طنز سے بچئے اور انبیاء کا طریقہ اختیار کیجئے
’’طنز‘‘ایک فن گیا ہے: آج ہمارے معاشرے میں طعنہ دینے کا رواج پڑ گیا ہے، اب تو طنز باقاعدہ ایک فن ہوگیا ہے اور اس کو ایک ہنر سمجھا جاتا ہے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ بات لپیٹ کر کہہ دی گئی، اس سے بحث نہیں کہ اس کے ذریعے دوسرے کا دل ٹوٹا یا دل آزاری ہوئی۔
... انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام طنز اورطعنہ نہیں دیتے تھے:
میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے، اور یہ سب اللہ کے دین کی دعوت لے کر آئے، کسی نبی کی زندگی میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملے گی کہ کسی نبی نے اپنے مخالف کو یا کسی کافر کو طعنہ دیا ہو، یاطنز کیا ہو، بلکہ جو بات وہ دوسروں سے کہتے تھے، وہ محبت اور خیرخواہی سے کہتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ دوسرے کی اصلاح ہو۔ آج کل تو طعنہ دینے اور طنز نگاری کا ایک سلسلہ چلاہوا ہے۔ جب آدمی کو ادبیت اور مضمون نگاری کا شوق ہوتا ہے یا تقریر میں آدمی کو دلچسپی پیدا کرنے کا شوق ہوتا ہے تو پھر اس مضمون نگاری میں اور اس تقریر میں طنز اور طعن و تشنیع بھی اس کا ایک لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
... میرا ایک ذاتی واقعہ:
چنانچہ آج سے تقریباً تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے میں اس وقت دارالعلوم کراچی سے نیا نیا فارغ ہوا تھا۔ اس وقت ایوب خاں صاحب مرحوم کے دور میں جو عائلی قوانین نافذ ہوئے تھے، ان کے خلاف میں نے ایک کتاب لکھی جن لوگوں نے ان قوانین کی حمایت کی تھی ان کا ذکر کرتے ہوئے اور ان کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے اس کتاب میں جگہ جگہ طنز کا انداز اختیار کیا تھا، اس وقت چونکہ مضمون نگاری کا شوق تھا، اس شوق میں بہت سے طنزیہ جملے اور طنزیہ فقرے لکھے اور اس پر بڑی خوشی ہوتی تھی کہ یہ بڑا اچھا جملہ چُست کردیا۔ جب وہ کتاب مکمل ہوگئی تو میں نے وہ کتاب حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کو سنائی، تقریباً دوسو صفحات کی کتاب تھی۔
... یہ کتاب کس مقصد سے لکھی ہے؟
جب والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پوری کتاب سن چکے تو فرمایا یہ بتائو کہ تم نے یہ کتاب کس مقصد کے لئے لکھی ہے؟ اگر اس مقصد سے لکھی ہے کہ جو لوگ پہلے سے تمہارے ہم خیال ہیں وہ تمہاری اس کتاب کی تعریف کریں کہ واہ واہ کیسا دندان شکن جواب دیا ہے، اور یہ تعریف کریں کہ مضمون نگاری کے اعتبار سے اور انشاء و بلاغت کے اعتبار سے بہت اعلیٰ درجے کی کتاب لکھی ہے، اگر اس کتاب کے لکھنے کا یہ منشا ہے تو تمہاری یہ کتاب بہترین ہے۔
لیکن اس صورت میں یہ دیکھ لیں کہ اس کتاب کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا قیمت ہوگی؟ اور اگر کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جو آدمی غلطی پر ہے اس کتاب کے پڑھنے سے اس کی اصلاح ہوجائے، تو یاد رکھو! تمہاری اس کتاب کے پڑھنے سے ایسے آدمی کی اصلاح نہیں ہوگی بلکہ اس کتاب کو پڑھنے سے اس کے دل میں اور ضد پیدا ہوگی۔ *دیکھو! حضرات انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے، انہوں نے دین کی دعوت دی اور کفر اور شرک کا مقابلہ کیا، لیکن ان میں سے ایک نبی بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے طنز کا راستہ اختیار کیا ہو۔* لہٰذا یہ د یکھ لو کہ یہ کتاب اللہ کے واسطے لکھی ہے یا مخلوق کے واسطے لکھی ہے، اگر اللہ کے واسطے لکھی ہے تو پھر اس کتاب سے اس طنز کو نکالنا ہوگا، اور اس کا طرزتحریر بدلنا ہوگا۔
... یہ انبیاء کا طریقہ نہیں ہے:
مجھے یاد ہے کہ جب والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات ارشاد فرمائی توایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے سر پر پہاڑ توڑ دیا کیونکہ دوسوڈھائی سو صفحات کی کتاب لکھنے کے بعد اس کو از سر نو اُدھیڑنا بڑا بھاری معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر اس وقت جبکہ مضمون نگاری کا بھی شوق تھا اور اس کتاب میں بڑے مزیدار فقرے بھی تھے، ان فقروں کو نکالتے بھی دل کٹتا تھا۔ لیکن یہ حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کا فیض تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسکی توفیق عطا فرمائی اور میں نے پھر پوری کتاب کو ادھیڑا اور از سرنو اس کو لکھا پھر الحمد للہ وہ کتاب ’’ہمارے عائلی قوانین‘‘ کے نام سے چھپی۔ لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن ہے الحمد للہ یہ بات دل میں بیٹھ گئی کہ ایک داعی حق کے لئے طنز کا طریقہ اور طعنہ دینے کا طریقہ اختیار کرنا درست نہیں ، یہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ نہیں ہے۔
... حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت:
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیج رہے تھے کہ جائو اس کو جاکر ہدایت کرو اور اس کو دعوت دو، تو اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو یہ ہدایت دی جارہی تھی کہ:
*فَقُوْلاً لَہٗ قَوْلاً لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰیO (سورۂ طٰہٰ، آیت:۴۴)*
یعنی فرعون کے پاس تم دونوں نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔ حضرت والد صاحب یہ بات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آج تم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے مصلح نہیں ہوسکتے، اور تمہارا مخاطب فرعون سے بڑا گمراہ نہیں ہوسکتا۔ وہ فرعون جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ وہ ایمان نہیں لے گاء، کفر ہی پر مرے گا، لیکن اس کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ اس سے جاکر نرمی سے بات کرنا تو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نرمی سے بات کرنے کو کہا جارہا ہے تو ہما شما کس قطار میں ہیں ۔
... حق بات کوئی لٹھ نہیں ہے:
آج ایک طرف تو یہ فکر ہی کسی کو نہیں ہوتی کہ دین کی بات کسی کو سکھائی جائے یا کسی کو ’’نہیں عن المنکر‘‘ کیا جائے، اور اگر کسی کے دل میں یہ بات آگئی کہ حق بات دوسروں کو بتانی ہے، تو وہ اس کو اس طرح بتاتا ہے جیسے کہ وہ حق بات ایک لٹھ ہے جو اس نے جس طرح دل چاہا اٹھاکر ماردیا یا جیسے وہ ایک پتھر ہے جو کھینچ کر اس کو ماردیا۔
... حضرات انبیاء علیہم السلام کے انداز جواب:
حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دعوت دینے کے وقت طعنہ نہیں دیتے، حتی کہ اگر کوئی سامنے والا شخص طعنہ بھی دے تو جواب میں یہ حضرات طعنہ نہیں دیتے۔
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا کہ:
اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاہَۃٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَO
نبی سے کہا جارہاہے کہ ہمارا یہ خیال ہے کہ تم انتہا درجے کے بیوقوف ہو، احمق ہو، اور ہم تمہیں کاذبین میں سے سمجھتے ہیں ، تم جھوٹے معلوم ہوتے ہو، وہ انبیاء علیہم السلام جن پر حکمت اور صدق قربان ہیں ان کے بارے میں یہ الفاظ کہے جارہے ہیں ، لیکن دوسری طرف جواب میں پیغمبر فرماتے ہیں :
*یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاہَۃٌ وَّلٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَO* اے قوم! میں بیوقوف نہیں ہوں ، بلکہ میں اللہ رب العالمین کی طرف سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں ۔
ایک اور پیغمبر سے کہا جارہا ہے کہ:
اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍط
ہم تمہیں دیکھ رہے ہیں کہ تم گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔
جواب میں پیغمبر فرماتے ہیں:
یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیْ رَسُولٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَO
اے قو میں گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں اللہ رب العالمین کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہوں ۔
آپ نے دیکھا کہ پیغمبر نے طعنہ کا جواب طعنہ سے نہیں دیا۔
... ترکی بہ ترکی جواب مت دو:
لہٰذا طعنہ کا جواب طعنہ سے نہ دیا جائے۔ اگرچہ شرعاً ایک آدمی کو یہ حق حاصل ہے کہ جیسی دوسرے شخص نے تمہیں گالی دی ہے، تم بھی ویسی ہی گالی اس کو دیدو لیکن حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے وارثین انتقام کا یہ حق استعال نہیں کرتے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی یہ حق کبھی استعمال نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ معاف کردینے اور درگزر کردینے کا شیوہ رہا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے وارثین کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔
... انتقام کی بجائے معاف کرو:
اے بھائی! اگر کسی نے تمہیں گالی دے دی تو تمہارا کیا بگڑا؟ تمہاری کونسی آخرت خراب ہوئی؟ بلکہ تمہارے تو درجات میں اضافہ ہوا، اگر تم انتقام نہیں لوگے، بلکہ درگزر کردوگے اور معاف کردوگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں معاف کردیں گے۔ حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص دوسرے کی غلطی کو معاف کردے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن معاف فرمائیں گے جس دن وہ معافی کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا یعنی قیامت کے دن، لہٰذاانتقام لینے کی فکر چھوڑدو، معاف کردو اور درگزر کردو۔
- کتاب: اصلاحی خطبات،جلد11،صفحہ97تا105
- مجموعۂ بیانات: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
- ناشر : میمن اسلامک پبلشرز کراچی پاکستان
-طالبِ دعا: ابومعاذ راشدحسین
-اسے آگے شئیر فرماکر صدقۂ جاریہ کے مستحق بنیں۔
No comments:
Post a Comment