Thursday, December 23, 2021

برے پڑوسیبری بیوی اور برےبچوں سے بچنے کی دعاء

سوال:
برے پڑوسی
بری بیوی اور برے
بچوں سے بچنے کی دعاء کیا ہے؟

حضرت ابوہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. کہتے ہیں کہ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کی دعاء میں یہ الفاظ تھے
"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا
اے اللہ میں برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس بیوی سے پناہ چاہتا ہوں جو بڑھاپے سے پہلے مجھے بوڑھا کردے اور اس اولاد سے جو میری مالک بن جائے.
ال سلسلہ صحیحہ ٢٧٩٩ 
دعا طبرانی ١٢٤٣- حسن 
-----------
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا
-----
Narrated Abu Hurairah Radi Allahu Anhu The Prophet Sal-Alalahu alaihin wasallam used to ask this supplication
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا
------------
Allaahumma innee Awuzubika Min Jaar As-Soo
Wa min zawjin Tushayyebuni Qabal-Al-Masheeb
Wa min waladin Yakunu Alayya Ribba
------------
O Allah I seek refuge with you from an evil neighbour,and from a wife who causes me to grow old before old age, and from a son who will become a master over me.
Al Silsila As-Sahiha , 2799
Dua At-Tabrani ,1243-Hasan
------
✦ Bure padosi, buri biwi aur bure bachcho se bachne ki dua
------------
Abu Hurairah Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki Rasool-Allah Sal-Alalahu alaihi wasallam ye dua farmaya karte they
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا
------------
Allaahumma innee Awuzubika Min Jaar As-Soo
Wa min zawjin Tushayyebuni Qabal-Al-Masheeb
Wa min waladin Yakunu Alayya Ribba
------------
✦ Ya Allah main teri panah maangta hu bure padosi se, aur aisee biwi se jo budhape se pahle mujhe budha kar de,aur aisee aulad se jo mere malik ban jaye
Al Silsila As-Sahiha , 2799
Dua At-Tabrani ,1243-Hasan
-----------
अबू हुरैरा रदी अल्लाहू अन्हु से रिवायत है की रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम  ये दुआ फरमाया करते थे
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا
या अल्लाह मैं तेरी पनाह माँगता हूँ  बुरे पड़ोसी से,और ऐसी बीवी से जो बुढ़ापे से पहले मुझे बूढ़ा कर दे,और ऐसी औलाद से जो मेरी मालिक बन जाए
अल सिलसिला स-साहिहा , 2799
दुआ अत-तबरानी ,1243-हसन
-----
Narrated Abu Hurairah Radi Allahu Anhu The Prophet Sal-Alalahu alaihin wasallam used to ask this supplication
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا
------------
Allaahumma innee Awuzubika Min Jaar As-Soo
Wa min zawjin Tushayyebuni Qabal-Al-Masheeb
Wa min waladin Yakunu Alayya Ribba
------------
O Allah I seek refuge with you from an evil neighbour,and from a wife who causes me to grow old before old age, and from a son who will become a master over me.
Al Silsila As-Sahiha , 2799
Dua At-Tabrani ,1243-Hasan
صححہ: #S_A_Sagar
http://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_23.html?m=1

Saturday, December 11, 2021

تہجد کی نماز کے فضائل کیا ہیں؟

سوال:
تہجد کی نماز 
کے فضائل کیا ہیں؟؟؟

۱ـ فرض کے بعد سب سے افضل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أفضلُ الصلاة بعد الفريضة: صلاةُ الليل»؛ رواه مسلم. ترجمہ: فرض کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے۔( مسلم)۔
۲ـ محبوب ترین عمل:
اور اللہ تعالی اسے پسند فرماتا ہے۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
«أحبُّ الصلاةِ إلى الله: صلاةُ الليل»؛ متفق عليه. ترجمہ: اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ترین نماز رات کی نماز ہے۔ بخاری و مسلم۔
۳ـ تقوی کی علامت:
اور اخلاص سے تہجد پڑھنا تقوی کی علامت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
((إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (15) آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ (16) كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ)) [الذاريات: 15- 17].
ترجمہ: بیشک تقوٰی والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہونگے۔ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا اسے لے رہے ہونگے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے۔ وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے ۔
۴: گناہوں کی بخشش کا سبب:
اس سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور خطائیں دُھل جاتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
«ألا أدلُّك على أبوابِ الخير؟ الصومُ جُنَّةٌ، والصدقةُ تُطفِئُ الخطيئَةَ كما يُطفِئُ الماءُ النارَ، وصلاةُ الرجلِ في جوفِ الليل» أي: تُطفِئُ أيضًا الخطيئةً كما يُطفِئُ الماءُ النار؛ رواه الترمذي.
ترجمہ: کیا میں آپ کو خیر کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، اور صدقہ خطاؤں کو بجھادیتا ہے جسطرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اور رات کے وقت آدمی کی نماز۔یعنی نماز بھی خطاؤں کو بجھادیتی ہے۔ترمذی۔
۵ـ اللہ کی رحمت کا سبب:
اور یہ بندے کے لئے اللہ کی رحمت کا سبب ہے، فرمانِ نبوی ﷺ ہے:
«رحِمَ الله رجلاً قامَ من الليل فصلَّى»؛ رواه أبوداود. ترجمہ: اللہ اس انسان پر رحم کرے جو رات کو اٹھا اور نماز پڑھی۔ ابوداؤد۔
۶ـ اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ:
اور تہجد ان عبادات میں سے ہے جو اللہ کی بھرپور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو اتنا قیام کیا کرتے تھے کہ ان کے قدم سُوج جایا کرتے تھے، اور یہ فرمایا کرتے تھے:
«أفلا أحبُّ أن أكون عبدًا شَكورًا؟»؛ رواه البخاري. ترجمہ: کیا میں (تہجد کی صورت میں) اپنےرب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
۷ـ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ:
وأقربُ ما يكونُ الربُّ من العبدِ في جوفِ الليل، قال - عليه الصلاة والسلام -: ترجمہ: اور بندہ سب سے زیادہ اپنے رب کے قریب رات کی تاریکی میں ہوتا ہے۔
۸ـ قبولیت کا وقت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإن استطعتَ أن تكون ممن يذكُرُ اللهَ في تلك الساعة فكُن»؛ رواه الترمذي.
ترجمہ: اگر آپ اس گھڑی میں اللہ کا ذکر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو ضرور کیجئے۔
۹ـ فتنوں سے حفاظت:
اور رات کی نماز اللہ کے حکم سے فتنوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ حدیث میں ہے: قالت أمُّ سلمة - رضي الله عنها -: استيقظَ رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - ليلةً فزِعًا يقول: «سُبحان الله! ماذا أنزلَ الله من الخزائِن؟ وماذا أُنزِلَ من الفتن؟ من يُوقِظُ صواحِبَ الحُجُرات؟» يُريدُ أزواجَه لكي يُصلِّين «رُبَّ كاسِيةٍ في الدُّنيا عارِيَةٍ في الآخرة»؛ رواه البخاري. ترجمہ: ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ڈرتے ہوئے اٹھے اور یہ کہہ رہے تھے: سبحان اللہ! اللہ نے کیا خزانے نازل کئے ہیں؟ اور کتنے ہی فتنے بھی نازل ہوئے ہیں؟ ان حجرے والوں کو کون اٹھائے گا؟ یعنی ازواج مطہرات کو کون اٹھائے گا تاکہ وہ تہجد پڑھ لیں۔ ’’اس دنیا میں بہت سے لوگ جو لباس میں ملبوس ہیں آخرت میں بے لباس ہوں گے‘‘۔
۱۰ـ دلوں کی راحت کا باعث:
اس میں شرحِ صدر ہے، آرام ہے اور دل کا سرور ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: "في صلاةِ الليل سرٌّ في طِيبِ النفس". ترجمہ: تہجد دلوں کی خوشی کا راز ہے۔
۱۱ـ جنت میں جانے کا سبب:
اور جنت میں جانے کا ایک سبب تہجد بھی ہے: ((تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (16) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)) [السجدة: 16، 17]. ترجمہ: ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کے خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔ ترمذی کی حدیث ہے: قال عبدُ بن سلامٍ - رضي الله عنه -: أولُ شيءٍ سمِعتُ النبي - صلى الله عليه وسلم - تكلَّم به حين قدِمَ المدينة: «يا أيها الناس! أفشُوا السلام، وأطعِموا الطعام، وصِلُوا الأرحام، وصلُّوا بالليل والناسُ نِيام؛ تدخُلوا الجنةَ بسلامٍ»؛ رواه الترمذي. ترجمہ: عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی علیہ السلام مدینہ آئے تو سب سے پہلے میں نے ان سے یہ بات سنی: اے لوگوں! سلام کو عام کریں، کھانا کھلائیں، صلہ رحمی کریں، اور رات کو نماز پڑھیں اگرچہ لوگ سو رہے ہوں تو آپ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائیں گے۔
۱۲ـ جنت میں اعلی مقام کی ضمانت (گارنٹی):
جس نے تہجد پڑھی وہ جنت کے اعلی مقامات میں ہوگا۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: «إن في الجنةِ غُرفًا تُرَى ظهورُها من بُطونِها، وبُطونُها من ظهورِها». فقامَ أعرابيٌّ فقال: لمن هي يا رسول الله؟ قال: «لمن أطابَ الكلامَ، وأطعمَ الطعامَ، وأدامَ الصيامَ، وصلَّى بالليل والناسُ نِيام»؛ رواه أحمد. ترجمہ: جنت کے کچھ کمرے ایسے بھی ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتاہے۔تو ایک اعرابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: (ان مقامات کا مستحق وہ ہوگا) جو اچھی بات کہے گا، کھانا کھلائے گا، روزوں کا اہتمام کرے گا، اور رات کی نماز پڑھے گااگرچہ لوگ سورہے ہوں۔ اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ تہجد کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کریں تاکہ جنت میں اعلی مقام کا شرف مل سکے۔ اللہ عز وجل نے فرمایا: ((وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا)) [الإسراء: 79]. ترجمہ: رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں، یہ زیادتی آپ کے لئے ہے عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔
تہجد ہر رات کی عبادت:
تو اس بنیاد پر نبی علیہ السلام تہجد کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے چاہے وہ حضر (اپنے ہی علاقے) میں ہوں یا سفر میں۔
نبی علیہ السلام کا قیام اللیل:
اور نبی علیہ السلام کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ آدھی رات یا اس سے کچھ زیادہ یا اس سے کچھ کم تہجد میں گزاریں۔
((يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ)) [المزمل: 1- 4].
ترجمہ: اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم ۔ آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلے۔ یا اس پر بڑھا دے۔
بخاری کی حدیث ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "وكان لا تشاءُ أن تراهُ من الليل مُصلِّيًا إلا رأيتَه"؛ رواه البخاري.
ترجمہ: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ آپ جب بھی رات کو انہیں دیکھیں تو وہ نماز ہی پڑھ رہے ہوتے تھے۔
خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا قیام اللیل:
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ آیت پڑھتے:
((أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ [الزمر: 9]
قال: "ذاك عُثمانُ بن عفَّان".
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو۔
اور فرماتے کہ یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کی صفات ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے مزید اس بارے میں یہ فرمایا:
"وذلك لكثرة صلاةِ أميرِالمُؤمنين عُثمان بالليل وقراءتِه، حتى إنه رُبَّما قرأَ القُرآنَ في ركعةٍ".
ترجمہ: یہ فضیلت امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو تہجد اور تلاوت قرآن کا کثرت سے اہتمام کرنے کی وجہ سے ملی یہاں تک کہ کبھی کبھار تو وہ ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیتے۔
اور سب سے محبوب ترین عمل وہ ہے جسے ہمیشگی سے کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو، اور فرض نماز کے علاہ دیگر نمازیں گھر میں زیادہ افضل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے: «خيرُ صلاةِ المرء في بيتِه إلا الصلاة المكتوبة»؛ متفق عليه.
ترجمہ: فرض نماز کے علاوہ آدمی کی نماز گھر میں زیادہ بہتر ہے.
تہجد سب کے لئے مسنون ہے:
جس طرح قیام اللیل مردوں کے لئے مسنون ہے بالکل اسی طرح خواتین کے لئے بھی مسنون ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے: طرقَ النبي - صلى الله عليه وسلم - ابنتَه فاطمةَ - رضي الله عنها - وزوجَها عليَّ بن أبي طالب - رضي الله عنه - ليلاً، وقال لهما: «ألا تُصلِّيَان؟»؛ متفق عليه. ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات اپنی پیاری صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنھا اور انکے زوج محترم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ان سے فرمایا: کیا آپ تہجد نہیں پڑھیں گے؟۔
امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لولا ما علِمَ النبي - صلى الله عليه وسلم - من عِظَم فضلِ الصلاةِ في الليل ما كان يُزعِجُ ابنتَه وابنَ عمِّه في وقتٍ جعلَه الله لخلقِه سكَنًا، لكنَّه اختارَ لهما إحرازَ تلك الفضيلة على الدَّعَة والسُّكون".
ترجمہ: اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کی فضیلت کا علم نہ ہوتا تو اپنی بیٹی اور چچا کے بیٹے کورات کے وقت تکلیف نہ دیتے کیونکہ یہ وقت اللہ نے آرام کے لئے بنایا ہے، درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاہا کہ وہ دونوں بھی کچھ وقت کےسکون و آرام کو چھوڑ کر اس فضیلت کو ذخیرہ کرلیں۔
تہجد گزار کے لئے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
اور نبی علیہ السلام نے اس شخص کے لئے رحمت کی دعا کی ہے جو اپنے گھروالوں کو تہجد کے لئے اٹھاتا ہے۔
فرمانِ رسول ﷺ ہے:
«رحِمَ الله رجلاً قامَ من الليل فصلَّى وأيقظَ امرأتَه»؛ رواه أبوداود.
ترجمہ: اللہ اس آدمی پر رحم کرے جو خود بھی رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھاتا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ کی تہجد:
وكان عمرُ - رضي الله عنه - يُصلِّي من الليل ما شاءَ الله، حتى إذا كان آخرَ الليل أيقظَ أهلَه للصلاةِ ثم يقول لهم: الصلاةَ الصلاةَ، ويتلُو: ((وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا)) [طه: 132].
ترجمہ: اور عمر رضی اللہ عنہ اللہ کی توفیق کے مطابق تہجد پڑھتے رہتے یہاں تک کہ جب رات کا آخری وقت ہوتا تو اپنے اہل خانہ کو بھی نماز کے لئے اٹھا دیتے اور ان سے کہتے کہ نماز، نماز، اور سورت طہ کی یہ آیت پڑھتے:
نیک ہونے کی دلیل:
اور قیام اللیل نوجوان کے لئے بلندی کا وسیلہ ہے اور بزرگ کے لئے نور اور وقار ہے۔
جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نوجوان تھے اس وقت نبی علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا:
«نِعمَ الرجلُ عبداللهِ لو كان يُصلِّي من الليل»؛ متفق عليه. ترجمہ: عبد اللہ بہت اچھا انسان ہے کاش یہ تہجد پڑھتا ہو۔
ان کے بیٹے سالم فرماتے ہیں:
"فكان عبدُ الله بعد ذلك لا ينامُ من الليل إلا قليلاً". ترجمہ: اس کے بعد عبد اللہ رضی اللہ عنہ رات کو کم ہی سویا کرتے تھے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "من كان يقومُ الليلَ يُوصَفُ بأنه نِعمَ الرجل". 
ترجمہ: جو بھی رات کا قیام کرے گا اسے اچھا انسان ہی شمار کیا جائے گا۔
اور نبی علیہ السلام نے جناب عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو قیام اللیل چھوڑنے سے ڈرایا، جبکہ وہ ابھی (نوجوان) لڑکے ہی تھے اور ان سے فرمایا:
«يا عبدالله! لا تكُن مثلَ فلانٍ؛ كان يقومُ الليلَ فتركَ قيامَ الليل»؛ رواه البخاري.
ترجمہ: اے عبداللہ! فلاں کی طرح مت ہوجانا، وہ تو تہجد پڑھتا تھا مگر اس نے چھوڑ دیا۔
اور سلف صالحین چھوٹے عمر سے ہی تہجد پڑھا کرتے تھے۔ ابراھیم بن شماس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كنتُ أرى أحمدَ بن حنبل يُحيِي الليلَ وهو غلامٌ".
ترجمہ: میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو دیکھتا تھا کہ وہ کم عمر ی میں ہی رات کو زندہ (قیام اللیل) کیا کرتے تھے۔
رات کی فضیلت:
اور رات کے مقام کی وجہ سے اللہ نے اپنی کتاب بھی رات میں نازل فرمائی۔ اور رات میں اس کی تلاوت اللہ کی حفاظت کا سبب ہے،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وإذا قامَ صاحبُ القُرآن فقرأَه بالليل والنهارِ ذكرَه، وإذا لم يقُم به نسِيَه»؛ رواه مسلم.
ترجمہ: اگر صاحبِ قرآن رات دن اس کی تلاوت کرے تو اسے یاد رہے گا، ورنہ بھول جائے گا۔
رات میں قرآن مجید کی تلاوت:
اور وہ شخص بہت ہی زیادہ قابلِ رشک ہے جو رات کو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لا حسَدَ إلا في اثنتَين: رجلٍ آتاه الله القُرآن فهو يقومُ به آناءَ الليل وآناءَ النهار، ورجلٍ آتاه الله مالاً فهو يُنفِقُه آناء الليل وآناءَ النهار»؛ متفق عليه.
ترجمہ: حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے: ایک وہ شخص جسے اللہ نے قرآن کی نعمت سے مالامال کیا ہو اور وہ راتوں کو قیام میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہو، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال سے نوازا ہو اور وہ اسے دن رات (اللہ کی رضا کی خاطر) خرچ کرتا ہو۔
اور رات میں قرآن پڑھنے سے اسے سمجھنے اور اس میں غور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
دل جمعی کا باعث:
اللہ عز وجل نے فرمایا: ((إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا)) [المزمل: 6].
ترجمہ: بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لئے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بالکل درست کر دینے والا ہے ۔
زیادہ اجر کا سبب:
اور رات کے وقت تلاوت کرنے کا زیادہ اجر ہے۔ اور تھوڑی تلاوت کرنے سے بندے کی غفلت دور ہوجاتی ہے، اور درمیانی تلاوت سے قانتین (فرماں بردار لوگوں ) کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور زیادہ تلاوت کرنے سے ثواب کے خزانوں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
«من قامَ بعشر آياتٍ لم يُكتَب من الغافِلين، ومن قامَ بمائةِ آيةٍ كُتِبَ من القانِتين، ومن قامَ بألفِ آيةٍ كُتِبَ من المُقنطَرين»؛ رواه أبوداود.
ترجمہ: جو شخص (رات کے قیام میں) دس آیتیں پڑھ لے وہ غافلوں کی لسٹ سے نکل جاتا ہے، اور جو سو آیتیں پڑھ لے وہ فرماں بردار لوگوں میں شمار ہوگا، اور جو ایک ہزار آیتیں پڑھے گا اس کا شمار خزانہ سمیٹنے والوں میں ہوگا۔
رات کے وقت دعا کی فضیلت:
رات کے وقت دعا کی بھی بڑی فضیلت ہے:
«وفي الليلِ ساعةٌ لا يُوافِقُها عبدٌ مُسلمٌ يسألُ اللهَ خيرًا إلا أعطاه الله إياه»؛ رواه مسلم.
ترجمہ: رات کے وقت ایک گھڑی ایسی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس وقت اللہ سے بھلائی مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور نوازدیتا ہے۔
اللہ تعالی کا نزولِ مبارک:
اور رات کے آخری تیسرے پہر ہمارا رب آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا ہے. (اس کی کیفیت کوئی نہیں جانتا ، وہ اُسی طرح نزول فرماتا ہے جیسا اُس کی شان کے لائق ہے) اور فرماتا ہے: «من يدعُوني فأستجيبَ له؟ من يسألُني فأُعطِيَه؟ من يستغفِرني فأغفِرَ له؟»؛ متفق عليه.
ترجمہ: کوئی ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی دعاء قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگےتاکہ میں اسے عطا کروں؟، ہے کوئی جومجھ سے مغفرت مانگے تاکہ میں اسے بخش دوں؟ (بخاری و مسلم)۔
رات کا ذکر اور دعاء:
اور جو شخص رات کو اُٹھ کر ذکر (رات کو پڑھنے کی مسنون دعا) پڑھے اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، اور اگر نماز پڑھے تو وہ بھی قبول کی جاتی ہے۔جیساکہ بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رات کو اٹھتا ہے اور یہ پڑھتا ہے۔
«لا إله إلا الله وحده لا شريكَ له، له المُلكُ ولهُ الحمدُ، وهو على كل شيء قدير، الحمدُ لله، وسُبحان الله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حولَ ولا قوة إلا بالله، ثم قال: اللهم اغفِر لي، أو دعا استُجيبَ له، فإن توضَّأَ وصلَّى قُبِلَت صلاتُه»؛ رواه البخاري.
ترجمہ: اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، اور اللہ ہی کے لئے پاکیزگی ہے، اور اللہ کو سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور اللہ کے حکم کے بغیر نہ گناہ سے رُکنے کی (کسی کو) طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی (کسی کو) توفیق۔ پھر یہ کہتا ہے: یا اللہ! مجھے بخش دے یا کوئی دوسری دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، اور اگر وہ وضو کرکے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز قبول کی جاتی ہے۔
رات میں عبادت کا لطف:
اور رات کے اخری حصے میں دلوں کا تعلق (اللہ کی ذات کے ساتھ) زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اور رات کی تاریکی میں ہر عیب اور نقص سے اللہ تعالی کی پاکیزگی بیان کرنا تقوی کی علامت ہے۔
رات کی عبادت کا اختتام:
اور بہتر یہ ہے کہ رات کی عبادت کا اختتام استغفار پر ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: ((وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ)) [آل عمران: 17]۔ ترجمہ: اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں۔
"ونزلَت توبةُ الذين خُلِّفُوا في الثُّلُث الأخير من الليل"؛ رواه البخاري.
ترجمہ: اور جو لوگ (جہاد سے) پیچھے رہ گئے تھے ان کی توبہ بھی رات کو ہی نازل ہوئی۔
تہجد کا وقت اور رکعتیں:
تہجد کا وقت ہر رات عشاء کی نماز کے بعد فجر تک ہوتا ہے، اور کم سے کم دو رکعت ہے، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں، اور افضل وقت رات کا آخری حصہ ہے۔
«صلاةُ آخر الليل مشهودةٌ»؛ رواه مسلم. ترجمہ: رات کے آخری وقت کی نماز بہت اہم ہے۔
اور قیام اللیل کی اہمیت کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر سوتے رہ گئے تو دن میں اسے ادا کرلیں۔
مسلم کی حدیث ہے:
«من نامَ عن حِزبِه أو عن شيءٍ منه فقرأَه فيما بين صلاةِ الفجرِ وصلاةِ الظُّهر كُتِبَ له كأنَّما قرأَه من الليل»؛ رواه مسلم.
ترجمہ: جو شخص بھی تہجد سے سوتا رہ گیا اور فجر سے ظہر کی نماز کت درمیان اسے ادا کرلیا تو اس کا ثواب تہجد کے برابر ہی ہوگا۔
سونے کے وہ اذکار بھی (سنت سے) ثابت ہیں جو رات کو تہجد کے لئے اٹھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اور (مکمل رات کا) جاگنا قیام اللیل میں رکاوٹ بنتا ہے، اور اگر (پوری رات جاگنے کے باوجود) قیام کر بھی لے توخشوع و خضوع برقرار نہیں رہتا۔اور جو گناہ کرکے سوئے تو قیام کے لئے اس کا اُٹھنا مشکل ہے۔
یہ سب جاننے کے بعد!
عقلمندی کا تقاضہ:
اے مسلمانو! دنیا کا وقت بہت کم ہے، اور یہاں کچھ عرصہ گزارنا ہے، اور رات کی نماز، تلاوت، دعا، تسبیح اور استغفار کے ذریعہ مسلمان اپنی آخرت بہتر طریقے سے آباد کرسکتا ہے، اور ان عظیم اعمال صالحہ کو ہی اپنے رب سے ملاقات کے لئے ذخیرہ کرسکتا ہے، اور عقلمند وہی ہے جو رات کے آخری حصہ کو اپنے دین و دنیا کی اصلاح کے لئے غنیمت جانتا ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم:
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود سے۔
((وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا)) [الإنسان: 25].
ترجمہ: اور اپنے رب کے نام کا صبح شام ذکر کیا کر۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن کریم میں برکت عطاء فرمائے، اور مجھے اور آپ کو آیات اور حکمت والی نصیحت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، میں جو کہہ رہا ہوں وہ آپ سن رہے ہیں، اور اللہ سے سب کے لئے ہر گناہ سے مغفرت مانگتا ہوں، آپ بھی مغفرت مانگیں،بیشک وہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_11.html

Friday, December 3, 2021

جمعہ کی نماز کے بعد ایک خاص عمل سے متعلق روایات کی تحقیق

عنوان: 
جمعہ کی نماز 
کے بعد ایک خاص عمل 
سے متعلق روایات کی تحقیق

سوال: حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن جمعہ کی نماز میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسی حالت میں بیٹھے ہوئے سورة الفاتحہ اور سورة الاخلاص (قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ) اور سورة الفلق (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) اور سورة الناس (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ) سات سات مرتبہ پڑھے گا تو اللہ تعالٰی اسکے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے گا اور مومنین کی تعداد کی مقدار سے ثواب عنایت کرے گا اور ایک دوسری روایت میں یوں آیا ہے کہ اللہ تعالٰی اسکے دین و دنیا کی حفاظت اور اہل و اولاد کی نگہداشت کرے گا. (ذکرہ الصفوری فی نزھة المجالس)۔ حضرت أسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا سے منقول ہے کہ جمعہ کے روز امام کے سلام پھیرنے کے بعد جو شخص سورة الفاتحہ اور آخری تینوں قل (یعنی قرآن مجید کی آخری تینوں سورتیں) سات سات مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالٰی اس شخص کے دین اور دنیا اور اہل و عیال اور اولاد کو ہر بلا سے آئندہ جمعہ تک محفوظ رکھیں. (ذکرہ الیافعی فی درالنظیم صفحہ. 18. اور أعمال قرآنی صفحہ، 38 اس کے بارے ميں فرمادیں۔
جواب: یہ روایات تین طرق سے الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ تین صحابہ حضرت انس، حضرت عائشہ اور حضرت اسماء بنت ابی بکر سے احادیث کی کتب میں نقل کی گئی ہے۔
عن انس قال، قال: رسول اللہ ﷺ من قرأ إذا سلم الإمام يوم الجمعة قبل أن يثني رجليه فاتحة الكتاب وقل هو الله أحد وقل أعوذ برب الفلق وقل أعوذ برب الناس سبعاً سبعاً، غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر وأعطى من الأجر بعدد كل من آمن بالله واليوم الآخر۔ رواہ ابوسعیدالقشیری فی الاربعین لہ عن ابی عبد الرحمن السلمی و فی۔اسنادہ ضعف شدید۔
(ذکرہ الصفوری فی نزھة المجالس، ج 1 ص 131ط المکتبہ الکاستیہ مصر و موسوعة الحافظ ابن حجر: ج ا ص 569، و شعب الإيمان: ج 4 ص170 حدیث نمبر: 2342، ط مكتبة الرشد، و عمل اليوم والليلة لابن السنی ص375)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن جمعہ کی نماز میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسی حالت میں بیٹھے ہوئے سورة الفاتحہ اور سورة الاخلاص (قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ) اور سورة الفلق (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) اور سورة الناس (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ) سات سات مرتبہ پڑھے گا تو اللہ تعالٰی اسکے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے گا اور مومنین کی تعداد کی مقدار سے ثواب عنایت کرے گا اور ایک دوسری روایت میں یوں آیا ہے کہ اللہ تعالٰی اسکے دین و دنیا کی حفاظت اور اہل و اولاد کی نگہداشت کرے گا۔
فیض القدیر اور التنویر شرح الجامع الصغیر میں اس روایت کی تشریح میں لکھا ہے کہ
سکت علیہ المصنف و فی اسنادہ ضعف شدید فان فیہ الحسین البلغی قال الحاکم کثیر المناکیر و حدث عن اقوام لا یحتمل سنہ السماع منھم۔ (فیض القدیر: ج 6 ص 251 ط دارالکتب العلمیہ بیروت و التنویر شرح الجامع الصغیر: ج 10 ص 362 حدیث نمبر 8936، ط، دارالسلام، ریاض)
یعنی مصنف (علامہ سیوطی) نے اس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس کی سند شدید ضعیف ہے، کیونکہ اس میں الحسین البلغی راوی ہیں، جن کے بارے میں حاکم نے کہا کہ کثیرالمناکیر اور انہوں ایسے روایوں سے روایت نقل کی ہے کہ ان کی عمر ان راویوں سے سماع کا احتمال ہی نہیں رکھتی۔
خلاصہ کلام:
یہ روایت سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست معلوم نہیں ہوتا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (نمبر 101162) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
--------
عنوان: 
جمعہ کی نماز کے بعد 
ایک عمل سے متعلق روایت کی تحقیق 
سوال: سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ وَ بِحَمْدِہِ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد ایک سو بار یہ کلمہ پڑھے گا تو اسکے ایک لاکھ (100،000) گناہ اور اس کے والدین کے چوبیس (24،000) ہزار گناہ معاف ہوں گے. (عمل اليوم واللیلة لابی بکر بن سنی صفحہ 146.) اس تسبیح کے پڑھنے کے وقت اسی حالت میں بیٹھنا ضروری نہیں ہے. صرف سورة الفاتحة اور تینوں قل پڑھنے کے وقت ہی اَلتَّحِيَّاتُ کی حالت میں بیٹھنا چاہئے۔ اس کی تصدیق فرمادیں۔
جواب: یہ روایت مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، البتہ اس کی اسنادی حیثیت پر کافی کلام ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَان بْنِ خُزَيْمَةَ، ثنا أَبُوسَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ، ثنا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ عِمْرَانَ الْمَذْحِجِيُّ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَالَ بَعْدَ مَا يَقْضِي الْجُمُعَةَ: سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ مِائَةَ مَرَّةٍ، غَفَرَالله لَهُ أَلْفَ ذَنْبٍ، وَلِوَالِدَيْهِ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ أَلْفَ ذَنْبٍ".
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد ایک سو بار یہ کلمہ "سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ وَ بِحَمْدِہِ" پڑھے گا تو اس کے ایک لاکھ (100،000) گناہ اور اس کے والدین کے چوبیس (24،000) ہزار گناہ معاف ہوں گے.
علامہ سخاوی نے ابن السنی کی روایت کو نقل کرنے کے بعد "لا یصح" لکھا یعنی کہ یہ روایت صحیح نہیں.
وفي الفتاوی الحدیثیة (ص: ۳۲۱) للسخاوي أنه ذكر روایة ابن السني المذكورة وعزاها إلی الدیلمي أیضا، وذكر الروایة التي ذكرها الزبیدي والهندي وعزاها إلی الدیلمي فقط، ثم قال: لا یصح، وکذا فی الأجوبة المرضیة (صفحة: 290)
علامہ سخاوی کا "لا یصح" کہنا:
استاد عبدالفتاح لکھتے ہیں کہ جب ضعیف اور موضوع روایت کی بات چل رہی ہو تو ایسے موقع پر علامہ سخاوی کا "لایصح" کہنا اس روایت کے موضوع اور باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے.
"قواعد في علوم الحديث" للعلامة التهانويّ الحنفيّ (ص: 282) وما بعدها، بتحقيق الشيخ عبدالفتاح أبوغدّة: إِذا قالوا في كُتبِ الضُّعفاء أو الموضوعات: هذا الحديث لا يصح أو لا يثبت، فمعناه أنه موضوع، وإذا قالوه في كتب الأحكام فمعناه نفي الصحة الاصطلاحية عنه، مع أنَّ قول السخاوي: لا يصح، لا ينافي الضعفَ والحُسن.
خلاصہ کلام:
یہ روایت سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے کیونکہ اکثر محققین نے اس روایت کو مُنکَر یا "اسنادہ مظلم" قرار دیا ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست معلوم نہیں ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (نمبر 101158) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_3.html

Thursday, December 2, 2021

برے پڑوس بری بیوی اور بری اولاد سے حفاظت کی دعاء

برے پڑوسی بری بیوی اور بری اولاد سے حفاظت کی دعاء

 سوال: برے پڑوس بری بیوی اور بری اولاد سے حفاظت کی دعاء کیا ہے؟

حضرت ابوہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کی دعاء میں یہ الفاظ تھے

"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا"

اے اللہ میں برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس بیوی سے پناہ چاہتا ہوں جو بڑھاپے سے پہلے مجھے بوڑھا کردے اور اس اولاد سے جو میری مالک بن جائے.

ال سلسلہ صحیحہ ٢٧٩٩ 

دعا طبرانی ١٢٤٣- حسن 

-----------

अबू हुरैरा रदी अल्लाहू अन्हु से रिवायत है की रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम  ये दुआ फरमाया करते थे

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا

✦ या अल्लाह मैं तेरी पनाह माँगता हूँ  बुरे पड़ोसी से,और ऐसी बीवी से जो बुढ़ापे से पहले मुझे बूढ़ा कर दे,और ऐसी औलाद से जो मेरी मालिक बन जाए

अल सिलसिला स-साहिहा , 2799

दुआ अत-तबरानी ,1243-हसन

-----

✦ Narrated Abu Hurairah Radi Allahu Anhu The Prophet Sal-Alalahu alaihin wasallam used to ask this supplication

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا

------------

✦ Allaahumma innee Awuzubika Min Jaar As-Soo

Wa min zawjin Tushayyebuni Qabal-Al-Masheeb

Wa min waladin Yakunu Alayya Ribba

------------

O Allah I seek refuge with you from an evil neighbour,and from a wife who causes me to grow old before old age, and from a son who will become a master over me.

Al Silsila As-Sahiha , 2799

Dua At-Tabrani ,1243-Hasan

------

✦ Bure padosi, buri biwi aur bure bachcho se bachne ki dua

Abu Hurairah Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki Rasool-Allah Sal-Alalahu alaihi wasallam ye dua farmaya karte they

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا

------------

✦ Allaahumma innee Awuzubika Min Jaar As-Soo

Wa min zawjin Tushayyebuni Qabal-Al-Masheeb

Wa min waladin Yakunu Alayya Ribba

------------

✦ Ya Allah main teri panah maangta hu bure padosi se, aur aisee biwi se jo budhape se pahle mujhe budha kar de,aur aisee aulad se jo mere malik ban jaye

Al Silsila As-Sahiha , 2799

Dua At-Tabrani ,1243-Hasan

------------

https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_29.html



کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

کیا 
میں اللہ تعالی 
کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

حدثنا ابوعمار الحسين بن حريث قال: حدثنا الفضل بن موسى، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي حتى ترم قدماه قال: فقيل له: اتفعل هذا وقد جاءك ان الله قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر؟ قال: «افلا اكون عبدا شكورا»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ تو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ (اتنی مشقت کے ساتھ) ایسا کرتے ہیں جب کہ آپ کو تو یہ نوید مل چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا میں (اللہ تعالیٰ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“
37567 - 261. تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ «صحيح ابن خزيمه (1184)»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_74.html

قصة أعجبتنی

قصة أعجبتنی؛
إن رجلا قرأ (الفاتحة) قبل ذبْح (البقرة)، وليقتدي بـ (آل عمران) تزوج خير (النساء)، وبينما هو مع أهله في (المائدة) ضحّى ببعض (الأَنْعَام) مراعيا بعض (الأعراف). وأوكل أمر (الأنفال) إلى الله ورسولِه معلنًا (التوبة) إلى الله أسوة بـ (يونس) و (هود) و (يوسف) – عليهم السلام – ، ومع صوت (الرعد) قرأ قصة (إبراهيم) و (حِجْر) ابنه إسماعيل – عليهما السلام – ، وكانت له خلِيّة (نحْلٍ) اشتراها في ذكرى (الإسراء) والمعراج، ووضعها في (كهف) له، ثم أمر ابنتَه (مريم) وابنَه (طه) أن يقوما عليها؛ ليقتديا بـ (الأنبياء) في العمل والجِد. ولما جاء موسم (الحج) انطلقوا مع (المؤمنين) متجهين إلى حيثُ (النور) يتلألأ وحيثُ كان يوم (الفرقان) – وكم كتب في ذلك (الشعراء) –، وكانوا في حجهم كـ (النمل) نظامًا، فسطّروا أروعَ (قصصِ) الاتحاد؛ لئلا يصيبهم الوهن كحال بيت (العنكبوت)، وجلس إليهم يقص عليهم غلبة (الروم) ناصحا لهم – كـ (لقمان) مع ابنه – أن يسجدوا (سجدة) شكر لله، أن هزم (الأحزاب)، وألا يجحدوا مثل (سبأ) نِعَمَ (فاطرِ) السماوات والأرض. وصلى بهم تاليًا سورة (يسٓ) مستوِين كـ  الصافّاتِ ) من الملائكة، وما (صاد) صَيْدًا؛ إذ لا زال مع (الزُّمرِ) في الحرَم داعيًا (غافر) الذنبِ الذي (فُصِّلت) آياتُ كتابه أن يغفر له وللمؤمنين. ثم بدأت (الشورى) بينهم عن موعد العودة، مع الحذر من تأثُّرهم بـ (زخرفِ) الدنيا الفانية كـ (الدُّخان)؛ خوفًا من يومٍ تأتي فيه الأممُ (جاثيةً)، فمَرُّوا على (الأحقافِ) في حضرموت؛ لذِكْرِ (محمد) – صلى الله عليه وآله وأصحابه – لها ولأَمنِها، وهناك كان (الفتح) في التجارة، مما جعلهم يبنون لهم (حُجُراتٍ)، وأسّسوا محالّا أسموها محالّ (قافْ) للتجارة، فكانت (ذارياتٍ) للخير ذروًا، وكان قبل هذا (الطّور) من أطوار حياته كـ (النّجم)، فصار كـ (القمَر) يشار إليه بالبنان بفضل (الرحمن). ووقعتْ بعدها (واقعة) جعلت حالهم – كما يقال – على (الحديد)، فصبرت زوجته ولم تكن (مجادلة)؛ لعلمها أن الله يعوضهم يوم (الحشر) إليه ، وأن الدنيا (ممتحنَة)، فكانوا كـ (الصّف) يوم (الجمعة) تجاهَ هذا البلاء مجتنبين صفات (المنافقين) ؛ لأن الغُبن الحقيقي غبن يوم (التغابن)، فكاد (الطلاق) يأخذ حُكْمَ (التحريم) بينهم؛ لعمق المودة بينهم، فـ (تبارك) الذي ألّفَ بينهم كما ألّفَ بين يونس والـ (ـنُّون).. وتذكروا كذلك يومَ (الحاقّة) في لقاء الله ذي (المعارج)، فنذروا أنفسهم للدعوة إليه، واقتدَوا بصبر أيوب و (نوحٍ) – عليهما السلام – ، وتأسّوا بجَلَدِ وحلم المصطفى؛ حيث وصلت دعوتُه إلى سائر الإنس و (الجنّ)، بعد أن كان (المزّمّل) و (المدّثّر)، وهكذا سيشهدُ مقامَهُ يوم (القيامة) كلُّ (إنسان)، إذ تفوقُ مكانتُه عند ربه مكانةَ الملائكة (المرسَلات) .. فعَنِ (النّّبإِ) العظيم يختلفون، حتى إذا نزعت (النازعات) أرواحَهم (عبَسَـ) ـت الوجوه ، وفزعت الخلائق لهول (التكوير) و (الانفطار)، فأين يهرب المكذبون من الكافرين و (المطففين) عند (انشِقاق) السَّمَاءِ ذاتِ (البروجِ) وذات (الطّارق) من ربهم (الأعلى) إذ تغشاهم (الغاشية)؟؟ هناك يستبشر المشاؤون في الظلام لصلاة (الفجر) وأهلُ (البلد) نيامٌ حتى طلوع (الشمس)، وينعم أهل قيام (الليل) وصلاةِ (الضّحى)، فهنيئًا لهم (انشراح) صدورِهم! ووالذي أقسمَ بـ (التّين)، وخلق الإنسان من (علق) إن أهل (القَدْر) يومئذٍ من كانوا على (بيّنةٍ) من ربهم، فأطاعوه قبل (زلزلة) الأَرْضِ، وضمّروا (العاديات) في سَبِيلِ الله قَبْلَ أن تحل (القارِعة)، ولم يُلْهِهِم (التكاثُر)، فكانوا في كلِّ (عَصْر) هداةً مهديين، لا يلفتون إلى (الهمزة) اللمزة موكلين الأمر إلى الله – كما فعل عبد المطلب عند اعتداء أصحاب (الفيل) على الكعبة، وكان سيدًا في (قُرَيْش) –، وما منعوا (الماعون) عن أحدٍ؛ رجاءَ أن يرويهم من نهر (الكوثر) يوم يعطش الظالمون و (الكافرون)، وتلك حقيقة (النّصر) الإلهي للنبي المصطفى وأمتِه، في حين يهلك شانؤوه ، ويعقد في جِيدِ مَن آذَتْهُ حبلٌ من (مسَد)، فاللهم تقبل منا وارزقنا (الإخلاص) في القول والعمل يا ربَّ (الفلَقِ) وربَّ (الناس (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

مستورات کا با محرم تبلیغی جماعت میں سفر کرنا

مستورات کا با محرم تبلیغی جماعت میں سفر کرنا
سوال ]۱۳۰۴[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: مسلم عورتوں کا بامحرم تبلیغی جماعت میں دور دراز کا سفر کرنا پورے پردے کے ساتھ، جب کہ عورتوں کا قیام وطعام بھی مکمل پردہ والے گھر میں ہوتا ہے، جہاں مردوں کے داخلہ پر پوری پابندی ہوتی ہے کیسا ہے؟ اور محرم مرد قریب کی مسجد میں قیام کرتے ہیں اور مستورات کی تبلیغی جماعت با پردہ عورتوں میں تبلیغ کرتی ہیں، اس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
المستفتی: نوشاد احمد جمنا نگر
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: 
جماعت نسواں سے متعلق مرکز نظام الدین کی جانب سے طے کردہ شرائط وضوابط (جس میں شرعی پردہ اور محرم شرعی کے ساتھ سفر کا خاص اہتمام رکھا گیا ہے) کی مکمل رعایت کے ساتھ عورتوں کے لئے تبلیغی سفر میں جانا فی نفسہٖ جائز ہے۔
عن أبي سعید الخدری -رضی اللہ عنہ- قال: قال رسول اللہ صلي الله عليه وسلم: لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر أن تسافر سفرا یکون ثلاثۃ أیام فصاعدا، إلا ومعہا أبوہا، أو ابنہا، أو زوجہا، أو أخوہا، أو ذو محرم منہا۔ (مسلم، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۳۴، بیت الأفکار، رقم: ۱۳۴۰)
عن نافع أن ابن عمر کان یردف مولاۃ لہ، یقال لہا: صفیۃ، تسافر معہ إلی مکۃ۔ (أبوداؤد، باب في المرأۃ تحج بغیر محرم، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۴۲، دارالسلام، رقم: ۱۷۲۸)
عن أنسؓ أن النبي صلي الله عليه وسلم غزا خیبر … قال: وأصبناہا عنوۃ، وجمع السبي، فجاء ہ دحیۃ، فقال: یا رسول اللہ! اعطني جاریۃ من السبي، فقال: اذہب فخذ جاریۃ، فأخذ صفیۃ بنت حیي -إلی- قال: خذ جاریۃ من السبي غیرہا، قال: (راوي) واعتقہا وتزوجہا … حتی إذا کان بالطریق جہزتہا لہ أم سلیم فأہدتہا لہ من اللیل۔ (مسلم، باب فضیلۃ اعتاقہ أمتہ، ثم تزوجہا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۵۹، بیت الأفکار، رقم: ۱۳۶۵)
عن عائشۃ -رضي اللہ عنہا- قالت: کان النبي صلي الله عليه وسلم إذا أراد أن یخرج أقرع بین نسائہ، فأیتہن یخرج سہمہا خرج بہا النبي صلي الله عليه وسلم فأقرع بیننا فی غزوۃ غزاہا، فخرج فیہا سہمي، فخرجت مع النبي صلي الله عليه وسلم بعد ما أنزل الحجاب۔ (بخاري، باب حمل الرجل امرأتہ فی الغزو دون بعض نسائہ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، برقم: ۲۷۹۳، ف: ۲۸۷۹، باب غزو النساء وقتالہن مع الرجال، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، رقم: ۲۷۹۴، ف: ۲۸۸۰، باب حمل النساء القرب إلی الناس في الغزوۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، رقم: ۲۷۹۵، ف: ۲۸۸۱)
عن الربیع بنت معوذ -رضی اللہ عنہا- قالت: کنا نغزو مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنسقي القوم ونخدمہم ونرد الجرحی والقتلی إلی المدینۃ۔
(بخاري باب رد النساء الجرحی والقتلی إلی المدینۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۴۰۳، برقم: ۲۷۹۷، ف: ۲۸۸۳)
ولو لحاجۃ غزو الخ، أي بشرط أن تکون متسترۃ وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، کراچی ۶/ ۴۲۳، زکریا دیوبند ۹/ ۶۰۶) 
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۳؍ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۹/ ۱۰۳۷۸)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ s_a_sagar# 
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post_2.html


حضرت آدم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت

حضرت 
آدم علیہ السلام 
کی اپنے بیٹے کو وصیت؟؟؟

• حضرت آدمؑ کی اپنے بیٹے کو وصیت•
 اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر تمام انبیاء مرسلین کی تعداد کے برابر لاٹھیاں نازل فرمائیں۔ پھر وہ اپنے بیٹے شیث کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے بیٹے! میرے بعد تو میرا خلیفہ ہے۔ ان کو تقویٰ اور عروہ و ثقیہ کے ذریعے پکڑ لے۔ جب بھی تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو ساتھ ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لینا۔ میں نے اس وقت عرش کے پائے پر ان کا نام لکھا دیکھا تھا جب میں روح اور مٹی کے درمیان تھا۔ پھر میں نے آسمانوں کا چکر لگایا تو ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میرے رب نے مجھے جنت میں بسایا تو میں نے جنت میں کوئی محل یا کوئی کمرہ نہیں دیکھا جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جنت کی حوروں کے گلوں  پر لکھا دیکھا، جنت کے محلات کی اینٹوں پر، طوبیٰ کے درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، نور کے پردوں کے اطراف پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسے لکھا دیکھا۔ تو ان کا ذکر کثرت سے کیا کرنا، کیونکہ فرشتے بھی  ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا یہ روایت مستند ہے؟
•• باسمہ تعالی••
الجواب وبہ التوفیق:
یہ روایت سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خصائص کبری_ میں اور "ابن عساکرؒ" نے "تاریخ دمشق" میں ذکر کی ھے:
▪ تاریخ ابن عساکر میں:
أخبرنا ابومحمد بن الحسين، نا أبو الحسين المهتدي، أنا ابو احمد عبيد الله بن محمد بن ابي مسلم الفرضي، انا ابو عمر عثمان بن احمد بن السماك،نا إسحاق بن إبراهيم بن سفيان، نا زكريا بن يحي، نا محمد بن زفر الاصبهاني، نا محمد بن خالد العاشمي الدمشقي، نا محمد بن حمير الحمصي، نا صفوان بن عمرو السكسكي، عن شريح بن عمير قال: كذا قال، فقلت: إنما هو شريح بن عبيد قال: كذا هو عندي عن أبي السمير الترمذي عن كعب الأحبار: أن الله تعالى أنزل على آدم عصيا بعدد الأنبياء، والمرسلين، ثم أقبل على ابنه شيث، فقال: أي بني! أنت خليفتي من بعدي، فخذها بعمارة التقوى أ والعروة الوثقى، وكلما ذكرت الله تعالى، فاذكر إلى جنبه اسم محمد، فإني رأيت اسمه مكتوبا على ساق العرش، وأنا بين الروح والطين، ثم إني طفت السموات، فلم أر في السماء موضعا إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، وإن ربي أسكنني الجنة، فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، ولقد رأيت اسم محمد مكتوبا على نحور الحور العين، وعلى ورق قصب آجام الحنة، وعلى ورق شجرة طوبى، وعلى ورق سدرة المنتهى، وعلى أطراف الحجب، وبين أعين الملائكة، فأكثر ذكره، فإن الملائكة تذكره في كل ساعاتها.
٭ المصدر:  تاريخ دمشق
٭ المؤلف: حافظ ابن عساكرؒ
٭ المجلد: 23
٭ الصفحة: 280
٭ الطبع: دارالفكر، بيروت، لبنان.
⚠  روایت کا حکم:
  یہ روایت مقبول نہیں ھے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی "محمد بن خالد ہاشمی دمشقی" ہیں ان کے متعلق «امام ابوحاتم رازیؒ» نے کہا: کہ وہ جہوٹ بول دیا کرتے تھے۔
محمد بن خالد الدمشقي روي عن وليد بن المسلم، روي عنه محمد بن يعقوب الدمشقي، وإسحاق بن إبراهيم، نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه، قال: كان يكذب.ملخصاـ
٭ المصدر:  الجرح والتعديل
٭ المؤلف: أبو حاتم رازيؒ
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 244
٭ الرقم: 1340
٭ الطبع:  دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
📘 الخصائص الکبریٰ میں:
یہ روایت «امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ» نے بہی "خصائص کبری" میں بلا کسی سند "ابن عساکر" کے حوالے سے کؔعب احبارؒ سے نقل کی ھے :
• نام کتاب: الخصائص الکبریٰ
• نام مؤلف: جلال الدین السیوطیؔ
•جلد: 1
•صفحة: 12
•طبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
⚠ فائدہ
 اس ضمن میں یہ بات بہی بہت مشہور ھے کہ حضرت آدمؑ نے جب توبہ کی تہی تو حضوراکرمؑ کا وسیلہ لیا تہا اور اسکا ذکر متعدد کتب تفسیر و حدیث میں ھے, لیکن وہ روایات  کمزور ہیں اور بقول امام "شمس الدین ذہبیؒ" وہ موضوع ہے۔
مستدرک حاکم میں:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل حدثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي حدثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري حدثنا إسماعيل بن مسلمة أنبأ عبدالرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال قال رسول الله  لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال الله يا آدم وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال لأنك يا رب لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوباً لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك. قال الله: صدقت يا آدم إنه لأحب الخلق إلي، أدعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك».
اس روایت کو حاکمؒ نے صحیح بتایا ھے ؛ لیکن امام ذہبیؒ نے اسکی تعلیق میں اسکو موضوع قرار دیا ھے۔
• المصدر:  مستدرك حاكم
•مؤلف: حاكم نيشاپوريؒ
• جلد: 2
• صفحة: 722
• نمبر: 4287
• طبع:  دارالحرمين للطباعة، قاهرة، مصر.
☪ دلائل النبوة ميں:
امام بيهقيؒ نے بهي "دلائل النبوة" ميں  اس روایت کو ذکر کیا ھے اور اسکی سند کو ضعیف کہا ھے:
٪ نام کتاب: دلائل النبوة
٪نام مؤلف: ابوبكر البيهقيؒ
٪جلد : 5
٪صفحة: 488
٪طبع: دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان.
💠 البدایہ والنہایہ میں:
بؔیہقیؒ کی تحقیق سے •علامہ حافظ ابن کثیر دمشقیؒ• نے بہی اس روایت کو  «البدایہ والنہایہ» میں ذکر فرمایا ھے:
* نام کتاب: البداية والنهاية
* نام مؤلف: حافظ ابن كثيرؒ
* جلد: 1
* صفحہ: 81
* طبع: مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.
🔹 خلاصة:
یہ روایت البدیہ والنہایة، مستدرک حاکم وغیرہ میں مذکور ہے، حاکم نے اس کے بارے میں لکھا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے؛ لیکن علامہ ذہبی نے اس پر تعلیق کرتے ہوئے اسے ”موضوع“ قرار دیا، نیز دیگر حضرات نے بھی اس روایت کی تضعیف کی ہے، اس لئے یہ قابل اعتماد نہیں ہے.
🌷دعا میں وسیلہ لینا🌷
دعا میں کسی نبی, ولی, یا نیک عمل کا وسیلہ لینا یعنی  کسی نبی یا ولی کے واسطے سے دعا کریں اور یہ کہیں اے اللہ فلاں بندے یا فلاں نبی کے طفیل میری دعا قبول فرما یہ جائز ہے اور اسکا حدیث صحیحہ سے ثبوت بہی ھے۔
اس سلسلے میں سب سے صریح دلیل حضرت عثمان بن حنیف کی روایت ہے جسے ترمذی نے اپنی ” سنن “ میں اوربيهقي نے ”دلائل النبوة“ میں روایت کی ہے، ترمذی کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ دعا کردیجئے کہ میری بینائی ٹھیک ہوجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی ہوتو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر اختیار کرو اور صبر تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تو حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ دعا ہی کردیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا کرو:
 اللہم إنی أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضي لي، اللہم فشفعہ فيّ۔
 یعنی اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، (اے نبی) میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا؛ تاکہ میری اس ضرورت کو پورا کردیا جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفارش قبول فرما۔
+ نام کتاب : سنن الترمذي
+ نام محدث: ابوعيسي الترمذيؒ
+ جلد: 5
+ صفحة:  536
+ رقم: 3578
+ درجة: صحيح
+ طبع: دارالغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.
¤ دلائل النبوة
المصدر: دلائل النبوة
المحدث: بيهقيؒ
المجلد: 6
الصفحة: 166
الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💎 بخاری میں وسیلہ کا ثبوت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب قحط ہوتا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے دعا مانگتے اورکہتے:
اللہم انا نتوسل إلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا فیسقون.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‏.‏ قَالَ فَيُسْقَوْنَ‏.‏
٭ نام كتاب:  صحيح البخاري
٭ جلد:1
٭ صفحة: 1009/،274
٭ حديث نمبر: 1010/3710
٭ طبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.
••• حاصل بحث •••
حضرت آدم علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت والی روایت غیرمستند ھے. نیز آدم کا حضور پاک کا توسل لینا بھی معتبر سند سے ثابت نہیں؛ البتہ نفس توسل کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ملتا ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: محمد عدنان وقار صؔدیقی
۱۱ دسمبر، ؁ء۲۰۱۹ #S_A_Sagar
https://mastooraat.blogspot.com/2021/12/blog-post.html

Monday, November 22, 2021

تعویذ دینے کو ’’روحانی علاج‘‘ کا نام دینا دھوکادہی ہے

تعویذ دینے 
کو ’’روحانی علاج‘‘ 
کا نام دینا دھوکادہی ہے

تعویذ دینا تقوی کی علامت نہیں اور نہ ان کاموں میں زیادہ منہمک ہونا چاہئے، تعویذ کرنا نہ عبادت نہ ثواب، تعویذ کو اپنا مشغلہ بنانا خلاف سنت ہے. عاملین کیلئے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کے قیمتی فرمودات)
انتخاب: استاد محترم مولانا ساجد خان نقشبندی صاحب مدظلہ العالی
1️⃣. تعویذ دینا عالم ہونے اور متقی ہونے کی علامت نہیں:
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس سارا دین ان تعویذ گنڈوں کے اندر منحصر ہے اور جو شخص تعویذ گنڈا کرتا ہے وہ بہت بڑا عالم ہے وہ بہت بڑا نیک آدمی ہے، متقی پرہیزگار ہے، اسی کی تقلید کرنی چاہئے، اس کا معتقد ہونا چاہئے، اور جوشخص تعویذ گنڈا نہیں کرتا یا جس کو تعویذ گنڈا کرنا نہیں آتا اس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اس کو دین کا علم ہی نہیں۔ بہت لوگ میری طرف رجوع کرتے ہیں کہ فلاں مقصد کیلئے تعویذدے دیجئے میں جب ان سے کہتا ہوں کہ مجھے تو تعویذ کرنا نہیں آتا تو وہ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو اتنا بڑا دارالعلوم بناہوا ہے اس میں تعویذ گنڈے ہی سکھائے جاتے ہیں اور اس میں جو درس ہوتے ہیں وہ سب تعویذ اور جھاڑ پھونک کے ہوتے ہیں لہذا جس کو جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا نہیں آتا وہ یہاں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اس لئے جو اصل کام یہاں پر سیکھنے کا تھا وہ تو اس نے سیکھا ہی نہیں 
2️⃣. تعویذ گنڈے میں انہماک مناسب نہیں:
ان لوگوں نے سارا دین تعویذ گنڈے میں سمجھ لیا ہے اور ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہ ہو جس کا علاج کوئی تعویذ نہ ہو، چنانچہ ان کو ہر کام کیلئے تعویذ چاہئے فلاں کام نہیں ہورہا اس کیلئے کیا وظیفہ پڑھوں؟ فلاں کام کیلئے ایک تعویذ دے دیں، لیکن ہمارے اکابر نے اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے کہ جس حد تک حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عمل کیا، اس حد تک ان پر عمل کریں، یہ نہیں کہ دن رات آدمی یہی کام کرتا رہے، اور دین و دنیا کا ہر کام تعویذ گنڈے کے ذریعہ کرے، یہ بات غلط ہے. اگر یہ عمل ہوتا تو پھر سرکار دو عالم کو جہاد کرنے کی کیا ضرورت تھی، بس کافروں پر کوئی ایسی جھاڑ پھونک کرتے کہ وہ سب حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں آکر ڈھیر ہوجاتے. آپ نے اس جھاڑ پھونک پر کبھی کبھی عمل بھی کیا لیکن اتنا غلو اور انہماک بھی نہیں کیا کہ ہر کام کیلئے تعویذ گنڈے استعمال کرے ۔
3️⃣. تعویذ کرنا نہ عبادت نہ ثواب:
یاد رکھئے جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج جائز ہے مگر یہ عبادت نہیں، قرآن کریم کی آیات کو اور قرآن کریم کی سورتوں کو اور اللہ تعالی کے ناموں کو اپنے کسی دنیوی مقصد کیلئے استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جائز ہے لیکن یہ کام عبادت نہیں اس میں ثواب نہیں جیسے آپ کو بخار آیا اور آپ نے دوا پی لی تو یہ دوا پینا جائز ہے لیکن دوا پینا عبادت نہیں بلکہ ایک مباح کام ہے ۔۔۔
4️⃣. تعویذ کرنے کو اپنا مشغلہ بنالینا: 
لہذا اگر کسی شخص کو ساری عمر جھاڑ پھونک کا طریقہ نہ آئے، تعویذ لکھنے کا طریقہ نہ آئے لیکن وہ براہ راست اللہ سے دعا کرے تو یقینا اس کا یہ عمل تعویذ اور جھاڑ پھونک سے بدرجہا افضل اور بہتر ہے، لہذا ہر وقت تعویذ گنڈے میں لگے رہنا یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ۔۔۔ لیکن ہر وقت اس میں انہماک اور غلو کرنا اور اس کو اپنا مشغلہ بنالینا کسی طرح بھی درست نہیں ۔
5️⃣. روحانی علاج کیا ہے؟
اب لوگوں نے یہ تعویذ گنڈے، یہ عملیات یہ وظیفے اور جھاڑ پھونک ان کا نام رکھ لیا ہے ’’روحانی علاج ‘‘ حالانکہ یہ بڑے مغالطے اور دھوکے میں ڈالنے والانام ہے اس لئے کہ روحانی علاج تو دراصل انسان کے اخلاق کی اصلاح کا نام تھا اس کے ظاہری اعمال کی اصلاح اور اس کے باطن کے اعمال کی اصلاح کا نام تھا۔ یہ اصل میں ’’روحانی علاج ‘‘ تھا. مثلا ایک شخص کے اندر تکبر ہے اب یہ تکبر کیسے زائل؟ یا مثلا حسد پیدا ہوگیا، یہ کیسے زائل ہو، یا مثلا بغض پیدا ہوگیا وہ کیسے زائل ہو؟ حقیقت میں اس کا نام روحانی علاج ہے لیکن آج اس تعویذ گنڈے کے علاج کا نام روحانی علاج رکھ دیا ہے جو بڑے مغالطے والا عمل ہے۔
6️⃣. صرف تعویذ دینے سے پیر بن جانا:
اور اگر کسی شخص کا تعویذ گنڈا جھاڑ پھونک اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کامیاب ہوگیا تو اس شخص کے متقی اور پرہیز گار ہونے کی دلیل نہیں، اور نہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص دینی اعتبارسے مقتدی بن گیا ہے وہ تو اللہ تعالی نے الفاط میں تاثیر رکھ دی ہے جو شخص بھی اس کو پڑھے گا تاثیر حاصل ہوجائے گی یہ بات اس لئے بتادی کہ بعض اوقات لوگ یہ دیکھ کر کہ اس کے تعویذ بڑے کارگر ہوتے ہیں اس کی جھاڑ پھونک بڑی کامیاب ہوتی ہے اس کو ’’پیر صاحب‘‘ بنالیتے ہیں اور اس کو اپنا مقتدی قرار دیتے ہیں چاہے اس شخص کی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہو چاہے اس کی زندگی سنت کے مطابق نہ ہو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی اتباع کرنے والا بھی خلاف شرع امور کا ارتکاب کرتے ہیں.
👈 (ماخوذ اصلاحی خطاب جلد ۱۵ عنوان بیان: تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post_62.html

جمعہ کے دن کے فضائل اور اعمال

جمعہ کے دن کے فضائل اور اعمال
جمعہ سب سے بہترین دن ہے۔ (مسلم: 854)
جمعہ سب سے افضل دن ہے۔ (نسائی: 1284) (ترمذی: 3339)
جمعہ تمام دِنوں کا سردار ہے۔ (ابن ماجہ: 1084)
جمعہ سب سے زیادہ عظمت والا دن ہے۔ (ابن ماجہ: 1084)
جمعہ کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں. (ابن ماجہ: 1637)
جمعہ کی رات اور دن دونوں روشن و چمکدار ہیں۔ (شعب الایمان: 2772)
جمعہ کے دن مَرنے والا عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے۔ (ترمذی: 1074)
جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔ (ترمذی: 3339)
جمعہ کا دن مسلمانوں کا عید کا دن ہے۔ (مؤطاء مالک: 452) (ابن ماجہ: 1098)
جمعہ کے دن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ (سورۃ البروج) (ترمذی: 3339)
جمعہ کے دن جہنم کو دہکایا نہیں جاتا. (ابوداؤد: 1083)
جمعہ کا سلامتی کے ساتھ گزر جانا ہفتہ بھر کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ (شعب الایمان: 3434)
جمعہ کا دن اِس اُمّت کیلئے اہلِ کتاب کے مقابلے میں عطیہ خداوندی ہے۔ (مسلم: 855)
جمعہ کا دن مغفرت کا دن ہے۔ (طبرانی اوسط: 4817)
جمعہ کے دن اَعمال کا اجر بڑھادیا جاتا ہے۔ (طبرانی اوسط: 7895)
پہلا عمل:  جمعہ کے دن صبح کی نماز سے پہلے اِستغفار کرنا
 دوسراعمل: جمعہ کے دن صبح کی نماز کا خصوصی اہتمام
تیسرا عمل: جمعہ کے دن فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دھر پڑھنا
چوتھا عمل: جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا
پانچواں عمل: جمعہ کے دن غسل کرنا
چھٹاعمل: مسواک کرنا
ساتواں عمل: اچھے کپڑے پہننا
آٹھواں عمل: عمامہ باندھنا
نواں عمل: خوشبو لگانا
دسواں عمل: ناخن اور مونچھیں کاٹنا
گیارہواں عمل: جسم کے زائد بالوں کی صفائی
بارہواں عمل: جمعہ کیلئے جلدی جانا
تیرہواں عمل: اَذان کے بعد خرید و فروخت ترک کردینا
چودہواں عمل: جمعہ کیلئے سکون اور وقار کے ساتھ جانا
پندرہواں عمل: جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہونے کی دُعاء
سولہواں عمل: صلاۃ التسبیح پڑھنا
سترہواں عمل: جمعہ کی نماز پڑھنا
اٹھارہواں عمل: جمعہ کی نماز اوّل وقت میں پڑھنا
اُنیسواں عمل: جمعہ کی نماز اور خطبہ کے آداب کو ملحوظ رکھنا
بیسواں عمل: جمعہ کی نماز کے بعد کے اَوراد و اَذکار پڑھنا
اکیسواں عمل: سات جنّت میں لےجانے والے اَعمال
بائیسواں عمل: سورۃ الکہف پڑھنا
تئیسواں عمل: جمعہ کے دن سورۂ ھود پڑھنا
چوبیسواں عمل: جمعہ کے دن سورۂآلِ عمران پڑھنا
پچیسواں عمل: جمعہ کے دن سورۂ یٰسٓ پڑھنا
چھبیسواں عمل: جمعہ کی شب یا دن میں سورۂ دخان پڑھنا
ستائیسواں عمل: جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت کرنا
اٹھائیسواں عمل: جمعہ کے دن ذکر کی کثرت کرنا
انتیسواں عمل: جمعہ کے دن دُعاء کی کثرت کرنا
مستفاد از باقیات صالحات
مفتی منور ابن مصلح الدین شیخ بھاٹاباڑی. دارالافتاء بھاٹاباری. دینی مقالات. مجلس الفتاویٰ 
Mufti Munawwar Bhatabari 
Mufti Munawwar Bhatabari  مفتی منور بھاٹاباری. (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post_20.html

سکھر میں صحابہ کرام کی قبریں

تنبیہات 
سلسلہ نمبر 349
🔘سکھر میں صحابہ کرام کی قبریں

سوال: مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب یہ بات درست ہے؟ سکھر سے کچھ کلومیٹر کے فاصلہ پر محبوب گوٹھ میں واقع تین صحابہ کرام ,حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللّٰہ عنہ, حضرت عمرو بن اخطب رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت معاذ بن عبداللّٰہ جہنی رضی اللّٰہ عنہ کے مرقد مبارک پر جانا نصیب ہوا الحَمْدُ ِلله
مولانا شفیق الرحمان صاحب کراچی
مدیر جامعہ صدیقیہ
🛑الجواب باسمہ تعالی:
اللہ رب العزت نے اس امت پر ایک عظیم الشان احسان یہ فرمایا کہ اس کی تاریخ محفوظ ہے، 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں ہے، لیکن قبروں کے متعلق اگر تحقیق کی جائے تو بمشکل چند ہزار صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبروں کے بارے میں یقیناً کہا جائے گا کہ یہ ان کی قبر ہے، ورنہ تو وہ پھیل گئے، اور رہتی دنیا کیلئے نمونہ بن گئے کہ قربانی ایسی ہوتی ہے، 
البتہ جن حضرات کی تاریخ مل سکی، اسماء الرجال کے علماء نے ولادت، وفیات اور مقام دفن تک کو محفوظ رکھا، لہذا جب بھی کوئی شخص کسی مقام کے بارے میں یا شخصیت کے بارے میں کوئی دعویٰ کرتا ہے، تو اس سے اس دعویٰ کی صداقت پر دلیل اور حوالہ مانگا جاتا ہے، اگر تاریخ اس دعوی کی صداقت کرے تو ٹھیک ہے، اور اگر نہیں، تو محض اندازے، تخمینہ یا کسی شخصیت کے مراقبے سے نہ کوئی تاریخ ثابت ہوسکتی ہے نا ہی کسی قبر کو کسی بزرگ یا صحابی کی قبر قرار دیا جاسکتا ہے، 
• عمرو بن عبسہ کی قبر کا دعوی:
سکھر میں یہ دعوے کیا جاتا ہے کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی قبر تو یقینی ہے باقی دونوں قبروں کے بارے میں یقین نہیں، 
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں، جن کا تذکرہ باقاعدہ ملتا ہے، ان کی وفات کی جگہ بھی بعض کتب میں منقول ہے، لیکن وہ سکھر آئے ہیں، یہاں مدفون ہیں، ایسا تذکرہ کسی بھی کتاب میں موجود نہیں. 
•عمرو بن عبسہ شام میں انتقال کرگئے:
ابن حبان نے الثقات میں لکھا ہے عمرو بن عبسہ بلکل ابتدا میں مسلمان ہوئے تھے شائد چوتھے مسلمان تھے، لیکن آپ علیہ السلام نے ان کو اپنی قوم میں رہنے کا حکم دیا، اور پھر یہ فتح مکہ سے قبل مدینہ منورہ آئے اور وہیں رہے، آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد شام تشریف لے گئے اور وہیں انتقال ہوا.
"عَمْرو بْن عبسة أَبُو نجيح السّلمِيّ جَاءَ إِلَى النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أول الْإِسْلَام فَأسلم وَاسْتَأْذَنَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمكْث مَعَه أَو اللحوق بقَوْمه فَأذن لَهُ بِالرُّجُوعِ إِلَى قومه فَخرج ثمَّ أَتَى النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبل فتح مَكَّة فسكن الشَّام وَبهَا مَاتَ يُقَال إِنَّه رَابِع الْإِسْلَام وَقدم على رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعد الْحُدَيْبِيَة
ابن حبان الثقات
ابن سعد طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ آپ علیہ السلام کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے، اور وہیں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد شام تشریف لے گئے اور وہیں رہے اور وہیں انتقال ہوا.
"ثُمَّ قَدِمَ عَلَى رَسُول اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَعْدَ ذَلِكَ الْمَدِينَةَ فَصَحِبَهُ وَسَمِعَ مِنْهُ وَرَوَى عَنْهُ. ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إلى الشَّامِ فَنَزَلَهَا إِلَى أَنْ مَاتَ بِهَا."
 ابن سعد الطبقات الکبری
•عمرو بن عبسہ حمص میں انتقال ہوا:
ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ عمرو بن عبسہ شام میں رہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال حمص میں ہوا، اور ان کا نزول حمص یقینی ہے،
وقال الحَاكِمُ أَبُو أَحْمَدَ: قد سكن عَمْرو بن عَبَسة الشام، ويقال: إنه مات بحمص. "نزل عمرو حمص باتفاق."
(< جـ4/ص 545>) سیر اعلام النبلاء
امام ابن حجر کہتے ہیں کہ غالبا ان کا انتقال حضرت عثمان کے دور میں ہوا، کیونکہ فتنے کے دور میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں، اور نہ ہی دور معاویہ رضی اللہ عنہ میں ان کا تذکرہ ملتا ہے.
"ابن حجر: وأظنه مات في أواخر خلافة عثمان، فإني لم أر له ذكراً في الفتنة ولا في خلافة معاوية. [4] 
"كتاب الاستيعاب (ص 492)، رقم (1748)، الإصابة (ص 984)، رقم (6772).
حمص میں مدفون صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی قبروں پر لکھی گئی کتاب میں عمرو بن عبسہ کو مدفون حمص لکھا گیا ہے.
توفي في مدينة حمص
^ "مقامات وأضرحة الصحابة في حمص...
•عمرو بن أخطب رضی اللہ عنہ
یہ خزرج قبیلے کے صغار صحابہ میں سے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختلف غزوات میں شریک ہوئے، آپ علیہ السلام نے ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تھا، یہ سو سال سے زائد عمر تک زندہ رہے، اور ان کے سر اور داڑھی میں چند بال ہی سفید تھے، 
"ابوزَيْد الأَنْصَارِيّ. هو مشهور بكنيته، يقال:
إنه من بني الْحَارِث بْن الخزرج، غزا مع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غزوات، ومسح رَسُول اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم على رأسه، ودعا له بالجمال، فيقال: إنه بلغ مائة سنة ونيفا، وما فِي رأسه ولحيته إلا نبذ من شعر أبيض، هو جدّ عزرة ابن ثَابِت. 
امام ذہبی کہتے ہیں کہ ان کا انتقال عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ہوا، جبکہ ابن کثیر نے ان کو 71 میں انتقال ہونے والوں میں ذکر کیا.
"توفي في عهد عبدالملك بن مروان، وذكره ابن كثير الدمشقي في البداية والنهاية في وفيات سنة 71 هـ
سیر اعلام النبلاء 
احادیث کی تحقیق کرنے والے ایک ادارے کی تحقیق کے مطابق ان کی رہائش بصرہ میں تھی اور انتقال بھی وہیں ہوا.
"الأسم: عمرو بن أخطب بن رفاعة بن محمود بن بشر بن عبدالله بن الضيف بن أحمر بن عدي بن ثعلبة بن حارثة بن عمرو بن عامر
الشهرة: عمرو بن أخطب الأنصاري , الكنيه: أبوزيد
النسب : الأنصاري, البصري
الرتبة : صحابي
عاش في : البصرة
مات في : البصرة
توفي عام : 80"
▫️تاریخی نکتہ:
سکھر کی فتح محمد بن قاسم کے ہاتھوں ہوئی، یہ ولید بن عبدالملک کا زمانہ تھا، 
ملاحظہ فرمائیں. 
"دس رمضان المبارک 92ہجری مطابق 28اکتوبر 711ء کا دن تھا کہ اروڈ نزد روہڑی ضلع سکھر کے مقام پر راجہ داہر کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی"
جبکہ عمرو بن أخطب رضی اللہ عنہ کا انتقال عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ہی ہوچکا تھا، جبکہ ابن کثیر نے ان کی وفات فتح سکھر سے تقریباً اکیس سال قبل بیان کی ہے، تو پھر کیسے ان کی قبر محبوب گوٹھ میں بن گئی. 
•معاذ بن عبداللّٰہ الجہنی
تیسری قبر کے بارے میں دعوے ہے کہ یہ صحابی معاذ بن عبداللّٰہ جہنی کی ہے، 
سب سے پہلی بات کہ اس نام کا کوئی جہنی صحابی ہی نہیں، جہینہ قبیلے کے تقریباً 107 صحابہ کرام کے نام محفوظ ہیں، جن میں ان کا نام شامل نہیں، البتہ ان کے والد کا نام موجود ہے،
        یہ تابعی ہیں
ان کی وفات کا سال 118 ہجری بتایا جاتا ہے، ان کی زندگی مدینہ منورہ میں ہی گزری، البتہ دفن کا مقام معلوم نہیں، 
: مُعَاذُ بنُ عَبْدِاللهِ ابن خُبَيْبْ الجُهني
لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ وَرَوَى عَنْهُ.
(وَمَاتَ قَدِيمًا{ توفي سنة ثماني عشرة ومائة}. وَكَانَ قَلِيلَ، الْحَدِيثِ).
"قُلْتُ: هو معروف مِنْ رواية معاذ بن عبدالله بن حبيب الجهني، عن أبيه. واسم الجهني خبيب. بالمعجمة مصغّر. فالله أعلم.)) الإصابة في تمييز الصحابة."
 "الأسم: معاذ بن عبد الله بن خبيب
الشهرة: معاذ بن عبد الله الجهني
النسب: المدني, الجهني
الرتبة: ثقة
عاش في: المدينة
توفي عام: 118"
        🔘 خلاصہ کلام:
تاریخ صرف اس لئے بیان کی جاتی ہے کہ کسی بھی دعوے کی صداقت کو پرکھا جاسکے.
ان قبور کے بارے میں جو دعوے ہے، اس دعوے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں، جبکہ مضبوط مورخین کے اقوال اور کتابیں ان دعوؤں کو درست قرار نہیں دیتی، ہماری تحقیق کے مطابق سوائے سنی سنائی باتوں کے اور کوئی ایسی دلیل نہیں کہ ان قبروں کو صحابہ کرام کی قبریں قرار دیا جائے، 
لہذا یہی کہا جائے گا کہ یہ تینوں قبریں جن حضرات کی طرف منسوب ہیں، یہ ان حضرات کی قبریں نہیں ہوسکتی.
《واللہ اعلم بالصواب》(کتبه: عبدالباقی اخونزادہ) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے

اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے 

قَالَ حَدَّثَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ الْقِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً ـ قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ هُنَيَّةً ـ فَقُلْتُ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ قَالَ: ‏"‏أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَاىَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ"‏‏.‏

=====================

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرآت کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں: 

«اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَاىَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ» 

اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال! (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

---------------------------

Narrated Abu Huraira:

Allah's Messenger (ﷺ) used to keep silent between the Takbir and the recitation of Qur'an and that interval of silence used to be a short one. I said to the Prophet (ﷺ) "May my parents be sacrificed for you! What do you say in the pause between Takbir and recitation?" The Prophet (ﷺ) said, "I say, 'Allahumma, baa`id baini wa baina khatayaya kama baa`adta baina l-mashriqi wa l-maghrib. Allahumma, naqqini min khatayaya kama yunaqqa th-thawbu l-abyadu mina d-danas. Allahumma, ighsil khatayaya bi l-maa'i wa th-thalji wa l-barad (O Allah! Set me apart from my sins (faults) as the East and West are set apart from each other and clean me from sins as a white garment is cleaned of dirt (after thorough washing). O Allah! Wash off my sins with water, snow and hail.)" Reference : Sahih al-Bukhari 744. (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

https://mastooraat.blogspot.com/2021/11/blog-post_22.html