Thursday, December 2, 2021

حضرت آدم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت

حضرت 
آدم علیہ السلام 
کی اپنے بیٹے کو وصیت؟؟؟

• حضرت آدمؑ کی اپنے بیٹے کو وصیت•
 اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر تمام انبیاء مرسلین کی تعداد کے برابر لاٹھیاں نازل فرمائیں۔ پھر وہ اپنے بیٹے شیث کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے بیٹے! میرے بعد تو میرا خلیفہ ہے۔ ان کو تقویٰ اور عروہ و ثقیہ کے ذریعے پکڑ لے۔ جب بھی تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو ساتھ ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لینا۔ میں نے اس وقت عرش کے پائے پر ان کا نام لکھا دیکھا تھا جب میں روح اور مٹی کے درمیان تھا۔ پھر میں نے آسمانوں کا چکر لگایا تو ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میرے رب نے مجھے جنت میں بسایا تو میں نے جنت میں کوئی محل یا کوئی کمرہ نہیں دیکھا جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جنت کی حوروں کے گلوں  پر لکھا دیکھا، جنت کے محلات کی اینٹوں پر، طوبیٰ کے درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، نور کے پردوں کے اطراف پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسے لکھا دیکھا۔ تو ان کا ذکر کثرت سے کیا کرنا، کیونکہ فرشتے بھی  ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا یہ روایت مستند ہے؟
•• باسمہ تعالی••
الجواب وبہ التوفیق:
یہ روایت سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خصائص کبری_ میں اور "ابن عساکرؒ" نے "تاریخ دمشق" میں ذکر کی ھے:
▪ تاریخ ابن عساکر میں:
أخبرنا ابومحمد بن الحسين، نا أبو الحسين المهتدي، أنا ابو احمد عبيد الله بن محمد بن ابي مسلم الفرضي، انا ابو عمر عثمان بن احمد بن السماك،نا إسحاق بن إبراهيم بن سفيان، نا زكريا بن يحي، نا محمد بن زفر الاصبهاني، نا محمد بن خالد العاشمي الدمشقي، نا محمد بن حمير الحمصي، نا صفوان بن عمرو السكسكي، عن شريح بن عمير قال: كذا قال، فقلت: إنما هو شريح بن عبيد قال: كذا هو عندي عن أبي السمير الترمذي عن كعب الأحبار: أن الله تعالى أنزل على آدم عصيا بعدد الأنبياء، والمرسلين، ثم أقبل على ابنه شيث، فقال: أي بني! أنت خليفتي من بعدي، فخذها بعمارة التقوى أ والعروة الوثقى، وكلما ذكرت الله تعالى، فاذكر إلى جنبه اسم محمد، فإني رأيت اسمه مكتوبا على ساق العرش، وأنا بين الروح والطين، ثم إني طفت السموات، فلم أر في السماء موضعا إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، وإن ربي أسكنني الجنة، فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، ولقد رأيت اسم محمد مكتوبا على نحور الحور العين، وعلى ورق قصب آجام الحنة، وعلى ورق شجرة طوبى، وعلى ورق سدرة المنتهى، وعلى أطراف الحجب، وبين أعين الملائكة، فأكثر ذكره، فإن الملائكة تذكره في كل ساعاتها.
٭ المصدر:  تاريخ دمشق
٭ المؤلف: حافظ ابن عساكرؒ
٭ المجلد: 23
٭ الصفحة: 280
٭ الطبع: دارالفكر، بيروت، لبنان.
⚠  روایت کا حکم:
  یہ روایت مقبول نہیں ھے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی "محمد بن خالد ہاشمی دمشقی" ہیں ان کے متعلق «امام ابوحاتم رازیؒ» نے کہا: کہ وہ جہوٹ بول دیا کرتے تھے۔
محمد بن خالد الدمشقي روي عن وليد بن المسلم، روي عنه محمد بن يعقوب الدمشقي، وإسحاق بن إبراهيم، نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه، قال: كان يكذب.ملخصاـ
٭ المصدر:  الجرح والتعديل
٭ المؤلف: أبو حاتم رازيؒ
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 244
٭ الرقم: 1340
٭ الطبع:  دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
📘 الخصائص الکبریٰ میں:
یہ روایت «امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ» نے بہی "خصائص کبری" میں بلا کسی سند "ابن عساکر" کے حوالے سے کؔعب احبارؒ سے نقل کی ھے :
• نام کتاب: الخصائص الکبریٰ
• نام مؤلف: جلال الدین السیوطیؔ
•جلد: 1
•صفحة: 12
•طبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
⚠ فائدہ
 اس ضمن میں یہ بات بہی بہت مشہور ھے کہ حضرت آدمؑ نے جب توبہ کی تہی تو حضوراکرمؑ کا وسیلہ لیا تہا اور اسکا ذکر متعدد کتب تفسیر و حدیث میں ھے, لیکن وہ روایات  کمزور ہیں اور بقول امام "شمس الدین ذہبیؒ" وہ موضوع ہے۔
مستدرک حاکم میں:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل حدثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي حدثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري حدثنا إسماعيل بن مسلمة أنبأ عبدالرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال قال رسول الله  لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال الله يا آدم وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال لأنك يا رب لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوباً لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك. قال الله: صدقت يا آدم إنه لأحب الخلق إلي، أدعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك».
اس روایت کو حاکمؒ نے صحیح بتایا ھے ؛ لیکن امام ذہبیؒ نے اسکی تعلیق میں اسکو موضوع قرار دیا ھے۔
• المصدر:  مستدرك حاكم
•مؤلف: حاكم نيشاپوريؒ
• جلد: 2
• صفحة: 722
• نمبر: 4287
• طبع:  دارالحرمين للطباعة، قاهرة، مصر.
☪ دلائل النبوة ميں:
امام بيهقيؒ نے بهي "دلائل النبوة" ميں  اس روایت کو ذکر کیا ھے اور اسکی سند کو ضعیف کہا ھے:
٪ نام کتاب: دلائل النبوة
٪نام مؤلف: ابوبكر البيهقيؒ
٪جلد : 5
٪صفحة: 488
٪طبع: دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان.
💠 البدایہ والنہایہ میں:
بؔیہقیؒ کی تحقیق سے •علامہ حافظ ابن کثیر دمشقیؒ• نے بہی اس روایت کو  «البدایہ والنہایہ» میں ذکر فرمایا ھے:
* نام کتاب: البداية والنهاية
* نام مؤلف: حافظ ابن كثيرؒ
* جلد: 1
* صفحہ: 81
* طبع: مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.
🔹 خلاصة:
یہ روایت البدیہ والنہایة، مستدرک حاکم وغیرہ میں مذکور ہے، حاکم نے اس کے بارے میں لکھا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے؛ لیکن علامہ ذہبی نے اس پر تعلیق کرتے ہوئے اسے ”موضوع“ قرار دیا، نیز دیگر حضرات نے بھی اس روایت کی تضعیف کی ہے، اس لئے یہ قابل اعتماد نہیں ہے.
🌷دعا میں وسیلہ لینا🌷
دعا میں کسی نبی, ولی, یا نیک عمل کا وسیلہ لینا یعنی  کسی نبی یا ولی کے واسطے سے دعا کریں اور یہ کہیں اے اللہ فلاں بندے یا فلاں نبی کے طفیل میری دعا قبول فرما یہ جائز ہے اور اسکا حدیث صحیحہ سے ثبوت بہی ھے۔
اس سلسلے میں سب سے صریح دلیل حضرت عثمان بن حنیف کی روایت ہے جسے ترمذی نے اپنی ” سنن “ میں اوربيهقي نے ”دلائل النبوة“ میں روایت کی ہے، ترمذی کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ دعا کردیجئے کہ میری بینائی ٹھیک ہوجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی ہوتو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر اختیار کرو اور صبر تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تو حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ دعا ہی کردیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا کرو:
 اللہم إنی أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضي لي، اللہم فشفعہ فيّ۔
 یعنی اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، (اے نبی) میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا؛ تاکہ میری اس ضرورت کو پورا کردیا جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفارش قبول فرما۔
+ نام کتاب : سنن الترمذي
+ نام محدث: ابوعيسي الترمذيؒ
+ جلد: 5
+ صفحة:  536
+ رقم: 3578
+ درجة: صحيح
+ طبع: دارالغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.
¤ دلائل النبوة
المصدر: دلائل النبوة
المحدث: بيهقيؒ
المجلد: 6
الصفحة: 166
الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💎 بخاری میں وسیلہ کا ثبوت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب قحط ہوتا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے دعا مانگتے اورکہتے:
اللہم انا نتوسل إلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا فیسقون.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‏.‏ قَالَ فَيُسْقَوْنَ‏.‏
٭ نام كتاب:  صحيح البخاري
٭ جلد:1
٭ صفحة: 1009/،274
٭ حديث نمبر: 1010/3710
٭ طبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.
••• حاصل بحث •••
حضرت آدم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت والی روایت غیرمستند ھے. نیز آدم کا حضور پاک کا توسل لینا بھی معتبر سند سے ثابت نہیں؛ البتہ نفس توسل کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ملتا ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: محمد عدنان وقار صؔدیقی
۱۱ دسمبر، ؁ء۲۰۱۹ #S_A_Sagar
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post.html

No comments:

Post a Comment