Saturday, November 10, 2018

حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے؟

حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے؟

(سوال ۲۷۰ ) مجالس الا برارکی تیسویں مجلس میں لکھا ہے کہ حقہ پینا ناجائز اور حرام ہے اور اس کے لئے عقلی ونقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن دور حاضر کا اہل علم طبقہ حقہ نوشی میں مبتلا ہے۔ کیا اب کوئی صورت جواز کی نکل آئی ہے؟ بالتفصیل جواب فرمایئے کہ عام بیماری ہے۔ بینوا توجروا۔

(الجواب) جس حقہ میں ناپاک یا نشہ آور چیزیں نوش کی جاتی ہیں وہ بالا تفاق حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن جس حقہ، بیڑی سگریٹ وغیرہ تمباکو نوشی کا رواج ہے اس کی حرمت متفق علیہ نہیں ہے۔ اکثر علماء فقہاء کی رائے جواز کی ہے ۔’’شامی‘‘ میں ہے ۔ فیفھم حکم التنباک وھو اباحۃ علی المختار والتوقف وفیہ اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ وتفتیرہ واضرارہ (ج۵ ص ۴۰۷ کتاب الا شربۃ)
یعنی اصل اشیاء میں اباحت یا توقف ہے اس قانون کے مطابق تمباکو کا حکم سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اباحت ہے یا تو قف اور اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ نشہ آور اور فتور پیدا کر نے والا اور ضرر رساں نہیں ہے۔(شامی)
مگر تمباکو نوشی سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے لہذا صحیح ضرورت کے بغیر حقہ نوشی وغیرہ کراہیت سے خالی نہیں ۔ تمباکو بنفسہ مباح ہے ۔ اس میں کراہیت بدبو کی بنا پر عارضی ہے کراہت تحریمی ہو یا تنزیہی ۔ بہر حال قابل ترک ہے ۔ اس کی عادت نہ ہونی چاہئے ۔ اس کی کثرت اسراف اور موجب گناہ ہے۔ جو لوگ ہر وقت کے عادی ہیں ان کا منہ ہمیشہ بدبو دار رہتا ہے جس سے آنحضرت ﷺ کو بہت زیادہ نفرت تھی حدیث میں ہے:۔ عن ابی سعید الخدری ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مر علی زراعۃ بصل ھو واصحابہ فنزل ناس منھم فاکلوا منہ ولم یا کل اخرون فرحنا الیہ فدعا الذین لم یاکلوا البصل واخر الا خرون حتی یذھب ریحھا ۔ یعنی حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کرام پیار کے کھیت کے قریب سے گذرے ۔ بعض صحابہ وہاں ٹھہر گئے۔ ان میں سے بعض نے اس میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا پھر سب بارگاہ نبوی میں پہنچے تو آنحضرتﷺ نے پیاز نہ کھانے والوں کو قریب بلایا اور پیاز کھانے والوں کو بد بوزائل ہونے تک پیچھے بٹھایا ۔(صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۹باب نہی عن اکل سوم اوبصل الخ )شریعت میں منہ کی صفائی کے متعلق نہایت تاکید اور فضیلت وارد ہے ۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے۔ السواک مطھرہ للفم ومرضاۃ للرب یعنی ۔ مسواک۔ منہ کی پاکی کا ذریعہ ہے اور رب ذوالجلال کی خوشنودی کا سبب۔(مشکوٰۃ شریف ص ۴۴ باب السواک)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ جب باہر سے تشریف لاتے تو اولا مسواک کرتے تھے (مسلم شریف ج۱ ص ۱۲۸)
اکثر تمباکو نوش حضرات منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے ۔ جب دیکھے منہ میں بیڑی، سگریٹ ہوتی ہے ۔ مسجد کے دروازہ تک پیتے چلے جاتے ہیں بقیہ حصہ کو پھینک کر مسجد میں داخل ہوتے ہیں ، شاید کوئی مسواک کرتا ہوگا یا منجن استعمال کرتا ہوگا ۔ محض کلی پر اکتفا کر کے نماز شروع کر دیتے ہیں ۔ کہیں ایسوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے نماز پڑھنی دشوار ہوجاتی ہے آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی اس بدبودار درخت (پیاز یا اس کی آل) کو کھائے وہ (منہ صاف کئے) بغیر (توکا نبائی جائے) ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ جس چیز سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے فرشتوں کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے (مسلم شریف ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً)
فقہاء کرام تحریر فرماتے ہیں کہ بدبو دار چیز کھانے، پینے کے بعد منہ صاف کئے بغیر مسجدو مدرسۂ عید گاہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ اور مجلس تعلیم اور وعظ و تبلیغی اجتماعات میں شریک ہونا مکروہ ہے (نووی شرح مسلم ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً) مسلمانوں کا کون سا وقت ذکر اﷲ اور ذکر رسول اﷲﷺسے خالی رہتا ہے ۔ قدم قدم پر بسم اﷲ الخ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ درود ودعا،سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ، اﷲ اکبر، ماشاء اﷲ، لا حول ولا قوۃ الا باﷲ ، استغفر اﷲ انا اﷲ الخ مصافحہ کے وقت یغفر اﷲ، چھینک پر الحمد ﷲ یر حمکم اﷲ یہدیکم اﷲ وغیرہ وغیرہ ورد زبان رہتا ہے ، لہذا حتی الوسع منہ کی صفائی ضروری ہے ۔ خدائے پاک کے ہزارہا احسانات اور فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے رسول اﷲﷺ کے مقدس و مبارک نام لینے کی ہمیں اجازت دی ہے ۔ ورنہ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
مولا نا روم فرماتے ہیں :۔
این قبول ذکر تو ز رحمت است
چونماز مستحاضہ رخصت است
خلاصہ یہ کہ حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ چیزیں حرام نہیں مگر بلا ضرورت وبلا مجبوری ان کی عادت ڈالنا مکروہ ہے ، ہاں ضرورۃً جائز ہے لیکن صفائی کا خیال بھی ضروری ہے بعض محققین کی فتاویٰ درج ہیں ۔
قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کا فتویٰ۔
(الجواب)حقہ کے باب میں بہت فتاویٰ اور رسائل طبع ہوئے اور بحث مباحثہ ہوا مگر بندہ کے نزدیک راجح اور حق یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے اور اس وقت میں علاج بلغم ہے اور اگر ازالہ بد بو کا ہو جائے تو مباح بلا کراہت ہے باقی تکلفات ہیں ۔(تذکرہ الرشید ج۱ ص ۱۶۸۔۱۶۹)
فتاویٰ رحیمیہ
.....
(۲) ابو الحسنات حضرت مولانا عبدالحیٔ لکھنوی رحمہ‘ اﷲ کا فتویٰ ملاحظہ کیجئے :۔
وانچہ کہ بعد تنقیح دلائل طرفین واضح شدا ین ست کہ قول حرمت لایعبأ بہ ست چہ حرمت موقوف بر دلیل قطعی تحریم ست وحاکمین بحرمت دلیلے قطعی برآں قائم نساختہ امذ بلکہ جملہ دلائل ظنیہ شاں ہم مخدوش اند چنانچہ بر مطالعۂ ترویح الجنان مخفی نخواہد ماندوقول اباحت بلا کراہت ہم خالی از خد شات نیست البتہ قول کراہت قابل اعتبار است این ہمہ گفتگو درحقہ کشی ست فاما خوردن تمباکو واستعمال آں دربینی پس دلیلے معتبرع بر کر اہتش ہم قائم نیست۔(مجموعہ فتاویٰ ج۱ ص۲۲۹ طبع قدیم)
(۳) حکیم لاا مت حضرت مولانا تھانوی کا فتویٰ:۔
بلاضرورت کراہت تو سمجھتا ہوں اور بضرورت کھانا پینا دونوں جائز اور ضرورت میں نفس عین مکروہ نہیں ۔ دوسرے عوارض خارجیہ سے گو کراہت ہوجائے اور عوارض کی خفت وشدت سے کراہت کی خفت وشدت میں تفاوت ہوگا اور سکر تمباکو میں نہیں ہے صرف حدت ہے ۔ اسی سے پریشانی ہوتی ہے لیکن عقل ماؤف نہیں ہوتی اور عوارض خارجیہ کے اعتبار سے کھانا اخف ہے بہ نسبت پینے کی ۔ کما ہو مشاہد (امداد الفتاویٰ ج۴ ص ۱۱۴)
شیخ الا سلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی فرماتے ہیں :۔ یہ جملہ بزرگان دین (دیو بندی حضرات) تمباکو کے استعما ل پر سوائے کراہت تنزیہی و خلاف اولیٰ اور کوئی حکم نہیں فرماتے ۔(الشہاب الثاقب ص ۸۲)
(۵) مفتی اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب مفتی دارالعلوم دیو بند کا فتویٰ:۔
درحقیقت تمباکو بھی ایک قسم نباتات کی ہے ۔ اور شامی میں صحیح قول یہ نقل کیا ہے کہ تمباکو کا استعمال مباح ہے۔ البتہ بلا ضرورت غیر اولیٰ ہے اور قول کراہت (تحریمی) بلا دلیل ہے ۔ (فتاویٰ دارالعلوم عزیز الفتاویٰ (ج۷۔۸ص۲۱۴)
(۶) مفتی عزیز الرحمن صاحب کا دوسر افتویٰ:۔
(الجواب)تمباکو کھانا ، پینا ،سونگھنا مباح ہے مگر غیر اولیٰ جس کا حاصل یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی ہے اور تجارت تمبا کو کی درست ہے ۔(فتاویٰ دارالعوم دیو بند ج۷۔۸ص۲۳۶)
(۷) حضرت مفتی شفیع صاحب کا فتویٰ
البتہ اگر بلا ضرورت پیئے تو مکروہ تنزیہی ہے اور ضرورت میں کسی قسم کی کراہت نہیں ۔منہ صاف کرنا بدبو سے ہر حال میں ضروری ہے ۔(فتاویٰ درالعلوم دیو بند (ج۷۔۸ ص۲۹۲)

No comments:

Post a Comment