Sunday, December 16, 2018

فتنٔہ کال ریکارڈنگ

فتنٔہ کال ریکارڈنگ

ایک شخص نے دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کو یہ سوال بھیجا تھا، کہ آج کل دعوت و تبلیغ میں کال ریکارڈنگ کا بہت استعمال ہو رہا ہے ، جس شخص کا کال ریکارڈ کیا جاتا ہے وہ اس سے بالکل بے خبر ہوتا ہے اس وجہ سے لوگوں کی عزتیں بھی اچھالی جا رہی ہیں اور عیوب بھی کھولے جا رہے ہیں! تو کیا یہ درست ہے ؟ اور کال ریکارڈنگ کا استعمال کن سورتوں میں جائز ہے؟
اس کے جواب میں دارلعلوم نے  May 30, 2018 کو یہ جواب شاںٔع کیا تھا،  (جواب نمبر 161790۔)
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:978-827/N=9/1439
"اللہ تعالی کے یہاں ہر انسان کی کال ؛ بلکہ ہر گفتگو ریکارڈ ہورہی ہے خواہ وہ خلوت کی گفتگو ہو یا جلوت کی، نیز اپنوں سے ہو یا غیروں سے؛ اس لیے ہرمسلمان کو چاہیے کہ گفتگو میں محتاط رہے، زبان سے کوئی ایسی بات نہ کہے جو دنیا یا آخرت کہیں بھی قابل گرفت ہو، بعض مرتبہ آدمی غفلت میں زبان سے ایسی بات کہہ دیتا ہے جو شریعت کی نظر میں سخت قابل موٴاخذہ یا دنیا میں فتنہ کا باعث ہوتی ہے۔
باقی کسی کی کوئی خاص گفتگو اس کی اجازت کے بغیر ریکاڑد نہیں کرنی چاہیے؛ کیوں کہ ریکارڈ ہونے والی گفتگو میں انسان محتاط ہوتا ہے؛ جب کہ عام گفتگو میں اس قدر محتاط نہیں ہوتا، نیز بعض باتیں امانت ہوتی ہیں اور ریکارڈ کرنے والا شخص بعض مرتبہ ریکارڈ کردہ بات امانت نہیں رکھتا، دوسروں تک پہنچادیتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص امانت کی بات دوسروں تک پہنچاتا ہے تو اسے خیانت کا گناہ ہوگا۔"
عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”المجالس بالأمانة إلا ثلاثة مجالس: سفک دم حرام أو فرج حرام أو اقتطاع مال بغیر حق“، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب الحذر والتأني فی الأمور، الفصل الثاني، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
اسی طرح کے ایک اور سوال کے جواب میں دارلعلوم کے مفتیان کرام نے فتوی نمبر Fatwa ID: 587-621/L=5/1438
میں بڑی اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے، کہ
 "آپس میں جو بات چیت ہوتی ہے وہ امانت ہے؛ اس لیے بلا اجازت آنے اور جانے والی کال کو ریکارڈ کرنا درست نہیں لأن المجالس بالأمانة اور کال کو ریکارڈ کرکے اس کو عام کرنا صریح خیانت ہے خاص طور پر جب کہ بات ایسی ہو جو پوشیدہ رکھنے کی ہو اور بات کرنے والا مخاطب کو امین سمجھ کر اس سے اپنی دل کی بات کہہ رہا ہو۔"
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند۔
حقیقت:
اس بات سے کوںٔی انکار نہیں کر سکتا کہ آدمی کا مزاج اور موڈ ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا، کبھی عمر کے تقاضے، کبھی گھر کے مساںٔل، کھبی معاشی پیچیدگیاں، تو کبھی بیماریوں کے ڈیرے وغیرہ وغیرہ، یہ وہ زندگی کے جھمیلے ہیں، جو کسی بھی  انسان کے مزاج، پر اثر انداز ہوںٔے بغیر نہیں رہتے۔ لیکن ہر عاقل انسان زندگی کی ان ساری کڑواہٹوں کے باوجود عمومی مجالس میں اپنے جذبات، الفاظ، القاب، اور انداز گفتگو پر قابو رکھتا ہے۔ کسی سے ذاتیاتی یا نظریاتی اختلاف کے باوجود مجلس کے احترام کو ملحوظ رکھتا ہے۔ لیکن وہی انسان جب اپنی نجی محفل میں ہوتا ہے یا کسی کو اپنا رازدار سمجھ کر بات کرتا ہے تو تکلفات سے بالاتر ہوکر بات کرتا ہے۔   یہی انسانی فطرت ہے۔
اگر ہم سب کی پرسنل لیول پر کی ہوںٔی ہر گفتگو کو عام کردیا جائے تو پتہ نہیں کس کس سے ہمارے آپسی  تعلقات ختم‌ ہو کہ رہ جاںٔیں گے۔
ناراضگی یا ٹینشن میں کی ہوںٔی شاگرد کی بات اگر استاد کو‌ سنادی جاںٔے، یا اساتذہ کی آپس کی گفتگو کو مدرسہ کے مہتمم کو سنادی جاںٔے، یا سسر کی بات داماد کو، یا داماد کی سسر کو، یا بہو کی ساس کو یا ساس کی بہو کو، پڑوسی کی پڑوسی کو، یا ایک دوست کی دوسرے دوست کو سنادی جاںٔے، پھر تو محبتوں کے پھولوں کی جگہ ہر طرف نفرتوں کے کانٹے اگنے لگیں گے۔
کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ان میں اکثر باتیں ہم صرف جذبات میں بول بھی جاتے ہیں اور پھر بھول بھی جاتے ہیں۔ لیکن جب سامنا ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کے ساتھ احترام ہی سے پیش آتے ہیں، اور ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کا ضرور خیال کرتے ہیں، اور یہی حقیقت ہے۔
درخواست: 
اس‌ وقت عوام میں ٹیکنالوجی کا عروج تو ہے مگر اس کے استعمال کے متعلق آداب اور مساںٔل سے عدم واقفیت کی بنا پر، فتنہ اور انتشار کا سبب بن رہا ہے۔
کسی بھی عالم، بزرگ، تبلیغی ساتھی یا کسی بھی معروف شخص کی کال کو ریکارڈ کرنا, اور اسے سوشل میڈیا پر پھیلانا ایک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اسی لیے سارے احباب علم و دانش، اور حکمت و بصیرت رکھنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ اگر کسی کی بھی کوںٔی بھی پرسنل گفتگو یا نجی مجلس کی کوںٔی بھی گفتگو سوشل میڈیا کے ذریعے آپ تک پہنچنے، جو کسی کی دل آزاری کا سبب بن رہی ہو یا جس سے انتشار کی شکل وجود میں آنے کا امکان ہو تو اس پر حکمت و ہوشمندی کے ساتھ ضرور بہ ضرور گرفت کریں' مگر وہ بات کہنے والے پر نہیں، بلکہ اس پر جس نے یہ خیانت کی ہے اور اس کو ریکارڈ کرکے پھیلایا ہے۔ تاکہ آںٔندہ ایسی قبیح حرکتوں سے لوگ بچتے رہیں‌۔
اگر ہم ہر کسی کی پرسنل فون پر کی ہوںٔی نجی گفتگو کو، عمومی مجلس میں کی جانے والی گفتگو کے معیار ‌کے پیمانے پر تولنا شروع کردیں، تو غیر تو کیا  بہت سارے اپنے ہی یار دوست و قریبی رشتے دار بھی اس لپیٹ میں آجاںٔیں گے۔
اس کے لیے مقدس سرزمین حرم سے، اس عاجز کی یہ عاجزانہ درخواست ہے، علماء اور دانشوران قوم سے کہ،
"اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا"
پہلے ہی بہت غم ہیں ہم سب کے پاس، کںٔی زخم سوکھنے باقی ہیں۔ کںٔی دکھ بھلاںٔے نہیں جارہے ہیں، کںٔی دل کے پھپھولے اب بھی جل رہے ہیں۔ اگر صبر و تحمل سے کام  نہ لیا گیا تو چند نںٔے زخموں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
آخری بات:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذاحدث الرجل الحدیث ثم التفت فہی امانة (ترمذی:۱۹۵۹)
”جب ایک شخص کوئی بات کہے اورچلا جائے تو یہ بھی امانت ہے“
اس کے متعلق حضرت مولانا مفتی تنظیم عالم قاسمی‌صاحب،
استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد، تحریر ‌فرماتے ہیں کہ،
"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کوئی ایسی بات کہی جس کو وہ دوسروں سے چھپا نا چاہتا ہے، آپ پر اعتمادکرتے ہوئے اس نے اپنے دل کے خیالات کا اظہار کیا ؛ تاکہ آپ کوئی مشورہ دے سکیں یا اس کے د کھ دردمیں کام آئیں، توآپ کے لیے اس کی یہ بات امانت کے درجے میں ہے، اپنی ذات تک اسے محدود رکھیں، دوسروں کو بتانا جائز نہیں اس سے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اورتکلیف کا احساس ہوگا، بسا اوقات انسان دوستی اورتعلقات کی بنیاد پر کسی سے کچھ کہہ دیتا ہے اوراسے یقین ہوتا ہے کہ میرا یہ راز اس کے سینے میں محفوظ رہے گا مگر دوسرا شخص اس کا خیال نہیں کرتا بالخصوص جب دونوں میں کسی وجہ سے دوستی رنجش میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو اس کے سارے راز دوسروں کے سامنے اگل دیتا ہے؛ تاکہ اس کی تحقیر ہو اورلوگ اسے برا بھلا کہیں یہ نہایت براعمل اورنچلی حرکت ہے، اس سے خدا ناراض ہوتا ہے اورنہ معلوم خدا کی کون سی ناراضگی ہلاکت کا سبب بن جائے."
اللہ ہم سب کو اس ٹیکنالوجی کے فتنہ سے حفاظت فرمائے۔ آمین ۔
Date : Friday 7 December 2018.

احقر محمد نعمان مکی۔
کنگ عبداللہ میڈیکل سٹی مکہ مکرمہ۔
 Email : nomanmakki.mfa@gmail.com.
Talibeilm isse muttafiq hai

................
https://mastooraat.blogspot.com/2018/12/blog-post_16.html

No comments:

Post a Comment