Sunday, November 18, 2018

آہ، حاجی عبدالوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ

آہ، حاجی عبدالوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ

کتنا عجیب سا لگتا ہے کہ آج فجر کی نماز کے بعد سے ہم حضرت حاجی صاحب کو رحمت اللہ علیہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں.
یہ اللہ تعالی کی قضا و قدر کے وہ فیصلے ہیں جن کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی ہرگز نہیں ہوتا.
حضرت حاجی صاحب کا شمار ان معدودے چند خوش نصیبوں میں ہوتا ھے جنہوں نے بانی تحریک دعوت و تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کے دست اقدس پر بیعت کی اور آپ کے شانہ بشانہ دعوت وتبلیغ کا علم اٹھائے ہندوستان بھر میں بستی بستی قریہ قریہ ایسے وقت گھومے جب دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ اس پوری دھرتی پر بالکل اجنبی تھا اور اس کا ساتھ دینے کے لئے بہت کم لوگ تیار ہوتے تھے .
حضرت حاجی صاحب نے مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ان کے مشن کو نہ صرف کئے کے آگے بڑھایا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچا دیا.
حضرت حاجی صاحب نے تقریبا 70 سال سے زیادہ تبلیغی جماعت کے نظم و نسق کو سنبھالنے کی ذمہ داریاں جس خوش اسلوبی کے ساتھ ادا فرمائی ہیں وہ ساری دنیا کے سامنے ہے .
قیام پاکستان کے بعد لاہور کے نواح میں رائیونڈ نامی ایک چھوٹی سی بستی میں تبلیغ کے مرکز کا جب قیام عمل میں آیا تو اس وقت کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ چھوٹی سی مسجد میں قائم ہونے والا یہ مرکز دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کا اسلامی تبلیغ کا سب سے بڑا مرکز بن جائے گا اور اس مرکز کے سالانہ اجتماعات حج بیت اللہ کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماعات بن جائیں گے .شروع شروع میں جب حضرت حاجی عبدالوھاب صاحب نے رائیونڈ میں مرکز قائم فرمایا تھا تو ہر آنے والی ریل گاڑی پر ان کی اور دیگر ایسے احباب کی جو اس وقت مرکز میں ہوتے ہر آنے والی ریل گاڑی پر ان کی نظریں گڑھی ہوتیں اور اس سے اترنے والی سواریوں کو دیکھتے کہ شاید ان میں کوئی اللہ کے دین کا درد لیے, اللہ کی عظمت کے بول سیکھنے اور اللہ اور اس کے رسول کا رستہ لوگوں تک پہنچانے کا عزم لیے کوئی مسلمان ساتھی اترا ہو, اور کئی کئی دن تک تبلیغی مرکز میں آنے والا کوئی مسافر نہ ہوتا.
یہ حضرات اذکار اور دعاؤں کا سہارا لیتے اور اللہ سے مانگتے کہ اللہ دین کی ہوائیں عام فرما دے. ان کی دعائیں  ان کا صبر، ان کی استقامت،  ان کا عزم، ان کی جہد مسلسل اور ان کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور آہستہ آہستہ پاکستان کے قریہ قریہ بستی بستی میں دین کا درد رکھنے کا جذبہ تبلیغ کے نام سے عام ہونا شروع ہوا اور لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا. حضرت حاجی صاحب نے شروع دن سے آخر تک فجر کے بعد کادرس اور روانگی کی ہدایات اپنے ذمے رکھیں.
جماعت میں آنے جانے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ کوشش کے باوجود کوئی آدمی حضرت حاجی صاحب کے "سونے کا وقت" معلوم نہ کرسکا. کیونکہ فجر کے بعد حضرت مسلسل درس پر موجود، اس کے بعد روزانہ کے طویل مشورے میں حضرت بھی موجود، روزانہ کئی کئی جماعتوں کو روانہ کرنے کے لئے ہدایات اور مصافحہ کے لئے بھی حضرت موجود، پھر ظہر عصر مغرب کے بعد تمام مشاغل میں حضرت حاجی صاحب پیش پیش نظر آتے ہیں. پھر عشاء کے بعد بھی حضرت صاحب سب کی آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں اور رات کو بارہ بجے ایک بجے، دو بجے  بھی آپ دیکھیں آپ کو حاجی صاحب مرکز میں ایک طرف سے دوسری طرف آتے جاتے اور ضروری مسائل نمٹاتے، ہدایات دیتے نظر آتے ہیں.
حضرت حاجی صاحب نے اس تبلیغی مشن کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر ڈالا اور زندگی کا ایک ہی محور شعبہ تبلیغ کو بنا لیا. آپ نے اللہ کے دین کے پھیلانے کے لئے اپنی تمام گھریلو، خانگی، خاندانی اور ذاتی مصروفیات کو قربان کردیا اور دن رات مرکز رائیونڈ میں ہیں قیام فرما رہے.
زندگی کی آخری سانس تک مرکز رائیونڈ کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا اور آج جب کہ تبلیغ کا یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، دنیا کا کوئی ملک اور کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلسل جماعتوں کا آنا جانا شروع نہ ہوچکا ہو اور لوگوں کو فوج در فوج دینی حلقے اور اتباع سنت کے حلقے میں داخل نہ کیا جارہا ہوں، آج جبکہ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا، تبلیغ کی برکات و فوائد پوری دنیا میں سامنے آنے لگے، مغرب میں سینکڑوں گرجوں کو خرید کر مساجد میں تبدیل کیا جانے لگا، تبلیغی گشت میں مصروف عمل احباب کی فٹ پاتھوں پر نماز دیکھ کر سینکڑوں لوگ اپنے اپنے مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونے لگے، عوام تو عوام، پبلک تو پبلک، حکومت بھی تسلیم کرنے لگی کہ تبلیغی جماعت کے نام سے اٹھنے والی یہ خالص دینی تحریک کسی قسم کے ذاتی، گروہی، مسلکی، سیاسی اور مالی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف اسلام اور اس کی تعلیمات کی دعوت وتبلیغ تک اپنی تگ و تاز محدود کئے ہوئے ہے.          
آج جبکہ تبلیغی اجتماعات کا مجمع اتنا بڑا ہوگیا کہ اس کے لئے زمین کا انتظام کرنا ناممکن ہوگیا اور اجتماع کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنا پڑا , آج جبکہ ملک کے چپے چپے میں دعوت و تبلیغ کی آواز گونج رہی ہے , حضرت حاجی صاحب عمل مکمل کرنے کے بعد آج اس دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف مخلوق سے خالق کی طرف حیات دنیاوی سے حیات برزخی کی طرف سفر پر روانہ ہوگئے ہیں.
اللہ تعالی ان کی محنت کو قبول فرمائے اور جو کام جس نہج اور جس معیار پر چھوڑ کرگئے ہیں اللہ کرے کہ آنے والے دنوں میں وہ کام دعوت و تبلیغ کا کام مزید پھیلتا پھلتا پھولتا رہے اور اس کی برکات سے پوری دنیا میں اسلام کی ہوائیں عام ہوتی رہیں. آمین

No comments:

Post a Comment