Sunday, December 30, 2018

نیا سال ۔۔۔۔ لمحہ فکریہ

نیا سال ۔۔۔۔ لمحہ فکریہ

2018 ء اپنے آخری سانس لے رہا ہے، امسال 31 دسمبر کو ڈوبنے والا سورج دوبارہ کبھی 2018ء میں طلوع نہیں ہوسکے گا۔ 2018ء کے سورج نے طلوع ہونے کے لئے یکم جنوری کو منتخب کرلیا ہے۔ 2019ء کو ویلکم کہنے کے لئے 2018ء کی آخری رات جشن کے طور پر منائی جاتی ہے۔ سالوں کے الوداع اور استقبال کے اس ملاپ میں ہماری حس؛ احساسِ غلامی اور احساسِ ضیاع کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ نیوائیرنائٹ کے نام پر یوروپی ممالک کی طرح اب پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی اب دھوم دھڑکے سے منائی جاتی ہے۔ میڈیا اپنی ”احساس ذمہ داری“ کا بھرپور ثبوت دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس! کہ ہماری اس خداداد مسلم ریاست پاکستان میں مغربی اور یوروپی تہذیب نے اپنے منحوس قدم ایسے گاڑے ہیں کہ گوروں سے زیادہ ہمارے مسلم نوجوان بھٹک کر رہ گئے ہیں۔ کبھی ویلنٹائن ڈے، کبھی بلیک فرائیڈے اور کبھی نیو ائیرنائٹ جیسے غیر اسلامی بلکہ غیر فطری پروگرامز میں عریاں ڈانس، جنسی اختلاط، شراب و کباب اور ہر وہ کام جس کی اجازت نہ ہمارا اسلام دیتا ہے اور نہ ہی ہماری مشرقی تہذیب ایسے بدنما دھبوں کو اپنے اجلے دامن پر برداشت کرتی ہے۔

قارئین کرام !ذرا سوچ کر بتائیے گا کہ کیا یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی تھی کہ تم گزشتہ اقوام کے غیر فطری رسوم و رواج کی تقلید قدم بقدم کروگے جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ کیا یہ وہی زمانہ ہے؟ اگر آپ کا ضمیر حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے تو پھریہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے !!!

صبح و شام غربت، بے روزگاری، کرپشن، مہنگائی اور ناانصافی کا رونا رونے والو! انصاف سے بتائیے کہ ہمارے ملکی و ملی حالات اس بات کے متحمل ہیں کہ ہم یوں خدا کی نافرمانیوں میں اس کے غضب کو مزید بھڑکائیں۔ہماری قوم کو ابھی تک دہشت گردی کےعفریت کے منہ میں دبکی ہوئی ہے، دنیا کی سپر طاقتیں مل کر اس کے مبارک وجود کو ختم کرنی پر تلی ہوئی ہیں، اندرونی سازشوں نے امن و امان کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا ہے، معاشی عدم استحکام کا عالم یہ ہے کہ ہمارے پیدا ہونے والے بچہ کا بھی بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے،  بھوک وافلاس کے زہریلے تیروں نے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں اور وہ خود سوزی و خود کشیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تعلیم کا یہ عالم ہے کہ ہمارے بچے جنہوں نے ہمارا مستقبل بننا ہے وہ بستہ اٹھانے کی بجائے کوڑا جمع کرنے والا بوریا اٹھا رہے ہیں، اسکول کا یونیفارم پہننے کی بجائے ورکشاپس اور صنعتی ملوں پر چائلڈ لیبرز کی یونیفارم میں ملبوس ہیں۔

میرا سوال ان روشن خیال لبرل طبقے سے بھی ہے کہ جو خود کو لبرل بنانے اور کہلانے کے لئے اپنی غیرت و عزت کی یوں نیلامی کی جاتی ہے کہ اپنی عفت مآب بیٹیوں کو ہوس ناک بھیڑیوں کی شہوت انگیز بھوکی نگاہوں کا شکار ہونے دیا جائے۔ ڈانس کلبوں میں ان کے تھرکتے جسموں سے لطف اندوز ہونے والوں کو لذت پہنچائی جائے، صرف یہ جتلانے اور باور کروانے کے لئے کہ ہم لبرل ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں!! خدا کے لئے چشم بینا وا کیجئے اور زمنیی حقائق کا دل و نگاہ سے اداراک کریں کہ جن کی نقالی کرنے میں تم فخر محسوس کرتے ہو وہ خود اس تہذیب کی بد تہذیبی کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں بلکہ اپنے جلے ہوئے دل کے پھپھولے دکھلانا ہے۔ یہ نوجوان نسل میری متاع ہے، میرا اثاثہ او رسرمایہ ہے میں اسے لٹتا ہوا دیکھ کر کیسے نہ تڑپوں؟ 

؏ ہمنوا میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں؟

ذراٹھنڈے دل سے سوچئے! ایک سال گزر گیا، جو دوبارہ کبھی نہیں لوٹے گا، اس نے ہماری اور موت کی دوری سے ایک سال کا فاصلہ ختم کر دیا، حدیث پاک میں ہے: لوگ وقت کے بارے دھوکے کا شکار ہیں،  یعنی اس کی قدر نہیں کرتے۔ نوجوانو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ہمارے لیے غنیمت قرار دیا ہے۔ اپنی منزل کے سنگ میل کو دیکھیے،  اپنے اہداف کا تعین کریں، 31 دسمبر کے ڈوبتے سورج کے ساتھ اپنی غفلتوں کو ڈوب جانے دیجیئے اور یکم جنوری کے طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ اپنی نئی امنگیں،  نئے ولولے اور نئے عزم وارادوں کو ابھاریئے،اس گزرنے والے سال کی ہچکیوں میں رندھی اس آواز کو کان لگا کر سنو! یہ آواز آرہی ہے:

مجھے برباد کرنے والو! اِسے برباد نہ کرنا۔

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھن صاحب

No comments:

Post a Comment