Sunday, February 17, 2019

حجاج بن یوسف کا آخری سفر

حجاج بن یوسف کا آخری سفر
عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54 برس کی عمر میں حجاج بیمار ہوا ہے اس کے معدے میں بے شمار کیڑے پیدا ہوگئے تھے اور جسم کو ایسی سخت سردی لگ گئی تھی کہ آگ کی بہت سی آنگھیٹیاں بدن سے لگا کررکھ دی جاتی تھیں پھر بھی سردی میں کمی نہیں ہوتی تھی ـ جب زندگی سے نا امیدی ہوگئی تو حجاج نے گھروالوں سے کہا کہ مجھے بٹھادو اور لوگوں کو جمع کرو ـ لوگ آئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی، موت اور سختیوں کا ذکر کیا، قبراور اس کی تنہائی بیان کی، دنیا اور اس کی بے ثباتی یاد کی ـ آخرت اور اس کی ہولناکیوں کی تشریح کی اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا ـ پھر یہ شعر اس کی زبان پر جاری ہو گئے ـ
إن ذنبي وزن السماوات والأرض
وظني بربي أن يحابي​

میرے گناہ آسمان اور زمین کے برابر بھاری ہیں ـ مگر مجھے اپنے خالق سے امید ہے کہ رعایت کرے گا ـ
فلئن منّ بالرضا فهو ظني
ولأن مر بالكتاب عذابي​

اگر اپنی رضامندی کا احسان مجھے دے تو یہی میری امید ہے ـ لیکن اگر وہ عدل کرکے میرے عذاب کا حکم دے ـ
لم يكن منه ذاك ظلماً وبغياً
وهل يهضم رب يرجى لحسن الثواب ـ​

تو یہ اس کی طرف سے ہرگز ظلم نہیں ہوگا کیا یہ ممکن ہے کہ وہ رب ظلم کرے جس سے صرف بھلائی کی توقع کی جاتی ہے ـ
پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا ـ موقع اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی شخص اپنے آنسو روک نہ سکا ـ
اس کے بعد اس نے اپنا کاتب طلب کیا اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کو حسب ذیل خط لکھوایا ـ
كنت أرعى غنمك، وأحوطها حياطة الناصح الشفيق برعية مولاه، فجاء الأسد -قصده بالأسد ملك الموت- فبطش بالراعي ومزق المرعى، وقد نزل بمولاك ما نزل بأيوب الصابر، وأرجو أن يكون الجبار أراد بعبده غفراناً لخطاياه، وتكفيراً لما حمل من ذنوبه.
''امابعد! میں تمہارہ بکریاں چراتا تھا ایک خیرخواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا، اچانک شیر آیا، گلہ بان کو طمانچہ مارا اور چراگاہ خراب کر ڈالی ـ آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے جو ایوب پر نازل ہوئی تھی ـ مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخش اور گناہ دھونا چاہتے ہیں ـ" پھر خط کے آخیر میں یہ شعر لکھنے کا حکم دیا ـ
إذا ما لقيت الله عني راضياً
فإن شفاء النفس فيما هنا لك​

اگر میں نے اپنے خدا کو راضی پایا توبس میری مراد پوری ہوگئی
فحسبي بقاء الله من كل ميت
وحسبي حياة الله من كل هالك​

سب مرجائیں مگر خدا کا باقی رہنا میرے لیے کافی ہے ! سب ہلاک ہوجائیں مگر خداکی زندگی میرے لیے کافی ہے ـ
لقد ذاق هذا الموت من كان قبلنا
ونحن نذوق الموت من بعد ذلك​

ہم سے پہلے یہ موت چکھ چکے ہیں ، ہم بھی ان کے بعد موت کا مزہ چکھیں گئے
فإن مت فاذكرني بذكر محبب
فقد كان جماً في رضاك مسالكي​

اگر میں مرجاؤں تو مجھے محبت سے یاد رکھنا، کیونکہ تمہاری خوشنودی کے لیے میری راہیں بے شمار تھیں ـ
وإلا ففي دبر الصلاة بدعوة
يلقى بها المسجون في نار مالك ​

یہ نہیں تو کم ازکم ہر نماز کے بعد دعامیں یاد رکھنا جس سے جہنم کے قیدی کو کچھ نفع پہنچے
عليك سلام الله حياً وميتاً
ومن بعدما تحيا عتيقاً لمالك​

تجھ پر ہر حال میں اللہ کی سلامتی ہو ـ جیتے جی، میرے پیچھے اور جب دوبارہ زندہ کیاجاؤں ـ
حضرت بصری عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا ـ حسن نے کہا: ''میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا مگر افسوس تم نے نہیں سنا ـ'' حجاج نے خفا ہوکر جواب دیا ـ ''میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے دعا کرو، میں تم سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد از جلد میری روح قبض کرے اور اب زیادہ عذاب نہ دے.''
اسی اث
ناء میں ابومنذر یعلی بن مخلد مزاج پرسی کو پہنچےـ
''حجاج ـ ! موت کے سکرات اور سختیوں پر تیرا کیا حال ہے؟''
انہوں نے سوال کیا ـ
''ائے یعلٰی!'' حجاج نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا: ''کیا پوچھتے ہو، شدید مصیبت! سخت تکلیف! ناقابل بیان الم، ناقابل برداشت درد! سفر دراز! توشہ قلیل! آہ! میری ہلاکت! اگر اس جبار و قہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا!''
یہ سن کر ابومنذر نے کہا: ''ائے حجاج! خدا اپنے انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں ـ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں ـ محبت کرتے ہیں ـ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون اور ہامان کا ساتھی تھا کیونکہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی ، تو نے اپنی ملت ترک کر دی تھی ـ راہ حق سے کٹ گیا تھا ـ صالحین کے طور طریقوں سے دور ہو گیا تھا تو نے نیک انسان قتل کر کے ان کی جماع
ت فناکر ڈالی، تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا، افسوس تو نے خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کی ـ تو نے خون کی ندیاں بہادیں، جانیں لیں، آبروئیں برباد کیں، قہر و جبر کی روش اختیار کی ـ تو نے نہ اپنا دین ہی بچایا، نہ دنیا ہی پائی ـ تونے خاندان مروان کو عزت دی ـ مگر اپنا نفس ذلیل کیا اور ان کا گھر برباد کیا، مگر اپنا گھر ویران کرلیا، آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد، کیونکہ تو آج کے دن اس کے بعد غافل تھا، تو اس امت کے لئے مصیبت اور قہر تھا ، اللہ کا ہزار ہزار شکرہے کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کر کے اس کی آرزو پوری کر دی ـ ''
راوی کہتا ہے کہ حجاج یہ سن کر مبہوت ہوگیا، دیر تک سناٹے میں رہا، پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی ـ آنسو ڈبڈبا آئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہا کہ '' ائے الہٰی ! مجھ بخش دے، کیونکہ لوگ کہتے ہیں تو مجھے نہیں بخشے گا ـ پھر یہ شعر پڑھا:
رب إن العباد قد أيأسوني
ورجائي لك الغداة عظيم

الٰہی! بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا ـ حالانکہ میں تجھ سے بڑی امید رکھتا ہوں -
یہ کہ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں ـ''
اس میں شک نہیں، رحمت الہٰی کے بے کنار وسعت دیکھتے ہوئے اس کا یہ اندازا طلب ایک عجیب تاثیر رکھتا ہے اور اس باب میں بے نظیر مقولہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسن بصری سے حجاج کا یہ قول ذکر کیا گیا تو وہ پہلے متعجب ہوئےـ ''کیا واقعی اس نے یہ کہاـ'' 
"ہاں! اس نے ایسا ہی کہا ہے.'' 
فرمایا: '' تو شاید! یعنی اب شاید اللہ اسے بخش دے ـ
البدایة والنہایة ج 9 ص 138
تحریر ۔/ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ
کمپوزنگ ۔ ابوعکاشہ ​

https://mastooraat.blogspot.com/2019/02/blog-post_89.html
    

عورت کا گھر میں ننگے سر ہونا

عورت کا گھر میں ننگے سر ہونا

سوال: ایک بات بیان کی جاتی ہے کہ: جس گھر میں عورت اپنےسر کو کھولے ہوئے ہو(ننگے سر ہو) اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے؟
کیا ایسی کوئی روایت احادیث کی کتابوں میں ملتی  ہے؟

جواب: سوال میں جو بات لکھی ہے وہ روایت سے ماخوذ اس کا مفہوم ہے، اور وہ در اصل حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ ہے، جس سے استدلال کیا گیا ہے۔
میرے نزدیک اس واقعہ سے یہ مسئلہ مستنبط کرنا درست نہیں ہے، لہذا  سب سے پہلےاس واقعہ کی روایات، اسانید، اور مرتبہ ذکر کروں گا، پھر ان کا صحیح مفہوم دیگر روایات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ
یہ واقعہ تین اسانید سے منقول ہے، ایک حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے متصلا ومرسلا، دوسری حضرت فاطمہ بنت حسین سےمرسلا، اور تیسری حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا سے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت
متصل سند:
164 – قال أبو نعيم : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: ثنا النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الْفِهْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْفِهْرِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ  الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ .  [دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني ص: 216]
6435 – وقال الطبراني : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِرْسٍ الْمِصْرِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ الْمَدِينِيُّ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِهْرِيُّ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ، عَنْ خَدِيجَة ...
قال الطبراني : لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَّا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، وَلَا عَنْ إِسْمَاعِيلَ إِلَّا الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِهْرِيُّ، تَفَرَّدَ بِهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ . [المعجم الأوسط 6/287 برقم 6435]

متن روایت:
عن أُمُّ سَلَمَةَ، عَنْ خَدِيجَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَا ابْنَ عَمِّي، هَلْ تَسْتَطِيعُ إِذَا جَاءَكَ الَّذِي يَأْتِيكَ أَنْ تُخْبِرَنِي بِهِ؟ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ يَا خَدِيجَةُ» . قَالَتْ خَدِيجَةُ: فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ ذَاتَ يَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا خَدِيجَةُ هَذَا صَاحِبِي الَّذِي يَأْتِينِي قَدْ جَاءَ» ، فَقُلْتُ لَهُ: قُمْ فَاجْلِسْ عَلَى فَخِذِي الْأَيْمَنِ، فَقَامَ ، فَجَلَسَ عَلَى فَخِدِي الْأَيْمَنِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَقُلْتُ لَهُ: تَحَوَّلْ فَاجْلِسْ عَلَى فَخِدِي الْأَيْسَرِ، فَجَلَسَ، فَقُلْتُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَقُلْتُ لَهُ: فَتَحَوَّلَ فَاجْلِسْ فِي حِجْرِي، فَجَلَسَ، فَقَالَتْ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَتْ خَدِيجَةُ: فَتَحَسَّرْتُ وَطَرَحْتُ خِمَارِي، وَقُلْتُ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «لَا» ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا وَاللَّهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ، لَا وَاللَّهِ مَا هَذَا شَيْطَانٌ. [دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني ص: 216، المعجم الأوسط 6/287 برقم 6435]
متصل سند کا مرتبہ: 
ابو نعیم کی سند میں نضر بن سلمہ شاذان پر سخت جرح کی گئی ہے ،وضع حدیث کی تہمت تک لگائی گئی ہے [لسان الميزان (8/ 273)] لیکن طبرانی کی سند میں ان کے شیخ محمد بن عبد اللہ بن عرس مصری ان کی متابعت کر رہے  ہیں ،مگر ابن عرس کے حالات دستیاب نہیں ہوئے، اور یحیی بن سلیمان بن نضلہ میں ضعف ہے، لیکن اصل واقعہ کی مرسل روایات شواہد بن سکتی ہیں ، جس سے متن کو تقویت ملتی ہے، اور ضعف منجبر ہوجاتا ہے۔
مرسل سند:
ابن اسحاق نے سیرت میں اس کو بواسطہ اسماعیل بن ابی حکیم کےحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مرسلا یا معضلا نقل کیا ہے:
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي إسماعيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ حُدِّث عَنْ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ ...["سيرة ابن هشام" (1/ 223)]
 ابو نعیم اور طبرانی کی سند کے اعتبار سے اسماعیل بن ابی حکیم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مابین تین واسطے ساقط ہیں۔ اور متن کے الفاظ قریب قریب ہیں، موضع شاہد کے الفاظ یہ ہیں: (قَالَ: فتحسَّرتْ وَأَلْقَتْ خمارَها وَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- جَالِسٌ فِي حِجْرِهَا، ثُمَّ قَالَتْ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قال: "لا"، قالت: يابن عَمِّ، اُثْبُتْ وأبشرْ، فَوَاَللَّهِ إنَّهُ لَمَلَكٌ وَمَا هَذَا بِشَيْطَانٍ).
مرسل سند کا درجہ: سند ضعیف ہے، انقطاع کی وجہ سے، لیکن اصل واقعہ دوسری اسانید سے منقول ہے۔
نیز روایت کے جن الفاظ سے استدلال کیا گیا (فَتَحسَّرْتُ فَطَرَحْتُ خِمَارِي) یا (فتحسَّرتْ وَأَلْقَتْ خمارَها) اس میں اضطراب ہے، جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
حضرت فاطمہ بنت حسین کی روایت
روایت کی سند:
حضرت فاطمہ بنت حسین کی سند ابن اسحاق نے سیرت میں معضلا ذکر کی ہے:
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَدْ حَدثتُ عبدَ اللَّهِ بْنَ حَسَنٍ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: قَدْ سمعتُ أُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتَ حُسين تُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ خَدِيجَة ... ["سيرة ابن هشام "(1/ 223)، "دلائل النبوة " للبيهقي (2/ 151 - 152) ، "التاريخ" للطبري (2/ 302 - 303)]
اس روایت میں  حضرت فاطمہ بنت حسین بن علی  رضی اللہ عنہا اپنی پردادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس واقعہ کو نقل کرتی ہیں، مگران کا اپنی دادی فاطمہ بنت رسول اللہ سے سماع ثابت نہیں تو پردادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیسے ثابت ہوگا؟ ضرور درمیان میں دو سے زائد واسطے ساقط ہیں، لیکن اصل واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں معروف ہے۔
متن روایت:
سَمِعْتُهَا تَقُولُ: أدخلتْ رسولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَيْنَهَا وَبَيْنَ دِرْعِهَا، فَذَهَبَ عندَ ذَلِكَ جِبْرِيلُ، فَقَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ هَذَا لَمَلَكٌ، وَمَا هُوَ بِشَيْطَانٍ.
معضل سند کا درجہ:
یہ سند معضل (دو واسطوں کے ساقط) ہونے کی وجہ سے ضعیف ٹھیرے گی ، یہ ضعف متصل سندوں  سےدور ہوسکتا ہے، اسی طرح اسماعیل بن ابی حکیم کی مرسل روایت بھی شاہد بن سکتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
روایت کی سند:
165 – قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: ثنا النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا فُلَيْحُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْإِمَامِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ...[دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني (ص: 218)]
متن روایت:
قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَدْخِلْ رَأْسَكَ تَحْتَ دِرْعِي، فَفَعَلَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ لَهُ : أَتَرَاهُ؟ فَقَالَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَدْ أَعْرَضَ عَنِّي، قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَبْشِرْ فَإِنَّهُ مَلَكٌ كَرِيم ، لَوْ كَانَ شَيْطَانًا مَا اسْتَحْيَى .[دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني (ص: 218)]
سند کا درجہ:
ضعیف جدا، سند میں نضر بن سلمہ شاذان متہم ہے، اور یہاں سیاق سند میں بھی منفرد ہے ۔
واقعہ کا خلاصہ:
اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ابتداء  وحی کے زمانے میں اس بات کا اطمینان حاصل کرنا چاہا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو وحی لےکر آتا ہے وہ فرشتہ ہی ہے، شیطان نہیں ہے۔ تو انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا  کہ: جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے پاس وحی لے کر تشریف لائیں توکیا آپ مجھے آگاہ کرسکتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔
چنانچہ ایک بارجب حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کرآئے ، تو حضور نے ان کو آگاہ کردیا، توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ: آپ میری دائیں ران پر بیٹھ جائیں اور بتائیں کہ: حضرت جبریل نظر آرہے ہیں؟ حضور نے جواب دیا کہ: ہاں، پھر اسی طرح بائیں ران پر بیٹھنے کے لئے کہا اور دریافت کیا کہ: اب نظر آرہے ہیں ؟ آپ نےجواب دیا: ہاں ، تیسری بار کہا کہ: آپ میری گود میں بیٹھ جائیں، پھردریافت کیا کہ: اب حضرت جبریل نظر آرہے ہیں؟ حضور نے جواب دیا کہ: ہاں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ: میں نے سر سے دوپٹہ اتاردیا جبکہ حضور میری گود میں تھے اور پوچھا کہ: اب نظر آرہے ہیں؟ حضور نے جواب دیا کہ: نہیں، اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا: آپ کے لئے خوش خبری ہے، آپ ثابت قدم رہیں، بخدا یہ شیطان نہیں ہے، یہ تو فرشتہ ہے۔ ابو نعیم کی روایت میں یہ جملہ بھی ہے کہ: اگر شیطان ہوتا تو وہ شرم کے مارے غائب نہیں ہوتا۔
مذکورہ روایت میں تحقیق کرنے کی ترکیب جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے استعمال کی، اس کے سلسلہ میں دو طرح کی باتیں ہیں:
۔ ایک روایت کے اعتبار سے انہوں نے اپنے سر سے دوپٹہ اتار دیا تو وہ آنے والا حضور کی نظروں سے غائب ہو گیا۔۔ اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ کو اپنے بدن کے کپڑے اور اپنے جسم کے درمیان کردیا ،(بدن سے لگا لیا) تو وہ آنےوالا نظروں سے غائب ہوگیا۔
اسی واقعہ سے مذکورہ بالا مفہوم لیا گیا  کہ: جس گھر میں عورت اپنےسر کو کھولے ہوئے ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
مگریہ استنباط چند وجوہات کی بناء پر صحیح نہیں ہے، جیساکہ تفصیلا کلام آرہا ہے، یہاں پر ایک بات کی وضاحت بھی کرتے چلیں، کیونکہ اس کے سمجھنے سے زیر بحث روایت کا مفہوم واضح ہوگا۔
وہ بات یہ ہے کہ: احادیث میں کنکن حالتوں میں فرشتوں کے گھروں میں آنے نہ آنے کا تذکرہ ہے، اوران سے  کس قسم کے فرشتے مراد ہیں، تو ذخیرۂ احادیث میں مندرجہ ذیل تین قسم کی احادیث وارد ہیں:
پہلی قسم کی احادیث:
۱۔ گھر میں تصویر یا کتے کا ہونا: «إِنَّا لاَ نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلاَ كَلْبٌ» البخاري (3227 ) مسلم (2105 ) من حديث ابن عمر.
۲۔ گھر میں جنبی کا ہونا: في رواية من حديث علي بن أبي طالب: "وَلَا جُنُبٌ" أبوداود (227) النسائي (261) .
۳۔ گھر میں گھنٹی کا ہونا: ومن حديث عائشة: "لا تدخل الملائكة بيتا فيه جرس" أبوداود (4231) مسند أحمد (26052) .
۴۔ گھر میں چیتے کی کھال ہونا: و من حديث أبي هريرة: «لا تصحب الملائكة رُفقة فيها جلد نمر» أبوداود (4130)  مسند للطبراني (2721) .
فرشتوں سے مراد:
مذکورہ احادیث میں فرشتے عام نہیں ہیں، بلکہ مراد رحمت کے فرشتے ہیں جن میں حضرت جبریل علیہ السلام کا بھی شمار ہوتا ہے جیساکہ ابن عمر کی روایت میں ہے، جبکہ محافظ فرشتے اور کراما کاتبین تو موجود ہوتے ہیں، جیسا کہ شراح حدیث نے وضاحت کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
قال القاضي عیاض : قد يكون تجنُّبُ الملائكة من الجُنُب تنزيهاً لها من أجل الحَدَث الذى عليه، كما نُزِّهَتْ عنه عبادات كثيرةٌ من تلاوةِ القرآن ومسِّ المصحف، ونُزِّه المسجدُ عن دخولِه حتى يتطهرَ، ولما كانوا مطَهَّرِين ووصفهم اللهُ بذلك خصَّهُم بالبُعدِ عمن ليس بهذه الصفة - والله أعلم. وقد قال الخطابي: إن الملائكة التي تجتنبُ الجُنبَ وجاء أنها لا تدخُلُ بيتاً فيه جُنبٌ: هم الملائكة المُنزَلة بالرحمة والبركة، غير الحَفَظة الذين لا يفارقونه . [إكمال المعلم بفوائد مسلم (2/ 144)]
قوله: "لَا تدْخُلُ المَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ" قال ابن التين: وأراد بالملائكة غير الحفظة، وكذا قال النووي: إن هؤلاء الملائكة هم الذين يطوفون بالرحمة والتبرك والاستغفار، بخلاف الحفظة. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح (19/ 98)]

دوسری قسم کی احادیث:
اس کے بالمقابل وہ احادیث جن میں تمام فرشتوں کے دور ہوجانے کا تذکرہ ہے ، وہ احادیث کشف ستر کی حالتوں کے ساتھ مخصوص ہیں، اور ستر سے عورۃ مغلظۃ مراد ہے، جیسے: قضاء حاجت، غسل، جماع وہم بستری  کی حالات میں، یا عموما برہنہ ہونا ۔نیز اس طرح کی حالتوں کی روایات میں کشف ستر کا معنی واضح بھی ہے، اور روایات یہ ہیں:
(1) عن ابن عمر أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "إياكم والتعري فإن معكم من لا يفارقكم إلا عند الغائط، وحين يفضي الرجل إلى أهله فاستحيوهم وأكرموهم". رواه الترمذي (2800) وهو ضعيف .
(2) عن ابن عباس - رضي الله عنهما - مرفوعًا بلفظ: "إن الله ينهاكم عن التعري، فاستحيوا من ملائكة الله الذين لا يفارقونكم إلا عند ثلاث حالات: الغائط والجنابة والغسل، فإذا اغتسل أحدكم بالعراء فليستتر بثوبه أو بحذمة حائطٍ أو ببعيره". رواه البزار كما في "كشف الأستار" (317) وهو ضعيف.

(3) عن أبي هريرة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى عن التعري فإن الكرام الكاتبين لا يفارقان العبد إلا عند الخلاء، وعند خلوة الرجل بأهله. ورواه الدارقطني في "العلل" 8/ 232 ، وهو ضعيف .
(4) عن زيد بن ثابت مرفوعًا: "ألم أنهكم عن التعري، إن معكم من لا يفارقكم في نوم ولا يقظة، إلا حين يأتي أحدكم أهله، أو حين يأتي خلاءه، ألا فاستحيوها ألا فأكرموها".

فرشتوں سے مراد:
ان احادیث میں لفظ (تعری) سے برہنہ ہونے کا معنی صریح ہے، اور ان حالات میں ہر قسم کے فرشتے بشمول حفظۃ اور کتبۃ دور رہتے ہیں حیاء۔
تیسری قسم کی احادیث:
مگر بعض احادیث کے الفاظ کشفِ ستر میں صریح  نہیں ہیں ،نیز ان میں  صرف حضرت جبریل علیہ السلام کے دوررہنے کا ذکر ہے، وہ احادیث دو ہیں:
۔ایک تو خود زیر بحث حضرت خدیجہ کے واقعہ کی روایت ہے ۔
۔دوسری یہ ہے: فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ. صحيح مسلم (2/ 670) یعنی اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام آئے ہوئے تھے، انہوں نے مجھے آہستہ سے آواز دی ، اور انہوں نے تجھ سے مخفی رکھنا پسند کیا، اور میں نے بھی ان کو جواب تجھ سے چھپاکر دیا، کیونکہ مجھے گمان ہوا کہ تو سوگئی، اور فرمایا کہ: حضرت جبریل علیہ السلام تمھارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تم نے بدن سے کپڑے اتار رکھے تھے۔
حدیث کا مطلب اور فرشتے سے مراد:
اس روایت میں خصوصا حضرت جبریل علیہ السلام کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل نہ ہونا مذکور ہے، اور "وضع ثیاب" کا مطلب بقیہ روایت سے واضح ہے، جس میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: (فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي ، وَاخْتَمَرْتُ ، وَتَقَنَّعْتُ إزَارِي) یعنی سر ڈھانپا، اوڑھنی اوڑھی، اور تہبند پہنی۔ قال في "ذخيرة العقبى في شرح المجتبى" (20/ 47) (وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي) أي جعلت إزاري قِنَاعًا، والظاهر أنها تلفَّفَت به فوق خِمارها. یعنی  بظاہر حضرت عائشہ نے اوڑھنی کے اوپر چادر ڈال لی اور بدن ڈھانپ لیا نکلتے وقت۔
الغرض: زیر بحث حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی روایت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی، دونوں روایتوں میں چند باتیں مشترک ہیں:
۔۱۔ خصوصی طور پر حضرت جبریل علیہ السلام کا دور رہنا یا غائب ہونا،اس میں  فرشتوں کی تعمیم نہیں ہے۔
۔۲۔ اور ان کے دور رہنے کا سبب زیر بحث روایت میں یا تو سر سے دوپٹہ اتارنا ، یا پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے قریب کرنا ہے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں (وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ) ہے، جس کی وضاحت گذرچکی، نیز حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کا شوہر کے قریب ہونا مانع دخول نہیں، جبکہ کسی طرح سےکشف ستر نہ ہو، وہ یہ روایت یہ ہے:
«يَا أُمَّ سَلَمَةَ لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا» (خ) 3775 (اے ام سلمہ! عائشہ کے معاملہ میں مجھے نہ ستاؤ، اس لئے کہ مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی درآنحالیکہ میں عائشہ کے علاوہ تم میں سے کسی کے لحاف میں ہوتا ہوں ، یعنی صدیقہ کے ساتھ ہم خوابی کے وقت بھی وحی نازل ہوتی تھی) [ تحفۃ الالمعی]
تو خلاصہ یہ ہوا کہ: دونوں واقعوں میں حضرت جبریل کے دور ہونے کا سبب قریب قریب ہے، مگر اس سے یہ بات جو اخذ کی گئی کہ: جس گھر میں عورت اپنےسر کو کھولے ہوئے ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
اس استنباط میں دو طرح کی غلطی ہے:
ایک غلطی تو :عورت کے ننگے سر ہونے  کوگناہ اور رحمت کے فرشتوں کے نہ آنے کا سبب قرار دینا۔
اور دوسری غلطی: فرشتوں کی تعمیم کرنا کہ تمام فرشتے دور ہوجاتے ہیں۔
یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں، مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر:
پہلی بات کا رد: عورت کا گھر میں ہوتے ہوئے سر کھلا رکھنا گناہ نہیں، اور مانع دخول ملائکہ نہیں، اس لئے کہ:
۱۔ موانع دخول کی روایات میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
۲۔ اگر گناہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خودحضرت جبریل علیہ السلا م کے دور ہونے پر زوجہ مطہرہ کو تنبیہ فرماتے۔
۳۔ حضرت خدیجہ کے واقعہ میں اصل علت مذکور ہے، اور وہ ہے استحیاء وشرم۔
۴۔
بیوی کا شوہر کی موجودگی میں بدن کے کپڑوں میں تخفف کرنا، شوہر کے لئے تزین کے معنی میں داخل ہے، جو مستحسن ومطلوب ہے۔
۵۔ جو موانع دخول منصوص علیہ ہیں، ان میں بھی علماء نے تقیید کی ہے ، مثلا:
کتے کا ہونا مانع دخول ملائکہ ہے، لیکن اگر کتا شکار کے لئے یا کھیتی بکریوں کی حفاظت کے لئے رکھا ہو، تو وہ مانع نہیں۔ [تحفۃ الالمعی]
جاندار کی تصویر بھی مانع ہے، لیکن وہ اگر سر کٹی ہو یا ایسی جگہ ہو جہاں روندی جاتی ہو، تو مانع نہیں بنے گی۔ [مظاہر حق]
اور جنبی سے وہ مراد جو غسل جنابت کو اتنا مؤخر کرے کہ نماز کا وقت نکل جائے، یا بلا وضوءسوتا پڑا رہے [مظاہر حق]
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ: عورت کے ننگے سر رہنے کا  توروایات میں ذکر بھی نہیں، پھر اس کو مطلق رکھنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ بلکہ یہ تو سراسر زیادتی اور تشدد فی الدین  ہے۔
دوسری بات کا رد: "رحمت کے فرشتے نہیں آتے" کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ:
۱۔ محافظین اور اعمال لکھنے والے فرشتےمخصوص حالات کے علاوہ دور نہیں ہوتے ہیں، اور یہ بھی رحمت ہی کے فرشتے شمار کئے جاتے ہیں۔
۲۔ رہ گیا حضرت جبریل علیہ السلام کا دور ہونا : تو وہ یا تو امہات المؤمنین کے احترام میں ہوا، یا پھر وحی کی عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہوا، جیساکہ حضرت عائشہ کی دونوں روایتوں (وَضَعْتِ ثِيَابَكِ)، (لِحَافِ امْرَأَةٍ) سے مترشح ہوتا ہے۔ تو بہر حال اس میں تخصیص ہے ۔
خلاصۃ البحث: عورت کا گھر میں ننگے سر ہونا رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے میں مانع نہیں ہے، مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر:
پہلی وجہ: مستدل بہ روایت میں موضع الشاھد میں اضطراب ہے جیسا کہ اصل عبارت پر سرخی لگا کر واضح کیا ہے، (فتحسَّرتْ وَأَلْقَتْ خمارَها) اور(أدخلت رسولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَيْنَهَا وَبَيْنَ دِرْعِهَا) دونوں الگ الگ وجوہات ہیں۔
دوسری وجہ: اس میں صرف حضرت جبریل علیہ السلام کے دور ہونے کی بات ہے، تمام فرشتوں کا ذکر نہیں ہے، اور بہت ممکن ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی غرض سے غائب ہوگئے تاکہ فرق ظاہر ہوجائے۔ یا امہات المؤمنین کے مقام ومرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا کیا ہو، یا وحی کی عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا ہو، تو گویا کہ اس میں بہر حال تخصیص ہے، اس لئے اس سے تعمیم ثابت نہیں ہوسکتی کہ ہر عورت اور ہر فرشتہ کا یہ معاملہ ہے۔
تیسری وجہ: حدیث کی ایک روایت میں علت صراحتا مذکور ہے کہ: فرشتہ استحیاءً داخل نہیں ہوتا، اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت سر کھلا رکھنے کی وجہ سے گناہ کی مرتکب ہوئی، جیساکہ استنباط کرنے والا ثابت کرنا چاہتا ہے۔
چوتھی وجہ: یہ روایت حجاب کے حکم کے نازل ہونے سے  پہلے کی ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے واقعہ میں کوئی نکیر نہیں فرمائی، بلکہ حضرت عائشہ کے واقعہ میں سبب کی تصریح کرتے ہوئے بھی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نکیر نہیں فرمائی۔
پانچویں وجہ: احادیث کے ذخیرہ میں جہاں اس طرح کی بات یعنی رحمت کے فرشتوں کا گھروں میں داخل نہ ہونا مذکور ہے، وہاں تصویرکا ہونا، یا کتے کا گھر میں ہونا تو وارد ہے، لیکن عورت کے ننگے سر ہونے کی بات نہیں ہے، جبکہ اس میں ابتلاء عام ہے، اور اس کے حکم کی ضرورت زیادہ اشد ہے۔
چھٹی وجہ: رحمت کے فرشتوں کی تعمیم صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ محافظین اور اعمال لکھنے والے فرشتےمخصوص حالات کے علاوہ دور نہیں ہوتے ہیں، اور یہ بھی رحمت ہی کے فرشتے شمار کئے جاتے ہیں۔
ضروری تنبیہ: عورتوں کے لئے محارم کے سامنے زینت کے اعضاء (سر، بال، گردن، سینہ، کان، بازو، کلائی، پنڈلی، چہرہ) وغیرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر اجانب کے ہوتے ہوئے اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو: چہرہ ، ہتھیلی اور قدمین کے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ باقی اعضاء ممنوع ہیں۔
مگر آج کا دور پرفتن اور فیشن کا دور ہے، عورتوں میں حجاب وحشمت کے باب میں کافی کوتاہی اور لا پروا
ئی ہوتی ہے، تو اگر ان کی اصلاح اور تربیت کی غرض سے یہ بات کہی جائے، تاکہ ان کے اندر بال وسر وغیرہ کھلا رکھنے کی عادت نہ پڑجائے، اور پھرمحرم غیر محرم کا امتیاز باقی نہ رہے، تو یہ کہنا درست ہوگا، لیکن اس کو زبردستی احادیث سے منسوب کرنا، یا اس کی تائید کے لئے  کسی روایت سے غلط مفہوم مستنبط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہذا ما اراہ، واللہ اعلم، وعلمہ اتم واحکم۔
جمعہ ورتبہ العاجز محمد طلحہ بلال احمد منیار بمعاونۃ المولوی خبیب بن محمد ایوب منیار
 

کیا اسلام میں ایسی کوئی دلیل ہے کہ جس میں میاں بیوی کا ایک دوسرے سے محبت کرنا واجب ہو؟

کیا اسلام میں ایسی کوئی دلیل ہے کہ جس میں میاں بیوی کا ایک دوسرے سے محبت کرنا واجب ہو؟
سوال
کیا اسلام میں ایسی کوئی دلیل ہے کہ جس میں میاں بیوی کا ایک دوسرے سے محبت کرنا واجب ہو؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر آدمی کیلیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
الحمد للہ:
اول:
خاوند اور بیوی کے ما بین محبت ایک فطری اور طبعی معاملہ ہے، تو ایسے معاملات میں یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ شریعت میں واجب ہے، یا شریعت نے اس چیز کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی فطری اور طبعی کیفیت پر ہی اکتفا کرلیا جاتا ہے، شرعی حکم کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔
اگر کوئی شخص ازدواجی زندگی کو یہ سمجھتا ہے کہ یہ رومانوی اور پھولوں بھرے خوابوں سے معمور ہوتی ہے اور بس! تو وہ نا قابل وجود چیز کو اس دنیاوی زندگی میں تلاش کررہا ہے، جبکہ اس دنیاوی زندگی کی طبیعت اور مزاج میں مشکلات، مشقتیں اور تکلیفیں ودیعت کی جا چکی ہیں، اللہ تعالی نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(لَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ فِي كَبَدٍ)
ترجمہ: بیشک ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں گھرا ہوا پیدا کیا ہے۔ [البلد:4]
طُبِعَت عَلى كدرٍ وَأَنتَ تُريدُها صَفواً مِنَ الأَقذاءِ وَالأَكدارِ
وَمُكَلِّف الأَيامِ ضِدَّ طِباعِها مُتَطَّلِب في الماءِ جَذوة نارِ
ترجمہ: گدلا پن اس کی طبیعت میں شامل ہے اور تم چاہتے ہو کہ وہ میل کچیل سے پاک صاف ہو!
اگر کوئی شخص گردش زمانہ سے الٹ چلنے کا مطالبہ کرے تو وہ پانی میں انگارے تلاش کرنے والے کی طرح ہے۔
چنانچہ جب یہ بات واضح ہوگئی اور ہم نے حقیقی نگاہ زندگی کے معاملات پر ڈالی تو اس دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جو ہر اعتبار سے کامل ہو اور اس میں کسی قسم کا عیب نہ پایا جاتا ہو، نیز سمجھنے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ عیوب دیکھنے کے باوجود بھی آپ آگے بڑھنے سے نہیں رکتے بلکہ معاملات کو آگے کی جانب لیکر جاتے ہیں۔
اسی لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو فرمایا جو اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا:
تم اسے کیوں طلاق دینا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: مجھے اس سے محبت نہیں ہے!
عمر: تو کیا ہر گھر کی بنیاد محبت پر ہی ہوتی ہے؟ باہمی شفقت اور حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے!!؟"
عیون الاخبار: (3/18)
یعنی مطلب یہ ہے کہ: اپنے دوست اور اہل خانہ کی جانب سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرو؛ کیونکہ لوگوں کا بھی اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ تقریباً وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت تمہارا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے سے محبت اور لگن بھی نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود ایک جگہ اٹھتے بیٹھتے ہیں، کہ ان کی ضروریات اور مجبوریاں انہیں ایک جگہ جمع کر دیتی ہیں!!
اسی خیال اور باہمی شفقت کی وجہ سے ہی ایک گھرانے کے افراد یکجا جمع ہوتے ہیں اور سب دوسروں کے حقوق سے بہرہ ور نظر آتے ہیں۔
اور حیا کی وجہ سے انسان کسی بھی ایسے اقدام سے بچتا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی خرابی رونما ہو، یا وہ کسی منفی سرگرمی کا باعث بن جائے۔
آپ اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور فرمائیں:
(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ)
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جانوں سے جوڑے بنائے تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے مابین مودت اور شفقت پیدا کی، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والی قوم کیلیے نشانیاں ہیں۔ [الروم:21]
تو اس آیت کی روشنی میں میاں بیوی کے درمیان محبت محض شرعی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے یہ اللہ تعالی کی خاوند اور بیوی کے درمیان پیدا کردہ چیز اور اللہ تعالی کی نشانی ہے، یہاں محبت کو شرعی واجب کے طور پر پیش نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالی میاں بیوی کو آپس میں محبت کرنے کا حکم دے؛ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قلبی محبت ایک ایسا امر ہے جو انسان کی ملکیت ہی نہیں ہے، البتہ حسن معاشرت اور حسن سلوک انسان کے بس کی باتیں ہیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے فرمان: (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا) کا مطلب ہے کہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے عورت پیدا کی جو تمہاری بیوی بن سکے تا کہ (لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا) تم اس کی جانب سے سکون حاصل کرو۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا وہی ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا تا کہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔[الاعراف: 189] یہاں بیوی سے مراد حوا ہیں، اللہ تعالی نے انہیں بائیں چھوٹی پسلی سے پیدا کیا۔ لیکن اگر اللہ تعالی آدم کی اولاد میں سب کو مرد بنا دیتا اور ان کی بیویاں جنوں یا حیوانوں میں سے کسی اور جنس سے بنا دیتا تو میاں بیوی کے درمیان باہمی محبت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہوتی، بلکہ اگر رفیق حیات کسی دوسری جنس سے ہو تو نفرت پیدا ہو جاتی۔
لہذا یہ اللہ تعالی کی اولاد آدم پر بھر پور رحمت کا مظہر ہے کہ ان کی بیویاں انہی کی جنس سے پیدا کی ہیں، پھر ان میں مودت بھی پیدا فرمائی جو کہ محبت کی صورت میں ہے، پھر شفقت بھی پیدا کی ، تو خاوند بسا اوقات بیوی سے محبت کی بنا پر بندھن قائم رکھتا ہے یا پھر شفقت کی بنا پر کہ انسان کی اس سے اولاد ہوتی ہے، یا بیوی کو خاوند کی ضرورت ہوتی ہے یا دونوں میں الفت یا کوئی اور سبب اتنا قوی ہوتا ہے کہ ان میں جدائی ممکن نہیں ہوتی" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (6/309)
اللہ تعالی نے سورت نساء میں ایک جگہ پر فرمایا:
(وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا)
ترجمہ: اور ان کے ساتھ دستور کے مطابق زندگی گزارو، پس اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند سمجھو لیکن اللہ تعالی اس میں بہت سی خیر پیدا فرما دے۔ [النساء: 19]
اس آیت کی تفسیر میں شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خاوند کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارے، حسن سلوک کرے، اسے تکلیف مت دے، اس کے ساتھ حسن کارکردگی دکھائے، اچھے انداز سے تعامل کرے، اس میں نان و نفقہ اور لباس وغیرہ کی تمام تر ذمہ داریاں شامل ہیں۔
اور پھر اللہ تعالی کا فرمان کہ: (فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا) اس کا مطلب یہ ہے کہ: خاوندو! بہتر یہی ہے کہ تم اپنی بیویوں کو نا پسند کرتے ہوئے بھی اپنے عقد میں رکھو ؛ کیونکہ اس میں بہت ہی خیر ہے۔ جس میں سب سے پہلے یہ کہ: یہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل اور اللہ تعالی کے مشورے کو قبول کرنا ہے جو کہ دنیا و آخرت میں سعادت مندی کا باعث ہے۔
اسی طرح اگر انسان اپنی بیوی کو ناپسند کرتے ہوئے اپنے عقد میں رکھے تو اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہے جو کہ مجاہدۂ نفس میں آتا ہے، اسی طرح یہ اعلی اخلاقی مظہر بھی ہے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے باہمی محبت نہ ہو لیکن بعد میں محبت پیدا ہو جائے اور اکثر ایسے ہی ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تعالی اسے اولاد سے نواز دے اور وہ اولاد اپنے والدین کیلیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث بن جائے، تو یہ سب کچھ اس وقت ہے جب بیوی کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہو اور کوئی خرابی رونما ہونے کا امکان نہ ہو۔
لیکن اگر جدائی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر نکاح کا بندھن قائم رکھنا ضروری نہیں ہے" ختم شد
تفسیر سعدی" (ص 172)
صحیح مسلم (1469) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی مومن کسی مومنہ [بیوی] سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی بات اچھی نہ لگے تو دیگر امور سے خوش ہوجائے)
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
"مطلب یہ ہے کہ: اپنی بیوی سے نفرت مت کرے؛ کیونکہ اگر بیوی میں کوئی نا گوار بات موجود ہے تو اس میں اچھی صفات بھی موجود ہوتی ہیں، مثلاً: بیوی تیز مزاج کی مالک ہے؛ لیکن ساتھ میں دیندار ہے، یا خوب صورت ہے، یا پاکدامن یا اپنی رفاقت کا حق ادا کرتی ہے یا اسی طرح کی کوئی اور خوبی اس میں پائی جاتی ہے" ختم شد
دوم:
اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ میاں بیوی کے درمیان محبت ہونا ضروری امر ہے، بلکہ دو طرفہ محبت ہونا واجبات میں سے ہے، اور خاوند کا بیوی سے محبت کرنا لازمی ہے، کہ خاوند ہر وقت بیوی کے ساتھ چمٹا رہے؛ تو پھر اس بات میں کیا مسئلہ ہے کہ مرد دو، تین یا چار شادیاں کرے اور ان سب سے محبت بھی کرے؟!
اس میں کیا مانع اور رکاوٹ ہے؟ صرف یہی کہ میاں بیوی کے بارے میں تخیلاتی رومانوی تصورات؟ یا میاں بیوی کے علاوہ کسی بھی دو افراد کے مابین پائی جانے والی محبت کے تصورات کہ محبت میں کوئی شریک نہیں ہو سکتا!؟ یہ محبت تو ایسی ہے کہ گویا اس تصور میں محبوب کو معبود بنا دیا گیا ہے کہ جس میں کسی تیسرے فرد کی شراکت اس کی عبادت اور پرستش میں شرک تصور ہو گا؟!!
کیا انسان اپنے والد، ماں اور اس کے علاوہ افراد سے محبت نہیں کرتا؟ حالانکہ اس محبت کو بھی محبت ہی کہتے ہیں! اس کے باوجود اتنے رشتوں سے بیک وقت محبت شراکت داری کا شکار نہیں ہوتی؛ تو اسی طرح ایک آدمی ایک وقت میں کئی بیویوں سے محبت کرے اس میں کیا مانع ہے؟
کیا انسان ایک وقت میں متعدد قسم کے کھانے پسند نہیں کرتا؟ حالانکہ سب کے سب کھانے ہی ہیں، ہر ایک کا ذائقہ اور خوشبو دوسرے سے مختلف ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود انسان تمام کھانوں کو پسند کرتا ہے اور سب کھانا چاہتا ہے؛ تو ایسے میں کون سی ایسی عقلی یا شرعی ممانعت ہے جو ایک سے زیادہ بیویوں سے محبت کرنے میں حائل اور رکاوٹ بن سکتی ہے؟
ایسی کون سی چیز ہے جو مرد کی بیوی سے محبت کو اتنا خاص بناتی ہے کہ اس میں کسی اور فرد کو شامل نہیں کیا جاسکتا؟!
کیا محبت میں عدم شراکت کا مطالبہ رب العالمین سے محبت کا تقاضا اور خاصہ نہیں ہے؟!
اگر یہ کہا جائے کہ: دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ انسان ایک وقت میں ایک ہی عورت سے دل لگاتا ہے اور اسی طرح ایک عورت ایک وقت میں ایک ہی مرد کو دل دیتی ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگ صرف ایک ہی شادی پر اکتفا کرتے ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ لوگ ایک سے زائد شادی نہ کریں، اسی طرح وہ پھر بھی ایک سے زیادہ افراد سے محبت کرتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے جس پر زمینی حقائق بھی موجود ہیں۔
 ------------------
بیوی کے ساتھ محبت ہونا محمود ومطلوب ہے
https://mastooraat.blogspot.com/2019/02/blog-post_70.html

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے نام

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے نام
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے نام بیشمار ہیں، بعض علماء ۶۰، بعض نے ۹۹، بعض نے ۲۰۰، بعض نے ۳۰۰، بعض نے ۵۰۰، اور بعض نے ایک ہزار تعداد بتائی ہے، بہت سے محققین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه نے ”النہجة السنیة“ نامی مبسوط و مفصل کتاب تحریر فرمائی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ۵۰۰ اسماء گرامی شمار کروائے ہیں جبکہ قاضی ابوبکر بن العربی نے ترمذی کی شرح میں بعض صوفیاء کے حوالہ سے ایک ہزار ”نام گرامی“ نقل کیے ہیں، لیکن ان تمام ناموں میں ”محمد“ اور ”احمد“ سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ محمد تو قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے، اور ”احمد“ کا انجیل اور دیگر آسمانی کتابوں میں ذکر آیا ہے، قرآن کریم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے ”سورة الصف آیت:۶ میں یہ لفظ مذکور ہوا ہے۔
سیوطی کی اسی کتاب سے منقول حضور کے چند صفاتی نام یہ ہیں:
1- أحمد
2- الأتقى
3- الأبر
4- الأصدق
5- الأحسن
6- الأجود
7- أشجع الناس
8- أرجح الناس عقلاً
9- الأزهر
10- الأعلم بالله
11- الأخشى لله
12- أفصح العرب
13- أطيب الناس ريحاً
14- أكثر الناس تبعاً
15- الأكرم
16- الإمام
17- إمام النبيين
18- إمام المتقين
19- إمام الخير
20- الأمن
21- الأمين
22- الأمى
23- الأواه
24- البرهان
25- بشرى عيسى
26- حامل لواء الحمد
27- الحبيب
28- حبيب الله
29- حبيب الرحمن
30- الحجة
31- الحريص
32- الحكيم
33- الحليم
34- الحنيف
35- خاتم النبيين
36- الخاشع
37- الخاضع
38- الخطيب
39- خير العالمين
40- الداعي
41- دعوة إبراهيم
42- الدليل
43- ذو الخلق العظيم
44- ذو المعجزات
45- الراضي
46- الراغب
47- راكب البراق
48- رحمة للعاملين
49- الرحمة المهداة
50- رسول الملاحم
51- الرفيع الذكر
52- الزاهد
53- الزكي
54- سابق العرب
55- الساجد
56- السراج المنير
57- سيد ولد أدم
58- سيد المرسلين
59- سيد الناس
60- سيف الإسلام
61- الشافع
62- الشاكر
63- الشاهد
64- الصابر
65- صاحب الآيات
66- صاحب الحوض
67- صاحب الخير
68- صاحب الدرجة الرفيعة
69- صاحب المقام المحمود
70- الصادق
71- المصدوق
72- الصالح
73- الصفوح
74- الصفي
75- الضحوك
76- الظاهر
77- طه
78- الطيب
79- العابد
80- العادل
81- العاقب
82- العبد
83- العربي
84- عصمة الله
85- العفيف
86- الغالب
87- الفاتح
88- الفارق
89- الفصيح
90- فضل الله
91- قاسم
92- القاضي
93- القابت
94- قائد الخير
95- قائد الغر المحجلين
96- القرشي
97- الكامل
98- المأمون
99- المانع
100- المبارك
101- المبهل
102- المبتسم
103- المنيع
104- المترحم
105- المتضرع
106- الملتقى
107- المتهجد
108- المتوكل
109- المجتبى
110- المحفوظ
111- محمود
112- الخبت
113- المختار
114- المخلص
115- المدثر
116- المزمل
117- الصدق
118- المصطفى
119- المصلح
120- المطاع
121- المظهر
122- المظفر
123- الموثر
124- المعلم
125- المقتصد
126- المكرم
127- المكين
128- المنذر
129- المنصف
130- المنصور
131- المنير
132- المهاجر
133- المهتدي
134- المهدي
135- الناصح
136- النذير
137- نعمة الله
138- التقي
139- النور
140- الهادي
141- الهدى
142- الهاشمي
143- الواسط
144- الواعظ
145- الوالي
146- اليتم
147- البشرى

https://mastooraat.blogspot.com/2019/02/blog-post_94.html

غیر مسلموں کے لیے لفظ 'شہید' کا استعمال

غیر مسلموں کے لیے لفظ 'شہید' کا استعمال
شہید کا لغوی معنی ہے گواہ کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔ اور شریعت میں اِس کا مفہوم ہے۔ اللہ تعالٰی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا، 
-----------------------------
14 فروری 2019 کو کشمیر کے پلوامہ میں چالیس سے زائد بھارتی فوجی ایک دہشت گردانہ حملے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا جس کی اسلام میں قطعا گنجائش نہیں ہے۔ انسانوں کے اس جانی نقصان پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے۔ یقینا ہر محب وطن اس وقت وطن کے لیے قربانی دینے والوں کے خاندانوں کے ساتھ ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ ان فوجیوں نے اپنے وطن کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرکے وطن کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جانے کے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا۔

سوشل میڈیا پر بلا تفریق مذہب ملک کے باشندگان نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ اظہار کرنے والوں نے اس کے لیے مختلف طریقے اور انداز اپنائے۔ بعض لوگوں نے جان نچھاور کرنے والے ان فوجیوں کے لیے لفظ "شہید" کا بھی استعمال کیا، حالانکہ یہ لفظ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا ذکر قرآن وحدیث اور فقہ کی تقریبا ہر کتاب میں موجود ہے۔ کسی لفظ کو اصطلاح بنانے کے پیچھے ایک خاص فلسفہ ہوتا ہے، اب اگر اس اصطلاح کا استعمال کسی دوسرے معنی میں ہونے لگے، تو یہ اس فلسفے اور نظریے کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ اس طرح کی غلطی اگر عوام الناس کریں تو بھی غلط ہے، لیکن یہ غلطی چند علماء کی طرف سے ہو اور پھر توجہ دلانے کے باوجود بھی وہ اس پر مصر رہیں تو یہ باعث حیرت بھی ہے اور باعث افسوس بھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ وقت اس طرح کے مسائل اٹھانے کا نہیں ہے، حالانکہ منکر پر نکیر بر وقت کی جانی چاہیے، بعد میں نکیر اتنی موثر نہیں ہوتی، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلہ پر شریعت کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی جائے۔

لیکن اپنے موقف پر دلائل دینے سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ 15 دسمبر 2017 کی ٹائمز آف انڈیا کی اشاعت کے مطابق، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں یہ کہا تھا کہ فوج یا پولیس کے لیے "شہید" یا انگریزی میں martyr جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ battle casualty یا operation casualty جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ملک کی خاطر جان دینے والوں کے لیے "شہید" کا استعمال نہ کرنا ان کی توہین نہیں ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری طور پر اس کا عرف بھی نہیں ہے، عوام میں کچھ لوگوں کے نزدیک عرف ہے اور کچھ کے نزدیک نہیں، لیکن ایسا عرف شریعت کی نظر عرف بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اب آئیے اصل مبحث کی طرف۔

ہمارا دعویٰ ہے کہ شرعی اصطلاحات کا استعمال ان کے اپنے محل میں کرنا چاہیے، غیر محل میں ان کا استعمال درست نہیں ہے۔ شہید ایک شرعی اصطلاح ہے اور اس کا درست محل وہ شخص ہے جو بغیر کسی دنیاوی غرض کے، اللہ کے راستے میں اپنی جان دیدے۔ اس دعوے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

1- فی سبیل اللہ بھی ایک شرعی اصطلاح ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس اصطلاح کا مفہوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی بہادری ثابت کرنے کے لیے لڑتا ہے، دوسرا شخص (اپنے قبیلے یا وطن کی) محبت وحمیت میں لڑتا ہے، کیا یہ اللہ کے راستے میں لڑنے والے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: فی سبیل اللہ کا مصداق وہ شخص ہے جو اس لیے لڑے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ (متفق علیہ) اس حدیث کی روشنی میں فی سبیل اللہ کا مفہوم متعین ہو گیا، خود شارع ہی اس کو کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کرے تو ٹھیک ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے کسی دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

2- صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کا نام "کرم" رکھنے سے منع فرمایا ہے، آپ کا ارشاد ہے کہ کرم تو مومن کا قلب ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس چیز کی اللہ تعالی نے مذمت فرمائی ہو (شراب مذموم ہے جو انگور سے بنتی ہے) اس کے لیے کسی ایسے لفظ کا استعمال کرنا جس سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہوتی ہو جائز نہیں ہے، حالانکہ کرم کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے۔

3- صحیح مسلم کی روایت کے مطابق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعشاء کی نماز کے لیے لفظ "عتمہ" کے استعمال سے ممانعت فرمائی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کی اصطلاحات کی حفاظت ہو سکے اور ان کو ترک نہ کر دیا جائے" (زادالمعاد ج: 2 ص:320) اس حدیث اور ابن قیم کی مذکورہ تشریح سے اصطلاحات کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

4- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں غلام کو کہا کہ وہ اپنے آقا کو ربی کہہ کر نہ پکارے اور آقا کو کہا کہ وہ اپنے غلام کو عبدی کہہ کر مخاطب نہ ہو۔ جب کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ رب کا استعمال غیر اللہ کے لیے عام ہے، لیکن یا ضمیر کے اضافے نے اس کو اصطلاح بنادیا اور اس کا استعمال غیر اللہ کے لیے ناجائز ہوگیا۔

5- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بنو تغلب کے عیسائیوں نے جزیہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سے ڈبل صدقہ لے لو لیکن ہم عجمیوں کی طرح جزیہ نہیں دے سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو چاہے جو کہو، ہمارے نزدیک یہ جزیہ ہی ہے  (اعلاء السنن ج: 12 ص: 584) اس سے ثابت ہوا کہ اگر غیر مسلم آپس میں کسی شرعی اصطلاح کو دوسرے معنی میں استعمال کرتے ہوں تو ان سے تعرض کرنے کی یا ان کی مخالفت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اصطلاح کو اپنے اصل معنی میں باقی رکھیں۔

6- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "شرعی اصطلاحات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں بیان فرمادیا ہے، ان سے وہی معنیٰ مراد ہوں گے جو رسول سے ثابت ہیں، ان کے علاوہ دوسرے معانی نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنا رسول کی مخالفت ہے"۔ (مجموع الفتاوی ج 7، ص 286)

7- کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ لفظ "شہید" ہندی زبان کے عرف میں غیر مسلموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لہذا ملک کے موجودہ عرف کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ شہید اپنے غیر اصطلاحی معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو یہ ثابت ہو کہ ایسا عرف ملک میں موجود ہے یا نہیں۔ اوپر کی سطور میں یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے مطابق ان کے یہاں ایسا کوئی عرف موجود نہیں ہے۔ نیز الاشباہ والنظائر میں ایک قاعدہ مذکور ہے: "العرف غير معتبر في المنصوص عليه" یعنی کسی لفظ کے معنی متعین کرنے کے تعلق سے اگر کوئی نص وارد ہوگئی، تو اس کے خلاف عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔

8- امام سرخسی کی شرح السیر میں بھی یہ قاعدہ لکھا ہے کہ "اگر مسلمانوں کی طرف سے لفظ کے مدلول کی صراحت ہوجائے تو عرف کا اعتبار نہیں ہوگا" (قواعد الفقہ ص 62).

9- علامہ آمدی فرماتے ہیں کے شارع کی طرف سے جب کسی لفظ کے معنیٰ متعین ہو گئے، تو اس کا اپنے لغوی معنی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ شرعی معنی میں ہی استعمال کرنا واجب ہے۔ (الإحكام ج4  ص 252)

10- پھر سوال یہ بھی ہے کہ وطن کے لیے جان دینے والے غیر مسلموں کے لیے شہید کا استعمال کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر مراد ان کی تعظیم ہے تو اس کے لیے دوسرے الفاظ موجود ہیں، اسی لفظ پر اصرار کیوں ہے؟ اصرار شاید اسی لیے ہے کہ یہ لفظ تعظیم کا وہ مفہوم ادا کرتا ہے جو کوئی دوسرا لفظ نہیں کرسکتا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر وہ مفہوم خاص ہے، اس کو عام  قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق شہید کا لفظ غیرمسلموں میں سب سے پہلے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں اپنی جان نچھاور کرنے والے منگل پانڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور نہ ہونے کی وجہ سے، ہوسکتا ہے کہ اس لفظ کو شہرت نہ ملی ہو، ورنہ اس دور کے علماء یقینا اس پر نکیر کرتے۔

اس پوری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہید کیونکہ ایک شرعی اصطلاح ہے، اس لیے اس کا استعمال اپنے محل میں ہی ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جو لوگ وطن کے نام پر جان قربان کرنے والوں کے لیے شہید کا استعمال نہیں کرتے وہ محب وطن نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے کے لیے شریعت کی اصطلاحات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ایسے افراد (کہ جنہوں نے وطن کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو) کی قربانی یقینا بہت بڑی ہے۔ ایسے افراد کے لیے ہندوستان کے تناظر میں  "ویرگتی" کا لفظ موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے فوجیوں کی قربانی کے تئیں اپنے افسوس کے اظہار کے لیے اسی لفظ کا استعمال کریں۔

مجھے امید ہے کہ اس رائے سے اختلاف کرنے والے احباب جذباتیت یا مصلحت کا حوالہ نہ دے کر، دلائل کی بنیاد پر ہی اپنی بات رکھیں گے، کیوں کہ مسئلہ ایک شرعی اصطلاح کا ہے حب وطن کا نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
یاسر ندیم الواجدی
-----------------------------

کسی بھی موضوع پر دلائل کا انبار لگانے سے پہلے باریکی کے ساتھ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ دلائل relevant اور واقعۃً زیرِ بحث مسئلے سے متعلق ہیں بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسئلہ کچھ اور ہو اور دلائل کسی اور چیز پر ہوں۔ میرے خیال میں یہاں بھی یہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ذیل میں سرسری طور پر اس سے متعلق چند باتیں عرض ہیں:

لفظِ شہید کے دو معنی ہیں، اصطلاحی/ شرعی اور عرفی۔ پھر شرعی اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں، حقیقی اور حکمی۔ حقیقی شہید تو وہ ہے جو مقتول فی سبیل اللہ ہو۔ اسے غسل نہیں دیا جائے گا اور اسی خون آلود کپڑوں میں جنازے کی نماز پڑھی جائے گی۔ حکمی شہید وہ سب ہیں جن کے بارے میں احادیث میں لفظِ شہید کا اطلاق ہوا ہے مثلاً پیٹ کے درد کی وجہ سے، ڈوبنے کی وجہ سے، اپنے مال وجان کی حفاظت میں مرنے والا شخص۔ انہیں عام مسلمانوں کی طرح غسل دیا جائے گا اور کفن پہنایا جائے گا۔
عرفی شہید وہ ہے جس پر کسی علاقے میں شہید کا اطلاق کیا جاتا ہو۔ وہاں شرعی معنی مراد نہیں ہوتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں شہید کا اطلاق عرفاً بطور اعزاز وتکریم ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے جو وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دیدیں۔ اس عرفی معنی میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ نہ ہی کسی کو وہم ہوتا ہے کہ یہاں شہید شرعی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
ایسے بہت سارے الفاظ ہیں جو شرعی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور عرفی ولغوی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ خود شہید اور شہداء کا لفظ مقتول فی سبیل اللہ کے علاوہ لغوی معنی میں قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ صلاۃ کا لفظ شرعی کے علاوہ لغوی معنی میں بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية. نکاح اصطلاحی لفظ ہے مگر یہ صرف لغوی معنی یعنی وطی کے لئے بھی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ ہم ہندوستان کے عرف میں بابری مسجد کے انہدام یا کسی بھی مسجد کے انہدام کے لئے لفظِ شہادت استعمال کرتے ہیں اور کوئی بھی اسے شرعی معنی میں نہیں سمجھتا ہے۔ اور تو اور خود دار العلوم دیوبند کے فتاویٰ میں مسجد کے انہدام پر جابجا شہادت لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ہم ہندوستان کے عرف میں لفظِ جہاد اور مجاہد کا لفظ جنگِ آزادی اور اصحابِ تحریکِ آزادی کے لئے بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ مولانا آزاد ودیگر علماء کے ساتھ گاندھی جی اور نہرو کو بھی مجاہدینِ آزادی کہتے ہیں اور کوئی اسے شرعاً غلط نہیں سمجھتا ہے۔ تحریکِ آزادی کے دوران اور بعد میں بھی بہتیرے غیر مسلموں پر لفظِ شہید کا اطلاق اخبارات ورسائل ومیڈیا میں خوب کیا گیا مگر کبھی بھی ہمارے مفتیانِ کرام اور بڑے علماء بشمول حضرت مدنی، مفتی کفایت اللہ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہم اللہ وغیرہم نے اس اطلاق پر نکیر نہیں کی۔ ہم بے تکلف ایمان دار کا لفظ بہت سارے غیر مسلم بھائیوں کے لئے honest کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور کوئی یہ کہکر معترض نہیں ہوتا ہے کہ ایمان ایک اصطلاحی لفظ ہے جو ماجاء به الرسول کو ماننے کا نام ہے جس میں توحید ورسالت وغیرہ سب شامل ہیں لہٰذا غیر مسلم کے لئے ایمان دار کا لفظ استعمال کرنا ناجائز ہے۔

حاصل یہ ہے کہ لفظِ شہید کے عرفی معنی کا شرعی واصطلاحی معنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طرح یہ شرعی معنی میں استعمال ہوتا ہے عرفی معنی میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی خود نہ کرے نہ کرے مگر کسی کے ذریعے اس کے اطلاقِ عرفی پر نکیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہندوستان میں شہید martyr کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے وہ شخص جس نے اپنے مذہب یا اپنے وطن کے لئے جان قربان کردی ہو۔ آخر خود لفظ قربان کرنا یا قربانی کرنا بھی تو اصطلاحی لفظ مگر اصطلاح کے علاوہ دوسرے معنی میں کیا استعمال نہیں ہوتا ہے؟ خود صاحبِ تحریر نے جان کا نذرانہ کی تعبیر استعمال کی ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صاحب نذر نذرانہ خالص اصطلاحی لفظ ہے اور نذر میں جان دینا حرام ہے اور اس لفظ کا اطلاق یہاں غلط ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا ملک ووطن کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے والے بہادروں کے لئے تکریماً عرفی معنی کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی شہید یا شہادت کے لفظ کا اطلاق کرتا ہے تو یہ غلط نہیں ہے اور اس پر نکیر نہیں کی جانی چاہئے۔

رہا یہ استدلال کہ ایسے مقتول سپاہیوں کے بارے میں لفظِ شہید اور لفظ martyr کے اطلاق کے بارے میں RTI کے ذریعے جب پوچھا گیا تو جواب میں بتایا گیا کہ ان پر شہید اور martyr کا لفظ اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے تو یہ محض سرکاری کاروائی اور قانونی ضابطے کے اعتبار سے تھا کیونکہ قانونی اعتبار سے جب کوئی شہید کہلائے گا تو اسے شہید کی تمام سرکاری مراعات اور فضائل حاصل ہونگے، اطلاق کی یہ ممانعت غیر سرکاری اعتبار سے نہیں تھی جو کہ ہمارا عرف ہے۔ کیونکہ خود لفظ martyrdom کے لغوی معنی میں کسی بھی ڈکشنری میں martyrdom کی قانونی وسرکاری شرطیں نہیں لگائی گئی ہیں۔ گویا کہ اصطلاحِ قانونِ ملکی میں صرف انہیں پر لفظِ شہید و martyrdom استعمال کیا جائے گا جن میں قانونی شہادت کی شرطیں پائی جائینگی مگر عرفِ عام میں محض اظہارِ اعزاز وتکریم کے لئے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان دینے والے سپاہیوں پر شہید لفظ کے استعمال کی ممانعت کسی بھی RTI میں مذکور نہیں ہے۔

مفتی عبید اللہ صاحب اسٹنٹ پروفیسر دہلی یونیورسٹی 
https://mastooraat.blogspot.com/2019/02/blog-post_17.html