Sunday, November 18, 2018

مرکز کے موجودہ انتشار پر استفتاء اور اس کا تفصیلی جواب

مرکز کے موجودہ انتشار پر استفتاء اور اس کا تفصیلی جواب

مفتی صاحب! السلام علیکم.
مجھے دعوت و تبلیغ کے بارئے میں سوال کرنا تھا
سوال (١) سب سے پہلا سوال یہ تھا کے کیا دعوت کے کام میں امارت ہونی چاہئے یا شورہ؟

سوال (٢) کیا دور صحابہ کی مثال دینا درست ہوگا کے صحابہ میں امارت تھی چار خلیفہ وغیرہ؟

سوال (٣) کیا مولانا سعد صاحب کو دیوبند کے فتوے کے بعد بھی حق پر سمجھنا درست ہے؟

سوال (٤) مجھے کسی نے کہا علماء کا اختلاف رحمت ہیں کیا اسے رحمت کہاجائگا یا یہ سنگین فتنہ ہیں

سوال (٥) آخری سوال میں مولانا سعد صاحب کا ساتھ دو یا مولانا ابراہیم صاحب دیولہ اور احمد لاٹ صاحب کا؟

الجواب:حامداومصلیاومسلما:- 

(١) حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ خود امیر تھے. شوری کے  مشوروں کو آپ اپنی خوش دلی سے قبول کرتے تھے اور مسترد کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتے تھے.

اسلامی نظام میں شوری صرف مشورہ دیتی ہے جو قبول بھی ہو سکتا ہے، مسترد بھی. فیصلہ صرف امیر کرتا ہے.

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لشکرِ اسامہ کو بھیجنے، زکات نہ دینے والوں سے لڑنے، قرآن جمع کرنے وغیرہ میں شوری کے فیصلہ کو مسترد کیا. آخر میں شوری نے امیر کو مانا.

کفری پارلیمانی نظام میں اس کے برعکس امیر شوری کا بے اختیا نوکر ہوتا ہے. انتظام و انصرام ایک فرد، ایک رخ، ایک سوچ سے نکل کر متعدد خداؤں یعنی ارکان پارلیمنٹ کے ہاتھ میں آجاتا ہے.

مرکز نظام الدین میں امارت و شوری کا اختلاف نہیں ہے. شوری سے تو خود مولانا سعد کاندھلوی ہر معاملے میں مشورہ لیتے ہیں. اختلاف ہے اسلامی امارت اور کفری پارلیمانی نظام کا. پارلیمانی نظام والے محض عوام کو دھوکہ دینے کے لیے "شوری" کے اسلامی لفظ سے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں.

(٢) خلافت صرف خلافتِ راشدہ نہیں ہے۔ خلافتِ راشدہ خلافت کی اعلی ترین قسم ہے۔

ہم ان کو خلیفہ نہیں مانتے۔ خلیفہ سے «مشابہ» مانتے ہیں۔ اور اس پر قیاس کرکے حکم مستنبط کرتے ہیں۔
ظاہر ہے۔ بغیر دلیلِ کافی وشافی کے امام ومقتدی کو چھوڑنا نا جائز ہے۔
«الا أن تروا کفرا بواحا»
تب تک خلیفہ کی اطاعت کی جائے گی، جب تک اس سے بالکل واضح اور قطعی کفر کا صدور نہ ہوجائے۔

اطاعت کے معاملے میں جماعت کے امیر کو بھی خلیفۃ المسلمین ہی پر قیاس کیا جائے گا۔

‍     خلافت وامارت میں انتخاب امیر کے شرعی طریقے صرف چار ہیں.
١) علماء، قضاۃ وغیرہ ارباب حل و عقد کا کسی لائق شخص پر اتفاق کرلینا، جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تقرری اسی طریقے سے باتفاق صحابہ عمل میں آئی.
٢) شرعی طورپر منتخب شدہ امیر یا خلیفہ اصحاب الرائے کے صلاح و مشورہ یا اپنی صواب دید سے کسی لائق شخص کو نامزد کردے، جیسا کہ خلافت فاروقی کا قیام اسی طریقے سے باتفاق صحابہ عمل میں آیا.
  ٣) جامعین شرائط شوری اہل الرائے کے مشورہ سے غوروفکر کرکے کسی کو مقرر کردے، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مقرر کردہ شوری نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو منتخب کیا، اور صحابہ نے اسے قبول کر لیا.
٤) غلبہ اور استیلاء کےذریعہ کوئی لائق شخص منصب امارت کو اپنے ہاتھ میں لے کر تالیف قلوب اور قوت کے ذریعہ سب کو اپنا مطیع بنالے. (استیلاء کی بعض صورتیں غیر شرعی اور ناجائز ہیں، جس کی تفصیل اپنے مقام پر کتب فقہ میں مذکور ہے) (مستفاد: ازالۃ الخفاء، مقصد اول، فصل اول صفحہ نمبر ٢٤ ،٢٥).
خلیفۃ المسلمین کے تقرر کے چار طریقے اوپر مذکور ہوئے، ان میں سارے طریقے پر موجودہ صورت میں حضرت جی مولانا سعد صاحب کو  امیر بنایا گیا،

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے خلافت اس لیے چھوڑی کیوں کہ دوسری جانب حضرت «««امیر»»» معاویہ تھے۔ اگر ان کے چھوڑنے پر غیر اسلامی پارلیمانی نظام قائم ہونے کا اندیشہ ہوتا، تو قطعا نہ چھوڑتے۔

ان کو صرف اپنا حق قربان کرنے کا اختیار تھا۔ امت مسلمہ کا معاملہ کفری نظام کے حوالے کرنے کا ان کو بھی اختیار نھیں تھا.

***امیر ہونے کے لیے ہر ساتھی سے افضل ہونا شرط نہیں***

امیر کے لیے ہر ساتھی سے بہتر، افضل، عمر اور علم میں بڑا ہونا بھی ضروری نہیں۔

وفات سے دو دن قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوان صحابی اسامۃ بن زید (عمر ٢٠ سال) کو امیر بنایا، حضرت ابو بکر (٦٠ سال) عمر بن خطاب (٥٠ سال)، سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدۃ بن جراح اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ کو ان کے ما تحت رکھا۔
بعض (مثلا: اونچے درجے کے صحابی عیّاش بن ابی ربیعۃ) نے اعتراض کیا: یہ معمولی نوجوان ہم سب کا امیر کیسے ہوسکتا ہے؟

حضور نے مسجد میں سب کو جمع کرکے ارشاد فرمایا:
اگر آج تم کو (٢٠ سالہ) اسامہ کی امارت پر اعتراض ہے، تو کل تم کو زید بن حارثہ کی امارت پر بھی اعتراض تھا۔ خدا کی قسم! زید بن حارثہ امارت کے حق دار تھے، اور (اپنے کمالات کی وجہ سے) مجھے سب سے محبوب تھے۔ (زید کی شہادت کے بعد اب) یہ اسامہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔

(حضرت زید بن حارثۃ غزوۂ موتۃ میں امیر تھے۔ اسی غزوے میں شہید ہوئے۔ عمر ٤٨ سال تھی۔)

چند ماہ قبل حضرت اسامۃ بن زید سے ایک بڑی غلطی بھی ہوئی تھی۔ ایک کافر کو کلمہ پڑھنے کے باوجود آپ نے جنگ میں قتل کر دیا۔ حضور کو اطلاع ملی تو اتنا ناراض ہوئے کہ اسامہ کے لیے غم سے زندگی دشوار ہوگئی۔ کہتے تھے: کاشّ میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا، تو اتنے بڑے گناہ سے بچ جاتا۔

حضرت اسامہ کے توبہ (رجوع) کو حضور نے قبول فرمایا۔ اور اس مرتبہ سپاہی کی حیثیت سے نہیں بلکہ امیر کی حیثیت سے غزوے میں بھیجا۔

حضرت اسامہ اس سے پہلے بھی امیر بنے تھے، مگر چھوٹی جنگوں کے، جن میں اتنے بڑے صحابہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ سلمہ بن اکوَع کہتے ہیں:
میں ٧ جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا، اور ٩ ایسی جنگوں میں بھی شریک ہوا جن میں رسول اللہ نہیں تھے۔ امیر کبھی ابوبکر صدیق ہوتے تھے اور کبھی اسامۃ بن زید۔

—------------—
وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ
صحیح بخاری ٣٧٣٠، مستخرج أبی عوانۃ ١٠٦٨٥

قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلَاحِ، قَالَ: «أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا؟» فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ
صحیح مسلم ٩٦، بخاری ٦٨٧٢

سیر أعلام النبلاء ٢/٤٩٦

سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ، يَقُولُ: «غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، وَخَرَجْتُ فِيمَا يَبْعَثُ مِنَ البُعُوثِ تِسْعَ غَزَوَاتٍ مَرَّةً عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ، وَمَرَّةً عَلَيْنَا أُسَامَةُ» (بخاری ٤٢٧٠)

  (٣) 

یہ کون سے دارالعلوم دیوبند کی بات ہے؟ مقبوضہ کی یا آزاد (وقف) کی؟

ابھی حال ہی میں شعبان میں دارالعلوم دیوبند (وقف) کے مہتمم مولانا سفیان صاحب نے ان کی جو ضیافت فرمائی، زبانی جمع خرچ سے ایک قدم آگے بڑھ کر معزز مہمان کے طور پر ان کا اکرام و احترام کیا، اسی طرح مظاہرالعلوم کے بزرگ مرشد اور مقبوضہ دارالعلوم دیوبند کے سابق امامِ جنازہ حضرت مولانا طلحہ صاحب کا ان کو شرفِ امامت سے سرفراز کرنا مولانا سعد کے متعلق بنارسی سینا کی الزام تراشی کو کالعدم کرنے کے لیے کافی ہے.
==============
سنبھل کا تبلیغی اجتماع – ٢٤ تا ٢٦ دسمبر ٢٠١٦

عوام کی کثیر تعداد اور خصوصا مشائخ دارالعلوم دیوبند نائب مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمود صاحب بلند شہری مفتی فخرالاسلام صاحب مفتی عثمان غنی صاحب مفتی وقار صاحب مولانا عبدالہادی صاحب  مفتی فرقان صاحب مشائخ شاھی مرادآباد خصوصا شیخین دارالافتاء حضرت مولانا مفتی شبیر صاحب مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری حضرت مولانا اشہد رشیدی صاحب (اجتماع سے قبل تشریف لائے اور بیان فرمایا) ناظم اعلی شاھی مرادآباد حضرت مولانا اسعد صاحب حضرت مولانا سید حبیب احمد صاحب جانشین حضرت باندوی رحمہ اللہ ناظم جامعہ عربیہ ھتورا حضرت مولانا محمدتوفیق صاحب ناظم اعلی جامعہ حسینیہ جونپور حضرت مولانا عبد العظیم صاحب صاحب زادہ حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب جونپوری نوراللہ مرقدہ مفتی اعظم جامع مسجد امروہہ مفتی محمد عفان صاحب منصور پوری مولانا محمد حارث صاحب ناظم مدرسہ باب العلوم وام المومنین سیدہ حفصہ للبنات فیض آباد   نیز فضلاء دارالعلوم دیوبند  ودارالعلوم ندوہ مفتی ظہیر الاسلام صاحب مفتی محمد اشرف صاحب مفتی افتخار صاحب مفتی محمد مسلم صاحب مفتی نوال الرحمان صاحب مفتی محمد ریحان صاحب مفتی محمد ساجد صاحب مفتی محمد خالد صاحب مفتی عبد الرحیم صاحب مولانا کفایت اللہ صاحب مفتی عبدالقیوم صاحب مفتی صفوان صاحب مفتی افتخار صاحب  اوراطراف وجوانب کے علماء ونظماء مدارس (اللھم اطول اعمارھم وظلالھم واحفظہم من جمیع البلیات والشرور والفتن ویرزقھم توفیقا وکرامہ) کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائ اور حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی (لازالت شموس فیوضہم بازغہ لکی نطیب ببحرھم الذخار) کے بیانات کی ہر مجلس  کو بغور سماعت فرمایا.

(٤) ١٩٨٠ کے دہے میں جمعیۃ الطلبہ نے کیمپ دارالعلوم دیوبند قائم کیا تھا، پھر ٢٣ مارچ ١٩٨٢ کی شبِ تاریک میں کیمپ والوں نے اصل دارالعلوم دیوبند پر قبضہ کرلیا۔ اور آج تک قبضہ جاری ہے۔

حجۃ الاسلام حضرت قاسم نانوتی کے پوتے اور تقریبا ساٹھ سال سے مہتمم حضرت قاری طیب رحمہما اللہ کے خلاف اسی طرح کا لمبا پروپیگنڈہ کرکے لوگوں کو ان سے بد ظن کیا، پھر مدرسے سے نکال دیا۔

پروپیگنڈہ اتنا قوی تھا کہ مولانا منظور نعمانی، اور علی میاں ندوی رحمہما اللہ جیسے مخلص بزرگ بھی قاری طیب صاحب سے بدظن ہوگئے تھے۔

اس کیمپ دارالعلوم دیوبند کے بادشاہ کانگریسی قائد اسعد مدنی تھے۔ اور سپہ سالار مولانا وحید الزماں کیرانوی تھے۔ اہم حامیوں میں مولانا معراج الحق، مفتی سعید احمد پالن پوری وغیرہ تھے۔ جمعیۃ الطلبہ کے فوجیوں میں اہم نام مولوی عثمان سہارن پوری اور مولوی ثناء الہدی وغیرہ تھے۔

—------—
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اس کی مثال ملتی ہے۔ اگر مکمل آیت پڑھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کیمپ تبلیغی جماعت اور اصل تبلیغی جماعت (مرکز نظام الدین) پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ آدمی کو حتی الامکان کیمپ تبلیغی جماعت سے بچنا چاہیے۔ جماعتِ تقوی (مرکز نظام الدین) سے خود کو وابستہ رکھنا چاہیے۔ یہی اس آیت کا پیغام ہے۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (107) لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ۔ (التوبۃ ١٠٧-١٠٨)

بعضے ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ (اسلام کو) نقصان پہنچاویں اور (اس میں بیٹھ بیٹھ کر) کفر (یعنی عداوتِ رسول) کی باتیں کریں اور (اس کی وجہ سے) ایمان داروں (کے مجمع میں) تفریق ڈالیں (کیوں کہ جب دوسری مسجد بنائی جائے اور ظاہر کیا جائے کہ خوش نیتی سے بنی ہے تو ضرور ہے کہ پہلی مسجد کا مجمع کچھ نہ کچھ منتشر ہو ہی جاتا ہے) اور (یہ بھی غرض ہے کہ) اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس (مسجد بنانے) کے قبل سے خدا و رسول کا مخالف ہے (مراد ابوعامر راہب ہے)۔

(پوچھو تو) قسمیں کھائیں گے (جیسا ایک دفعہ پہلے بھی پوچھنے پر کھا چکے ہیں) کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں۔ اور اللہ گواہ ہے کہ وہ (اس دعوے میں) بالکل جھوٹے ہیں۔

(جب اس مسجد کی یہ حالت ہے کہ وہ واقع میں مسجد ہی نہیں بلکہ مضرِ اسلام ہے تو) آپ اس میں کبھی (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہوں۔

البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے (یعنی روزِ تجویز سے) تقوی (اور اخلاص) پر رکھی گئی ہے (مراد مسجد قبا ہے) وہ (واقعی) اس لائق ہے کہ آپ اس میں (نماز کے لیے) کھڑے ہوں۔
(قرآن کریم، ترجمۂ تھانوی مع تغییرِ یسیر، معارف القرآن ٤/٤٥٩-٤٦٠)
        علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اختلاف امتی رحمۃ"  سے علماء کا ہر اختلاف مراد نہیں ہے بل کہ مجتہدین کا فروعی اختلاف مراد ہے کہ جس سے عوام کے لئے وسعت ہو.
(ﻗﻮﻟﻪ: ﺑﺄﻥ اﻻﺧﺘﻼﻑ) ﺃﻱ ﺑﻴﻦ اﻟﻤﺠﺘﻬﺪﻳﻦ ﻓﻲ اﻟﻔﺮﻭﻉ ﻻ ﻣﻄﻠﻖ اﻻﺧﺘﻼﻑ. ﻣﻄﻠﺐ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ «اﺧﺘﻼﻑ ﺃﻣﺘﻲ ﺭﺣﻤﺔ» .
(ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﻦ ﺁﺛﺎﺭ اﻟﺮﺣﻤﺔ) ﻓﺈﻥ اﺧﺘﻼﻑ ﺃﺋﻤﺔ اﻟﻬﺪﻯ ﺗﻮﺳﻌﺔ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺃﻭﻝ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ، (مقدمہ رد المحتار).

(٥) اوپر کی تحریروں سے بالکل واضح ہے کہ عالمی مرکز نظام الدین کی بتلائی ہوئی ترتیب پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنا ہی امت کے لئے نافع ہوگا، اسی میں کام کی حفاظت اور افادیت مضمر ہے. 

فقط والله تعالى أعلم وعلمہ اتم واحکم.
مؤرخہ ٢٨ ربیع الاول ١٤٣٨ ہجر

No comments:

Post a Comment