فاسق اور بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا
سوال: ]۲۳۴۷[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ
(۱) زید دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتا ہے، اور زید کے مکان کے اطراف میں جتنی مساجد ہیں ،وہ سب بدعتی لوگوں کی ہیں اور امام مسجد بھی بدعتی ہے، اور پائجامہ تہبند ٹخنوں سے نیچار کھتے ہیں، اور زید کے مسلک کی مسجد زید کے گھر سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پر ہے، اور زید کا اتنی دوری پر پنج وقتہ نماز میں پہنچنا دشوار ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ زید کا بدعتی امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ٹھیک ہے یا اپنی فرداً نماز پڑھنا درست ہے؟ جواب دیں؟
(۲) جماعت اسلامی کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا ٹھیک ہے یا نہیں؟
المستفتي: سید محمد سہیل، محلہ بروالان نل والی مسجد ،ضلع: مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
ایسی مجبوری میں فاسق اور بدعتی کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ میں افضل اور بہتر ہے۔
عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله ﷺ: الصلاۃ واجبۃ خلف کل مسلم براً کان أو فاجراً ، وإن عمل الکبائر۔ (سنن ابي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ البر والفاجر، دارالسلام ۹۷، رقم: ۵۹۴)
یہ روایت ہندی نسخہ میں دستیاب نہیں ہوئی۔
قلت: في أمرہ بالصلاۃ خلف الفاجر مع أن الصلاۃ خلف الفاسق، والفاجر مکروہۃ عندنا دلیل علی وجوب الجنازۃ۔ (بذل المجہود، کتاب الصلاۃ ، باب إمامۃ البر والفاجر ، دارالبشائر الإسلامیہ بیروت جدید۵/۴۷۷، مطبع میرٹھ قدیم ۱/۳۳۲)
لو صلی خلف فاسق أو مبتدع ینال فضل الجماعۃ لکن لاینال کما ینال خلف تقی ورع الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ کوئٹہ ۱/۳۴۹، زکریا۱/۶۱۰) فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۲۶؍ربیع الاول ۱۴۱۲ھ
(الف فتویٰ نمبر:۲۷/۲۶۰۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲۶؍۳؍۱۴۱۲ھ
فتاویٰ قاسمیہ ششم
--------
بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر ہے یا تنہا پڑھنا
سوال: ]۲۳۴۶[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص کسی کے گھر پر عصر کے بعد کسی کام سے جاتا ہے، مغرب کے بعد وہاں سے واپسی ہوتی ہے، اس جگہ پر دو مسجدیں ہیں، اور دونوں بدعتیوں کی ہیں، تو کیا یہ شخص اس مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتاہے یا نہیں؟ اگر پڑھ سکتا ہے تو جس طرح وہ لوگ کرتے ہیں، تو یہ بھی اس طرح کرے یا نہیں؟ مثلاً أشہدأن محمد رسول الله پر انگوٹھے چومنا اور حی علی الفلاح پر کھڑے ہونا سلام کے بعد ان کی دعا پر آمین کہنا یا یہ شخص جس کے گھر پر جاتا ہے، اسی میں تنہا نماز پڑھے یا کچھ آدمیوں کے ساتھ جماعت کرلے۔
المستفتي: محمد اختر، بجنور
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اگر امام فاسق یا بدعتی ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا اگر چہ مکروہ ہے لیکن تنہا پڑھنے سے ان کی جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔ (مستفاد: امدادالفتاویٰ ۱/۳۷۹)
عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله ﷺ الجہاد واجب علیکم مع کل أمیر ، براً کان أو فاجراً، والصلاۃ واجبۃ علیکم خلف کل مسلم براً کان أو فاجراً، وإن عمل الکبائر، الحدیث: (سنن أبي داؤد ، کتاب الجہاد، باب الغز ومع ائمۃ الجور ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۳۴۳، دارالسلام رقم: ۲۵۳۳)
وخلفہ مع الکراھۃ۔ (الہندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث زکریا قدیم۱/۸۴، جدید۱/۱۴۱)
صلی خلف فاسق ومبتدع نال فضل الجماعۃ وفی الشامی أفاد أن الصلوٰۃ خلفہا أولیٰ من الانفراد۔(شامی ، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ ،کراچی ۱/۵۶۱، زکریا۲/۳۰۱، الہندیہ زکریا قدیم۱/۸۴، جدید۱/۱۴۱)
علامہ شامی رحمہ اللہ نے اذان کے وقت انگوٹھے چومنے کوعلامہ قہستانی وغیرہ سے مستحب نقل کرنے کے بعد علامہ جراحی سے نقل کیا ہے، کہ کسی حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے، اس طرح کی تمام روایتیں ضعیف تر ہیں، اس لئے اذان کے وقت انگوٹھے نہ چومے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۱/۳۷۹)
وذکر ذلک جراحی وأطال ثم قال ولم یصح فی المرفوع من ہذا شیئی ۔ (شامی ، کتاب الصلاۃ ، باب الآذان کراچی ۱/۳۹۸، زکریا۲/۶۸)
اور اقامت کے شروع میں کھڑے ہونے کا مقصد صفوں کو درست کرنا ہے ، آپ تنہا کھڑے ہوکر بیٹھنے والوں کی صفوں کو کیا درست کریں گے، اس لئے حی علی الفلاح تک بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ (مستفاد :احسن الفتاویٰ ۲/۳۰۷) فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۱۰؍صفر المظفر ۱۴۲۳ھ
(الف فتویٰ نمبر:۳۶/۷۴۹۶)
فتاویٰ قاسمیہ ششم
-------
سوال: میرا سوال یہ ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟جتنے سارے اعلی حضرت کے متبعین ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟اور کہنا یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب قاسمی ہیں ، لیکن عید میں گلے ملتے ہیں اور تراویح کا پیسہ بھی لیتے ہیں، قرآن خوانی بھی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو کہنا یہ ہے کہ یہ سب بھی بدعت ہے تو کیا ان کے پیچھے نماز ہوجائے گی؟ اگر ان کے پیچھے نماز ہوگی تو ان کے پیچھے کیوں نہیں جن کے عقائد درست نہیں ہے، ان کے پیچھے نماز نہیں تو بدعتی کے عقائد بھی تو درست نہیں تو ان کے پیچھے جائز کیسے ہوگی؟ اور کوئی کہے کہ عقائد ہم دل میں کیسے دیکھیں تو یہ کیا صحیح ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
بدعتی کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، گلے ملنا، مروجہ قرآن خوانی کرنا، تراویح پڑھانے پر اجرت لینا؛ یہ سب امور بھی شریعت کی رو سے صحیح نہیں ہیں، اگر کوئی امام ان چیزوں کا مرتکب ہے، تو اُس کے پیچھے بھی نماز مکروہ ہوگی، لیکن بدعتی کا معاملہ زیادہ نازک ہے؛ اس لئے کہ بعض بدعتی کے عقائد سراسر اِسلام کے خلاف اور کفریہ ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں اور جن بدعتیوں کے عقائد و اعمال فسقیہ ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ اندرون اور دل سے ہے؛ لیکن ظاہری اعمال ہی سے باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔
قال الحصکفي :و یکرہ امامة العبد۔۔۔۔۔و مبتدع، أي: صاحب بدعة، و ہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ۔۔۔۔لایکفر بہا ۔۔۔وان کفر بھا، فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً ۔قال ابن عابدین: قولہ: (وہي اعتقادالخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن الی الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا؛ فان من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔۔۔۔(الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۵۴۔۔۲۵۷، ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت)
No comments:
Post a Comment