غیر مسلموں کے لیے لفظ 'شہید' کا استعمال
شہید کا لغوی معنی ہے گواہ کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔ اور شریعت میں اِس کا مفہوم ہے۔ اللہ تعالٰی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا،
-----------------------------
14 فروری 2019 کو کشمیر کے پلوامہ میں چالیس سے زائد بھارتی فوجی ایک دہشت گردانہ حملے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا جس کی اسلام میں قطعا گنجائش نہیں ہے۔ انسانوں کے اس جانی نقصان پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے۔ یقینا ہر محب وطن اس وقت وطن کے لیے قربانی دینے والوں کے خاندانوں کے ساتھ ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ ان فوجیوں نے اپنے وطن کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرکے وطن کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جانے کے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا۔
سوشل میڈیا پر بلا تفریق مذہب ملک کے باشندگان نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ اظہار کرنے والوں نے اس کے لیے مختلف طریقے اور انداز اپنائے۔ بعض لوگوں نے جان نچھاور کرنے والے ان فوجیوں کے لیے لفظ "شہید" کا بھی استعمال کیا، حالانکہ یہ لفظ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا ذکر قرآن وحدیث اور فقہ کی تقریبا ہر کتاب میں موجود ہے۔ کسی لفظ کو اصطلاح بنانے کے پیچھے ایک خاص فلسفہ ہوتا ہے، اب اگر اس اصطلاح کا استعمال کسی دوسرے معنی میں ہونے لگے، تو یہ اس فلسفے اور نظریے کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ اس طرح کی غلطی اگر عوام الناس کریں تو بھی غلط ہے، لیکن یہ غلطی چند علماء کی طرف سے ہو اور پھر توجہ دلانے کے باوجود بھی وہ اس پر مصر رہیں تو یہ باعث حیرت بھی ہے اور باعث افسوس بھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ وقت اس طرح کے مسائل اٹھانے کا نہیں ہے، حالانکہ منکر پر نکیر بر وقت کی جانی چاہیے، بعد میں نکیر اتنی موثر نہیں ہوتی، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلہ پر شریعت کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی جائے۔
لیکن اپنے موقف پر دلائل دینے سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ 15 دسمبر 2017 کی ٹائمز آف انڈیا کی اشاعت کے مطابق، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں یہ کہا تھا کہ فوج یا پولیس کے لیے "شہید" یا انگریزی میں martyr جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ battle casualty یا operation casualty جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ملک کی خاطر جان دینے والوں کے لیے "شہید" کا استعمال نہ کرنا ان کی توہین نہیں ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری طور پر اس کا عرف بھی نہیں ہے، عوام میں کچھ لوگوں کے نزدیک عرف ہے اور کچھ کے نزدیک نہیں، لیکن ایسا عرف شریعت کی نظر عرف بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اب آئیے اصل مبحث کی طرف۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ شرعی اصطلاحات کا استعمال ان کے اپنے محل میں کرنا چاہیے، غیر محل میں ان کا استعمال درست نہیں ہے۔ شہید ایک شرعی اصطلاح ہے اور اس کا درست محل وہ شخص ہے جو بغیر کسی دنیاوی غرض کے، اللہ کے راستے میں اپنی جان دیدے۔ اس دعوے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
1- فی سبیل اللہ بھی ایک شرعی اصطلاح ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس اصطلاح کا مفہوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی بہادری ثابت کرنے کے لیے لڑتا ہے، دوسرا شخص (اپنے قبیلے یا وطن کی) محبت وحمیت میں لڑتا ہے، کیا یہ اللہ کے راستے میں لڑنے والے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: فی سبیل اللہ کا مصداق وہ شخص ہے جو اس لیے لڑے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ (متفق علیہ) اس حدیث کی روشنی میں فی سبیل اللہ کا مفہوم متعین ہو گیا، خود شارع ہی اس کو کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کرے تو ٹھیک ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے کسی دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
2- صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کا نام "کرم" رکھنے سے منع فرمایا ہے، آپ کا ارشاد ہے کہ کرم تو مومن کا قلب ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس چیز کی اللہ تعالی نے مذمت فرمائی ہو (شراب مذموم ہے جو انگور سے بنتی ہے) اس کے لیے کسی ایسے لفظ کا استعمال کرنا جس سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہوتی ہو جائز نہیں ہے، حالانکہ کرم کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے۔
3- صحیح مسلم کی روایت کے مطابق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعشاء کی نماز کے لیے لفظ "عتمہ" کے استعمال سے ممانعت فرمائی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کی اصطلاحات کی حفاظت ہو سکے اور ان کو ترک نہ کر دیا جائے" (زادالمعاد ج: 2 ص:320) اس حدیث اور ابن قیم کی مذکورہ تشریح سے اصطلاحات کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
4- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں غلام کو کہا کہ وہ اپنے آقا کو ربی کہہ کر نہ پکارے اور آقا کو کہا کہ وہ اپنے غلام کو عبدی کہہ کر مخاطب نہ ہو۔ جب کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ رب کا استعمال غیر اللہ کے لیے عام ہے، لیکن یا ضمیر کے اضافے نے اس کو اصطلاح بنادیا اور اس کا استعمال غیر اللہ کے لیے ناجائز ہوگیا۔
5- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بنو تغلب کے عیسائیوں نے جزیہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سے ڈبل صدقہ لے لو لیکن ہم عجمیوں کی طرح جزیہ نہیں دے سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو چاہے جو کہو، ہمارے نزدیک یہ جزیہ ہی ہے (اعلاء السنن ج: 12 ص: 584) اس سے ثابت ہوا کہ اگر غیر مسلم آپس میں کسی شرعی اصطلاح کو دوسرے معنی میں استعمال کرتے ہوں تو ان سے تعرض کرنے کی یا ان کی مخالفت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اصطلاح کو اپنے اصل معنی میں باقی رکھیں۔
6- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "شرعی اصطلاحات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں بیان فرمادیا ہے، ان سے وہی معنیٰ مراد ہوں گے جو رسول سے ثابت ہیں، ان کے علاوہ دوسرے معانی نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنا رسول کی مخالفت ہے"۔ (مجموع الفتاوی ج 7، ص 286)
7- کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ لفظ "شہید" ہندی زبان کے عرف میں غیر مسلموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لہذا ملک کے موجودہ عرف کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ شہید اپنے غیر اصطلاحی معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو یہ ثابت ہو کہ ایسا عرف ملک میں موجود ہے یا نہیں۔ اوپر کی سطور میں یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے مطابق ان کے یہاں ایسا کوئی عرف موجود نہیں ہے۔ نیز الاشباہ والنظائر میں ایک قاعدہ مذکور ہے: "العرف غير معتبر في المنصوص عليه" یعنی کسی لفظ کے معنی متعین کرنے کے تعلق سے اگر کوئی نص وارد ہوگئی، تو اس کے خلاف عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔
8- امام سرخسی کی شرح السیر میں بھی یہ قاعدہ لکھا ہے کہ "اگر مسلمانوں کی طرف سے لفظ کے مدلول کی صراحت ہوجائے تو عرف کا اعتبار نہیں ہوگا" (قواعد الفقہ ص 62).
9- علامہ آمدی فرماتے ہیں کے شارع کی طرف سے جب کسی لفظ کے معنیٰ متعین ہو گئے، تو اس کا اپنے لغوی معنی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ شرعی معنی میں ہی استعمال کرنا واجب ہے۔ (الإحكام ج4 ص 252)
10- پھر سوال یہ بھی ہے کہ وطن کے لیے جان دینے والے غیر مسلموں کے لیے شہید کا استعمال کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر مراد ان کی تعظیم ہے تو اس کے لیے دوسرے الفاظ موجود ہیں، اسی لفظ پر اصرار کیوں ہے؟ اصرار شاید اسی لیے ہے کہ یہ لفظ تعظیم کا وہ مفہوم ادا کرتا ہے جو کوئی دوسرا لفظ نہیں کرسکتا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر وہ مفہوم خاص ہے، اس کو عام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق شہید کا لفظ غیرمسلموں میں سب سے پہلے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں اپنی جان نچھاور کرنے والے منگل پانڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور نہ ہونے کی وجہ سے، ہوسکتا ہے کہ اس لفظ کو شہرت نہ ملی ہو، ورنہ اس دور کے علماء یقینا اس پر نکیر کرتے۔
اس پوری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہید کیونکہ ایک شرعی اصطلاح ہے، اس لیے اس کا استعمال اپنے محل میں ہی ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جو لوگ وطن کے نام پر جان قربان کرنے والوں کے لیے شہید کا استعمال نہیں کرتے وہ محب وطن نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے کے لیے شریعت کی اصطلاحات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ایسے افراد (کہ جنہوں نے وطن کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو) کی قربانی یقینا بہت بڑی ہے۔ ایسے افراد کے لیے ہندوستان کے تناظر میں "ویرگتی" کا لفظ موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے فوجیوں کی قربانی کے تئیں اپنے افسوس کے اظہار کے لیے اسی لفظ کا استعمال کریں۔
مجھے امید ہے کہ اس رائے سے اختلاف کرنے والے احباب جذباتیت یا مصلحت کا حوالہ نہ دے کر، دلائل کی بنیاد پر ہی اپنی بات رکھیں گے، کیوں کہ مسئلہ ایک شرعی اصطلاح کا ہے حب وطن کا نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
14 فروری 2019 کو کشمیر کے پلوامہ میں چالیس سے زائد بھارتی فوجی ایک دہشت گردانہ حملے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا جس کی اسلام میں قطعا گنجائش نہیں ہے۔ انسانوں کے اس جانی نقصان پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے۔ یقینا ہر محب وطن اس وقت وطن کے لیے قربانی دینے والوں کے خاندانوں کے ساتھ ان کے غم میں برابر کا شریک ہے۔ ان فوجیوں نے اپنے وطن کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرکے وطن کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جانے کے اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا۔
سوشل میڈیا پر بلا تفریق مذہب ملک کے باشندگان نے اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ اظہار کرنے والوں نے اس کے لیے مختلف طریقے اور انداز اپنائے۔ بعض لوگوں نے جان نچھاور کرنے والے ان فوجیوں کے لیے لفظ "شہید" کا بھی استعمال کیا، حالانکہ یہ لفظ ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا ذکر قرآن وحدیث اور فقہ کی تقریبا ہر کتاب میں موجود ہے۔ کسی لفظ کو اصطلاح بنانے کے پیچھے ایک خاص فلسفہ ہوتا ہے، اب اگر اس اصطلاح کا استعمال کسی دوسرے معنی میں ہونے لگے، تو یہ اس فلسفے اور نظریے کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ اس طرح کی غلطی اگر عوام الناس کریں تو بھی غلط ہے، لیکن یہ غلطی چند علماء کی طرف سے ہو اور پھر توجہ دلانے کے باوجود بھی وہ اس پر مصر رہیں تو یہ باعث حیرت بھی ہے اور باعث افسوس بھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ وقت اس طرح کے مسائل اٹھانے کا نہیں ہے، حالانکہ منکر پر نکیر بر وقت کی جانی چاہیے، بعد میں نکیر اتنی موثر نہیں ہوتی، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلہ پر شریعت کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی جائے۔
لیکن اپنے موقف پر دلائل دینے سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ 15 دسمبر 2017 کی ٹائمز آف انڈیا کی اشاعت کے مطابق، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں یہ کہا تھا کہ فوج یا پولیس کے لیے "شہید" یا انگریزی میں martyr جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ battle casualty یا operation casualty جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ملک کی خاطر جان دینے والوں کے لیے "شہید" کا استعمال نہ کرنا ان کی توہین نہیں ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری طور پر اس کا عرف بھی نہیں ہے، عوام میں کچھ لوگوں کے نزدیک عرف ہے اور کچھ کے نزدیک نہیں، لیکن ایسا عرف شریعت کی نظر عرف بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اب آئیے اصل مبحث کی طرف۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ شرعی اصطلاحات کا استعمال ان کے اپنے محل میں کرنا چاہیے، غیر محل میں ان کا استعمال درست نہیں ہے۔ شہید ایک شرعی اصطلاح ہے اور اس کا درست محل وہ شخص ہے جو بغیر کسی دنیاوی غرض کے، اللہ کے راستے میں اپنی جان دیدے۔ اس دعوے کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
1- فی سبیل اللہ بھی ایک شرعی اصطلاح ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس اصطلاح کا مفہوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی بہادری ثابت کرنے کے لیے لڑتا ہے، دوسرا شخص (اپنے قبیلے یا وطن کی) محبت وحمیت میں لڑتا ہے، کیا یہ اللہ کے راستے میں لڑنے والے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: فی سبیل اللہ کا مصداق وہ شخص ہے جو اس لیے لڑے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ (متفق علیہ) اس حدیث کی روشنی میں فی سبیل اللہ کا مفہوم متعین ہو گیا، خود شارع ہی اس کو کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کرے تو ٹھیک ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے کسی دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
2- صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کا نام "کرم" رکھنے سے منع فرمایا ہے، آپ کا ارشاد ہے کہ کرم تو مومن کا قلب ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس چیز کی اللہ تعالی نے مذمت فرمائی ہو (شراب مذموم ہے جو انگور سے بنتی ہے) اس کے لیے کسی ایسے لفظ کا استعمال کرنا جس سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہوتی ہو جائز نہیں ہے، حالانکہ کرم کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے۔
3- صحیح مسلم کی روایت کے مطابق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعشاء کی نماز کے لیے لفظ "عتمہ" کے استعمال سے ممانعت فرمائی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کی اصطلاحات کی حفاظت ہو سکے اور ان کو ترک نہ کر دیا جائے" (زادالمعاد ج: 2 ص:320) اس حدیث اور ابن قیم کی مذکورہ تشریح سے اصطلاحات کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
4- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں غلام کو کہا کہ وہ اپنے آقا کو ربی کہہ کر نہ پکارے اور آقا کو کہا کہ وہ اپنے غلام کو عبدی کہہ کر مخاطب نہ ہو۔ جب کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ رب کا استعمال غیر اللہ کے لیے عام ہے، لیکن یا ضمیر کے اضافے نے اس کو اصطلاح بنادیا اور اس کا استعمال غیر اللہ کے لیے ناجائز ہوگیا۔
5- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بنو تغلب کے عیسائیوں نے جزیہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سے ڈبل صدقہ لے لو لیکن ہم عجمیوں کی طرح جزیہ نہیں دے سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو چاہے جو کہو، ہمارے نزدیک یہ جزیہ ہی ہے (اعلاء السنن ج: 12 ص: 584) اس سے ثابت ہوا کہ اگر غیر مسلم آپس میں کسی شرعی اصطلاح کو دوسرے معنی میں استعمال کرتے ہوں تو ان سے تعرض کرنے کی یا ان کی مخالفت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اصطلاح کو اپنے اصل معنی میں باقی رکھیں۔
6- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "شرعی اصطلاحات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں بیان فرمادیا ہے، ان سے وہی معنیٰ مراد ہوں گے جو رسول سے ثابت ہیں، ان کے علاوہ دوسرے معانی نے ان اصطلاحات کا استعمال کرنا رسول کی مخالفت ہے"۔ (مجموع الفتاوی ج 7، ص 286)
7- کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ لفظ "شہید" ہندی زبان کے عرف میں غیر مسلموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لہذا ملک کے موجودہ عرف کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ شہید اپنے غیر اصطلاحی معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو یہ ثابت ہو کہ ایسا عرف ملک میں موجود ہے یا نہیں۔ اوپر کی سطور میں یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے مطابق ان کے یہاں ایسا کوئی عرف موجود نہیں ہے۔ نیز الاشباہ والنظائر میں ایک قاعدہ مذکور ہے: "العرف غير معتبر في المنصوص عليه" یعنی کسی لفظ کے معنی متعین کرنے کے تعلق سے اگر کوئی نص وارد ہوگئی، تو اس کے خلاف عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔
8- امام سرخسی کی شرح السیر میں بھی یہ قاعدہ لکھا ہے کہ "اگر مسلمانوں کی طرف سے لفظ کے مدلول کی صراحت ہوجائے تو عرف کا اعتبار نہیں ہوگا" (قواعد الفقہ ص 62).
9- علامہ آمدی فرماتے ہیں کے شارع کی طرف سے جب کسی لفظ کے معنیٰ متعین ہو گئے، تو اس کا اپنے لغوی معنی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ شرعی معنی میں ہی استعمال کرنا واجب ہے۔ (الإحكام ج4 ص 252)
10- پھر سوال یہ بھی ہے کہ وطن کے لیے جان دینے والے غیر مسلموں کے لیے شہید کا استعمال کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر مراد ان کی تعظیم ہے تو اس کے لیے دوسرے الفاظ موجود ہیں، اسی لفظ پر اصرار کیوں ہے؟ اصرار شاید اسی لیے ہے کہ یہ لفظ تعظیم کا وہ مفہوم ادا کرتا ہے جو کوئی دوسرا لفظ نہیں کرسکتا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر وہ مفہوم خاص ہے، اس کو عام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق شہید کا لفظ غیرمسلموں میں سب سے پہلے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں اپنی جان نچھاور کرنے والے منگل پانڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور نہ ہونے کی وجہ سے، ہوسکتا ہے کہ اس لفظ کو شہرت نہ ملی ہو، ورنہ اس دور کے علماء یقینا اس پر نکیر کرتے۔
اس پوری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہید کیونکہ ایک شرعی اصطلاح ہے، اس لیے اس کا استعمال اپنے محل میں ہی ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جو لوگ وطن کے نام پر جان قربان کرنے والوں کے لیے شہید کا استعمال نہیں کرتے وہ محب وطن نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے کے لیے شریعت کی اصطلاحات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ایسے افراد (کہ جنہوں نے وطن کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو) کی قربانی یقینا بہت بڑی ہے۔ ایسے افراد کے لیے ہندوستان کے تناظر میں "ویرگتی" کا لفظ موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے فوجیوں کی قربانی کے تئیں اپنے افسوس کے اظہار کے لیے اسی لفظ کا استعمال کریں۔
مجھے امید ہے کہ اس رائے سے اختلاف کرنے والے احباب جذباتیت یا مصلحت کا حوالہ نہ دے کر، دلائل کی بنیاد پر ہی اپنی بات رکھیں گے، کیوں کہ مسئلہ ایک شرعی اصطلاح کا ہے حب وطن کا نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
یاسر ندیم الواجدی
-----------------------------
کسی بھی موضوع پر دلائل کا انبار لگانے سے پہلے باریکی کے ساتھ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ دلائل relevant اور واقعۃً زیرِ بحث مسئلے سے متعلق ہیں بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسئلہ کچھ اور ہو اور دلائل کسی اور چیز پر ہوں۔ میرے خیال میں یہاں بھی یہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ذیل میں سرسری طور پر اس سے متعلق چند باتیں عرض ہیں:
لفظِ شہید کے دو معنی ہیں، اصطلاحی/ شرعی اور عرفی۔ پھر شرعی اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں، حقیقی اور حکمی۔ حقیقی شہید تو وہ ہے جو مقتول فی سبیل اللہ ہو۔ اسے غسل نہیں دیا جائے گا اور اسی خون آلود کپڑوں میں جنازے کی نماز پڑھی جائے گی۔ حکمی شہید وہ سب ہیں جن کے بارے میں احادیث میں لفظِ شہید کا اطلاق ہوا ہے مثلاً پیٹ کے درد کی وجہ سے، ڈوبنے کی وجہ سے، اپنے مال وجان کی حفاظت میں مرنے والا شخص۔ انہیں عام مسلمانوں کی طرح غسل دیا جائے گا اور کفن پہنایا جائے گا۔
عرفی شہید وہ ہے جس پر کسی علاقے میں شہید کا اطلاق کیا جاتا ہو۔ وہاں شرعی معنی مراد نہیں ہوتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں شہید کا اطلاق عرفاً بطور اعزاز وتکریم ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے جو وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دیدیں۔ اس عرفی معنی میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ نہ ہی کسی کو وہم ہوتا ہے کہ یہاں شہید شرعی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
ایسے بہت سارے الفاظ ہیں جو شرعی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور عرفی ولغوی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ خود شہید اور شہداء کا لفظ مقتول فی سبیل اللہ کے علاوہ لغوی معنی میں قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ صلاۃ کا لفظ شرعی کے علاوہ لغوی معنی میں بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية. نکاح اصطلاحی لفظ ہے مگر یہ صرف لغوی معنی یعنی وطی کے لئے بھی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ ہم ہندوستان کے عرف میں بابری مسجد کے انہدام یا کسی بھی مسجد کے انہدام کے لئے لفظِ شہادت استعمال کرتے ہیں اور کوئی بھی اسے شرعی معنی میں نہیں سمجھتا ہے۔ اور تو اور خود دار العلوم دیوبند کے فتاویٰ میں مسجد کے انہدام پر جابجا شہادت لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ہم ہندوستان کے عرف میں لفظِ جہاد اور مجاہد کا لفظ جنگِ آزادی اور اصحابِ تحریکِ آزادی کے لئے بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ مولانا آزاد ودیگر علماء کے ساتھ گاندھی جی اور نہرو کو بھی مجاہدینِ آزادی کہتے ہیں اور کوئی اسے شرعاً غلط نہیں سمجھتا ہے۔ تحریکِ آزادی کے دوران اور بعد میں بھی بہتیرے غیر مسلموں پر لفظِ شہید کا اطلاق اخبارات ورسائل ومیڈیا میں خوب کیا گیا مگر کبھی بھی ہمارے مفتیانِ کرام اور بڑے علماء بشمول حضرت مدنی، مفتی کفایت اللہ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہم اللہ وغیرہم نے اس اطلاق پر نکیر نہیں کی۔ ہم بے تکلف ایمان دار کا لفظ بہت سارے غیر مسلم بھائیوں کے لئے honest کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور کوئی یہ کہکر معترض نہیں ہوتا ہے کہ ایمان ایک اصطلاحی لفظ ہے جو ماجاء به الرسول کو ماننے کا نام ہے جس میں توحید ورسالت وغیرہ سب شامل ہیں لہٰذا غیر مسلم کے لئے ایمان دار کا لفظ استعمال کرنا ناجائز ہے۔
حاصل یہ ہے کہ لفظِ شہید کے عرفی معنی کا شرعی واصطلاحی معنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طرح یہ شرعی معنی میں استعمال ہوتا ہے عرفی معنی میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی خود نہ کرے نہ کرے مگر کسی کے ذریعے اس کے اطلاقِ عرفی پر نکیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہندوستان میں شہید martyr کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے وہ شخص جس نے اپنے مذہب یا اپنے وطن کے لئے جان قربان کردی ہو۔ آخر خود لفظ قربان کرنا یا قربانی کرنا بھی تو اصطلاحی لفظ مگر اصطلاح کے علاوہ دوسرے معنی میں کیا استعمال نہیں ہوتا ہے؟ خود صاحبِ تحریر نے جان کا نذرانہ کی تعبیر استعمال کی ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صاحب نذر نذرانہ خالص اصطلاحی لفظ ہے اور نذر میں جان دینا حرام ہے اور اس لفظ کا اطلاق یہاں غلط ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا ملک ووطن کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے والے بہادروں کے لئے تکریماً عرفی معنی کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی شہید یا شہادت کے لفظ کا اطلاق کرتا ہے تو یہ غلط نہیں ہے اور اس پر نکیر نہیں کی جانی چاہئے۔
رہا یہ استدلال کہ ایسے مقتول سپاہیوں کے بارے میں لفظِ شہید اور لفظ martyr کے اطلاق کے بارے میں RTI کے ذریعے جب پوچھا گیا تو جواب میں بتایا گیا کہ ان پر شہید اور martyr کا لفظ اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے تو یہ محض سرکاری کاروائی اور قانونی ضابطے کے اعتبار سے تھا کیونکہ قانونی اعتبار سے جب کوئی شہید کہلائے گا تو اسے شہید کی تمام سرکاری مراعات اور فضائل حاصل ہونگے، اطلاق کی یہ ممانعت غیر سرکاری اعتبار سے نہیں تھی جو کہ ہمارا عرف ہے۔ کیونکہ خود لفظ martyrdom کے لغوی معنی میں کسی بھی ڈکشنری میں martyrdom کی قانونی وسرکاری شرطیں نہیں لگائی گئی ہیں۔ گویا کہ اصطلاحِ قانونِ ملکی میں صرف انہیں پر لفظِ شہید و martyrdom استعمال کیا جائے گا جن میں قانونی شہادت کی شرطیں پائی جائینگی مگر عرفِ عام میں محض اظہارِ اعزاز وتکریم کے لئے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان دینے والے سپاہیوں پر شہید لفظ کے استعمال کی ممانعت کسی بھی RTI میں مذکور نہیں ہے۔
مفتی عبید اللہ صاحب اسٹنٹ پروفیسر دہلی یونیورسٹی
https://mastooraat.blogspot.com/2019/02/blog-post_17.html
No comments:
Post a Comment