مسالک کی تبلیغ نے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا
مدرسہ کے میدان میں دوپہر کے وقت حضرت مولانا سالم صاحب دامت برکاتہم ابن قاری طیب رحمہ اللہ کا علماء کرام سے خصوصی خطاب ہوا جس میں حضرت کو وہیل چیر کے ذریعہ اسٹیج پرلایا گیا، بڑی نقاہت وکمزوری کے باوجود پیر گھسیٹتے ہوئے سہارے کے ساتھ کُرسی پر تشریف فرما ہوئے حضرت کی طبیعت کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ حضرت اپنی ہلکی ہلکی آواز سے صرف دُعاء فرماکر مجلس ختم فرمائیں گے، مگرحضرت نے تقریبا ایک گھنٹہ کا پُرمغز خطاب فرمایا جس نے حاضرین کو جھنجھوڑکر رکھ دیا، جس کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
تین چیزیں ہیں:
(1) دین: یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہوتا ہے اس میں انسانوں کی عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
(2) مذہب: یعنی علماء اور فقہاء نے موجودہ زمانہ کو مدنظر رکھ کر اس کے تقاضوں کے مطابق کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل نکالتے ہیں، جس میں خاص طور پر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے محنت کی ہے، اسی طرح امام شافعی، امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ان کا فقہ آگے بڑھا اور رواج پایا. اور بھی دیگر فقہاء نے اس میں محنتیں کیں مگر ان کا فقہ رواج نہیں پایا، ان فقہاء نے اپنی جدوجہد سے جو فقہ مرتب کیا وہ قانونِ الٰہی ہے جس میں ہرہر چیز مکمل طور پر مرتب ہے، اس کو دیکھ کر دنیا نے قانون سازی سیکھی ہے، اس کے سب سے پہلے مدوِّن حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں وہ ساری دنیا کو قانون سکھانے والے ہیں، اس کے علاوہ دیگر فقہاء نے بھی محنتیں کی ہیں، اسی لئے ان میں آپس میں اصول میں کوئی اختلاف نہیں ہوا کیونکہ دین سب کا ایک ہے، البتہ فروع میں اختلاف ہوا ہے، اس لئے کہ ہر ایک کے استنباط کا طریقہ الگ الگ تھا۔
تین چیزیں ہیں:
(1) دین: یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہوتا ہے اس میں انسانوں کی عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
(2) مذہب: یعنی علماء اور فقہاء نے موجودہ زمانہ کو مدنظر رکھ کر اس کے تقاضوں کے مطابق کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل نکالتے ہیں، جس میں خاص طور پر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے محنت کی ہے، اسی طرح امام شافعی، امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ان کا فقہ آگے بڑھا اور رواج پایا. اور بھی دیگر فقہاء نے اس میں محنتیں کیں مگر ان کا فقہ رواج نہیں پایا، ان فقہاء نے اپنی جدوجہد سے جو فقہ مرتب کیا وہ قانونِ الٰہی ہے جس میں ہرہر چیز مکمل طور پر مرتب ہے، اس کو دیکھ کر دنیا نے قانون سازی سیکھی ہے، اس کے سب سے پہلے مدوِّن حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں وہ ساری دنیا کو قانون سکھانے والے ہیں، اس کے علاوہ دیگر فقہاء نے بھی محنتیں کی ہیں، اسی لئے ان میں آپس میں اصول میں کوئی اختلاف نہیں ہوا کیونکہ دین سب کا ایک ہے، البتہ فروع میں اختلاف ہوا ہے، اس لئے کہ ہر ایک کے استنباط کا طریقہ الگ الگ تھا۔
(3) مسلک: یعنی فقہاء کے بعد کے علماء اور مفتیان کرام نے فقہاء کے استنباط کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے زمانہ کے پیش آمدہ مسائل کا حل نکال لیتے ہیں، یہ ہے مسلک۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کے دور میں مذہب کی ضرورت پیش نہیں آئی، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور تابعین رحمہم اللہ نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سیکھا مگر تابعین رحمہم اللہ کے دور کے بعد مختلف دین والوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے ذہنوں میں اپنے اپنے دین ومذہب کی کلیات واصول جمع تھے، اب ایک طرف اسلامی اصول تو دوسری طرف انکے دینِ باطل؛ تو فقہاء نے ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے نئے نئے اعتراضات کو دفع کرنے کے لئے ایک قانون مرتب کیا، مدوّن کیا کہ یہ "کتاب الصلوۃ" ہے، یہ "کتاب الزکوۃ" ہے یہ "کتاب الحج" ہے وغیرہ، ہاں! فقہاء کے اجتہاد میں خطا کا خدشہ ہے مگر یہ خطا مذہب میں ہے، دین میں نہیں، بہرحال یہ مختلف فقہاء کے مدون شدہ فقہ دنیا میں پھیلے، مگر بعد میں آنے والوں نے یہ غلطی کی کہ ہرشخص اپنے محبوب وپسندیدہ امام کے مذہب کو پھیلانا اور اس کی تبلیغ کرنا شروع کردیا، حالانکہ تبلیغ دین کی ہوتی ہے مذہب ومسلک کی نہیں، یہیں سے فرقے بنے حالانکہ دین سب کا ایک ہے، اب اس مذہب کی تبلیغ کو دیکھ کر غلط فرقوں نے اپنے اپنے غلط مذاہب کی تبلیغ شروع کردی، یہ خلفاء عباسبہ کا دَور تھا، آج امت میں سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ مذہب کرنا شروع کردیا امت کے لوگوں نے اور ہر مسلک والا یہ سمجھ رہا ہے نجات صرف اسی میں ہے حالانکہ نجات مذہب میں نہیں دین میں ہے، آپ مذہب کو بالکل پیش نہ کریں، آپ دین کو پیش کریں، کیونکہ دین میں سب کا اتفاق ہے، کوئی دین کو نہ مانے تو خارج از اسلام ہے، اور مذہب کے انکار کرنے سے کوئی خارج ازاسلام نہیں ہوتا، بلکہ آج ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اپنے مشرب کی تبلیغ میں لگا ہوا ہے، مشرب مسلک سے بھی نیچے کی چیز ہے یعنی مجھے کسی کے ساتھ عقیدت ہے تو میں ساری دنیا والوں کو اس شخصیت کا معتقد بنانے میں لگ گیا، حالانکہ یہ ذاتی معاملہ ہے، تو جیسے مسلک کی تبلیغ غلط ہے ایسے ہی مشرب کی تبلیغ بھی غلط ہے.
مورخہ 20 مئی 2013 /۹ رجب ۱۴۳۴ھ بمقام جامعہ انس بن مالکؓ ٹمکور
(بندہ کی ڈائری سے) سید ظہیر قاسمی
https://mastooraat.blogspot.com/2019/01/blog-post_19.html
آپ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کے دور میں مذہب کی ضرورت پیش نہیں آئی، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور تابعین رحمہم اللہ نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سیکھا مگر تابعین رحمہم اللہ کے دور کے بعد مختلف دین والوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے ذہنوں میں اپنے اپنے دین ومذہب کی کلیات واصول جمع تھے، اب ایک طرف اسلامی اصول تو دوسری طرف انکے دینِ باطل؛ تو فقہاء نے ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے نئے نئے اعتراضات کو دفع کرنے کے لئے ایک قانون مرتب کیا، مدوّن کیا کہ یہ "کتاب الصلوۃ" ہے، یہ "کتاب الزکوۃ" ہے یہ "کتاب الحج" ہے وغیرہ، ہاں! فقہاء کے اجتہاد میں خطا کا خدشہ ہے مگر یہ خطا مذہب میں ہے، دین میں نہیں، بہرحال یہ مختلف فقہاء کے مدون شدہ فقہ دنیا میں پھیلے، مگر بعد میں آنے والوں نے یہ غلطی کی کہ ہرشخص اپنے محبوب وپسندیدہ امام کے مذہب کو پھیلانا اور اس کی تبلیغ کرنا شروع کردیا، حالانکہ تبلیغ دین کی ہوتی ہے مذہب ومسلک کی نہیں، یہیں سے فرقے بنے حالانکہ دین سب کا ایک ہے، اب اس مذہب کی تبلیغ کو دیکھ کر غلط فرقوں نے اپنے اپنے غلط مذاہب کی تبلیغ شروع کردی، یہ خلفاء عباسبہ کا دَور تھا، آج امت میں سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ مذہب کرنا شروع کردیا امت کے لوگوں نے اور ہر مسلک والا یہ سمجھ رہا ہے نجات صرف اسی میں ہے حالانکہ نجات مذہب میں نہیں دین میں ہے، آپ مذہب کو بالکل پیش نہ کریں، آپ دین کو پیش کریں، کیونکہ دین میں سب کا اتفاق ہے، کوئی دین کو نہ مانے تو خارج از اسلام ہے، اور مذہب کے انکار کرنے سے کوئی خارج ازاسلام نہیں ہوتا، بلکہ آج ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اپنے مشرب کی تبلیغ میں لگا ہوا ہے، مشرب مسلک سے بھی نیچے کی چیز ہے یعنی مجھے کسی کے ساتھ عقیدت ہے تو میں ساری دنیا والوں کو اس شخصیت کا معتقد بنانے میں لگ گیا، حالانکہ یہ ذاتی معاملہ ہے، تو جیسے مسلک کی تبلیغ غلط ہے ایسے ہی مشرب کی تبلیغ بھی غلط ہے.
مورخہ 20 مئی 2013 /۹ رجب ۱۴۳۴ھ بمقام جامعہ انس بن مالکؓ ٹمکور
(بندہ کی ڈائری سے) سید ظہیر قاسمی
https://mastooraat.blogspot.com/2019/01/blog-post_19.html
No comments:
Post a Comment