنے کے لیے جس قدر قواعد ضروری ہیں کہ اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی ان کا جاننا فرض عین ہے ۔
---------------------------

تجوید کے شعبے
علم تجوید میں مختلف قسم کے مسائل سے بحث کی جاتی ہے کبھی قرآن کے الگ الگ حروف کے بارے میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کبھی مرکّب الفاظ کی ادائیگی کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور کبھی پورے پورے جملے کے بارے میں بحث ہوتی ہے اس کے ادا کرنے میں وقف و وصل کے اصول کیا ہونگے اور انہیں کس طرح ادا کیا جائےگا۔
تجوید کے مسائل سے با خبر ہونے کے لئے ان تمام انواع و اقسام پر نظر کرنا ہوگی اور ان سے باقاعدہ طور پر واقفیت پیدا کرنا ہوگی۔
حروف
چونکہ علم تجوید میں قرآن مجید کے حروف سے بحث ہوتی ہے اس لئے انکا جاننا ضرورى ہے۔
عربی زبان میں حروف تہجی کی تعداد 29 ہے۔ ٹ۔ ڈ۔ ڑ وغیرہ ہندى کے مخصوص حروف ہیں اور پ۔ چ۔ ژ۔ گ فارسی کے مخصوص حروف ہیں ان کے علاوہ جملہ حروف تینوں زبانوں میں مشترک ہیں۔
یہ حروف اپنے طرز ادا کے اعتبار سے مختلف قسم کے ہیں۔ ان اقسام کے سلسلہ میں بحث کرنے سے پہلے ان مقامات کا پتہ لگانا ضرورى ہے جہاں سے یہ حروف ادا ہوتے ہیں اور جنہیں علم تجوید میں ”مخرج“ کہا جاتا ہے۔
مخارج حروف
علماء تجوید نے 29 حروف تہجی کے لئے جو مخارج بیان کئے ہیں ان کی تعداد 27 ہے جنہیں مندرجہ ذیل پانچ مقامات سے ادا کیا جاتا ہے۔
(1) جوف دہن (2) حلق (3) زبان (4) ہونٹ (5) ناک۔
مختصر لفظوں میں ان حروف کے مخارج کی تعیین کی جاتی ہے۔ عملی طور پر صحیح تلفظ کرنے کے لئے اہل فن کا سہارا لینا پڑے گا۔
جوف دہن:
جوف دہن سے صرف تین حروف الف۔ واوٴ۔ ى ادا ہوتے ہیں بشرطیکہ یہ ساکن ہوں جیسے جَوَادٌ -غَفُورٌ - کَرِیمٌ۔
حلق:
حلق کے تین حصّے ہیں :
1۔ ابتدائی حصہ۔ اس سے غ۔ خ ادا ہوتا ہے۔
2۔ درمیانی حصہ۔ اس سے ع۔ ح ادا ہوتا ہے۔
3۔ آخری حصہ۔ اس سے ء۔ ہ ادا ہوتا ہے۔
زبان۔ ہونٹ اور ناک
زبان:
حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کے دس حصے ہیں۔
1۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ۔ اس سے ”قاف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
2۔ ”قاف“ کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اسکے مقابل کا تالو، ان کے ملانے سے ”کاف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
3۔ زبان، اور تالو کا درمیانی حصہ، ان سے ”جیم“ ”شین“ ”ی“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
4۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داہنی یا بائیں جانب کے داڑھیں ان کے ملانے سے ”ضاد“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
5۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ”لام“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
6۔ زبان کا کنارہ، ”لام“ کے مخرج سے ذرا نیچے کا حصہ، ان سے ”ن“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
7۔ نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائی حصہ ان کے ملانے سے ”ر“ ادا ہوتی ہے۔
8۔ زبان کی نوک اور اگلے دونوں اوپرى دانتوں کی جڑ، زبان کو اوپر کی جانب اٹھاتے ہوئے اس طرح ذرا ذرا کے فرق سے ”ط“ ”دال“ اور ”ت“ ادا ہوتی ہے۔
9۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپرى اور نچلے دانتوں کے کناروں سے ”ز“ ”س“ ”ص“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
10۔ زبان کی نوک اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے ”ث“ ”ذال“ ”ظ“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
ہونٹ:
حروف کی ادائیگی کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ نچلے ہونٹوں کا اندرونی حصہ اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے”ف“ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
2۔ دونوں ہونٹوں کے درمیان کا حصہ یہاں سے”ب“ ”م“ ”واو“ کی آواز نکلتی ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ”واو“ کی آواز ہونٹوں کو سکوڑ کر نکلتی ہے۔ اور ”ب“ ”میم“ ہونٹوں کو ملانے سے ادا ہوتی ہے۔
ناک:
غنہ والے حروف ناک سے ادا ہوتے ہیں جو صرف نون ساکن اور تنوین ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کیا جائے اور اخفاء مقصود ہو۔ نون اور میم مشدد کا بھی انہیں حروف میں شمار ہوتا ہے۔ نْ،، نّ، مّ۔
حروف تہجی کی انداز ادا، احکام اور کیفیات کے اعتبار سے مختلف قسمیں ہیں۔
حروف مد
واؤ، ی، الف۔ ان حروف کو اس وقت حروف مد کہا جاتا ہے جب ’واوٴ‘ سے پہلے پیش، ”الف“ سے پہلے زبر اور ”ی“ سے پہلے زیر ہو اور اس کے بعد ہمزہ یا کوئی ساکن حرف ہو جیسے سآُوء ٌ - غَفآُورٌ - جَآءَ - صَآدَ - جِیآءَ (جِ یآ ءَ) جِیآم وغیرہ۔
بعد کے ہمزہ یا حرف ساکن کو سبب کہتے ہیں اور مد کے معنی آواز کے کھینچنے کے ہیں۔
”واو“ اور ”ی“ سے پہلے زبر ہو توان دونوں کو حروف لین کہتے ہیں۔ ”لین“ کے معنی ہیں نرمی اور ان حالات میں یہ دونوں حروف، مد کو آسانی سے قبول کر لیتے ہیں جیسے خَوْفْ - طَیرْ۔
اب اگر حرف لین کے بعد کوئی حرف ساکن بھی ہے تو اس حرف پر مد لگانا ضرورى ہے جیسے کآہٰیٰعآصآ (کَآفْ ہَا یا عَیآنْ صَادْ) کہ اس کلمہ میں مثلاً عین کی ”ی“ لین ہے اور اس کے بعد نون ساکن ہے جس کی بنا پرعین کی ”ی“ کو مد کے ساتھ پڑھنا ضرورى ہے۔
حروف شمسی
وہ حروف ہیں جن سے پہلے ”الف لام“ آجائے تو ملا کر پڑھنے میں ساقط ہو جاتا ہے جیسے ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن۔ کہ ان کا الف لام ساقط ہو جاتا ہے جیسے وَالطُّورِ - وَالشَّمْسِ - وَالتِّینِ وغیرہ
وہ حروف ہیں جن کے پہلے الف لام آجائے تو ملانے میں بھی پڑھا جاتا ہے مگر الف نہیں پڑھا جاتاجیسے اٴ، ب، ج، ح، خ، ع، غ، ف، ق، ک، م، و، ہ، ی۔ کہ ان کو ملا کر پڑھنے میں لام ساقط نہیں ہوتا جیسے وَالْقَمَر، وَالْکَاظِمِینَ، وَالْمُجَاھِدِینَ، وَالْخَیلِ وَاللَّیلِ وغیرہ
کیفیات و صفات حروف
جس طرح حروف مختلف مخارج سے ادا ہوتے ہیں اسی طرح حروف کی مختلف صفتیں ہوتی ہیں مثلاً استعلاء۔ جہر۔ قلقلہ وغیرہ کبھی مخرج اور صفت میں اتحاد ہوتا ہے جیسے ح اور عین اور کبھی مخرج ایک ہوتا ہے اور صفت الگ ہوتی ہے جیسے ہمزہ اور ھ۔
1۔ حروف قلقلہ
ج۔ د۔ ان حروف کی خاصیت یہ ہے کہ اگر یہ حروف درمیان یا آخر کلمہ میں ہوں اور ساکن بھی ہوں تو انہیں اس زور سے ادا کرنا چاہئے کہ متحرک معلوم ہوں جیسے یدْخُلُونَ - لَمْ یلِدْ
2۔ حروف استعلاء
یہ سات حروف ہیں، ص، ض، ط، ظ، غ، ق، خ۔ ان حروف کو ”حروف استعلاء“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی ادائیگی کے لئے زبان کو اٹھانا پڑتا ہے جیسے خَطْ، یخِصِّمُونْ۔
3۔ حروف یرملون
یہ چھہ حروف ہیں، ی، ر، م، ل، و، ن۔ ان حروف کی خاصیت یہ ہے کہ اگر ان سے پہلے نون ساکن یا تنوین ہے تو اسے تقریباً ساقط کردیا جائے گا اور بعد کے حروف کو مشدّد پڑھا جائے گا جیسے مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد، لَمْ یکُنْ لَّہُ۔
یہ چھ حروف ہیں۔ ح، خ، ع، غ، ہ، ء۔ انہیں حلق سے ادا کیا جاتا ہے ان کے پہلے واقع ہونے والا نون ساکن واضح طور پر پڑھا جائے گا جیسے اَنْعَمْتَ۔
کیفیات ادائے حروف
حروف تہجی کی ادائیگی کے اعتبار سے چار قسمیں ہیں،
1۔ ادغام 2۔ اظہار 3۔ قلب 4۔ اخفاء
ادغام
ادغام کے معنی ہیں ساکن حرف کو بعد والے متحرک حرف سے ملا کر ایک کر دینا اور بعد والے متحرک حرف کی آواز سے تلفظ کرنا۔ ادغام کی چار قسمیں ہیں:
ادغامِ یرملون۔ ادغام مثلین۔ ادغام متقارنین۔ ادغام متجانسین۔
الف۔ ادغام یرملون
اگر کسی مقام پر حروف یرملون میں سے کوئی حرف اور اس سے پہلے نون ساکن یا تنوین ہو تو اس نون کو ساقط کرکے حرف یرملون کی مشدد کر دیں گے اور اس طرح حرف یرملون میں ”ن“ کا ادغام ہو جائے گا جیسے اَشْہَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
اس ادغام میں بھی دو صورتیں ہیں۔ ادغام غنہ، ادغام بلا غنہ
1۔ ادغام غنہ کا طریقہ یہ ہے کہ حروف کو ملاتے وقت نون کی ہلکی آواز باقی رہ جائے۔ جیسا کہ یرملون کے ی، م، و، ن میں ہوتا ہے۔ جیسے عَلِی وَلِی اللّٰہ
2۔ ادغام بلا غنہ میں نون بالکل ختم ہو جاتا ہے جیسے لَمْ یکُنْ لَہُ۔
یرملون میں ادغام کی شرط یہ ہے کہ نون ساکن اور حرف یرملون ایک ہی لفظ کا جزء نہ ہوں دو الگ لفظوں میں پائے جاتے ہوں ورنہ ادغام جائز نہ ہوگا جیسا کہ لفظ ”دنیا“ ہے کہ اس میں ى سے پہلے نون ساکن موجود ہے لیکن ادغام نہیں ہوتا۔
ب۔ ادغام مثلین
اگر دو حروف ایک طرح کے جمع ہو جائیں اور پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہوتو پہلے کو دوسرے میں ادغام کریں گے جیسے مِنْ نَّاصِرِینَ لیکن اس ادغام کی شرط یہ ہے کہ پہلا حرف ”حرف مد“ نہ ہو ورنہ ادغام جائز نہ ہوگا جیسے کہ ”فِی یوسُفَ“ میں ادغام نہیں ہوا حالانکہ ”فی“ کی ”ی“ ساکن ہے اور”یوسف“ کی ”ی“متحرک اس لئے کہ ”ی“ حرف مد ہے۔
ج۔ ادغام متقاربین
متقا ربین ان دو حرفوں کا نام ہے جو مخرج اور صفت کے اعتبار سے قریب ہوں جیسا کہ سابق میں واضح کیا جا چکا ہے کہ بہت سے حروف آپس میں ایک ہی جیسے مخرج سے ادا ہوتے ہیں اور ا نہیں قریب المخرج کہا جاتا ہے۔ جیسے قُلْ رَّبِّ - اَلَمْ نَخْلُقْکُم۔
د۔ ادغام متجانسین
ایک جنس کے دو ایسے حرف جمع ہو جائیں جن کا مخرج ایک ہو لیکن صفتیں الگ الگ ہوں ان میں سے پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہو تو پہلے کو دوسرے میں ادغام کر دیا جائےگا جیسے:
# د -ط -ت - قَدْ تَبَینَ - قَالَتْ طَائِفَۃٌ - بَسَطْتَّ
# ظ - ذ - ث - اِذْ ظَلَمُوْا - یلَہَثْ ذَّلِکَ
# ب - م - اِرْکَبْ مَّعَنَا
# د - ج - قَدْ جَّاءَ کُمْ
2۔ اظہار
اگر نون ساکن یا تنوین کے بعد حروف حلق یا حروف یرملون میں سے کوئی حرف ہو تو اس نون کو باقاعدہ ظاہر کیا جائےگا جیسے مِنْ غَیرِہ - اَنْہَار - دُنْیا - قِنْوَانْ۔
3۔ قلب
اگر نون ساکن یا تنوین کے بعد ”ب“واقع ہوجائے تو نون میم سے بدل جائے گا اور اسے غنہ سے ادا کیا جائےگا جیسے اَنْبِیاءُآ ینْبُوْعاً یہاں پر نون تلفظ میں ہی پڑھا جاتا ہے اور جیسے رَحِیمٌ بِکُمْ کہ یہاں تنوین کا نون بھی تلفظ میں میم پڑھا جائے گا۔
4۔ اخفاء
حروف یرملون حروف حلق اور ب کے علاوہ باقی 15 حروف سے پہلے نون ساکن یا تنوین واقع ہو تو اس نون کو آہستہ ادا کیا جائےگا جیسے۔ اِنْ کَانَ - اِنْ شَآءَ - صَفّاً صَفّاً - اَنْدَادَ۔
حرکات
حروف پر آنے والی علامتوں کی پانچ قسمیں ہیں۔ تین کو حرکت کہا جاتا ہے۔ زبر۔ زیر۔ پیش۔ جسے عربی میں فتحہ ضمہ کسرہ کہتے ہیں۔ باقی دو میں ایک مد۔ آ اور دوسرے کو سکون۔ کہا جاتا ہے۔
مد کی دو قسمیں ہیں 1۔ مد اصلی 2۔ مد غیر اصلی
مد اصلی
وہ مد ہے جس کے بغیر واوٴ۔ الف۔ ى۔ کی آواز ادا نہیں کی جاسکتی اس کے لئے علیحدہ سے کسی سبب کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے قَالَ - قِیلَ - یقوُلُ۔
ان مثالوں میں الف۔ ى۔ واوٴ کی آواز پیدا کرنے کے لئے ان حروف کو دو حرکتوں کے برابر کھینچنا ہوگا۔ واضح رہے کہ مٹھی بند کرکے متوسط رفتار سے ایک انگلی کے کھولنے میں جتنی دیر لگتی ہے وہ ایک حرکت کی مقدار ہے۔
مد غیر اصلی
وہ مد ہے جہاں واوٴ۔ الف۔ ی۔ کی آواز کوکسی سبب (ہمزہ یا سکون ) کی وجہ سے مد اصلی کے مقابل زیادہ کھینچ کر ادا کیا جاتا ہے۔
مد غیر اصلی کی ہمزہ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں۔ 1۔ واجب متصل 2۔ جائز متصل۔
واجب متصل
اس مد کا نام ہے جس میں مد اور ہمزہ ایک ہی کلمہ کا جزء ہوں جیسے جَآءَ - سِیآئَتْ - سُوءٌ کہ ان تینوں مثالوں میں الف۔ ی۔ واوٴ۔ اور ہمزہ ایک ہی کلمہ کا جزء ہیں۔ اس مد کے کھینچنے کی مقدار چار سے پانچ حرکات کے برابر ہے۔
جائز منفصل
وہ مد ہے جس میں حروف مد سے پہلے کلمہ کے آخر میں اور ہمزہ دوسرے کلمہ کے شروع میں واقع ہو، جیسے اِنَّآ اَعْطَینَاکَ - تُوْبُوْآا- اِلٰى اللّٰہِ - بَنِیآ اِسْرَائِیآلْ - اس کی مقدار بھی چار سے پانچ حرکات کے برابر ہے۔
مد غیر اصلی کی سکون کے اعتبار سے چار قسمیں ہیں۔ 1۔ مدلازم 2۔ مدعارض 3۔ مد لین 4۔ مد عوض
مد لازم
اس مد کا نام ہے جس میں واوٴ۔ الف۔ ی۔ کے بعد والے ساکن حرف کا سکون لازمی ہو یعنی کسی بھی حالت سے نہ بدل سکتا ہو جیسے یٰسْ (یاسین) حٰآمآعآسآقآ (حا -میآم - عیآن - سیآن - قآف)اَلْحَاقَّہ اس کی مقدار چار حرکات کے برابر ہے۔
مد عارض
اس مد کا نام ہے جس میں واوٴ الف۔ ی۔ کے بعد والے حرف کو وقف کے سبب سے ساکن کر دیاگیا ہو جیسے غَفُورْ - خَبِیر- عِقَابْ - خَوفْ مد عارض کو دو، چار، چھ حرکتوں کے برابر کھینچنا جائز ہے لیکن چھ کے برابر بہتر ہے۔
مد لین
حروف لین کے بعد والا حرف ساکن ہو تو اس پر بھی مد آ جائےگا اگر اس حرف کا سکون لازم ہو تو اسے مد لین لازم کہیں گے جیسے حمعسق اس مد کی مقدار چار حرکات کے برابر ہے اگر سکون عارضى ہو تو اسے مد لین عارض کہیں گے جیسے خوف اسکے کو دو حرکات کے برابرکھینچ کر پڑھنا چاہئے۔
مد عوض
ایسے حرف پر وقف کرنے کی صورت میں ہوتا ہے جہان دو زبر۔ (تنوین) ہو جیسے عَلِیماً - حَکِیماً اس کی مقدار دو حرکت کے برابر ہے۔
تفخیم و ترقیق
تفخیم کے معنیٰ ہیں حرف کو موٹا بنا کر ادا کرنا۔
ترقیق کے معنیٰ ہیں حرف کو ہلکا بنا کر ادا کرنا۔
ایسا صرف دو حرف میں ہوتا ہے۔ ل۔ ر
ر۔ میں تفخیم کی چند صورتیں۔
ر۔ پر زبر ہو جیسے رَحْمٰن
ر۔ پر پیش ہو جیسے نَصْرُ اللّٰہ
ر۔ ساکن ہو لیکن اس کے ماقبل حرف پر زبر ہو جیسے وَانْحَرْ
ر۔ ساکن ہو لیکن اس کے ماقبل حرف پر پیش ہو جیسے کُرْہاً
ر۔ ساکن اور اس کے ماقبل زیر ہو لیکن اس کے بعد حروف استعلاء (ص۔ ض۔ ط۔ ظ۔ غ۔ ق۔ خ) میں سے کوئی ایک حرف ہو جیسے مِرْصَاداً
ر۔ ساکن ہو اور اس کے پہلے کسرہٴ عارض ہو جیسے اِرْجِعِی
ر۔ میں ترقیق کی چند صورتیں
ر۔ ساکن ہو اور اس کے ما قبل پر زیر ہو جیسے اِصْبِرْ
ر۔ ساکن ہو اور اس سے پہلے کوئی حرف لین ہو جیسے خَیرْ - طُوْرْ
ل۔ میں تفخیم کی چند صورتیں
ل۔ سے پہلے حروف استعلاء میں سے کوئی حرف واقع ہو جیسے مَطْلَعِ الْفَجْرِ
ل۔ لفظ ”اللہ“ میں ہو اور اس سے پہلے زبر ہو جیسے قَالَ اللّٰہُ
ل۔ لفظ اللہ میں ہو اور اس سے پہلے پیش ہو جیسے عَبْدُاللّٰہِ
ل۔ میں ترقیق کی صورتیں
ل۔ سے پہلے حروف استعلاء میں سے کوئی حرف نہ ہو جیسے کَلِمْ
ل۔ سے پہلے زیر ہو جیسے بِسْمِ اللّٰہ
وقف و وصل
کسی عبارت کے پڑھنے میں انسان کو کبھی ٹھہرنا پڑتا ہے اور کبھی ملانا پڑتا ہے۔ ٹھہرنے کا نام وقف ہے اور ملانے کا نام وصل ہے۔
وقف
وقف کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ کبھی یہ وقف معنیٰ کے تمام ہوجانے کی بناء پر ہوتا ہے اور کبھی سانس کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے۔ ۔ ۔ ۔ دونوں صورتوں میں جس لفظ پر وقف کیا جائے اس کا ساکن کر دینا ضرورى ہے۔
وصل
وصل کے لئے آخرى حرف کا متحرک ہونا ضرورى ہے۔ تاکہ اگلے لفظ سے ملا کر پڑھنے میں آسانی ہو۔ ورنہ ایسی صورت پیدا ہو جائے گی جو نہ وقف قرار پائے گا نہ وصل۔
وقف کی مختلف صورتیں
حرف ”ت“ پر وقف :
اس صورت میں اگر ”ت“کھینچ کر لکھی گئی ہے تو اسے”ت“ ہی پڑھا جائے گا جیسے صلوات اور اگر اس طرح گول”ۃ“ لکھی گئی ہے تو حالت وقف میں ”ہ“ ہو جائے گی جیسے صلواۃ۔ حالت وقف میں صلوٰہْ ہو جائے گی۔
تنوین پر وقف:
اس صورت میں اگر تنوین دو زیر اور دو پیش سے ہو تو حرف ساکن ہو جائےگا اور اگر دو زبر ہو تو تنوین کے بدلے الف پڑھا جائےگا مثال کے طور پر ”نُوْرٌ“ اور”نُوْرٍ“ کو ”نورْ“ پڑھا جائے گا اور ”نوراً“ کو”نُورَا“ پڑھا جائے گا۔
وقف و وصل کی غلط صورتیں :
واضح ہوگیا کہ وقف و وصل کے قانون کے اعتبار سے حرکت کو باقی رکھتے ہوئے وقف کرنا صحیح ہے اور سکون کو باقی رکھتے ہوئے وصل کرنا صحیح نہیں ہے۔
وقف بحرکت:
اس کا مطلب یہ ہے کہ وقف کیا جائے اور آخرى حرف کو متحرک پڑھا جائے جیسے مَالِکِ یومِ الدِّینِ، اِیاکَ نَعْبُدُ۔
وصل بسکون:
اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے لیکن پہلے لفظ کے آخر حرف کوساکن رکھا جائے جیسے اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیمْ#مَالِکِ یومِ الدِّینْ۔ کوایک ساتھ ایک سانس میں پڑھ کر رحیم کی میم کو ساکن پڑھا جائے۔
وقف کے بعد؟
کسی لفظ پر ٹھہرنے کے لئے یہ بہر حال ضرورى ہے کہ اسے ساکن کیا جائے لیکن اس کے بعد اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں۔
1۔ حروف کو ساکن کر دیا جائے اسے اسکان کہتے ہیں جیسے اَحَدْ
2۔ ساکن کرنے کے بعد پیش کی طرح ادا کیا جائے اسے اشمام کہا جاتا ہے جیسے نَسْتَعِینْ۔
3۔ ساکن کرنے کے بعد ذرا سا زیر کا انداز پیدا کیا جائے اسے ”رَوم“ کہا جاتا ہے جیسے عَلَیہ۔
4۔ ساکن کرنے کے بعد زیر کو زیادہ ظاہر کیا جائے اسے اختلاس کہتے ہیں جیسے صَالِحْ۔
اقسام وقف
کسی مقام پر ٹھہرنے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔
1۔ اس مقام پر ٹھہرا جائے جہاں بات لفظ و معنی دونو ں اعتبار سے تمام ہو جائے۔ جیسے مَالِکِ یومِ الدِّینِ# کہ اس جملہ کو بعد کے جملہ اِیاکَ نَعْبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینُ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
2۔ اس مقام پر ٹھہرا جائے جہاں ایک بات تمام ہو جائے لیکن دوسری بھی اس سے متعلق ہو جیسے مِمَّا رَزَقْنَاہُم ینْفِقوُنْ کہ اس منزل پر یہ جملہ تمام ہو گیا ہے لیکن بعد کا جملہ ”وَالّذِینَ یومِنُونَ“۔ ۔ ۔ بھی انہیں لوگوں کے اوصاف میں سے ہے جنکا تذکرہ گذشہ جملہ میں تھا۔
3۔ اس مقام پر وقف کیا جائے جہاں معنی تمام ہو جائے لیکن بعد کا لفظ پہلے ہی لفظ سے متعلق ہو جیسے ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ پر وقف کیا جاسکتا ہے لیکن ”رَبِّ العٰلَمِین“ لفظی اعتبار سے اس کی صفت ہے، الگ سے کوئی جملہ نہیں۔
4۔ اس مقام پر وقف کیا جائے جہان نہ لفظ تمام ہونہ معنیٰ جیسے ”مَالِکِ یومِ الدِّین“ میں لفظ ”مالک“ پر وقف کہ یہ بغیر ”یومِ الدِّین“ کے نہ لفظی اعتبار سے تمام ہے اور نہ معناً ایسے مواقع پر وقف نہیں کرنا چاہئے۔
وقف جائز و لازم
وقف کے مواقع پر کبھی کبھی بعد کے لفظ سے ملا دینے میں معنی بالکل بدل جاتے ہیں جیسے ”لَمْ یجْعَلْ لَہُ عِوَجاً# قَیماً“ کہ عِوَجاً اور قَیماً کے درمیان وقف لازم ہے ورنہ معنی منقلب ہو جائیں گے پروردگار یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہمارے قانون میں کوئی کجی نہیں ہے۔ اور وہ قیم (سیدھا) ہے اب اگر دونوں کو ملا دیا گیا تومطلب یہ ہوگا کہ ہمارى کتاب میں نہ کجی ہے اور نہ راستی۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بالکل غلط ہے۔ ایسے وقف کو وقف لازم کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ جملہ اوقاف جائز ہیں۔
رموز اوقاف قرآن
دنیا کی دوسرى کتابوں کی عبارتوں کی طرح قرآن مجید میں بھی وصل و وقف کے مقامات ہیں۔ بعض مقامات پر معنی تمام ہوجاتے ہیں اور بعض جگہوں پر سلسلہ باقی رہتا ہے اور چونکہ ان امور کا امتیاز ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے حضرات قاریان کرام نے ان کی جگہیں معین کر دی ہیں اور ان کے احکام و علامات بھی مقرر کر دیئے ہیں تاکہ پڑھنے والے کو سہولت ہو اور وقف کی جگہ وصل یا وصل کی جگہ وقف کرکے معنی کی تحریف کا خطاکار نہ ہو جائے۔
ان مقامات کے علاوہ کسی مقام پر سانس ٹوٹ جائے تو آخرى حرف کو ساکن کر دے اور دوبارہ پہلے لفظ سے تلاوت شروع کرے تاکہ کلام کے تسلسل پر کوئی اثر نہ پڑے۔
عام طور پر قرآن کریم میں حسب ذیل رموز و علامات ہوتے ہیں
O۔ جہاں بات پورى ہو جاتی ہے وہاں یہ علامت ہوتی ہے۔
م۔ اس مقام پر وقف لازم ہے ملا کر پڑھنے سے معنی بدل جائیں گے۔
ط۔ وقف مطلق کی علامت ہے یہاں وقف کرنا بہتر ہے۔
ج۔ وقف جائز کی علامت ہے ملا کر بھی پڑھا جاسکتا ہے لیکن وقف کرنا بہتر ہے۔
ز۔ ٹھہرنا جائز ہے البتہ ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔
ص۔ وقف کرنے کی رخصت و اجازت دی گئی ہے۔ مگر اس شرط کے دوبارہ ایک لفظ کو پہلے سے دوہرا کر شروع کرے۔
صل۔ قد یوصل کا خلاصہ ہے۔ یعنی یہاں کبھی ٹھہرا بھی جاتا ہے اور کبھی نہیں لیکن ٹھہرنا بہتر ہے۔
صلی۔ الوصل اولیٰ کا خلاصہ ہے یعنی ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔ اگر چہ وقف کرنا بھی غلط نہیں ہے۔
ق۔ قِیل علیہ الوقف کا خلاصہ ہے یہاں نہیں ٹھہرنا چاہئے۔
قف۔ یہ علامت ہے کہ یہاں وقف ہونا چاہئے۔
س یا سکتہ۔ سکتہ کی نشانی ہے کہ یہاں قدرے ٹھہر کر آگے بڑھنا چاہئے لیکن سانس نہ ٹوٹے۔
وقفہ۔ لمبے سکتہ کی نشانی ہے یہاں سکتہ کی بنسبت زیادہ ٹھہرنا چاہئے مگر سانس نہ توڑے۔
لا۔ اگر درمیان آیت میں ہو تو وقف نہیں کرنا چاہئے اور آخر آیت پر ہو تو اختیار ہے ٹھہرے یا نہ ٹھہرے۔
معانقہ ہے۔ یعنی دو لفظوں یا عبارتوں کے قبل یا بعد یہ علامت ہوتی ہے ان میں ایک جگہ وقف کرنا چاہئے اور ایک جگہ وصل۔
ک۔ کذٰلک کا مختصر ہے یعنی اس وقف کا حکم اس کے پہلے والے وقف کا ہے۔ وہ لازم تھا تو یہ بھی لازم ہے اور وہ جائز تھا تو یہ بھی جائز ہے۔
کیفیت حرکات
وقف کے ساکن کی طرح حرکات کو بھی ادا کرنے کے مختلف طریقے ہیں جن میں مشہور اشباع اور امالہ ہے۔
اشباع
یعنی حرف کے زیر یا پیش کو اتنا زور دے کر ادا کیا جائے کہ۔ ی“ اور ”واوٴ“ کی آواز پیدا ہو جائے۔ اور یہ اس وقت ہوگا جب پیش سے پہلے زبر یا پیش ہو اور اس کے بعد والے حرف پر بھی کوئی حرکت ہو جیسے ”اِیاکَ نَعبُدُ وَاِیاکَ نَسْتَعِینْ“ کے نعبد کی دال کے پیش کو اشباع کے ساتھ ادا کیا جائےگا یعنی دال میں واوٴ کی آواز پیدا کی جائے گی۔ اور ”اَنَّااَنْزَلنَاہُ“ کی ”ہ“ میں یہ بات نہ ہوگی کہ اس سے پہلے الف ساکن ہے۔
اسی طرح جب زیر سے پہلے زیر ہوگی اور بعد میں بھی کوئی حرکت ہوگی تو اشباع کیا جائے گا جیسے ”مَالِکِ یومِ الدِّینْ“ ”فَصَلِّ لِرَبِّکَ“ کہ مالکِ کے ”کاف“ اور لربک کے لام میں اشباع کیا جائے گا۔
امالہ
زبر میں اشباع نہیں ہوتا وہاں امالہ ہوتا ہے یعنی جب واوٴ یائے ساکن سے پہلے زبر آئے تو زبر کو اس ”واوٴ“ یا ”ی“ کی طرف جھکا کراس طرح ادا کریں کہ ”واوٴ“یا ”ی“ کی کچھ آواز نکلے جیسے یوْمْ - غَیرْ۔
ضمیر
احکام حروف و حرکات کے بعد یہ دیکھنا ضرورى ہے کہ احکام کیا ہونگے اور اسے کس مقام پر ساکن کیا جائےگا اور کہاں باقاعدہ یاد کیا جائےگا۔
ضمیر سے مراد وہ کلمات ہیں جو نام کے بدلے اختصار کو طور پر استعمال ہوتے ہیں جیسے۔ ہُ۔ ہٖ، وغیرہ
اس ضمیر ”ہُ“ کا قانون یہ ہے کہ اگر اس سے پہلے زیر زبر یا پیش ہوتو اسے با قاعدہ ادا کیا جائےگا جیسے َلہُ - بِہِ - کُلُّہُ وغیرہ کہ یہاں ’ہ‘ کو اشباع کے ساتھ باقاعدہ ادا کیا جائے گا اور اگر ہ سے پہلے حرف ساکن ہے تو اسے مختصر کر دیا جائےگا جیسے مِنْہُ - فِیہِ - اِلَیہِ کہ یہاں ہ کا تلفظ صرف ایک جھٹکے سے ہوگا اور بس۔
 ------------------
علم تجوید (3) اغراض و مقاصد اور فوائد
ہم جان چکے کہ قرآن کریم اللہ عز وجل کا کلام ہے اس کے حقوق میں ایک اہم ترین اور اولین حق یہ ہے کہ صحت الفاظ اور ضروری قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے۔
قران میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلًا "۔ (المزمل:۴۴)
ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ نازل کیا ہے
اور ترتیل ہی کہ ساتھ پڑھنے کا حکم بھی فرمایا ہے؛ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہے:
"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا" (المزمل:۴۴)
اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔
ترتیل کی تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق حروف کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اور وقفوں کی پہچان ہے تو ترتیل سے قرآن کریم پڑھا جائے گا تب ہی اس کی تلاوت کا حق ادا ہوگا اور ایسی ہی تلاوت پر حسنات اور انعامات خدا وندی کا وعدہ ہے؛ لیکن اگر تلاوت تجوید کی رعایت کے ساتھ نہیں؛بلکہ اس کے خلاف ہے تو اس سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا،
حدیث میں ہے
"زَیِّنُوالْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ"۔
ابو داؤد،استحباب الترتیل فی القرأت،حدیث نمبر:۱۲۵۶
اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو ۔
"حَسِّنُو الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُالْقُرْاٰنَ حُسْنًا"۔
شعب الایمان
اچھی آواز سے قرآن کوپڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کریم کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔
"اِقْرَؤُالْقُرْاٰنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَاَصْوَاتَھَا"۔
شعب الایمان،حدیث نمبر: ۲۵۴۱
قرآن کریم کو عربی لحن میں پڑھو۔
اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھا جانا اللہ کے حکم پر عمل ہے جو باعث اجر و ثواب ہے۔
اسکے بعد ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ محقیقین علماء کے مطابق تجوید کے بغیر یا تجوید کے خلاف قرآن پڑھنا گناہ ہے، بغیر تجوید قرآن پڑھنے والامستحق ثواب نہیں ہوتا؛ بلکہ گناہ گار ہوتا ہے، علامہ محقق جزری فرماتے ہیں۔
وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ لَازِمٌ
مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ اٰثْمٌ
لِاَنَّہُ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلاَ وَھٰکَذَا امِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا
ترجمہ:تجوید کا حاصل کرنا ضروری ولازم ہے۔
جو شخص تجوید سے قرآن نہ پڑھے گناہگار ہے ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی نے تجوید ہی کے ساتھ اس کو نازل فرمایا ہے۔
اور اسی طرح اللہ تعالی سے ہم تک پہنچا ہے۔
(مقدمہ الجزریۃ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت ہے کہ وہ خود کسی شخص کو قرآن شریف پڑھارہے تھے اس نے اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآء،کو مد کے بغیر پڑھا تو آپ نے اس کو ٹوکا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا ہے،
تو اس نے دریافت کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کس طرح پڑھایا ہے
تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی اور لِلْفُقَرَآءپر مد کیا
غور کرنے کا مقام ہے کہ حرف یا حرکت کے چھوٹنے یا بدلنے پر نہیں صرف مد کے چھوٹنے پر شاگرد کو ٹوکا جارہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے مطابق پڑھ کر سنایا جارہا ہے؛ تاکہ وہ حرف کو کھینچ کر پڑھنے میں بھی خلاف سنت عمل کا مرتکب نہ ہو۔ ہم غیر عربی لوگ اپنے انداز گفتگو اور اپنے تلفظ کے مطابق قرآن کو پڑھتے ہیں جیسا کہ ہماری اردو زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ ان کے رسم الخط سے مختلف ہے مثلا ظاہر کو زاہر، مطلب کو متلب، فضل کو فزل، صورت کو سورت، مثال کو مسال بولتے ہیں اور اس کو غلطی شمار نہیں کیاجاتا اور نہ ہی عیب سمجھا جاتا ہے ؛لیکن قرآن کریم میں "ض،ظ" کو "ز ،ط" کو "ت، ص" کو "ث ،ع" کو "ء، ح" کو "ہ" پڑھنا زبردست غلطی ہے ،جس کو علماء نے لحنِ جلی (واضح غلطی) سے تعبیر کیا ہے
#لحن : غلطی
تجوید کے خلاف قرآن مجید پڑھنے کو لَحَنْ کہتے ہیں،لحن کا معنی "غلطی" ہے۔
لحن دو قسم کی ہوتی ہے(۱)لَحَن جَلِیْ(۲)لَحَن خَفِیْ
لحن جلی بڑی غلطی کو کہتے ہیں، حروف کی لازمی صفات یا حرف کے مغرج وغیرہ میں غلطی کرنا ،بڑی غلطی ہے۔اور یہ پانچ طرح کی ہیں۔
1- حرفوں میں تبدیلی کرنا،جیسے اَلْحَمْدُ کی جگہ اَلْھَمْدُ پڑھنا۔ (ح کی جگہ ھ )
2- حرکتوں کے اندر تبدیلی کرنا جیسے اَنْعَمْتَ کی جگہ اَنْعَمْتُ پڑھنا۔ (زبر کے بجائے پیش)
3- متحرک کی جگہ ساکن ،جیسے اَنْشَاَھَا کی جگہ اَنْشَاْھَا پڑھنا یا ساکن کی جگہ متحرک مثلا خَلْقًا کی جگہ خَلَقًا پڑھنا۔ (متحرک کے بجائے ساکن)
4- حرفوں کو گھٹا دیناجیسے لَمْ یُوْلَدْ کو لَمْ یُلَدْ یا حر فوں کو بڑھادیناجیسے لَمْ یَلِدْ کی جگہ لَمْ یَلِیْدْ پڑھنا۔
5- مشدد حرفوں کو مخفف سے بدلنا جیسے اِیَّاکَ کی جگہ اِیَاک پڑھنا یا مخفف کی جگہ مشدد کرکے پڑھنا جیسے اَظْلَمَ کو اَظَّلَمَ وغیرہ۔
لحن جلی کرکے قرآن شریف پڑھنا حرام ہے۔ بسا اوقات اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے اس سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔
"لحن خفی" چھوٹی غلطی کو کہتے ہیں ،یعنی صفاتِ محسنہ (وہ صفات جو اچھی سمجھی جاتی ہیں )میں غلطی کرنا اور یہ کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔،مثلا کسی حرف کو موٹا کرنے کے بجائے باریک پڑھ دیا،یا غنہ چھوڑ دیا، یا مد نہیں کیا وغیرہ
لحن خفی سے قرآن شریف پڑھنا مکروہ ہے، اس لیے اس سے بھی بچنا ضروری ہے ۔
اس تمام کے خلاصے سے ہمیں علم تجوید پڑھنے کی غرض اور اصل# مقصد جو سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ
قرآن کریم کو اسی طرح پڑھاجائے جس طرح وہ نازل ہوا ہے یعنی حروف کی ادائگی مخارج وصفات اور دیگر قواعد کے اعتبار سے درست ہو ۔اور تجوید کے بغیر یا تجوید کے خلاف نا پڑھا جائے اور لحن یعنی غلطی سے بچا جائے۔
تجوید کا #حکم
تجوید کے تمام قواعد کا پڑھنا فرض کفایہ ہے اور قرآن مجید صحیح پڑھنے کے لیے جس قدر قواعد ضروری ہیں کہ اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی ان کا جاننا "فرض عین" ہے ۔
<https://mastooraat.blogspot.com/2019/01/blog-post_49.html>

وندے ماترم اور جن گن من ادھنایک کا گانا کیسا ہے؟

وندے ماترم اور جن گن من ادھنایک کا گانا کیسا ہے؟
مندرجہ ذیل پوسٹ پر وضاحت مطلوب ہے:
"(سوال نمبر 106)
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسٔلہ کے بارے میں آج کل اکثروبیشتر اسکولوں میں اور خاص کر 26 جنوری و 15 اگست کو جو ترانے یعنی 'وندے ماترم' اور 'جن گن من ادھنایک' جو گاۓ جاتے ہیں انکا مسلمان اور مسلم بچوں کا گانا کیسا ہے اور ایسے پروگرام میں شرکت کرنا کیسا ہے کیا ان ترانوں کے الفاظ و معانی میں کفر وشرک کے کلمات ہیں وضاحت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
فقط والسلام
مشاہد الاسلام امام بلال مسجد صدیق پورہ پلکھوا ضلع ہاپوڑ یوپی

________________________
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
سوال کا شرعی حکم بتایا جائے اس سے قبل بہتر ہوگا کہ وندے ماترم کا ترجمہ دیکھ لیا جائے۔ 
ترجمہ: "تیری عبادت کرتا ہوں اے میرے اچھے پانی، اچھے پھل، بھینی بھینی خشک جنوبی ہواوں اور شاداب کھیتوں والی میری ماں، حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گنجان درختوں والی، میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی، خوشی دینے والی، برکت دینے والی ماں، میں تیری عبادت کرتا ہوں اے میری ماں.تیس کروڑ لوگوں کی پرجوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازو میں سمیٹنے والی تلواریں،کیا اتنی طاقت کے بعد بھی تو کمزور ہے اے میری ماں۔ تو ہی میرے بازو کی قوت ہے، میں تیرے قدم چومتا ہوں اے میری ماں۔ تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا مذہب ہے، تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے، تو ہی جسم کی روح ہے، تو ہی بازو کی طاقت ہے، تو ہی دلوں کی حقیقت ہے، تیری ہی محبوب مورتی مندر میں ہے، تو ہی درگا،دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملا ہے، تو ہی کنول کے پھولوں کی بہار ہے، تو ہی پانی ہے، تو ہی علم دینے والی ہے، میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں، غلام کے غلام کا غلام ہوں، اچھے پھل والی میری ماں ۔ میں تیرا بندہ ہوں، لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی، آراستہ پیراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں، میں تیرا بندہ ہوں۔ اے میری ماں میں تیرا غلام ہوں۔" (یہ اردو ترجمہ، آل انڈیا دینی، تعلیمی کونسل لکھنو کا شائع شدہ ہے)۔
مضامین ڈاٹ کام پورٹل پر ایک کالم نگار لکھتے ہیں: "آپ جانتے ہیں کہ وندے ماترم بنگلہ زبان کے مشہور ناول نگار بنکِم چندر چٹرجی کی 1882 میں لکھی ناول 'آنندمٹھ' میں شامل ہے۔ وندے ماترم ناول کا ایک حصہ ہے۔ لیکن چونکہ چٹرجی مشہور شاعر بھی تھے لہذا اسے پہلی مرتبہ انہوں نے7؍ نومبر1875 میں لکھا تھا۔ لیکن باضابطہ طور پر روندرناتھ ٹیگور نے 1896 میں کانگریس کی منعقدہ میٹنگ، کلکتہ میں اسے پہلی مرتبہ گایا تھا۔ یہ درست ہے کہ کانگریس اجلاس میں اس نظم کو سب سے پہلے رابندر ناتھ ٹیگور نے ہی آواز دی تھی اور اس کا دھن بھی بنایا تھا مگر جب اس نظم کو قومیت کی علامت بناکر پیش کیا جانے لگا تو انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے 1937 میں سبھاش چندر بوس کو ایک خط بھی لکھا کہ ”وندے ماترم کا بنیادی عقیدہ دیوی درگا کی پرستش ہے اور یہ اتنا واضح ہے کہ اس پر کسی قسم کی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بیشک بنکم نے درگا کو متحدہ بنگال کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا ہے مگر کسی مسلم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ حب الوطنی کے نام پر دس ہاتھوں والی درگا کی عبادت کرے" (بحوالہ: رابندر ناتھ کے منتخبہ خطوط‘ مطبوعہ کیمبریج یونیورسٹی)
(ماخوذ از مضامین ڈاٹ کام کالم نگار محمد آصف)
اس کے حوالے سے عدلیہ نے کیا کہا ہے ایک اردو "روزنامہ اخبار تاثیر ای پیپر" کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:
(2017  فروری 17 طارق حسن) (یو این آئی) سپریم کورٹ نے قومی گیت 'وندے ماترم' کو قومی ترانہ 'جن گن من' کے برابر تسلیم کرنے سے متعلق ایک عرضی کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کردیا کہ قومی گیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جسٹس دیپک مسرا، جسٹس آر بھانومتی اور جسٹس ایس ایم ملک ارجن گوڑا کی بنچ نے بی جے پی رہنما اور سینئر وکیل اشونی اپادھیائے کی اس عرضی کو مسترد کردیا جس میں انہوں نے قومی ترانہ، قومی پرچم اور قومی گیت کو فروغ دینے کے لئے آئین کی دفعہ 51 اے کے تحت قومی پالیسی بنانے کی اپیل کی تھی۔ جسٹس مشرا نے اپنے مختصر حکم میں کہا کہ دفعہ 51 اے میں صرف قومی پرچم اور قومی ترانہ کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے جہاں تک قومی گیت (وندے ماترم) کی بات ہے تو ہم اس پرکوئی نئی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے دفاتر، عدالتوں، ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں قومی ترانہ کو لازمی قرار دینے سے متعلق عرضی مسترد کردی۔ حالانکہ اسکولوں میں قومی ترانہ کو لازمی قرار دینے سے متعلق عرضی پر الگ سے غور کرنے کے لئے حامی بھر دی۔ جسٹس مشرا نے کہا کہ اسکولوں میں تمام کام کے دنوں میں قومی ترانہ گانے کے سلسلے میں عرضی کو چھوڑ کر دیگر تمام عرضیاں مسترد کردی جاتی ہیں۔ دیکھیے (مذکورہ روزنامہ برقی اشاعت)
لہذا رائٹر کے بیان کردہ شرکیہ الفاظ نیز عدلیہ کی وضاحت سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ قومی گیت "وندے ماترم" کہنے کی شرعا بالکل اجازت نہیں. اور نہ کوئی خارجی مجبوری ہے. ہاں البتہ جن گن جو قومی ترانہ ہے. اس کی ساخت اور تفصیلات سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسے گانے  میں کوئی حرج نہیں! یہاں اس  کے حوالے سے بھی چند باتیں ملاحظہ فرمالیں!
اولا: یہ کہ یہ "جن گن من" ہندوستان کا قومی ترانہ نوبل انعام یافتہ مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا ہے جو پہلے بنگالی زبان میں تھا. بعد میں اسے سنسکرت کا لہجہ دے کر سنوارا گیا۔ اس ترانے کی وجہ تخلیق یہ ہے کہ جب کنگ جارج پنجم کے  ہاتھوں ہندوستان کی حکومت سپرد ہوئی، اوراس کی تاج پوشی کا وقت آیا؛ تو اس وقت شاعر نے اسے بطور نذرانہ عقیدت ان کے سامنے پیش کیا. دیکھیے ("جن من گن: وکی پیڈیا)
ثانیا: یہ اور بات ہے کہ جب آنجہانی رابندر ناتھ ٹیگور سے تقریباً سولہ سترہ سال بعد اس کی وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ خدا کی حمد ہے. حالانکہ اس کی تردید کے لیے خود لفظ "ادھینایک" اور لفظ "توَا شبھ آسیش" نیز وقت پیشکش یہ سبھی اس کی نفی کر نے کے لیے کافی ہوں. آپ جب لغت سے رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ "ادھینایک" کا مطلب ہی ہے "Lord of rule" ۔ یعنی سربراہ قانون و حاکم؛ جو اس وقت کنگ جارج پنجم تھے. نیز "توا" بمعنی تیرے لیے ہوتا ہے. اور جب اسے پیش کیا جارہا تھا تو اس وقت ایک حاکم کی تاجپوشی ہورہی تھی. جن کی عظمت وسربلندی کی دعائیں مانگی گئی ہیں. انڈین نیشنل کانگریس: سنہ انیس سو گیارہ کے اجلاس میں یہ نظم پہلی دفعہ گائی گئی۔ سنہ انیس سو سینتالیس میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اسے ہندوستان کے قومی ترانے کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چوبیس جنوری سنہ انیس سو پچاس میں جب آئین ساز اسمبلی نے اس ترانے کو آئینی طور پر قومی ترانے کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تو لفظ سندھ کو ”سندھو“ سے تبدیل کردیا گیا۔ ایسا درحقیقت اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ سندھ پاکستان کا حصہ بن چکا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ابھی تک لفظ "سندھ" ہندوستان کے قومی ترانے میں جوں کا توں موجود ہے۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی ہے کہ ارباب اختیار نے اس کو ترویج دینے اور عام کرنے کے لئے موثر اقدامات نہیں کرسکے۔ چنانچہ آج بھی ملک عزیز کے قومی ترانے کےالفاط سبھی لفظ بلفظ جوں کا توں درست نہیں ہیں اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ  ممبئی کے ایک پروفیسر نے ترانے میں لفظ سندھ کے استعمال پر اعتراض کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائر کردی جس میں یہ موقف اختیار کیا کہ قومی ترانے میں لفظ "سندھ" کا استعمال کیا جانا درست نہیں کیونکہ سندھ پاکستان کے ایک صوبے کا نام ہے بلکہ سندھ کی جگہ ”سندھو“ کا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے جو یہ ایک دریا کا نام ہے۔ دیکھیے (مضمون" ہندوستان کا قومی ترانہ اور سندھ" از: نجیم شاہ اردو پاور پورٹل) مزید دیکھئے (مضمون نگار شکیل اختر بی بی سی نیوز پورٹل)
ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی القاسمی صاحب کا اس موضوع پر ایک تحقیقی مضمون بھی شایع ہوا ہے. اس کا بھی ایک اقتباس یہاں کافی سودمند ہوگا. وہ لکھتے ہیں:
"ٹیگور کا یہ ترانہ سب سے پہلے 27 دسمبر1911 کو انڈین نیشنل کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھا گیا۔ اس وقت برطانوی بادشاہ جارج پنجم ہندوستان کے دورے پر تھا، لہذا اجلاس کی اسی نشست میں بادشاہ کے لیے استقبالیہ تجویز بھی منظور ہوئی۔ 28 دسمبر کو برطانیہ کے اخبار 'اسٹیٹسمین' نے یہ خبر لگائی کہ "بادشاہ کے استقبال میں بنگلہ شاعر ٹیگور نے استقبالیہ نظم کہی" برطانوی استعمار کے زیر اثر چلنے والے دیگر اخبارات نے بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کی تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ ٹیگور بھی 'استعمار حامی' ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی خود ہندؤں میں یہ بحث وقتا فوقتاً اٹھتی رہتی ہے۔ ماضی قریب میں کلیان سنگھ اور جسٹس کاٹجو اس موضوع کو ہوا دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ برطانوی اخبارات نے اس اجلاس کی رپورٹنگ کرتے ہوے اس دجل وفریب سے کام لیا جس کا ہم آج ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بادشاہ کے استقبال میں جو گانا پڑھا گیا تھا وہ ہندی میں رامبوج چودھری نے لکھا تھا، اس کے پہلے شعر کا آغاز "وہ بادشاہ ہمارا" سے ہوتا ہے۔) امرتا بازار پتریکا، 28 دسمبر 1911 (اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ ترانہ شرکیہ کلمات پر مبنی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود ٹیگور کا مذہبی رجحان کیا تھا۔ اگر ٹیگور مشرک تھا تو یہ ترانہ بھی بے شک مشرکانہ ہے، لیکن ٹیگور کے لٹریچر میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ پروفیسر جان واٹسن نے اپنی کتاب 'ٹیگور کے مذہبی نظریات' میں ایک خط نقل کیا ہے جس میں ٹیگور لکھتے ہیں: "نہ میں کسی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتا ہوں اور نہی میں کسی خاص عقیدے پر کاربند ہوں، میں اتنا جانتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے بنایا ہے اس نے اپنے کو میرا بنالیا ہے" جان واٹسن لکھتے ہیں کہ "ٹیگور کا مذہب خدا اور فطرت سے محبت تھی"۔ مورخین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے۔ البتہ وہ اسی فلسفے سے متاثر تھے جس سے ہمارے بہت سے غالی صوفیاء بھی متاثر رہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے خدا کے قائل تھے جو بے نیاز ہو، زمان ومکان سے وراء ہو اور کائنات کا تنہا خالق وہادی ہو۔ البتہ وہ وحدت الوجود کے عقیدے سے سخت متاثر تھے۔ اس عقیدے پر خود ہمارے یہاں صدیوں بحث ہوئی ہے، لیکن اکابر دیوبند نے دونوں جانب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوے سکوت کو ترجیح دی ہے۔ ٹیگور فلسفیانہ تصوف سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے مذہب اور خدا کے تعلق سے منقول بہت سے اقوال سے ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ اسی تصوف سے ماخوذ تھے۔ غالی صوفیاء کے یہاں ایک موضوع حدیث کا بڑا رواج رہا ہے: "كنت كنزا مخفيا…" میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے جانا جائے لہذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا"۔ ٹیگور نے اس سے ملتی جلتی ہی ایک بات کہی ہے کہ: ”خدا نےتخلیق کے ذریعے اپنے کو جانا“۔ ایک دوسرے موقع پر وہ کہتے ہیں کہ "اصل عبادت اس کے سامنے کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے“۔ ٹیگور کے ترانہ سے متعلق تنازع ان کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا، جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپنے یہ ترانہ شاہ جارج پنجم کے لیے لکھا ہے، انھوں نے جواب دیا کہ: "میں صرف اپنی ہی بے عزتی کرتا اگر میں بادشاہ کی تعریف کرتا، یہ میری حماقت ہوتی اگر میں جارج کو – چہارم ہو کہ پنجم–خدائے صمد) کہ جس نے ہمیشہ اپنے طالبوں کی راہنمائی کی ہے (قرار دیتا"۔ اس اقتباس سے اندازہ ہوا کہ نہ تو ٹیگور نے وہ ترانہ شاہ جارج کے لیے لکھا تھا اور نہی بھارت ماتا نامی کسی معبود کے لیے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹیگورکا خدا کے بارے میں کیا تصور تھا۔ اب آئیے 'امریتا بازار پتریکا' کی 28 دسمبر1911  کی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے: "کانگریس کی کارروائی کا آغاز بنگلہ میں لکھی حمد سے ہوا" دیکھیے (رسالہ ہندی: اشاعت: 25 اگست 2017)
ان تمام باتوں سے یہ بھی حقیقت عیاں ہوگئی کہ سایل اور مجیب کی آپسی گفتگو نیز معانی ومفاہیم اور پس منظر وغیرہ سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ یا تو "حاکم" کی شان میں لکھا گیا قصیدہ تھا یا پھر "خدا کی حمد" تھی. بھارت ماتا یا کسی اور ماتا و دیوی کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آتی!
ثالثا: یہ کہ لفظ "جے" یہ کسی مذہبی علامت پر اصرار نہیں بتلاتا؛ بلکہ اسکے معانی "جیت" "فتح" اور"عظمت" وغیرہ کے آتے ہیں. دیھکیے (ہندی شبد کوش)
یہاں ہم ایک بچوں کے لئے لکھنے والے شاعر جناب الف عین لائبریرین مہاراشٹر کا منظوم ترجمہ پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں "جن گن من۔۔" کا منظوم ترجمہ
"ہر ذہن و دل پہ یا رب پر تیری ہی حکمرانی بھارت کا ہو مقدّر ہرگام کامرانی!
پنجاب ہوکہ مہاراشٹر، بنگال یا اڑیسہ گجرات و سندھ کی ہو یا ہو زمیں دکن کی!
بامِ فلک کو چھوتے یہ وندھیہ یہ ہماچل گنگ و جمن کی موجیں، بحرعرب کا پانی؛
ہر چیز پر ہے گویا تیرا نشان، عظمت! ہرلہر میں ہے تیرا ذکرِ مدام جاری تیرا ہی نامِ اقدس لے کر اٹھے زباں پرہم خیر کے ہیں طالب مصروفِ حمدِ باری خوشیاں جہان بھر میں تقسیم کرنے والے بھارت کا ہو مقدّر تاحشر کامرانی"
اسی طرح مزید "جن گن من" کا منظوم اردو ترجمہ پر مبنی قومی ترانہ رقم کیا جاتا ہے!
"حکمران ذہن و دل پر تیرا پیار ہے قسمت ہند کا تو ہی معمار ہے فتح و نصرت رہے تیری عظمت رہے جوش تجھ ہی سے ارض پنجاب میں اور مہاراشٹرا میں، سندھ و گجرات میں اور دکّن میں، اڑیسسا میں، بنگال میں گونجتا ہے ترا نام ہی ہر گھڑی وندھیاچل، ہمالہ کے کوہسار میں تیرے ہی نام کی ہیں ترنگیں گھلی اپنی گنگا کی، جمنا کی ہر دھار میں ہیں نمایاں ہر اک  سمت جلوے ترے جاودانی ہے سب میں ترے نام سے تیری تعریف و توصیف کرتے ہیں سب داستان تیری عظمت کی ہر دم بلب! سب کی بہبود میں تیرا کردار ہے قسمت ہند کا تو ہی معمار ہے
فتح و نصرت رہے، تیری عظمت رہے تو سلامت رہے، تو سلامت رہے
(نتیجہ فکر: ضمیر ہاشمی، نئئ دہلی، مطبوعہ: راشٹریہ سہارا اردو مجریہ ٢٦ جنوری ٢٠١٠)
اب ظاہر ہے کہ ہر ملک کا کوئی نہ کوئی ترانہ یا قومی گیت ہوتا ہے، جس میں وہ قوم اپنے وطن سے محبت وعقیدت کا اظہار کرتی ہے اور اس کے حق میں بہتری کی دعا کرتی ہے۔ اسی طرح یہ "جن گن من.." بھی وطن عزیز ہندوستان کا کا فقط ایک قومی ترانہ ہے، بظاہر تو اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جو عقیدے کے لحاظ سے غلط ہو، لہذا پڑھنے والے طلبا مسلمان ہوں یا غیر مسلم اپنے وطن سے محبت کا اظہار اگر ان مذکورہ ایام میں کریں؛ تو یہ جائز ہے۔ بشرطیکہ حقیقت یہی ہو اور کہیں سے بھی ڈھکے چھپے شرک کی کوئی بات اس میں واقعی نہ ہو! ویسے آپ دیگر اہل علم سے بھی ان باتوں کی تحقیق کرلیں. 
ھذا عندی والصواب عنداللہ
25 /1/2018
توقیر بدر القاسمی ڈائریکٹر المركز العلمی للإفتاء والتحقيق سوپول دربھنگہ بہار انڈیا
t51337.wordpress.com
t.me/fatawatouqueeri
+919122381549
+918789554895

 -----------------------
جواب وباللہ التوفيق:
آپ چاہے شاعر کی بت پرستی کے عدم ثبوت پہ تاریخی طور پر بحث کرلیں لیکن اس گیت کے“تخلیق کار “ کا “موحد“ نہ ہونا تو کنفرم ہے۔ ذات خدا سے محبت کرنے کا لفظی موہوم دعوی مفید نہیں، رسالت محمدی کے اقرار کے بغیر ذات باری پہ ایمان کے کھوکھلے دعوی کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ٹیگور کے عقیدہ خدا یا اس کے مذہبی جذبات سے اس کا موحد ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ “بنگال، اتکل، گنگا اور جمنا میں ذاتی باری تعالی کا رواں دواں ہونا“ شاعر کے شرکیہ وغیر اسلامی عقیدے کو بتانے کے لئے کافی ہے
اسلام نے ان چیزوں (ارض وسماء اور بحر و جبل وغیرہ) کو مظاہر قدرت باری قرار دیا ہے انہیں خود ذاتی باری کا مظہر خیال کرنا اسلام کے تصور  توحید کے خلاف ہے۔
صرف یہ ترانہ پڑھنے کا معاملہ نہیں ہے! بلکہ قومی جھنڈا کے سامنے احتراما کھڑا ہونا اور نیچے پ
ھول بچھانا بھی ہوتا ہے
یہ ہیئت بھی روح اسلام سے ہم آہنگ نہیں
پھر لفظ "تیری جئے ہو، تیری جئے ہو، تیری جئے ہو"
اگرچہ ہندی زبان کے اعتبار سے کچھ اور حقیقت رکھتا ہو
لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں “جے ہو“ ایک مخصوص متشدد مذہبی فرقے کا خاص نعرہ بن چکا ہے
حتی کہ مسلم نوجوانوں کو جبریہ اسلحہ کے زور پہ “جے شری رام“ کہلوایا جارہا ہے
اس لفظ کا عرفی استعمال مشرکین کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے، قومی ترانے میں اس کے بار بار تکرار سے کم از کم تشبہ بالکفار کا شائبہ تو ضرور ہے ۔
اس لئے "اختیاری مواقع" پہ مسلم طلبہ اس کے پڑھنے سے اجتناب کریں تو بہتر ہے ہاں اگر موقع محل کے اعتبار سے کہیں مجبوری والی صورت پیش آجائے تو وہاں گنجائش نکل سکتی ہے.
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
-----------------
سچی باتیں (۱۵؍جولائی ۱۹۳۲ء)۔۔۔ 
اپنے اور غیروں کا فرق۔۔۔ 
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ 
ہندو دُنیا میں اس وقت دو شخص ایسے ہیں، جو چینؔ وجاپانؔ، مصرؔوایرانؔ، جرمنیؔ وانگلستانؔ، امریکہؔ وفرانسؔ، سارے عالم میں معروف ومشہور ہیں۔ ایک گاندھی جی، دوسرے بنگال کے شاعر رابندر ناتھ ٹیگور۔ دونوں کے سیاسی خیالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ گاندھی جی، مغربی تہذیب وتمدن کے نام سے دُور بھاگنے والے، ٹیگور اس کی عظمت ومرتبہ کے قدردان۔ گاندھی جی ترک کے دلدادہ، ٹیگور وصل پر فریفتہ۔ ایک، مغرب سے تعلقات توڑنے کی فکر میں، دوسرا، اُنھیں جوڑنے کی دُھن میں۔ ایک کے خیال میں مغربی علوم وفنون کو دُور ہی سے سلام، دوسرے کے عقیدہ میں یہی علوم وفنون موجبِ نجات وفلاح۔ یہ اختلاف آج سے نہیں،  ۲۰ء سے برابر ظاہر و واضح ہے۔ جس وقت تحریکِ ترک موالات کا عین شباب تھا، اُس وقت بھی گاندھی جی کی سخت کوشش کے باوجود، ٹیگور یہی نہیں، کہ اس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ اس کی مضرت ومخالفت پر دلائل قائم کئے! اور آج بھی یہ اختلاف جوں کا توں قائم ہے۔
ایک طرف دونوں کی یہ علٰیحدگی ہے، بیگانگی ہے، دوسری طرف، جب ایک پوچھنے والے نے ٹیگورؔ سے پوچھا کہ آپ گاندھی جی کی بابت کیا رائے رکھتے ہیں، تو شاعر کے سینہ سے گویا محبت وعقیدت کا چشمہ اُبل پڑا۔ اور مدح کے قصائد، جوش میں آکر او ر جھوم جھوم کر پڑھنے اور سنانے شروع کردئیے:-
’’مجھے یقین ہے، بلکہ میرا یہ عقیدہ وایمان ہے کہ مہاتما جی، عصر حاضر کے سب سے بڑے انسان ہیں۔ میرے اس بیان میں ذرا بھی شاعرانہ مبالغہ نہیں……وہ اتنی بڑی شخصیت کے مالک ہیں، کہ اُن کی عظمت کا تصور بھی دُور بیٹھے کرنا مشکل ہے … وہ پیکرِشرافت ہیں، مجسمۂ ایثار ہیں، بے نفسی کا ایک سراپا ہیں! … اُن کی زندگی بچوں کی طرح معصومانہ ہے۔ سچائی کو اُن کے وجود پر ناز ہے، خدمتِ خلق اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُن کے رگ وریشہ میں سرایت کئے ہوئے ہے۔‘‘
(مسٹر بی کے رائے، ورلڈ لیڈر، مؤرخہ یکم؍ جولائی  ۳۲ء)
پورا مضمون، اسی انداز میں، کئی کالم میں ہے۔ یہاں نمونہ کے لئے چند سطریں نقل کردی گئیں۔
یہ ذِکر ہمسایوں کا تھا۔ اپنوں کا، اپنوں سے متعلق کیا حال ہے؟ آخر آپ کی قوم میں بھی تو ماشآءاللہ لیڈر ہیں، اتنے مشہور نہ سہی، پھر بھی اپنی قوم کے اندر خاصی شہرت رکھنے والے، ان کی روش آپس میں کیا ہے؟ ہندو لیڈروں میں تو ایک کی دوسرے کے ساتھ باوجود اختلاف خیال ومسلک، گرویدگی، عقیدتمندی اور شیفتگی کا یہ عالم ہے، آپ کی قوم کے بھی کوئی لیڈر صاحب کسی دوسرے زندہ لیڈر کا ذِکر اس لب ولہجہ میں، یا اس کے قریب قریب بھی فرماتے ہیں؟ مختلف پارٹیوں کے نہ سہی، ایک ہی پارٹی کے دو لیڈروں کی زبان سے، ایک دوسرے کا ذِکر کبھی اس انداز میں، سننے میں آیا ہے؟……اور اگر کہیں رائے یا مسلک میں اختلاف ہوگیا، تو بس پھر تو نہ پوچھئے کہ ایک کی زبان، دوسرے کے حق میں کسی تیز اور کتنی بے قابو ہوجاتی ہے! اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ساری دنیا اگر کرتی ہے، تو کیا کرے، ذرا ’’نیشنلسٹ ‘‘ مسلم پارٹی کے لیڈروں کے سامنے تو ان کا ذکر کر دیکھئے؟ مفتی کفایت اللہ صاحب کے علم وفضل کا قائل اگر ایک زمانہ ہے، تو ہواکرے، ذرا اُن کا نام ’’مسلم کانفرنس‘‘ کے کارکنوں کے سامنے تو کہئے! ہر مسلمان لیڈر، دوسرے مسلمان لیڈر کی نظر میں منافق ہے، اور جاہ پرست، غدّار ہے اور دشمنِ قوم۔ ملت فروش ہے اور رشوت خوار بددیانت ہے اور خائن، بے ایمان ہے اور دغاباز! سنتے ہیں، کبھی ہماری کتابیں بھی کف لسان کے فضائل سے لبریز رہتی تھیں، اور ہمارے بزرگوں نے راویانِ حدیث پر جرح ونقد تک کو داخل غیبت سمجھ لیا تھا، کیا ہم اُنھیں اسلاف کے نام لیوا ہیں؟
https://telegram.me/ilmokitab
--------------^
امارت شرعیہ کا قومی ترانے پر موقف:
------------
<https://mastooraat.blogspot.com/2019/01/blog-post_25.html>