Sunday, December 30, 2018

سُورة المُلك کے فضائل

سُورة المُلك کے فضائل

١.. بخشش کی سفارشی
حضرت ابي هريره رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: قرآن میں تیس آیات والی ایک سورت ہے، اس نے ایک شخص کی سفارش کی یہاں تک کہ وه بخش دیا گیا اور وہ سورت تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ہے
قرآن مجید میں ایک ایسی سورت ہے جس کی تیس آیات ہیں وہ آدمی کی سفارش کرے گی حتی کہ اسے بخش دیا جائے گا، اور وہ سورت تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ہے
(قال أبو عيسى هذا حديث حسن. وأخرجه أحمد وأبو داود والنسَائي وابن ماجه وابن حبان في صحِيحه والحاكم وقال صحيح الإِسناد)

حضرت انس رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: قرآن میں ایک سورت ہے ، اس نے اپنے ساتهی کی سفارش کی یہاں تک کہ وه بخش دیا گیا (اور یہ سورت) تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ہے
(تفسير ابن كثير ، تفسير سورة الملك)

حضرت ابن عباس رضى الله عنهما سے روایت ہے کہ انهوں نے ایک شخص سے فرمایا کہ کیا میں تجهے ایسی حدیث تحفہ نہ کروں جس سے تو خوش ہو؟ اس شخص نے کہا کیوں نہیں اے ابن عباس الله تجهہ پر رحم کرے تو ابن عباس رضى الله عنهما نے فرمایا کہ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ پڑھ اور اس کو زبانی یاد کر، اور اس کو اپنے گهر والوں کو اور اپنی سب اولاد کو اور اپنے گهر کے اور پڑوس کے بچوں کو سکهاو، بے شک وه (تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ) نجات دینے والی ہے، وه (تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ) قیامت کے دن اپنے رب کے پاس اپنے پڑهنے والے کے لئےجهگڑا کرنے والی ہے، اور اپنے رب سے اپنے پڑهنے والے کے لئے جهنم کی آگ سے نجات طلب کرتی ہے، اور اپنے ساتهی کو عذاب قبر سے نجات دیتی ہے
(تفسير ابن كثير تفسير سورة الملك » فضل سورة الملك)

٢.. عذاب قبر سے نجات:
حضرت ابن عباس رضى الله عنهما سے روایت ہے کہ: کسی صحابی نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اس کو معلوم نہیں تها کہ یہ قبر ہے، پس اچانک اس نے سنا کہ کوئی  انسان اس قبر میں سورة الملك پڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اس نے سورت ختم کردی، وه صحابی نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا يا رسول الله: میں نے ایک قبر پر خیمہ لگایا اور مجهے معلوم نہیں تها کہ وه قبر ہے، میں نے سنا کہ ایک انسان سورة الملك پڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اس نے سورت ختم کردی، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ (سورت) عذاب قبر کو روکنے والی ہے اور عذاب قبر سے نجات دینے والی ہے
(سنن الترمذي » كتاب فضائل القرآن » باب ما جاء في فضل سورة الملك)

٣.. سونے سے پہلے
حضرت جابر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نہیں سوتے تهے یہاں تک کہ (سورت) الم تنزيل (اور سورت) تبارك الذي بيده الملك کی تلاوت فرماتے
(یعنی آپ کی عادت مبارکہ یہ تهی کہ آپ تلاوت سے پہلے نہیں سوتے تهے یعنی سونے سے پہلے تلاوت فرماتے تهے)
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب فضائل القرآن)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ جس نے ہر رات تبارک الذی بیدہ الملک پڑھی تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اسے عذاب قبر سے نجات دے گا، ہم اس سورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں المانعۃ بچاؤ کرنے والی سورۃ کہتے تھے کتابُ اللہ میں یہ ایسی سورت ہے جو بھی اسے ہر رات پڑھے گا تو اس نے بہت اچھا اور زيادہ کام کیا
(رواه النسائى، المعجم الكبير، للامام أبو القاسم سليمان بن أحمد المعروف الطبرانی)

٤.. رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تمنا
حضرت ابن عباس رضى الله عنهما سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ (یعنی سورت ”تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ”) میری امت کے ہر إنسان کے دل میں ہو
(تفسير ابن كثير » تفسير سورة الملك» فضل سورة الملك)

سونے سے پہلے  شکر ادا کرنا

سونے سے پہلے  شکر ادا کرنا

نعمتوں کا استحضار اور ان پر شکر:
رات کو سونے سے پہلے بیٹھ کر ساری نعمتوں کا استحضار کرلو کہ گھر عافیت کا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
بستر آرام دہ ہے۔
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔
میں عافیت سے ہوں،
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔
بچہ عافیت سے ہے،
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔
ایک ایک نعمت کا استحضار کرکے رٹ لگاؤ۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحی ٔصاحب قدس اللہ سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے یہ چیز اپنے نانا سے سیکھی ہے۔ ایک مرتبہ میں ان کے گھر گیا تو رات کو میں نے دیکھا کہ وہ سونے سے پہلے بستر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور بار بار، بار بار
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔ 

پڑھ رہے ہیں۔ اور عجیب کیفیت میں یہ عمل کررہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ حضرت! یہ کیا کررہے ہیں ؟ فرمانے لگے: بھائی! سارے دن تو معلوم نہیں کس حالت میں رہتا ہوں اور یہ پتہ نہیں لگتا کہ شکر ادا ہورہا ہے یا نہیں ۔ اِس وقت بیٹھ کر دن بھر کی ساری نعمتوں کا استحضار کرتا ہوں اور پھر ہر نعمت پر
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔
کہتا جاتا ہوں۔
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ دیکھا تو اس کے بعد الحمد للہ میں نے بھی اس کو اپنے معمول میں شامل کرلیا کہ رات کو سوتے وقت سب نعمتوں کا استحضار کرکے شکر ادا کرتا ہوں۔

شکر ادا کرنے کا آسان طریقہ:
اور نبی کریم ﷺ پر قربان جائیں۔ آپ نے ہر ہر چیز کے طریقے بتادیئے ہیں۔ کہاں تک انسان شکر ادا کرے گا۔ بقول *شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے، فرماتے ہیں کہ ایک سانس پر دو شکر واجب ہیں ۔ سانس اندر جائے اور باہر نہ آئے تو موت۔ اور اگر سانس باہر آئے پھر اندر نہ جائے تو موت۔ تو ایک سانس پر دونعمتیں ، اور ہرنعمت پر ایک شکر واجب ہے۔ اس طرح ہرسانس پر دوشکر واجب ہوگئے۔ اس لئے اگر انسان سانس ہی کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہے تو کہاں تک کرے گا۔
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لاَتُحْصُوْہَا
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو گن نہیں سکتے
اس لئے سرکارِ دوعالم ﷺ نے شکر کرنے کا ایک آسان طریقہ بتادیا اور چند کلمات تلقین فرمادیئے۔ ہرمسلمان کو یاد کرلینے چاہئیں ۔ فرمایا کہ:

’’اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا دَائِمًا مَعَ دَوَامِکَ، وَخَالِدًا مَعَ خُلُوْدِکَ، وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا لاَمُنْتَہٰی لَہٗ دُوْنَ مَشِیَّتِکَ، وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا لاَیُرِیْدُ قَائِلُہٗ اِلاَّ رِضَاکَ

(کنزالعمال: ج؍۲، ص؍۲۲۳، حدیث نمبر: ۳۸۵۷)

’’اے اللہ! آپ کا شکر ہے۔ ایسا شکر کہ جب تک آپ ہیں ۔ اس وقت تک وہ شکر جاری رہے، اور جس طرح آپ جاوداں ہیں اسی طرح وہ شکر بھی جاوداں رہے اور آپ کی مشیت کے آگے جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔ اور آپ کی ایسی حمد کرتا ہوں جس کے کہنے والے کو سوائے آپ کی رضا کے کچھ مطلوب نہیں ‘‘۔

شکر کیلئے دو مزید دعائیں:

ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:

اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ زِنَۃَ عَرْشِکَ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِکَ، وَعَدَدَ خَلْقِکَ، وَرِضَانَفْسِکَ۔

(ابودائود، کتاب الصلوٰۃ، باب التسبیح بالخفی)

فرمایا: میں آپ کا شکر کرتا ہوں جتنا آپ کے عرش کا وزن ہے۔ اور اتنا شکر ادا کرتا ہوں جتنی آپ کے کلمات کی سیاہی ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کو لکھنا چاہے، اور ساتوں کے ساتوں سمندر اس کے لئے سیاہی بن جائیں اور اس سے اللہ تعالیٰ کے کلمات لکھے جائیں تو سارے سمندر خشک ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہ ہوں ۔ تو آپ کے کلمات لکھنے کے لئے جتنی سیاہی درکار ہوسکتی ہے اس کے بقدر شکر ادا کرتا ہوں ۔ اور جتنی آپ کی مخلوقات ہیں یعنی انسان، جانور، درخت، پتھر، جمادات، نباتات سب جتنی مقدار میں ہیں ۔ اس کے برابر شکر ادا کرتا ہوں ۔ اور آخر میں فرمایا کہ اتناشکر ادا کرتا ہوں جس سے آپ راضی ہوجائیں ۔
اب اس سے زیادہ انسان اور کیا کہہ سکتا ہے لہٰذا رات کو سوتے وقت ہرشخص کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور یہ کلمات کہہ لینے چاہئیں:

اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ مَلِیًّا عِنْدَ کُلِّ طَرْفَۃِ عَیْنٍ، وَتَنَفُّسِ نَفَسٍ۔
(کنزالعمال: ج؍۲، ص؍۲۲۳، حدیث نمبر:۳۸۵۷)

اے اللہ! آپ کی تعریف اور آپ کا شکر ہے ہر آنکھ جھپکنے کے وقت اور ہر سانس لینے کے وقت۔
بہرحال! یہ شکر کے کلمات جو نبی کریم ﷺ نے تلقین فرمائے ہیں یاد کرلینے چاہئیں اور رات کو سوتے وقت ان کلمات کو پڑھ لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے)

از: حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

نیا سال ۔۔۔۔ لمحہ فکریہ

نیا سال ۔۔۔۔ لمحہ فکریہ

2018 ء اپنے آخری سانس لے رہا ہے، امسال 31 دسمبر کو ڈوبنے والا سورج دوبارہ کبھی 2018ء میں طلوع نہیں ہوسکے گا۔ 2018ء کے سورج نے طلوع ہونے کے لئے یکم جنوری کو منتخب کرلیا ہے۔ 2019ء کو ویلکم کہنے کے لئے 2018ء کی آخری رات جشن کے طور پر منائی جاتی ہے۔ سالوں کے الوداع اور استقبال کے اس ملاپ میں ہماری حس؛ احساسِ غلامی اور احساسِ ضیاع کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ نیوائیرنائٹ کے نام پر یوروپی ممالک کی طرح اب پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی اب دھوم دھڑکے سے منائی جاتی ہے۔ میڈیا اپنی ”احساس ذمہ داری“ کا بھرپور ثبوت دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس! کہ ہماری اس خداداد مسلم ریاست پاکستان میں مغربی اور یوروپی تہذیب نے اپنے منحوس قدم ایسے گاڑے ہیں کہ گوروں سے زیادہ ہمارے مسلم نوجوان بھٹک کر رہ گئے ہیں۔ کبھی ویلنٹائن ڈے، کبھی بلیک فرائیڈے اور کبھی نیو ائیرنائٹ جیسے غیر اسلامی بلکہ غیر فطری پروگرامز میں عریاں ڈانس، جنسی اختلاط، شراب و کباب اور ہر وہ کام جس کی اجازت نہ ہمارا اسلام دیتا ہے اور نہ ہی ہماری مشرقی تہذیب ایسے بدنما دھبوں کو اپنے اجلے دامن پر برداشت کرتی ہے۔

قارئین کرام !ذرا سوچ کر بتائیے گا کہ کیا یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی تھی کہ تم گزشتہ اقوام کے غیر فطری رسوم و رواج کی تقلید قدم بقدم کروگے جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ کیا یہ وہی زمانہ ہے؟ اگر آپ کا ضمیر حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے تو پھریہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے !!!

صبح و شام غربت، بے روزگاری، کرپشن، مہنگائی اور ناانصافی کا رونا رونے والو! انصاف سے بتائیے کہ ہمارے ملکی و ملی حالات اس بات کے متحمل ہیں کہ ہم یوں خدا کی نافرمانیوں میں اس کے غضب کو مزید بھڑکائیں۔ہماری قوم کو ابھی تک دہشت گردی کےعفریت کے منہ میں دبکی ہوئی ہے، دنیا کی سپر طاقتیں مل کر اس کے مبارک وجود کو ختم کرنی پر تلی ہوئی ہیں، اندرونی سازشوں نے امن و امان کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا ہے، معاشی عدم استحکام کا عالم یہ ہے کہ ہمارے پیدا ہونے والے بچہ کا بھی بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے،  بھوک وافلاس کے زہریلے تیروں نے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں اور وہ خود سوزی و خود کشیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تعلیم کا یہ عالم ہے کہ ہمارے بچے جنہوں نے ہمارا مستقبل بننا ہے وہ بستہ اٹھانے کی بجائے کوڑا جمع کرنے والا بوریا اٹھا رہے ہیں، اسکول کا یونیفارم پہننے کی بجائے ورکشاپس اور صنعتی ملوں پر چائلڈ لیبرز کی یونیفارم میں ملبوس ہیں۔

میرا سوال ان روشن خیال لبرل طبقے سے بھی ہے کہ جو خود کو لبرل بنانے اور کہلانے کے لئے اپنی غیرت و عزت کی یوں نیلامی کی جاتی ہے کہ اپنی عفت مآب بیٹیوں کو ہوس ناک بھیڑیوں کی شہوت انگیز بھوکی نگاہوں کا شکار ہونے دیا جائے۔ ڈانس کلبوں میں ان کے تھرکتے جسموں سے لطف اندوز ہونے والوں کو لذت پہنچائی جائے، صرف یہ جتلانے اور باور کروانے کے لئے کہ ہم لبرل ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں!! خدا کے لئے چشم بینا وا کیجئے اور زمنیی حقائق کا دل و نگاہ سے اداراک کریں کہ جن کی نقالی کرنے میں تم فخر محسوس کرتے ہو وہ خود اس تہذیب کی بد تہذیبی کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں بلکہ اپنے جلے ہوئے دل کے پھپھولے دکھلانا ہے۔ یہ نوجوان نسل میری متاع ہے، میرا اثاثہ او رسرمایہ ہے میں اسے لٹتا ہوا دیکھ کر کیسے نہ تڑپوں؟ 

؏ ہمنوا میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں؟

ذراٹھنڈے دل سے سوچئے! ایک سال گزر گیا، جو دوبارہ کبھی نہیں لوٹے گا، اس نے ہماری اور موت کی دوری سے ایک سال کا فاصلہ ختم کر دیا، حدیث پاک میں ہے: لوگ وقت کے بارے دھوکے کا شکار ہیں،  یعنی اس کی قدر نہیں کرتے۔ نوجوانو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ہمارے لیے غنیمت قرار دیا ہے۔ اپنی منزل کے سنگ میل کو دیکھیے،  اپنے اہداف کا تعین کریں، 31 دسمبر کے ڈوبتے سورج کے ساتھ اپنی غفلتوں کو ڈوب جانے دیجیئے اور یکم جنوری کے طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ اپنی نئی امنگیں،  نئے ولولے اور نئے عزم وارادوں کو ابھاریئے،اس گزرنے والے سال کی ہچکیوں میں رندھی اس آواز کو کان لگا کر سنو! یہ آواز آرہی ہے:

مجھے برباد کرنے والو! اِسے برباد نہ کرنا۔

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھن صاحب

Wednesday, December 26, 2018

پگڑی کس رنگ کی ہو؟ The colour of turban

پگڑی کس رنگ کی ہو؟

سوال: عمامہ کا رنگ کیسا ہو؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے مختلف رنگوں کا عمامہ پہننا ثابت ہے:
(1) سیاہ عمامہ ۔ 
(2) سفیدعمامہ۔ 
(3) زرد عمامہ ۔ 
(4) سُرخ عمامہ ۔

کالا عمامہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرّمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ:دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ مَكَّةَ يَوْمَ الفَتْحِ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ۔(ترمذی:1735) حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالٰی علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو منبر پر تشریف فرما دیکھا اور آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا جس کے دونوں کناروں کو آپ نے اپنے دونوں کندھوں پر لٹکایا ہوا تھا۔ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ قَدْ أَرْخَى طَرَفَهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ۔(ابوداؤد:4077)
سفید عمامہ:
حضرت عبد الرحمن بن عوف﷜نے کالے رنگ کا ایک کھردرے کپڑے کا عمامہ پہنا ہوا تھا ،آپﷺنے اُنہیں اپنے قریب بلایا اور اُن کاعمامہ کھولا اور پھر اُن کے سر پر سفید عِمامہ باندھا، اور اُس کا شَملہ پیچھے کی جانب چار انگلیوں یا اس کے قریب قریب کی مقدار کے برابر چھوڑ دیا اور فرمایا: پھر آپﷺنے فرمایا: اے ابن عوف! اِس طرح سے عمامہ باندھا کرو، اِس لئے کہ یہ بہت ہی اچھا اور خوبصورت ہے۔وَأَصْبَحَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَدِ اعْتَمَّ بِعِمَامَةٍ مَنْ كَرَابِيسَ سَوْدَاءَ، فَأَدْنَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَقَضَهُ وَعَمَّمَهُ بِعِمَامَةٍ بَيْضَاءَ، وَأَرْسَلَ مِنْ خَلْفِهِ أَرْبَعَ أَصَابِعَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ وَقَالَ: «هَكَذَا يَا ابْنَ عَوْفٍ اعْتَمَّ فَإِنَّهُ أَعْرَبُ وَأَحْسَنُ»۔(مستدرکِ حاکم:4/582) الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:رَأَيْتُ عَلَى الشَّعْبِيِّ عِمَامَةً بَيْضَاءَ قَدْ أَرْخَى طَرَفَهَا، وَلَمْ يُرْسِلْهُ۔(ابن ابی شیبہ :24972)إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ:«رَأَيْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عِمَامَةً بَيْضَاءَ»۔ (ابن ابی شیبہ :24973)
زرد عمامہ:
حضرت عبد اللہ بن جعفر﷜فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دو زعفران میں رنگے ہوئے کپڑوں میں دیکھا ، ایک کپڑاچادر تھی اور دوسرا کپڑا عمامہ تھا۔عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مَصْبُوغَانِ بِالزَّعْفَرَانِ رِدَاءٌ وَعِمَامَةٌ»۔(مستدرکِ حاکم:4/209 ، رقم :7395)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو زرد رنگ کرتے تھے، حتی کہ ان کے کپڑے بھی زرد ہوتے تھے تو ان سے کہا گیا کہ آپ زرد رنگ سے کیوں رنگتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ زرد رنگ سے رنگا کرتے تھے اور حضور اکرم ﷺ کو اس سے زیادہ کوئی رنگ پسند نہیں تھا اور کبھی آپ ﷺ اس سے اپنے سارے کپڑوں کو بھی رنگا کرتے تھے ،یہاں تک کہ اپنا عمامہ بھی ۔عَنْ زَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ أَسْلَمَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَصْبُغُ لِحْيَتَهُ بِالصُّفْرَةِ حَتَّى تَمْتَلِئَ ثِيَابُهُ مِنَ الصُّفْرَةِ فَقِيلَ لَهُ لِمَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْهَا، وَقَدْ كَانَ يَصْبُغُ ثِيَابَهُ كُلَّهَا حَتَّى عِمَامَتَهُ۔(ابوداؤد:4064)
حضرت سیدنا ابوہریرہ ﷜فرماتے ہیں :نبی کریمﷺہمارے پاس نکل کر آئے ،آپ نے زرد رنگ کی قمیص ، زرد رنگ کی چادر اور زرد رنگ کا عمامہ زیب تَن فرمایا ہوا تھا۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:«خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ أَصْفَرُ وَرِدَاءٌ أَصْفَرُ وَعِمَامَةٌ صَفْرَاءُ»۔(تاریخ دمشق لابن عساکر:34/385، رقم:3814)
سُرخ عمامہ:
حضرت انس بن مالک ﷜فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکووضو کرتے دیکھا، آپﷺ نے قِطری(سرخ دھاریوں والا کھردرا ) عِمامہ پہنا ہوا تھا، آپ نے عمامہ کے نیچے سے اپنا ہاتھ داخل فرماکر عمامہ کھولے بغیرسر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا۔رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ قِطْرِيَّةٌ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْعِمَامَةِ فَمَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِهِ وَلَمْ يَنْقُضِ الْعِمَامَةَ۔(ابوداؤد:147)هُوَ ضَرْب مِنَ البُرود فِيهِ حُمْرة، وَلَهَا أعْلام فِيهَا بَعْضُ الْخُشُونَةِ۔(النھایۃ لابن الأثیر:4/80)وَاسْتَدَلَّ بِهِ عَلَى التَّعَمُّمِ بِالْحُمْرَةِ وَهُوَ اسْتِدْلَالٌ صَحِيحٌ۔ (عون المعبود:1/172)
نبی کریم ﷺسے سبز عِمامہ پہننا ثابت ہے یانہیں :
سبز پگڑی کا پہننا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ۔البتہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو مختلف رنگ کی پگڑیاں پہنی ہیں، اُن میں ایک رنگ سبز بھی ذکر کیا گیا ہے ، چنانچہ مصنّف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے:
حضرت سلیمان بن ابی عبد اللہ فرماتے ہیں :میں نے اوّلین مہاجرین صحابہ کرام کو پایا ہے ، وہ لوگ کھردرے کپڑے کے سیاہ، سفید، سرخ ،سبز اور زرد عمامے پہنا کرتے تھے۔
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:أَدْرَكْتُ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ يَعْتَمُّونَ بِعَمَائِمَ كَرَابِيسَ سُودٍ، وَبِيضٍ، وَحُمْرٍ، وَخُضْرٍ، وَصُفْرٍ۔
(ابن ابی شیبہ :24987)

سبز پگڑی کا حکم:
سبز رنگ چونکہ آپ ﷺکو محبوب تھا، جنتیوں کا لِباس بھی قرآن کریم میں سبز بیان کیا گیا ہے اِس لئے سبز رنگ کی پگڑی کو دوسرے رنگوں پر ترجیح دیے بغیر اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو جائز ہے، ہاں! اگر کوئی اسے اپنا شعار اور امتیازی علامت بنالے اور دوسرے رنگوں پر اس کو ترجیح اور فوقیت دے ایسی صورت میں اس کو استعمال بدعت کہلائے گا ، کیونکہ کسی مباح اور مستحب چیز کا التزام بدعت اور قابلِ ترک ہوتا ہے۔
(کشف الباری، کتاب اللباس :172 ، 173)

آج کل چونکہ یہ ایک مخصوص طبقہ کا علامتی نشان بن گیا ہے، نیز ، لہٰذا ترک کرنا ہی اولیٰ ہے ۔ کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ جب کوئی سنّت کام اہلِ بدعت کا شعار بن جائے تو اُس کا ترک کرنا اولیٰ ہوتا ہے ،چہ جائیکہ وہ عمل سنت ہی نہ ہو اور اہلِ بدعت کا شعار بن چکا ہو تو اُس کا ترک تو بطریق اولیٰ ضروری ہوگا۔
كُلَّ سُنَّةٍ تَكُونُ شِعَارَ أَهْلِ الْبِدْعَةِ تَرْكُهَا أَوْلَى۔
(مرقاۃ ،المشی بالجنازۃ:3/1211)
إذَا تَرَدَّدَ الْحُكْمُ بَيْنَ سُنَّةٍ وَبِدْعَةٍ كَانَ تَرْكُ السُّنَّةِ أَوْلَى۔
(شامیہ :1/642)

فروغ ِاسلام میں خواتین کا کردار

فروغ ِاسلام میں خواتین کا کردار 
خواتین نوع انسانی کا نصف حصہ ہیں؛ وہ انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ اسلام نے خواتین کے لئے اجر وثواب اور خدمات وطاعت کے وہ مواقع رکھے ہیں؛ جو مردوں کے لئے ہیں۔ قرآن کریم کا اعلان ہے:
من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیوة طیبة ولنجزینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعملون۔ (النحل ۷۹)
یعنی جس نے نیک عمل کیا۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔ اور ہم انھیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی وتبلیغی جد وجہد کا مرکز جس طرح مردوں کو بنایا اسی طرح عورتوں کو بھی بنایا۔ آپ کی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں جس طرح خدا پرستی کا مثالی جذبہ مردو ں میں پیدا ہوا اسی طرح خواتین میں بھی انقلابی روح پیدا ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پائی اس طرح صحابیا ت رضی اللہ عنہما بھی رسول اللہ کے فیض صحبت اور ان کی مثالی تربیت کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہوکر دیگر خواتین کے لئے نجوم ہدایت بن گئیں؛ اگر ہماری عورتوں کے سامنے اسلام کی ان بر گزیدہ خواتین کا نمونہ پیش کردیا جائے؛ تو ان کی فطری لچک ان سے اور زیادہ متاثر ہوسکے گی اور موجودہ دور کے مؤثرات سے بے نیاز ہوکر خالص اسلامی اخلاق اسلامی معاشرت اور اسلامی تمدن کا نمونہ بن جائے گی ۔آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے، یوروپی تمدن اور مغربی طرز معاشرت سے ہمارے ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی بے زاری کا اظہار کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں اسلام کی قدیم تاریخ مسلمان عورت کا بہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے ۔ فروغ اسلام میں خواتین کا ہمیشہ معیاری اور شاندار کردار رہا ہے۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں اس کردار کو ذیل کے سطور میں نمایا ں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبول اسلام میں سبقت۔ کفار میں ہمیں بہت سے اشقیاء کا نام معلوم ہے جنھوں نے ہزاروں کوششوں کے بعد بھی اللہ تعالی کے آگے سر نہیں جھکایا؛ لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سینکڑوں ایسے بزرگ ہیں؛ جو توحید کی آواز سننے کے ساتھ ہی اسلام کے حلقہ میں داخل ہوگئے ۔ صحابہ کے ساتھ صحابیات اس فضیلت میں برابر کی شریک ہیں۔اور نہ صرف شریک ہیں بلکہ بعض جہات سے ان پر ترجیح بھی رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ شرف تمام لوگوں میں ام المومنیں سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے اور بغیر کسی کد کدوکاوش اور بغیر کسی جبر واکراہ کے اسلام قبوک کرنے اور نبی کریم کے بعد امت میں سب سے پہلے خداوند قدوس کے سامنے سر جھکانے والی بن گئیں۔تاریخ ابن خمیس میں سیدنا رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں دو شنبہ کے دن مبعوث ہوا اور خدیجہؓ نے اس دن کے آخر کی نماز پڑھی، اور علی ؓنے دوسرے دن منگل کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ صدیق اور زید بن حارثہ شریک نماز ہوئے۔ (۶۸۲) اسلام میں سب سے بڑی فضیلت تقدم فی الاسلام ہے۔اور حضرت ابوبکر کے پاس فضائل میں یہ سب سے بڑی فضیلت ہے؛ لیکن اس میں بھی تین صحابیات شریک ہیں۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت سمیہؓ حضرت ام ایمن ؓ۔
تقدم فی الاسلام کے بعد سب سے بڑا شرف تقدم فی الہجرہ ہے۔ اس میں صحابہ کرام کے ساتھ ہجرت کرنے والی تمام مہاجرات خواتین صحابیات ،مہاجر صحابہؓ کی شریک ہیں؛ اسلام میں سب سے پہلی ہجرت ہجرت حبشہ ہے اور اس ہجرت میں ایک صحابیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو وہ شرف حاصل ہوا کہ جس پر تمام صحابہ رشک کرتے تھے۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا وہ تم سے زیادہ میرے مستحق نہیں؛ کہ عمرؓ اور اس کے اصحاب کی ایک ہجرت ہے اور تم اہل کشتی کی دو ہجرتیں ہیں۔ (مسلم باب من قضاء جعفر بن ابی طالب اسماء بنت عمیس)
خلاصہ یہ کہ آفتاب رسالت سے پہلے دن جو شعاع افق عالم پر چمکی وہ ایک رقیق القلب خاتون کے سینہ پر نور سے چھن کر نکلی۔
اعلان اسلام:
ابتدائے اسلام میں اسلام قبول کرنے سے زیادہ اظہار اسلام کے لئے ہمت شجاعت اور جسارت کی ضرورت تھی ۔کفار کے روک ٹھوک کے اور ظلم وستم کے باوجود صحابہ کے ساتھ صحابیات نے بھی پوری جرأت کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کیا؛ چنانچہ ابتدا میں جن سات بزرگوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تھا؛ ان میں خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ، حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب، حضرت عمار رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتویں ایک غریب صحابیہ حضرت سمیہ ؓ بھی شامل ہیں۔
تحمل شدائد: 

صحابہ کرام ؓکے ساتھ صحابیاتؓ نے بھی اسلام کی راہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا، مختلف سختیوں اور آزمائشوں کا انھیں شکار بننا پڑا۔ لیکن ان کے ایمان میں ذرہ برابر بھی تزلزل واقع نہیں ہوا۔ صحابیات ؓکی یہ سب سے بڑی فضیلت ہے کہ سب سے پہلے ایک صحابیہ نے اسلام بھی قبول کیا اور سب سے پہلے ایک صحابیہ نے شرف شہادت بھی حاصل کی۔ حضرت سمیہؓ کو ملعون ابوجہل نے ران میں برچھی مارکر شہید کردیا۔
سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی بہن نے جب اسلام قبول کیا اور عمر کو ان کا حال معلوم ہوا تو ان کو اس قدر مارا کہ لہو لہان ہوگئیں لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا جو کچھ کرنا کرلو میں تو اسلام لاچکی (اسد الغابة تذکرة عمر)
حضرت لبینہؓ اور زنیرہ، اور نہدیہ (جو باندی تھیں) کو بھی کفار سخت تکلیفیں دیتے اور سختیاں کرتے؛ لیکن وہ سب اسلام پر جمی رہیں۔ سیدہ فکیہہ ایک صحابیہ تھیں۔ سیدنا عمر اپنے اسلام سے قبل اس کو اتنا مارتے کہ تھک جاتے۔تھک کر چھوڑ دیتے اور کہتے کہ میں رحم کھاکر تجھ کو نہیں چھوڑا بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ تھک گیا ہوں۔ وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں۔ عمر اگر تم مسلمان نہ ہوگے تو اللہ تم سے ان بے رحمیوں کا انتقام لے گا۔ (مسلمان عورتوں کی بہادری)
ایمان لانے کے بعد سارے رشتے ناطے منقطع ہوجاتے ہیں؛ شوہر بیوی سے جدا ہوجاتی ہے۔ یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ عورت کی زندگی کا دار ومدار عام طور پر شوہر اور رشتہ داروں کی اعانت پر ہوتا ہے؛ لیکن صحابیات نے اس تکلیف کو بھی اسلام کی سر بلندی اور رب کی رضا کے لیے بر داشت کرلیا۔
توحید پر استقامت: 

کفار نے صحابیات کو طرح طرح کی تکلیفین دیں ؛لیکن ان کی زبان سے توحید کے علاوہ کچھ نہیں نکلا ۔سیدہ ام شریک ؓ ایمان لائیں؛ تو ان کے اعزہ واقرباء نے ان کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کردیا۔ اس حالت میں جب کہ وہ دھوپ میں جل رہی تھیں تین دن گذرگئے؛ تو ظالموں نے کہا کہ جس دین پر تم ہو اب اس کو چھوڑ دو۔ وہ اس قدر بدحواس ہوچکی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ جب انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو وہ سمجھیں کہ یہ ظالم ہم سے توحید کا انکار کروانا چاہتے ہیں۔ تو ام شریکؓ کہنے لگیں خدا کی قسم میں اب بھی اسی پر قائم ہوں۔ (طبقات ابن سعد۔ تذکرہ ام شریک)
شرک سے علحدگی: 

مختلف اسباب کی وجہ سے عورتیں قدیم رسم ورواج اور قدیم عقائد کی پابند ہوتی ہیں، عرب میں مشرکانہ عقائد ونظریات اور باطل رسم ورواج پھیل کر قلوب میں راسخ ہوگئے تھے ؛لیکن صحابیات ؓ نے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی شدت سے ان عقائد کا انکار کیا۔ اہل عرب کا خیال تھا کہ جو بتوں کی برائی بیان کرتا ہے، وہ مختلف بیماریوں اور آفتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس لیے جب سیدہ زنیرہؓ اسلام لانے کے بعد طبعا نابینا ہوگئیں، تو کفار نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کو لات اور عزی نے اندھا کردیا ہے۔ لیکن انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ لات وعزی خود مجبور ہیںانھیں اپنے پوجنے والوں کی کیا خبر۔ (اسد الغابہ، تذکرہ زنیرہ)
عرب میں شرک کا اصلی مرکز بت تھے، جو گھر گھر میں نصب تھے، لیکن صحابیات نے ہرحال میں ان سے تبرا ظاہر کی۔ سیدنا ابو طلحہؓ نے جب سیدہ ام سلیمؓ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی، تو انھوں نے کہا ابو طلحہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ جن مورتیوں کو تم پوجتے ہو وہ لکڑی کی ہے، جو زمین سے اگتی ہے۔ پھر کہنے لگیں تم کافر ہو اور میں مسلمان۔ آپس میں نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر تم اسلام قبول کرلو، تو وہی میرا مہر ہوگا اس کے سوا تم سے کچھ نہیں مانگوں گی۔ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور اسلام لانا ہی ان کا مہر مقرر ہوا (اسد الغابہ، تذکرہ زید بن سہل بن اسود)
شجاعت وبہادری: 

غزوات میں صحابہ کرامؓ کی بہادری کے مانمٹ نقوش سے تاریخ کے صفحات پُر ہیں۔ لیکن اس میدان میں بھی صحابیات پیچھے نہیں ہیں۔ صحابہ نے جس طرح داد شجاعت دی صحابیاتؓ کے بہادرانہ کارنامے اس سے بھی حیرت انگیز ہیں۔ غزوہ حنین میںکفار نے اس زور شور سے حملہ کیا تھا کہ صحابہ کے قدم اکھڑ گئے اور میدان جنگ لزر اٹھا تھا؛ لیکن حضرت ام سلیم ؓکی شجاعت کا یہ حال تھا کہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے منتظر تھیں کہ کوئی کافر سامنے آئے تو اس کا کام تمام کردیں ۔۔حضرت طلحہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟؟ کہنی لگیں میں چاہتی ہوں کہ کوئی کافر قریب آئے تو اس کا پیٹ چاک کردوں ۔(ابوداود، کتاب الجہاد)
غزوہ خندق میں رسول اللہ ﷺ نے تمام عورتوں کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا ایک یہودی آیا اور قلعہ کے گرد چکر لگانے لگا حضرت صفیہ ؓ نے دیکھا تو حسان بن ثابت ؓ سے کہا کہ یہ دشمن کا جاسوس معلوم ہوتا ہے، اس کو ٹھکانے لگا دو بولے کہ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں ۔اب حضرت صفیہ خود اتریں اور خیمہ کی ایک میخ اکھاڑ کر اس زور سے اسدشمن کو مارا کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ (اسد الغابة، تذکرة سمیہ بنت عبد المطلب) مورخ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ یہ پہلی بہادری تھی جو ایک مسلمان عورت سے ظاہر ہوئی۔ (اسد الغابہ)
سیدہ ام عمارہ ؓ ایک مشہور صحابیہ ہیں، قبل از ہجرت جب مقام عقبہ پر مدینہ کے نیک لوگوں نے کفار قریش سے چھپ کر اسلام کی اشاعت اور رسول اللہ ﷺ کی امداد کے لیے رسول اللہ کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی ،تو اس مختصر سی جماعت میں سیدہ ام عمارہؓ بھی شریک تھیں؛ اسی طرح جنگ احد میں عین اس وقت جب مسلمانوں کے قدم اکھڑرہے تھے اور نبی کریم پر کفار بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے؛ اور جان نثار آگے آکر آکر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے یہ بہادر خاتون بھی تیغ بدست حملہ آووروں کو مار مار کر پیچھے ہٹا رہی تھیں ۔اس دن کئی زخم ان کے دست وبازو میں آئے تھے ۔دیگر غزوات میں بھی ان سے بے مثال بہادری کے کارنامے ظہور میں آئے ۔ صدیق اکبر کے زمانے میں جنگ یمامہ میں بھی انھوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جب تک ان کا ہاتھ بری طرح زخمی نہ ہوگیا اس وقت تک لڑتی رہیں (فتوحات اسلام ،سید دحلان ص ۶۴)
سن ۶ ہجری میں جب رسول اللہ ﷺ نے حج کے اردہ سے مکہ مکرمہ کاارادہ کیا ،اور تحقیق حال کے لیے حضرت عثمان ؓ کو مکہ بھیجا ان کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو قریش نے شہید کردیا ہے، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے تقریبا تمام صحابہ سے کفار قریش سے لڑنے مرنے پر بیعت لی ،جو اسلامی تاریخ میں ”بیعت رضوان“ سے مشہور ہے موت پر بیعت کرنے والیوں میں حضرت ام عمارہؓ بھی شامل تھیں۔
ام زیاد اشجعیہ ؓ اور دوسری پانچ عورتوں نے غزوہ خیبر میں چرخہ کات کر مسلمانوں کی مدد کی وہ میدان سے تیر اٹھاکر لاتی تھیں اور سپاہیوں کو ستو پلاتی تھیں۔ (مسلم ج۲ص ۵۰۱) ام عطیہ ؓ نے سات غزوات میں صحابہ کرام کے لیے کھانا پکایا. (طبری ج۶،۶۱۳۲)
حضرت فاروق اعظم ؓکے زمانے میں جنگ قادسیہ اسلام اور باطل کے درمیان ہونے والا زبردست اور فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اس جنگ میںعرب کی مشہور شاعرہ حضرت خنساءؓ بھی شریک تھیں ۔حضرت خنساء کے ساتھ ان کے چاروں بیٹے بھی شریک تھے شب کے ابتدائی حصہ میں جب ہر سپاہی صبح کے ہولناک منظر پر غور کررہا تھا؛ آتش بیان شاعرہ نے اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلا نا شروع کیا
(ترجمہ اشعار) پیارے بیٹو! تم اپنی خواہش سے مسلمان ہوئے اور تم نے ہجرت بھی کی خدائے وحدہ لاشریک لہ کی قم جس طرح تم ایک ماں کے بیٹے ہو۔ ایک باپ کے بیٹے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا اور نہ تمہارے حسب ونسب میں داغ لگایا ۔جو ثواب عظیم اللہ تعالی نے کافروں سے لڑنے میں مسلمانوں کے لیے رکھا ہے ۔تم اس کو خود جانتے ہو خوب سمجھ لو کہ آخرت جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس دار فانی سے بہتر ہے ۔اللہ فرماتا ہے: 

یاایھا الذین ّمنوا اصبرو وصابروا ورابطو واتقوا للہ لعلکم تفلحون (آل عمران) مسلمانوں صبر کرو اور استقلال سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔ کل جب خیریت سے صبح کرو انشاءاللہ تو تجربہ کاری کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے تم دشمن پر جھپٹ پڑنا اور جب دیکھنا کہ لڑائی زوروں پر ہے تو خا ص طور پر تم جنگ کی بھٹی کی طرف رخ کرنا اور جب دیکھنا کہ فوج غصہ سے آگ ہورہی ہے تو غنیم کے سپہ سالاروں پر ٹوٹ پڑنا۔ اللہ کرے کہ تم دنیا میں مال غنیمت اور عقبی میں عزت پاؤ۔ (اسد الغابہ)
صبح کو جنگ چھڑتے ہی سیدہ خنساء ؓکے چاروں بیٹے یک بار گی دشمنوں پر جھپٹ پڑے۔ اور آخر کار بڑی بہادری سے چاروں لڑکر شہید ہوگئے ۔سیدہ خنساءکو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے کہا: اس اللہ کا شکر ہے جس نے بیٹوں کی شہادت کا مجھے شرف بخشا۔
مورخ طبری نے جنگ یر موک میں سیدہ ام حکیم بنت حارث کا نام خصوصیت سے لیا ہے۔ ابن اثیر جزری نے لکھا کہ معاذ بن جبلؓ کی پھوپھی زاد بہن اسماء بنت عمیس نے تنہا نو رومیوں کو مارڈالا ۔کہا جاسکتا ہے کہ یرموک کی جنگ میں اگر خواتین تلوار سونت کر رومیوں پر نہ پل پڑتیں تو شاید فتح نہ ہوپاتی ۔
اشاعت اسلام:  

صحابیات نے اپنی نیک طینتی سے صرف اسلام ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے بھی ہر ممکن قربانی پیش کی۔ بخاری کتاب التیمم میں یہ روایت ہے کہ صحابہ کرام نے ایک سفر میں ایک عورت کو پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کے پاس پانی کے مشکیزے تھے۔ اور صحابہ ؓنے پانی کی ضرورت سے ہی اسے پکڑا تھا ۔ لیکن رسول ﷺ نے اس کا پانی لیا تو اس کی قیمت بھی ادا کی۔ اس عورت کو رسول اللہ کی اس اعلی دیانت کی وجہ سے اسی وقت آںحضرت ﷺ کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ اور اس اثر سے اس کا پورا قبیلہ مسلمان بھی ہوگیا۔
حضرت ام شریک ؓ ایک صحابیہ تھیں، جو آغاز اسلام میں خفیہ طور پر قریش مکہ کی عورتوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرتی تھیں؛ قریش کو انکی خفیہ دعوتی سر گرمیوں کا علم ہوا تو انھیں کفار نے مکہ سے نکال دیا ۔(اسد الغابہ)
سیدہ ام حکیم بنت الحارث ؓ کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی ،فتح مکہ کے دن وہ تو مسلمان ہوگئیں ؛لیکن ان کے شوہر عکرمہ بھاگ کر یمن چلے گئے ۔ام حکیم ؓ نے یمن کا سفر کیا اور اپنے شوہر کو دعوت ِاسلام دی۔ وہ بیوی کی دعوت پر مسلمان ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،تو رسول اللہ ﷺ انھیں دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے۔ (موطا امام مالک کتاب النکاح ،باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ)
نومسلموں کی کفالت: 

ابتدائے اسلام میں جو لوگ اسلام لاتے تھے ؛ان کو مجبوراً اپنے گھر ،بار اہل وعیال اور مال وجائیداد سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا؛ اس لیے اس وقت اشاعت اسلام کے ساتھ اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ ان نو مسلموں کی کفالت کی جائے ۔ صحابیات ؓ نے ان کی کفالت میں نمایا ں حصہ لیا ۔چنانچہ حضرت ام شریکؓ کا گھر گویا نو مسلموں کے لیے مہمان خانہ بن گیا تھا ،یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ بنت قیسؓ کو صرف اس بناءپر ان کے گھر عدت گذارنے کی اجازت نہیں دی کہ ان کے گھر نو مسلم مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے پر دہ کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا. (مسلم ،کتاب الطلاق، باب المطلقہ ثلاثا لانفقة لہا ۔کتاب الفتن باب فی خروج الدجال)
خدمت ِمجاہدین: 

جہاد ایک اعلی عبادت ہے ۔جو خاص حالات میں مردوں پر فرض ہے ۔ صحابہ کرام مرد ہونے کی وجہ سے بنفس نفیس جہاد میں شریک ہوتے تھے۔ صحابیات عورت ہونے کی وجہ سے اگر چہ بنفس نفیس معرکہ کارزار میں شریک نہیں ہوسکتی تھی لیکن جہاں تک جذبہ جہاد کی بات ہے تو صحابیات بھی اس معاملہ میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں؛ البتہ ان کے لیے سب سے موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کے آرام وآشائش کا سامان بہم پہنچانا تھا ۔اس حوالہ سے سیدہ ام عطیہؓ ،سیدہ عائشہؓ، سیدہ ام سلیمؓ ،سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہن کا نام نمایاں ہے ۔سیدہ ربیع بنت معوذؓ کہتی ہیں کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوئے تھے۔ پانی پلاتے تھے مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لاتے تھے۔ (بخاری، کتاب الجہاد باب رد النساءالقتلہ)
سیدہ رفیدہ ؓ نے مسجد نبوی میں خیمہ کھڑا کررکھا تھا، جو لوگ زخمی ہوکر آتے تھے وہ ان کا اسی خیمہ میں علاج کرتی تھیں؛ چنانچہ سیدنا سعد بن معاذ ؓ غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تو ان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا۔ (اصابة، تذکرة سیدہ رفیدہ)
ایک موقع پر حضرت عمر نے چادر تقسیم فرمائی ایک چادر بچ گئی کسی نے کہا اپنی بیوی کو دے دیں کہنے لگے ام سلیطؓ اس کی زیادہ مستحق ہ
یں۔ کیوں کہ وہ غزوہ احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں اور ہمیں پلاتی تھیں ۔: (بخاری کتاب الجہاد ،باب حمل النساءالقرب الی الناس)
بدعات کا استیصال:

بدعت دین کے لیے بمنزلہ گھن کے ہے، اس لیے بااثر صحابیاتؓ نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی نخل اسلام میں گھن نہ لگنے پائے ۔ مثلا غلافِ کعبہ کی عزت وحرمت مسلمانوں میں بہت زیادہ تھی۔ سیدہ عائشہؓ سے اس واقعہ کو بیان کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس تعظیم کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہیں فرمایا ہے (جب غلاف کعبہ سے اتر گیا تو اس کا کسی طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔(عین الاصابہ بحوالہ سنن بیہقی)
امر بالمعروف نہی عن المنکر: 

ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ ایک گھر میں مہمان بنیں۔ میزبان کی دد لڑکیوں کو جو جوان ہوچکی تھیں: دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں۔ اس پر آپ نے تنبیہ کی اور تاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بے چادر اوڑھے نماز نہ پڑھے ۔رسول اللہ نے یہی فرمایا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ج۶ص ۹۶)
سیدہ عائشہ ؓ کے گھر میں کچھ کرایہ دار رہتے تھے، ان کی نسبت ان کو معلوم ہواکہ وہ نرد کھیلتے ہیں، تو وہ سخت بر افروختہ ہوئیں ؛اور کہلا بھیجا کہ اگر نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر کے باہر نہ پھینک دوگے۔ تو میں اپنے گھر سے نکلوا دو ں گی۔ (الادب المفرد۔ باب الادب واخراج الذین یلعبون النرد)
ایک دن ان کی بھتیجی سیدہ حفصہؓ بنت عبد الرحمن نہایت باریک دو پٹہ اوڑھ کر سامنے آئیں۔ سیدہ عائشہ ؓ سخت ناراض ہوئیں اور اسی وقت غصہ میں اس کو پھاڑ دیا پھر فرمایا کہ تم نہیں جانتیں کہ اللہ تعالی نے سورہ نور میں کیا احکامات نازل فرمائے ہیں ۔اس کے بعد انھیں دبیزکپڑے کادو پٹا منگواکر اوڑھایا۔ (موطا امام مالک کتاب اللباس)
علوم دینیہ کی حفاظت واشاعت: 

محدثین ؒنے روایت حدیث کے لحاظ سے صحابہ کے پانچ طبقے قرار دیے ہیں اور تقریبا ہر طبقہ میں صحابہ کے ساتھ صحابیات بھی شامل ہیں۔ اول مکثرین ۔ہزار یا اس سے زیادہ روایت والے ۔حضرت سیدہ عائشہ ؓ کا شمار اسی طبقہ میں ہوتا ہے۔
دوسرا طبقہ: 

پانچ سو یا اس اسے زیادہ روایت والے۔ 
تیسرا سو یا اس سے زیادہ روایت والے۔ اس طبقہ میں حضرت ام سلمہ ؓہیں، 
چوتھا طبقہ ۔ جن کی روایت چالیس سے ایک سو ہو، ان میں بکثرت صحابیات شامل ہیں مثلا سیدہ ام حبیبہ ؓ، سیدہ میمونہؓ ،سیدہ ام عطیہ انصاریہؓ، سیدہ حفصہؓ، سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ، سیدہ ام ہانی ؓ وغیرہ ۔پانچواں طبقہ جن کی روایت چالیس یا اس سے کم ہو۔ اس طبقہ میں بھی بکثرت صحابیات موجود ہیں ۔مثلا سیدہ ام قیس ، سیدہ فاطمہ بنت قیس ،سیدہ ربیع بنت معوذ ،سیدہ برہ بنت صفوان، سیدہ کلثوم بنت حصین، حضرت جداء بنت وہب رضی اللہ عنہن وغیرہ
حدیث فہمی کا اعلی معیار:  

روایت کی روح تک پہنچ جانا اور اس کے صحیح مفہوم کو جاننا اسے درایت حدیث کہتے ہیں ۔کہا جاسکتا ہے کہ اس فن کی ابتداءحضرات صحابیات سے ہی ہوئی حضرت سیدہ عائشہ نے مختلف روایتوں پر تنقید کی اس کے ظاہری مفہوم کو قرآن کریم کی آیتوں سے معارض قرار دے کر اسے رد کردیا اور اس کے صحیح مفہوم کی نشاندہی فرمائی ۔ان کے استدراکات کو ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔جس کا نام ہے ۔ 
عین الاصابہ فیما استدرکتہ السیدہ عائشہ علی الصحابہ۔
ان میں سے بعض استدراکات مندرجہ ذیل ہیں: 
(۱) حضرت عائشہؓ نے میت کے اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلاکیے جانے کی روایت پر۔آیت کریمہ
لا تذر وازرة وازة اخری 
(کسی کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا) کی وجہ سے استدراک کیا اور فرمایا کہ صرف اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جانا مذکورہ آیت کے خلاف ہے۔ البتہ اگر میت زندگی میں جاہلی نوحہ کا عادی رہا ہو یا اس کے لیے وصیت کرگیا ہو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا تو وہ میت عذاب میں مبتلا ہوگا۔
(۲) اسی طرح آپ نے شب اسراء ومعراج میں رویت باری کی روایات پراستداراک کیا اور دلیل کے طور پر آیت کریمہ پیش کوکیا ۔:
لاتدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر (الانعام ۳۰۱)
یعنی نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے اور وہ اتنا ہی با خبر ہے۔
(۳) ایک روایت ہے کہ نحوست گھر، عورت اور گھڑے میں ہے اس روایت پرذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے آپ نے نقد فرمایا:

ما اصاب من مصیة فی الارض ولا فی انفسہم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا ان ذلک علی اللہ یسیر (الحدید۲۲) 
یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو مگر وہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا ۔یقین جانو یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔
(۴) سماع موتی کی روایت پرذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سےنقد فرمایا : 

ان اللہ یسمع من یشاءوماانت بمسمع من فی القبور (الفاطر ۲۲) 
(ترجمہ: اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے بات سنا دیتا ہے اور تم ان کو بات نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں)
(۵) نکاح متعہ کی روایت پر ذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے حضرت ام المومنین نے نقد فرمائی اور انھیں جوں کا تو قبول کرنے سے انکار کردیا:
والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین (المومنون ۵،۶)
یعنی ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں اور باندیوں پر۔
اسی طرح فقاہت اور معاملہ فہمی کی ایک مثال ام المومنیںحضرت ام سلمہ ؓ کا مشورہ ہے ۔ جب صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صحابہ کرام شدت حزن میں رسول اللہ کے حکم کے باوجود قربانی کرنے سے وقتی طور پر رکے ہوئے تھے توام المومنین کے مشورے پر رسول اللہ ﷺ نے پہلے قربانی فرمائی۔ پھر آپ کی اتباع میںتمام صحابہ نے قربانی کی۔
چار مثالی خواتین: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں میں بہترین عورتیں چار ہیں۔
(۱) مریم بنت عمران ،
(۲) حضرت خدیجة الکبری ،
(۳) سیدہ فاطمہ زہراء
اور 
(۴) سیدہ آسیہ فرعون کی بیوی ۔
اس میں درحقیقت چار بہترین کردار پر روشنی ڈالی گئی، جس سے اللہ اور اس کے رسول راضی ہوئے ۔ایک ماں کا کردار ،مریم بنت عمران ۔ایک عظیم بیوی کا کردار سیدہ خدیجہ ۔ایک عظیم بیٹی کا کردار ،سیدہ فاؓطمہ اور ایک عظیم عورت کا کردار سیدہ آسیہؓ ہیں۔
جلیل القدر محدث ابن عساکرؒ فرماتے ہیں کہ میرے اساتذہ میں اسی سے زیادہ خواتین ہیں ۔
علی مردان خان والی زابلستان کی اکلوتی بیٹی گیتی آراءبیگم پہلی مسلمان خاتون تھیں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں عورتوں کو فن سپاہ گری سیکھانے کے لیے باضبطہ مدرسہ قائم کیا تھا۔
ٍ طرابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبد اللہ نے جس پامردی اور ہمت کا مظاہرہ کیا اسی بنا پر علامہ اقبالؒ کو انھیں آبروئے ملت کا خطاب دینا پڑا۔ اسی طرح تحریک خلافت کے زمانے میں مولانا محمد جوہر اور مولانا شوکت علی کی امی جن کا نام آبادی بانو بیگم جو بی اماں کے نام سے مشہورتھیں؛ انھوں نے انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا۔ ان کے تعلق سے مشہورِ زمانہ نظم ایک خاتون کی عزم وہمت کی داستان رقم کررہی ہے:
بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹے خلافت پر دے دو۔ ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی جان بیٹا خلافت پر دے دو ۔
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا کلمہ پڑھ پڑھ کر خلافت پر مرنا ۔ہوتے میرے اگر سات بیٹے، کرتی سب کو خلافت پہ صدقے۔
حشر میں حشر بر پا کروں گی، پیش حق تم کو لے کے چلوں گی ۔ ہیں یہی دین احمد کے رستے جان بیٹا خلافت پر دے دو
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے: 

ایک زمانے میں جب ایسا لگ رہا تھا کہ پورے عالم اسلام پر تاتاریوں کا غلبہ ہوجائے گا ایسے حالات میں وہ خواتین ہی تھیں؛ جنھیں زبردستی منگولوں نے اپنی بیوی بناکر اپنے حرم میں داخل کرلیا تھا؛ لیکن یہ مسلم خواتین وہاں بھی اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کرسکیں اور اپنے شوہر کو اور منگول شاہزادوں کو اسلام کی خوبیاں بتا تی رہیں ۔خدا کی شان ان کی تبلیغی کوششوں سے تاتاری سرداروں اور شہزادوں کے دل میں نرمی پیداہوئی اور تاتاری قبائل بتدریج حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا کہ ہے عیاں شورش تاتار کے فسانہ سے۔پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے۔
اس کے بعد کے زمانے کے بھی سیکڑوں واقعات ہیں جس میں خواتین اسلام کے مثالی کارناموں سے اسلامی تعلیمات، اسلامی دعوت اور اسلامی تہذیب وثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ ضرورت ہے کہ ان اولات العزم خواتین کے کارناموں کو اپنایا جائے اور انھیں کے نقش قدم پر فروغ اسلام کے لیے موجودہ عہد کی خواتین کو تیار کیا جائے؛ تو انشآءاللہ موجودہ منظر نامہ کافی حد تک بدل سکتا ہے۔ ۔
وماذلک علی اللہ بعزیز
از: (مفتی) محمد خالد حسین نیموی قاسمی
https://mastooraat.blogspot.com/2018/12/blog-post_26.html

Monday, December 24, 2018

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن نہ کرنا

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن نہ کرنا

سوال :: ایسی حدیث جو صحابۂ کرام پر طعن کا باعث بنتی ہو وہ اہلِ سنت کے یہاں مردود ہوتی ہے.
اس کا حوالہ مطلوب ہے

جواب: بلا تفریق جملہ اصحاب رسول کی تکریم و تعظیم اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ضروری ہے
اصحاب رسول پہ زبان طعن دراز کرنا یا ان کی تنقیص شان کرنا درج ذیل نصوص شرعیہ کی تکذیب کے درجے میں ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ {آل عمران: 110}.
  وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ {البقرة: 143}.
لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ * أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {التوبة: 88ـ89}. وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {التوبة:100}.
لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ {التوبة:117}.
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ {الكهف: 28}.
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً * وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا {الفتح: 18ـ19}.
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً {الفتح:29}.
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ *
وَالَّذِينَ تَبَوَّأُوا الدَّارَ وَالْأِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ {الحشر:8ـ9}.

في الصحيحين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم. وقال أيضاً: النجوم أمنةٌ للسماء، فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما تُوعدُ، وأنا أمنةٌ لأصحابي، فإذا ذهبت أتى أصحابي ما يوعدون، وأصحابي أمنةٌ لأمتي، فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون. رواه مسلم.
لا تسبوا أصحابي، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهباً ما بلغ مد أحدهم ولا نصفيه. رواه البخاري ومسلم

إن الله نظر في قلوب العباد، فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد، فاصطفاه لنفسه، فابتعثه برسالته، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد، فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد، فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه.
رواہ احمد بن حنبل

قران پڑھوایا جائے اور پڑھنے والوں کو چائے وغیرہ کھلائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

قران پڑھوایا جائے اور پڑھنے والوں کو چائے وغیرہ کھلائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

سوال: اگر کوئی میت کے ایصال ثواب کے لئے قران پڑھوائے اور پڑھنے والوں کو چائے وغیرہ کھلائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے اگر نھیں تو اس کے علاوہ کیا صورت ھوگی؟ جزاکم اللہ احسن الجزاء
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
کسی مرحوم کو ایصال ثواب کے لئے جو قرآن خوانی ہوتی ہے، وہ عبادت محضہ ہے، اس پر باقاعدہ اجرت کا معاملہ درست نہیں، ناجائز وحرام ہے، نیز اجرت پر جو قرآن خوانی کی یا کروائی جاتی ہے، اس میں خود قرآن پڑھنے والوں کو کوئی ثواب نہیں ملتا، پس وہ کسی مرحوم کو کیا ایصال ثواب کریں گے،
”قال في رد المحتار (کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: ۹/۷۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند) عن العیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ة الأجزاء بالأجرة لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ة وإعطاء الثوب للآمر والقراء ة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون اھ۔
اور اس موقع پر حسب عرف وعادت خاص طور پر قرآن پڑھنے والوں کے لیے جو دعوت یا چائے ناشتہ وغیرہ کا نظم ہوتا ہے ،یہ بھی بحکم اجرت ہے یا کم از کم اس میں اجرت کا شائبہ ضرور ہے؛ لہٰذا اس سے بھی احتراز کیا جائے،
والحاصلُ أن اتخاذ الطعام عند قراء ة القرآن لأجل الأکل یکرہ (شامی ۳: ۴۸ ۱)، نیز تذکرة الرشید (ص ۱: ۲۰۳، مطبوعہ: دار الکتاب دیوبند) دیکھیں۔
نوٹ:۔ کسی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا محمود ومستحسن عمل ہے، اس سے مرحوم کی روح خوش ہوتی ہے اور اسے راحت ملتی ہے، لیکن شریعت میں ایصال ثواب کے لیے کوئی خاص عمل یا دن وغیرہ کی تخصیص ثابت نہیں ہے ، نیز درست بھی نہیں؛ اس لیے کسی مرحوم کو ایصال ثواب کے لیے اجتماعی طور پر قرآن خوانی کرنا یا کرانا امر منکر ہے ، ایصال ثواب میں یہ چاہئے کہ جو لوگ کسی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا چاہے وہ اپنے طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر مرحوم کو اس کا ایصال ثواب کردیں، اس میں کسی عمل ، دن کی تخصیص نہ کی جائے، نیز اجتماعیت بھی اختیار نہ کی جائے (مستفاد: تالیفات رشیدیہ ص ۸۷ ،۸۸) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
________
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (ب): 1127=957-8/1432
سادات کے لئے زکاة اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں ہے، حدیث میں ہے:
”یا بني ہاشم إن اللہ قد حرّم علیکم غسالة الناس وأوساخہم“ (ہدایہ: ۱/۱۸۶)
محلے میں سے اگر کوئی صدقات اجبہ اور زکاة دیتا ہے تو اسے غریبوں اور ناداروں کو دینا ضروری ہے، سادات کو دینا جائز نہیں۔ البتہ سادات کے لیے صدقات نافلہ کی گنجائش ہے۔ غیرسید کو جب زکاة وغیرہ ملے تو وہ سادات پر رشتہ دار ہوں یا غیررشتہ دار خرچ کرسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم