Wednesday, December 26, 2018

فروغ ِاسلام میں خواتین کا کردار

فروغ ِاسلام میں خواتین کا کردار 
خواتین نوع انسانی کا نصف حصہ ہیں؛ وہ انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ اسلام نے خواتین کے لئے اجر وثواب اور خدمات وطاعت کے وہ مواقع رکھے ہیں؛ جو مردوں کے لئے ہیں۔ قرآن کریم کا اعلان ہے:
من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیوة طیبة ولنجزینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعملون۔ (النحل ۷۹)
یعنی جس نے نیک عمل کیا۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔ اور ہم انھیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی وتبلیغی جد وجہد کا مرکز جس طرح مردوں کو بنایا اسی طرح عورتوں کو بھی بنایا۔ آپ کی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں جس طرح خدا پرستی کا مثالی جذبہ مردو ں میں پیدا ہوا اسی طرح خواتین میں بھی انقلابی روح پیدا ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پائی اس طرح صحابیا ت رضی اللہ عنہما بھی رسول اللہ کے فیض صحبت اور ان کی مثالی تربیت کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہوکر دیگر خواتین کے لئے نجوم ہدایت بن گئیں؛ اگر ہماری عورتوں کے سامنے اسلام کی ان بر گزیدہ خواتین کا نمونہ پیش کردیا جائے؛ تو ان کی فطری لچک ان سے اور زیادہ متاثر ہوسکے گی اور موجودہ دور کے مؤثرات سے بے نیاز ہوکر خالص اسلامی اخلاق اسلامی معاشرت اور اسلامی تمدن کا نمونہ بن جائے گی ۔آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے، یوروپی تمدن اور مغربی طرز معاشرت سے ہمارے ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی بے زاری کا اظہار کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں اسلام کی قدیم تاریخ مسلمان عورت کا بہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے ۔ فروغ اسلام میں خواتین کا ہمیشہ معیاری اور شاندار کردار رہا ہے۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں اس کردار کو ذیل کے سطور میں نمایا ں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبول اسلام میں سبقت۔ کفار میں ہمیں بہت سے اشقیاء کا نام معلوم ہے جنھوں نے ہزاروں کوششوں کے بعد بھی اللہ تعالی کے آگے سر نہیں جھکایا؛ لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سینکڑوں ایسے بزرگ ہیں؛ جو توحید کی آواز سننے کے ساتھ ہی اسلام کے حلقہ میں داخل ہوگئے ۔ صحابہ کے ساتھ صحابیات اس فضیلت میں برابر کی شریک ہیں۔اور نہ صرف شریک ہیں بلکہ بعض جہات سے ان پر ترجیح بھی رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ شرف تمام لوگوں میں ام المومنیں سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے اور بغیر کسی کد کدوکاوش اور بغیر کسی جبر واکراہ کے اسلام قبوک کرنے اور نبی کریم کے بعد امت میں سب سے پہلے خداوند قدوس کے سامنے سر جھکانے والی بن گئیں۔تاریخ ابن خمیس میں سیدنا رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں دو شنبہ کے دن مبعوث ہوا اور خدیجہؓ نے اس دن کے آخر کی نماز پڑھی، اور علی ؓنے دوسرے دن منگل کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ صدیق اور زید بن حارثہ شریک نماز ہوئے۔ (۶۸۲) اسلام میں سب سے بڑی فضیلت تقدم فی الاسلام ہے۔اور حضرت ابوبکر کے پاس فضائل میں یہ سب سے بڑی فضیلت ہے؛ لیکن اس میں بھی تین صحابیات شریک ہیں۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت سمیہؓ حضرت ام ایمن ؓ۔
تقدم فی الاسلام کے بعد سب سے بڑا شرف تقدم فی الہجرہ ہے۔ اس میں صحابہ کرام کے ساتھ ہجرت کرنے والی تمام مہاجرات خواتین صحابیات ،مہاجر صحابہؓ کی شریک ہیں؛ اسلام میں سب سے پہلی ہجرت ہجرت حبشہ ہے اور اس ہجرت میں ایک صحابیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو وہ شرف حاصل ہوا کہ جس پر تمام صحابہ رشک کرتے تھے۔ ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا وہ تم سے زیادہ میرے مستحق نہیں؛ کہ عمرؓ اور اس کے اصحاب کی ایک ہجرت ہے اور تم اہل کشتی کی دو ہجرتیں ہیں۔ (مسلم باب من قضاء جعفر بن ابی طالب اسماء بنت عمیس)
خلاصہ یہ کہ آفتاب رسالت سے پہلے دن جو شعاع افق عالم پر چمکی وہ ایک رقیق القلب خاتون کے سینہ پر نور سے چھن کر نکلی۔
اعلان اسلام:
ابتدائے اسلام میں اسلام قبول کرنے سے زیادہ اظہار اسلام کے لئے ہمت شجاعت اور جسارت کی ضرورت تھی ۔کفار کے روک ٹھوک کے اور ظلم وستم کے باوجود صحابہ کے ساتھ صحابیات نے بھی پوری جرأت کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کیا؛ چنانچہ ابتدا میں جن سات بزرگوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تھا؛ ان میں خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ، حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب، حضرت عمار رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتویں ایک غریب صحابیہ حضرت سمیہ ؓ بھی شامل ہیں۔
تحمل شدائد: 

صحابہ کرام ؓکے ساتھ صحابیاتؓ نے بھی اسلام کی راہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا، مختلف سختیوں اور آزمائشوں کا انھیں شکار بننا پڑا۔ لیکن ان کے ایمان میں ذرہ برابر بھی تزلزل واقع نہیں ہوا۔ صحابیات ؓکی یہ سب سے بڑی فضیلت ہے کہ سب سے پہلے ایک صحابیہ نے اسلام بھی قبول کیا اور سب سے پہلے ایک صحابیہ نے شرف شہادت بھی حاصل کی۔ حضرت سمیہؓ کو ملعون ابوجہل نے ران میں برچھی مارکر شہید کردیا۔
سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی بہن نے جب اسلام قبول کیا اور عمر کو ان کا حال معلوم ہوا تو ان کو اس قدر مارا کہ لہو لہان ہوگئیں لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا جو کچھ کرنا کرلو میں تو اسلام لاچکی (اسد الغابة تذکرة عمر)
حضرت لبینہؓ اور زنیرہ، اور نہدیہ (جو باندی تھیں) کو بھی کفار سخت تکلیفیں دیتے اور سختیاں کرتے؛ لیکن وہ سب اسلام پر جمی رہیں۔ سیدہ فکیہہ ایک صحابیہ تھیں۔ سیدنا عمر اپنے اسلام سے قبل اس کو اتنا مارتے کہ تھک جاتے۔تھک کر چھوڑ دیتے اور کہتے کہ میں رحم کھاکر تجھ کو نہیں چھوڑا بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ تھک گیا ہوں۔ وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں۔ عمر اگر تم مسلمان نہ ہوگے تو اللہ تم سے ان بے رحمیوں کا انتقام لے گا۔ (مسلمان عورتوں کی بہادری)
ایمان لانے کے بعد سارے رشتے ناطے منقطع ہوجاتے ہیں؛ شوہر بیوی سے جدا ہوجاتی ہے۔ یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ عورت کی زندگی کا دار ومدار عام طور پر شوہر اور رشتہ داروں کی اعانت پر ہوتا ہے؛ لیکن صحابیات نے اس تکلیف کو بھی اسلام کی سر بلندی اور رب کی رضا کے لیے بر داشت کرلیا۔
توحید پر استقامت: 

کفار نے صحابیات کو طرح طرح کی تکلیفین دیں ؛لیکن ان کی زبان سے توحید کے علاوہ کچھ نہیں نکلا ۔سیدہ ام شریک ؓ ایمان لائیں؛ تو ان کے اعزہ واقرباء نے ان کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کردیا۔ اس حالت میں جب کہ وہ دھوپ میں جل رہی تھیں تین دن گذرگئے؛ تو ظالموں نے کہا کہ جس دین پر تم ہو اب اس کو چھوڑ دو۔ وہ اس قدر بدحواس ہوچکی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ جب انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو وہ سمجھیں کہ یہ ظالم ہم سے توحید کا انکار کروانا چاہتے ہیں۔ تو ام شریکؓ کہنے لگیں خدا کی قسم میں اب بھی اسی پر قائم ہوں۔ (طبقات ابن سعد۔ تذکرہ ام شریک)
شرک سے علحدگی: 

مختلف اسباب کی وجہ سے عورتیں قدیم رسم ورواج اور قدیم عقائد کی پابند ہوتی ہیں، عرب میں مشرکانہ عقائد ونظریات اور باطل رسم ورواج پھیل کر قلوب میں راسخ ہوگئے تھے ؛لیکن صحابیات ؓ نے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی شدت سے ان عقائد کا انکار کیا۔ اہل عرب کا خیال تھا کہ جو بتوں کی برائی بیان کرتا ہے، وہ مختلف بیماریوں اور آفتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس لیے جب سیدہ زنیرہؓ اسلام لانے کے بعد طبعا نابینا ہوگئیں، تو کفار نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کو لات اور عزی نے اندھا کردیا ہے۔ لیکن انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ لات وعزی خود مجبور ہیںانھیں اپنے پوجنے والوں کی کیا خبر۔ (اسد الغابہ، تذکرہ زنیرہ)
عرب میں شرک کا اصلی مرکز بت تھے، جو گھر گھر میں نصب تھے، لیکن صحابیات نے ہرحال میں ان سے تبرا ظاہر کی۔ سیدنا ابو طلحہؓ نے جب سیدہ ام سلیمؓ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی، تو انھوں نے کہا ابو طلحہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ جن مورتیوں کو تم پوجتے ہو وہ لکڑی کی ہے، جو زمین سے اگتی ہے۔ پھر کہنے لگیں تم کافر ہو اور میں مسلمان۔ آپس میں نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر تم اسلام قبول کرلو، تو وہی میرا مہر ہوگا اس کے سوا تم سے کچھ نہیں مانگوں گی۔ چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور اسلام لانا ہی ان کا مہر مقرر ہوا (اسد الغابہ، تذکرہ زید بن سہل بن اسود)
شجاعت وبہادری: 

غزوات میں صحابہ کرامؓ کی بہادری کے مانمٹ نقوش سے تاریخ کے صفحات پُر ہیں۔ لیکن اس میدان میں بھی صحابیات پیچھے نہیں ہیں۔ صحابہ نے جس طرح داد شجاعت دی صحابیاتؓ کے بہادرانہ کارنامے اس سے بھی حیرت انگیز ہیں۔ غزوہ حنین میںکفار نے اس زور شور سے حملہ کیا تھا کہ صحابہ کے قدم اکھڑ گئے اور میدان جنگ لزر اٹھا تھا؛ لیکن حضرت ام سلیم ؓکی شجاعت کا یہ حال تھا کہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے منتظر تھیں کہ کوئی کافر سامنے آئے تو اس کا کام تمام کردیں ۔۔حضرت طلحہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟؟ کہنی لگیں میں چاہتی ہوں کہ کوئی کافر قریب آئے تو اس کا پیٹ چاک کردوں ۔(ابوداود، کتاب الجہاد)
غزوہ خندق میں رسول اللہ ﷺ نے تمام عورتوں کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا ایک یہودی آیا اور قلعہ کے گرد چکر لگانے لگا حضرت صفیہ ؓ نے دیکھا تو حسان بن ثابت ؓ سے کہا کہ یہ دشمن کا جاسوس معلوم ہوتا ہے، اس کو ٹھکانے لگا دو بولے کہ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں ۔اب حضرت صفیہ خود اتریں اور خیمہ کی ایک میخ اکھاڑ کر اس زور سے اسدشمن کو مارا کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ (اسد الغابة، تذکرة سمیہ بنت عبد المطلب) مورخ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ یہ پہلی بہادری تھی جو ایک مسلمان عورت سے ظاہر ہوئی۔ (اسد الغابہ)
سیدہ ام عمارہ ؓ ایک مشہور صحابیہ ہیں، قبل از ہجرت جب مقام عقبہ پر مدینہ کے نیک لوگوں نے کفار قریش سے چھپ کر اسلام کی اشاعت اور رسول اللہ ﷺ کی امداد کے لیے رسول اللہ کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی ،تو اس مختصر سی جماعت میں سیدہ ام عمارہؓ بھی شریک تھیں؛ اسی طرح جنگ احد میں عین اس وقت جب مسلمانوں کے قدم اکھڑرہے تھے اور نبی کریم پر کفار بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے؛ اور جان نثار آگے آکر آکر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے یہ بہادر خاتون بھی تیغ بدست حملہ آووروں کو مار مار کر پیچھے ہٹا رہی تھیں ۔اس دن کئی زخم ان کے دست وبازو میں آئے تھے ۔دیگر غزوات میں بھی ان سے بے مثال بہادری کے کارنامے ظہور میں آئے ۔ صدیق اکبر کے زمانے میں جنگ یمامہ میں بھی انھوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جب تک ان کا ہاتھ بری طرح زخمی نہ ہوگیا اس وقت تک لڑتی رہیں (فتوحات اسلام ،سید دحلان ص ۶۴)
سن ۶ ہجری میں جب رسول اللہ ﷺ نے حج کے اردہ سے مکہ مکرمہ کاارادہ کیا ،اور تحقیق حال کے لیے حضرت عثمان ؓ کو مکہ بھیجا ان کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو قریش نے شہید کردیا ہے، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے تقریبا تمام صحابہ سے کفار قریش سے لڑنے مرنے پر بیعت لی ،جو اسلامی تاریخ میں ”بیعت رضوان“ سے مشہور ہے موت پر بیعت کرنے والیوں میں حضرت ام عمارہؓ بھی شامل تھیں۔
ام زیاد اشجعیہ ؓ اور دوسری پانچ عورتوں نے غزوہ خیبر میں چرخہ کات کر مسلمانوں کی مدد کی وہ میدان سے تیر اٹھاکر لاتی تھیں اور سپاہیوں کو ستو پلاتی تھیں۔ (مسلم ج۲ص ۵۰۱) ام عطیہ ؓ نے سات غزوات میں صحابہ کرام کے لیے کھانا پکایا. (طبری ج۶،۶۱۳۲)
حضرت فاروق اعظم ؓکے زمانے میں جنگ قادسیہ اسلام اور باطل کے درمیان ہونے والا زبردست اور فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اس جنگ میںعرب کی مشہور شاعرہ حضرت خنساءؓ بھی شریک تھیں ۔حضرت خنساء کے ساتھ ان کے چاروں بیٹے بھی شریک تھے شب کے ابتدائی حصہ میں جب ہر سپاہی صبح کے ہولناک منظر پر غور کررہا تھا؛ آتش بیان شاعرہ نے اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلا نا شروع کیا
(ترجمہ اشعار) پیارے بیٹو! تم اپنی خواہش سے مسلمان ہوئے اور تم نے ہجرت بھی کی خدائے وحدہ لاشریک لہ کی قم جس طرح تم ایک ماں کے بیٹے ہو۔ ایک باپ کے بیٹے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا اور نہ تمہارے حسب ونسب میں داغ لگایا ۔جو ثواب عظیم اللہ تعالی نے کافروں سے لڑنے میں مسلمانوں کے لیے رکھا ہے ۔تم اس کو خود جانتے ہو خوب سمجھ لو کہ آخرت جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس دار فانی سے بہتر ہے ۔اللہ فرماتا ہے: 

یاایھا الذین ّمنوا اصبرو وصابروا ورابطو واتقوا للہ لعلکم تفلحون (آل عمران) مسلمانوں صبر کرو اور استقلال سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔ کل جب خیریت سے صبح کرو انشاءاللہ تو تجربہ کاری کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے تم دشمن پر جھپٹ پڑنا اور جب دیکھنا کہ لڑائی زوروں پر ہے تو خا ص طور پر تم جنگ کی بھٹی کی طرف رخ کرنا اور جب دیکھنا کہ فوج غصہ سے آگ ہورہی ہے تو غنیم کے سپہ سالاروں پر ٹوٹ پڑنا۔ اللہ کرے کہ تم دنیا میں مال غنیمت اور عقبی میں عزت پاؤ۔ (اسد الغابہ)
صبح کو جنگ چھڑتے ہی سیدہ خنساء ؓکے چاروں بیٹے یک بار گی دشمنوں پر جھپٹ پڑے۔ اور آخر کار بڑی بہادری سے چاروں لڑکر شہید ہوگئے ۔سیدہ خنساءکو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے کہا: اس اللہ کا شکر ہے جس نے بیٹوں کی شہادت کا مجھے شرف بخشا۔
مورخ طبری نے جنگ یر موک میں سیدہ ام حکیم بنت حارث کا نام خصوصیت سے لیا ہے۔ ابن اثیر جزری نے لکھا کہ معاذ بن جبلؓ کی پھوپھی زاد بہن اسماء بنت عمیس نے تنہا نو رومیوں کو مارڈالا ۔کہا جاسکتا ہے کہ یرموک کی جنگ میں اگر خواتین تلوار سونت کر رومیوں پر نہ پل پڑتیں تو شاید فتح نہ ہوپاتی ۔
اشاعت اسلام:  

صحابیات نے اپنی نیک طینتی سے صرف اسلام ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے بھی ہر ممکن قربانی پیش کی۔ بخاری کتاب التیمم میں یہ روایت ہے کہ صحابہ کرام نے ایک سفر میں ایک عورت کو پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کے پاس پانی کے مشکیزے تھے۔ اور صحابہ ؓنے پانی کی ضرورت سے ہی اسے پکڑا تھا ۔ لیکن رسول ﷺ نے اس کا پانی لیا تو اس کی قیمت بھی ادا کی۔ اس عورت کو رسول اللہ کی اس اعلی دیانت کی وجہ سے اسی وقت آںحضرت ﷺ کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ اور اس اثر سے اس کا پورا قبیلہ مسلمان بھی ہوگیا۔
حضرت ام شریک ؓ ایک صحابیہ تھیں، جو آغاز اسلام میں خفیہ طور پر قریش مکہ کی عورتوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرتی تھیں؛ قریش کو انکی خفیہ دعوتی سر گرمیوں کا علم ہوا تو انھیں کفار نے مکہ سے نکال دیا ۔(اسد الغابہ)
سیدہ ام حکیم بنت الحارث ؓ کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی ،فتح مکہ کے دن وہ تو مسلمان ہوگئیں ؛لیکن ان کے شوہر عکرمہ بھاگ کر یمن چلے گئے ۔ام حکیم ؓ نے یمن کا سفر کیا اور اپنے شوہر کو دعوت ِاسلام دی۔ وہ بیوی کی دعوت پر مسلمان ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،تو رسول اللہ ﷺ انھیں دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے۔ (موطا امام مالک کتاب النکاح ،باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ)
نومسلموں کی کفالت: 

ابتدائے اسلام میں جو لوگ اسلام لاتے تھے ؛ان کو مجبوراً اپنے گھر ،بار اہل وعیال اور مال وجائیداد سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا؛ اس لیے اس وقت اشاعت اسلام کے ساتھ اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ ان نو مسلموں کی کفالت کی جائے ۔ صحابیات ؓ نے ان کی کفالت میں نمایا ں حصہ لیا ۔چنانچہ حضرت ام شریکؓ کا گھر گویا نو مسلموں کے لیے مہمان خانہ بن گیا تھا ،یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ بنت قیسؓ کو صرف اس بناءپر ان کے گھر عدت گذارنے کی اجازت نہیں دی کہ ان کے گھر نو مسلم مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے پر دہ کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا. (مسلم ،کتاب الطلاق، باب المطلقہ ثلاثا لانفقة لہا ۔کتاب الفتن باب فی خروج الدجال)
خدمت ِمجاہدین: 

جہاد ایک اعلی عبادت ہے ۔جو خاص حالات میں مردوں پر فرض ہے ۔ صحابہ کرام مرد ہونے کی وجہ سے بنفس نفیس جہاد میں شریک ہوتے تھے۔ صحابیات عورت ہونے کی وجہ سے اگر چہ بنفس نفیس معرکہ کارزار میں شریک نہیں ہوسکتی تھی لیکن جہاں تک جذبہ جہاد کی بات ہے تو صحابیات بھی اس معاملہ میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں؛ البتہ ان کے لیے سب سے موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کے آرام وآشائش کا سامان بہم پہنچانا تھا ۔اس حوالہ سے سیدہ ام عطیہؓ ،سیدہ عائشہؓ، سیدہ ام سلیمؓ ،سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہن کا نام نمایاں ہے ۔سیدہ ربیع بنت معوذؓ کہتی ہیں کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوئے تھے۔ پانی پلاتے تھے مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لاتے تھے۔ (بخاری، کتاب الجہاد باب رد النساءالقتلہ)
سیدہ رفیدہ ؓ نے مسجد نبوی میں خیمہ کھڑا کررکھا تھا، جو لوگ زخمی ہوکر آتے تھے وہ ان کا اسی خیمہ میں علاج کرتی تھیں؛ چنانچہ سیدنا سعد بن معاذ ؓ غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تو ان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا۔ (اصابة، تذکرة سیدہ رفیدہ)
ایک موقع پر حضرت عمر نے چادر تقسیم فرمائی ایک چادر بچ گئی کسی نے کہا اپنی بیوی کو دے دیں کہنے لگے ام سلیطؓ اس کی زیادہ مستحق ہ
یں۔ کیوں کہ وہ غزوہ احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں اور ہمیں پلاتی تھیں ۔: (بخاری کتاب الجہاد ،باب حمل النساءالقرب الی الناس)
بدعات کا استیصال:

بدعت دین کے لیے بمنزلہ گھن کے ہے، اس لیے بااثر صحابیاتؓ نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی نخل اسلام میں گھن نہ لگنے پائے ۔ مثلا غلافِ کعبہ کی عزت وحرمت مسلمانوں میں بہت زیادہ تھی۔ سیدہ عائشہؓ سے اس واقعہ کو بیان کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس تعظیم کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہیں فرمایا ہے (جب غلاف کعبہ سے اتر گیا تو اس کا کسی طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔(عین الاصابہ بحوالہ سنن بیہقی)
امر بالمعروف نہی عن المنکر: 

ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ ایک گھر میں مہمان بنیں۔ میزبان کی دد لڑکیوں کو جو جوان ہوچکی تھیں: دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں۔ اس پر آپ نے تنبیہ کی اور تاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بے چادر اوڑھے نماز نہ پڑھے ۔رسول اللہ نے یہی فرمایا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ج۶ص ۹۶)
سیدہ عائشہ ؓ کے گھر میں کچھ کرایہ دار رہتے تھے، ان کی نسبت ان کو معلوم ہواکہ وہ نرد کھیلتے ہیں، تو وہ سخت بر افروختہ ہوئیں ؛اور کہلا بھیجا کہ اگر نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر کے باہر نہ پھینک دوگے۔ تو میں اپنے گھر سے نکلوا دو ں گی۔ (الادب المفرد۔ باب الادب واخراج الذین یلعبون النرد)
ایک دن ان کی بھتیجی سیدہ حفصہؓ بنت عبد الرحمن نہایت باریک دو پٹہ اوڑھ کر سامنے آئیں۔ سیدہ عائشہ ؓ سخت ناراض ہوئیں اور اسی وقت غصہ میں اس کو پھاڑ دیا پھر فرمایا کہ تم نہیں جانتیں کہ اللہ تعالی نے سورہ نور میں کیا احکامات نازل فرمائے ہیں ۔اس کے بعد انھیں دبیزکپڑے کادو پٹا منگواکر اوڑھایا۔ (موطا امام مالک کتاب اللباس)
علوم دینیہ کی حفاظت واشاعت: 

محدثین ؒنے روایت حدیث کے لحاظ سے صحابہ کے پانچ طبقے قرار دیے ہیں اور تقریبا ہر طبقہ میں صحابہ کے ساتھ صحابیات بھی شامل ہیں۔ اول مکثرین ۔ہزار یا اس سے زیادہ روایت والے ۔حضرت سیدہ عائشہ ؓ کا شمار اسی طبقہ میں ہوتا ہے۔
دوسرا طبقہ: 

پانچ سو یا اس اسے زیادہ روایت والے۔ 
تیسرا سو یا اس سے زیادہ روایت والے۔ اس طبقہ میں حضرت ام سلمہ ؓہیں، 
چوتھا طبقہ ۔ جن کی روایت چالیس سے ایک سو ہو، ان میں بکثرت صحابیات شامل ہیں مثلا سیدہ ام حبیبہ ؓ، سیدہ میمونہؓ ،سیدہ ام عطیہ انصاریہؓ، سیدہ حفصہؓ، سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ، سیدہ ام ہانی ؓ وغیرہ ۔پانچواں طبقہ جن کی روایت چالیس یا اس سے کم ہو۔ اس طبقہ میں بھی بکثرت صحابیات موجود ہیں ۔مثلا سیدہ ام قیس ، سیدہ فاطمہ بنت قیس ،سیدہ ربیع بنت معوذ ،سیدہ برہ بنت صفوان، سیدہ کلثوم بنت حصین، حضرت جداء بنت وہب رضی اللہ عنہن وغیرہ
حدیث فہمی کا اعلی معیار:  

روایت کی روح تک پہنچ جانا اور اس کے صحیح مفہوم کو جاننا اسے درایت حدیث کہتے ہیں ۔کہا جاسکتا ہے کہ اس فن کی ابتداءحضرات صحابیات سے ہی ہوئی حضرت سیدہ عائشہ نے مختلف روایتوں پر تنقید کی اس کے ظاہری مفہوم کو قرآن کریم کی آیتوں سے معارض قرار دے کر اسے رد کردیا اور اس کے صحیح مفہوم کی نشاندہی فرمائی ۔ان کے استدراکات کو ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔جس کا نام ہے ۔ 
عین الاصابہ فیما استدرکتہ السیدہ عائشہ علی الصحابہ۔
ان میں سے بعض استدراکات مندرجہ ذیل ہیں: 
(۱) حضرت عائشہؓ نے میت کے اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلاکیے جانے کی روایت پر۔آیت کریمہ
لا تذر وازرة وازة اخری 
(کسی کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا) کی وجہ سے استدراک کیا اور فرمایا کہ صرف اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جانا مذکورہ آیت کے خلاف ہے۔ البتہ اگر میت زندگی میں جاہلی نوحہ کا عادی رہا ہو یا اس کے لیے وصیت کرگیا ہو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا تو وہ میت عذاب میں مبتلا ہوگا۔
(۲) اسی طرح آپ نے شب اسراء ومعراج میں رویت باری کی روایات پراستداراک کیا اور دلیل کے طور پر آیت کریمہ پیش کوکیا ۔:
لاتدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر (الانعام ۳۰۱)
یعنی نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے اور وہ اتنا ہی با خبر ہے۔
(۳) ایک روایت ہے کہ نحوست گھر، عورت اور گھڑے میں ہے اس روایت پرذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے آپ نے نقد فرمایا:

ما اصاب من مصیة فی الارض ولا فی انفسہم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا ان ذلک علی اللہ یسیر (الحدید۲۲) 
یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو مگر وہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا ۔یقین جانو یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔
(۴) سماع موتی کی روایت پرذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سےنقد فرمایا : 

ان اللہ یسمع من یشاءوماانت بمسمع من فی القبور (الفاطر ۲۲) 
(ترجمہ: اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے بات سنا دیتا ہے اور تم ان کو بات نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں)
(۵) نکاح متعہ کی روایت پر ذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے حضرت ام المومنین نے نقد فرمائی اور انھیں جوں کا تو قبول کرنے سے انکار کردیا:
والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین (المومنون ۵،۶)
یعنی ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں اور باندیوں پر۔
اسی طرح فقاہت اور معاملہ فہمی کی ایک مثال ام المومنیںحضرت ام سلمہ ؓ کا مشورہ ہے ۔ جب صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صحابہ کرام شدت حزن میں رسول اللہ کے حکم کے باوجود قربانی کرنے سے وقتی طور پر رکے ہوئے تھے توام المومنین کے مشورے پر رسول اللہ ﷺ نے پہلے قربانی فرمائی۔ پھر آپ کی اتباع میںتمام صحابہ نے قربانی کی۔
چار مثالی خواتین: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں میں بہترین عورتیں چار ہیں۔
(۱) مریم بنت عمران ،
(۲) حضرت خدیجة الکبری ،
(۳) سیدہ فاطمہ زہراء
اور 
(۴) سیدہ آسیہ فرعون کی بیوی ۔
اس میں درحقیقت چار بہترین کردار پر روشنی ڈالی گئی، جس سے اللہ اور اس کے رسول راضی ہوئے ۔ایک ماں کا کردار ،مریم بنت عمران ۔ایک عظیم بیوی کا کردار سیدہ خدیجہ ۔ایک عظیم بیٹی کا کردار ،سیدہ فاؓطمہ اور ایک عظیم عورت کا کردار سیدہ آسیہؓ ہیں۔
جلیل القدر محدث ابن عساکرؒ فرماتے ہیں کہ میرے اساتذہ میں اسی سے زیادہ خواتین ہیں ۔
علی مردان خان والی زابلستان کی اکلوتی بیٹی گیتی آراءبیگم پہلی مسلمان خاتون تھیں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں عورتوں کو فن سپاہ گری سیکھانے کے لیے باضبطہ مدرسہ قائم کیا تھا۔
ٍ طرابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبد اللہ نے جس پامردی اور ہمت کا مظاہرہ کیا اسی بنا پر علامہ اقبالؒ کو انھیں آبروئے ملت کا خطاب دینا پڑا۔ اسی طرح تحریک خلافت کے زمانے میں مولانا محمد جوہر اور مولانا شوکت علی کی امی جن کا نام آبادی بانو بیگم جو بی اماں کے نام سے مشہورتھیں؛ انھوں نے انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا۔ ان کے تعلق سے مشہورِ زمانہ نظم ایک خاتون کی عزم وہمت کی داستان رقم کررہی ہے:
بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹے خلافت پر دے دو۔ ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی جان بیٹا خلافت پر دے دو ۔
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا کلمہ پڑھ پڑھ کر خلافت پر مرنا ۔ہوتے میرے اگر سات بیٹے، کرتی سب کو خلافت پہ صدقے۔
حشر میں حشر بر پا کروں گی، پیش حق تم کو لے کے چلوں گی ۔ ہیں یہی دین احمد کے رستے جان بیٹا خلافت پر دے دو
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے: 

ایک زمانے میں جب ایسا لگ رہا تھا کہ پورے عالم اسلام پر تاتاریوں کا غلبہ ہوجائے گا ایسے حالات میں وہ خواتین ہی تھیں؛ جنھیں زبردستی منگولوں نے اپنی بیوی بناکر اپنے حرم میں داخل کرلیا تھا؛ لیکن یہ مسلم خواتین وہاں بھی اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کرسکیں اور اپنے شوہر کو اور منگول شاہزادوں کو اسلام کی خوبیاں بتا تی رہیں ۔خدا کی شان ان کی تبلیغی کوششوں سے تاتاری سرداروں اور شہزادوں کے دل میں نرمی پیداہوئی اور تاتاری قبائل بتدریج حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا کہ ہے عیاں شورش تاتار کے فسانہ سے۔پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے۔
اس کے بعد کے زمانے کے بھی سیکڑوں واقعات ہیں جس میں خواتین اسلام کے مثالی کارناموں سے اسلامی تعلیمات، اسلامی دعوت اور اسلامی تہذیب وثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ ضرورت ہے کہ ان اولات العزم خواتین کے کارناموں کو اپنایا جائے اور انھیں کے نقش قدم پر فروغ اسلام کے لیے موجودہ عہد کی خواتین کو تیار کیا جائے؛ تو انشآءاللہ موجودہ منظر نامہ کافی حد تک بدل سکتا ہے۔ ۔
وماذلک علی اللہ بعزیز
از: (مفتی) محمد خالد حسین نیموی قاسمی
https://mastooraat.blogspot.com/2018/12/blog-post_26.html

No comments:

Post a Comment