Thursday, December 2, 2021

مستورات کا با محرم تبلیغی جماعت میں سفر کرنا

مستورات کا با محرم تبلیغی جماعت میں سفر کرنا
سوال ]۱۳۰۴[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: مسلم عورتوں کا بامحرم تبلیغی جماعت میں دور دراز کا سفر کرنا پورے پردے کے ساتھ، جب کہ عورتوں کا قیام وطعام بھی مکمل پردہ والے گھر میں ہوتا ہے، جہاں مردوں کے داخلہ پر پوری پابندی ہوتی ہے کیسا ہے؟ اور محرم مرد قریب کی مسجد میں قیام کرتے ہیں اور مستورات کی تبلیغی جماعت با پردہ عورتوں میں تبلیغ کرتی ہیں، اس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
المستفتی: نوشاد احمد جمنا نگر
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
جماعت نسواں سے متعلق مرکز نظام الدین کی جانب سے طے کردہ شرائط وضوابط (جس میں شرعی پردہ اور محرم شرعی کے ساتھ سفر کا خاص اہتمام رکھا گیا ہے) کی مکمل رعایت کے ساتھ عورتوں کے لئے تبلیغی سفر میں جانا فی نفسہٖ جائز ہے۔
عن أبي سعید الخدری -رضی اللہ عنہ- قال: قال رسول اللہ صلي الله عليه وسلم: لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر أن تسافر سفرا یکون ثلاثۃ أیام فصاعدا، إلا ومعہا أبوہا، أو ابنہا، أو زوجہا، أو أخوہا، أو ذو محرم منہا۔ (مسلم، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۳۴، بیت الأفکار، رقم: ۱۳۴۰)
عن نافع أن ابن عمر کان یردف مولاۃ لہ، یقال لہا: صفیۃ، تسافر معہ إلی مکۃ۔ (أبوداؤد، باب في المرأۃ تحج بغیر محرم، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۴۲، دارالسلام، رقم: ۱۷۲۸)
عن أنسؓ أن النبي صلي الله عليه وسلم غزا خیبر … قال: وأصبناہا عنوۃ، وجمع السبي، فجاء ہ دحیۃ، فقال: یا رسول اللہ! اعطني جاریۃ من السبي، فقال: اذہب فخذ جاریۃ، فأخذ صفیۃ بنت حیي -إلی- قال: خذ جاریۃ من السبي غیرہا، قال: (راوي) واعتقہا وتزوجہا … حتی إذا کان بالطریق جہزتہا لہ أم سلیم فأہدتہا لہ من اللیل۔ (مسلم، باب فضیلۃ اعتاقہ أمتہ، ثم تزوجہا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۵۹، بیت الأفکار، رقم: ۱۳۶۵)
عن عائشۃ -رضي اللہ عنہا- قالت: کان النبي صلي الله عليه وسلم إذا أراد أن یخرج أقرع بین نسائہ، فأیتہن یخرج سہمہا خرج بہا النبي صلي الله عليه وسلم فأقرع بیننا فی غزوۃ غزاہا، فخرج فیہا سہمي، فخرجت مع النبي صلي الله عليه وسلم بعد ما أنزل الحجاب۔ (بخاري، باب حمل الرجل امرأتہ فی الغزو دون بعض نسائہ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، برقم: ۲۷۹۳، ف: ۲۸۷۹، باب غزو النساء وقتالہن مع الرجال، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، رقم: ۲۷۹۴، ف: ۲۸۸۰، باب حمل النساء القرب إلی الناس في الغزوۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، رقم: ۲۷۹۵، ف: ۲۸۸۱)
عن الربیع بنت معوذ -رضی اللہ عنہا- قالت: کنا نغزو مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنسقي القوم ونخدمہم ونرد الجرحی والقتلی إلی المدینۃ۔
(بخاري باب رد النساء الجرحی والقتلی إلی المدینۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، برقم: ۲۷۹۷، ف: ۲۸۸۳)
ولو لحاجۃ غزو الخ، أي بشرط أن تکون متسترۃ وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، کراچی ۶/ ۴۲۳، زکریا دیوبند ۹/ ۶۰۶) 
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۳؍ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۹/ ۱۰۳۷۸)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ s_a_sagar# 
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_2.html


No comments:

Post a Comment