Saturday, December 1, 2018

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف
مکہ مکرمہ میں دس سال تک لگاتار تبلیغ دین کرنے کے باوجود حالات حوصلہ افزا نہیں ہوئے، ابوطالب جیسے مشفق چچا اور خدیجۃ الکبریٰ جیسی مہربان رفیق زندگی کے سفر آخرت سے مکہ میں تبلیغ تو الگ وہاں رہنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے محال ہوچکا تھا چنانچہ شوال سنہ 10 نبوت کے آخر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ یہ مکے سے نجران کی جانب 90 کلومیٹر دور پہاڑوں پر واقع خوشگوار آب و ہوا والا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسافت جاتے ہوئے پیدل طے فرمائی تھی۔ آپ کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ راستے میں جس قبیلے سے بھی گزر ہوتا ۔ اسے آپ اسلام کی دعوت دیتے تھے لیکن کسی نے بھی دعوت قبول نہ کی ۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے عبدیالیل، مسعود اور حبیب۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کو اسلام کی مدد کرنے اور اللہ و رسول کی اطاعت کی دعوت دی۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے گا اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو تو۔ دوسرے نے کہا کیا اللہ کو تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ملا؟ تیسرے نے کہا: میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ۔ اگر تم واقعی نبی ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہئے ۔ یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صرف اتنا فرمایا: ” تم لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اسے اپنے تک ہی محدود رکھنا۔
رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن قیام فرمایا ۔ اس دوران آپ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور ہرایک سے گفتگو فرمائی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاو کچھ دنوں کے بعد انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہہ دے دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے، تالیاں پیٹتے، اور شور مچاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگ گئے۔ اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی۔ پھر گالیوں اور بدزبانیوں کے ساتھ پتھر بھی چلنے لگے۔ جس سے آپ کی ایڑیوں پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تربتر ہوگئے۔ ادھر حضرت زید بن حارثہ ڈھال بن کر چلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی۔ بدقماشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ اور شیبہ جو ربیعہ کے بیٹے تھے کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ۔ یہ باغ طائف سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی۔ اور آپ ایک دیوار سے ٹیک لگاکر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ کس قدر دلفگار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احساسات پر حزن و الم اور ہم و غم کا کس قدر غلبہ تھا ۔
دعائے مستضعفین 
اللھم اني اشکوا اليک ضعف قوتي وقلة حيلتي وھواني علي الناس برحمتک يا رب العالمين انت رب المستضعفين وانت ربي الي من تکلني الي بعيد يتجھمني او الي عدو ملکتہ امري ان لم يکن بک غضب علي فلا ابالي ولکن عافيتک اوسع لي من ذنوبي اسئلک بنور وجھک الذي اشرقت لہ الظلمت وصلح عليہ امر الدنيا والاخرة من ان يحل بي سخطک او ينزل علي عذابک لک العتبي حتي ترضي ولاحول ولا قوة الا بک
بار الٰہا! میں تجھ سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ پیش کرتاہوں ۔ اے ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے ۔ اور تو میرا بھی رب ہے ۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے ۔ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ لیکن تیری عافیت کی نظر کرم میرے لیے زیادہ کشادہ ہے ۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں ” جس سے تاریکیاں روشن ہیں اور جس کی برکت سے دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوتے ہیں “ کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرنے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو ، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں “ 
(ابوداود فی الادب ( 301/5 حدیث رقم 5052 من حدیث علی ) قال المناوي في شرح ھذا الحديث ” ھذا يسمي دعاءالطائف ذالک ان النبي صلي اللہ عليہ وسلم لما مات ابوطالب اشتد اذي قومہ فخرج الي الطائف رجائ ان ياووہ وينصروہ فاذاقوہ اشد من قومہ)
ابنائے ربیعہ کے باغ میںادھر آپ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالت زار میں دیکھا تو ان کے جذبہ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا، بلاکر کہا کہ اس انگور کا ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آو ۔ جب اس نے انگور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے تو آپ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اورکھانا شروع کردیا۔ عداس نے کہا یہ جملہ تواس علاقے کے لوگ نہیں بولتے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہواور تمہارا دین کیا ہے ۔ اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا باشندہ ہوں ۔ آپ نے فرمایا اچھاتوتم مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو ۔ تو اس نے پوچھا آپ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں؟ فرمایا وہ میرے بھائی تھے ۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ۔ یہ سن کر عداس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر، ہاتھوں اورپاوں کو بوسہ دیا۔ یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا لو : اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی بگاڑ دیا ۔ اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا: یہ کیا معاملہ تھا ۔ اس نے کہا میرے آقا روئے زمین پر اس شخص سے بہترکوئی اور نہیں ہے۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ان دونوں نے کہا ۔ دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے ۔ کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے ۔
مکے کی طرف روانگیقدرے ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پہر چل پڑے ۔ غم و الم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا ۔ قرن منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا ۔ وہ آپ سے یہ گزارش کرنے آیا تھا کہ آپ حکم دیں تو وہ ان مجرموں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے ۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عز وجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کردے گا ۔ جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی ۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی ۔
صحیح بخاری میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو احد کے دن سے بھی زیادہ سنگین رہا ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے سب سے سنگین مصیبت طائف کے دن ہوئی جب وہاں کے سرداروں نے میری تکذیب کی ، اورمجھے طائف سے باہر نکلنا پڑا حتی کہ قرن الثعالب پہنچ کرجبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے پہاڑوں کے فرشتے کو مجھ پر پیش کیا اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ حکم دیں تو انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں تو میں نے کہا نہیں مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گاجوصرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب میں آپ کی یگانہ روزگار شخصیت اور ناقابل ادراک گہرائی رکھنے والے اخلاق عظیمہ کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ بہرحال اب سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والی اس غیبی مدد کی وجہ سے آپ کا دل مطمئن ہوگیااور غم و الم کے بادل چھٹ گئے ۔ چنانچہ آپ نے مکے کی راہ پر مزید پیش قدمی فرمائی اور وادی نخلہ میں جا فروکش ہوئے ۔ یہاں دو جگہیں قیام کے لائق ہیں ۔ ایک السیل الکبیر اور دوسرے زیمہ ، کیونکہ دونوں ہی جگہ پانی اور شادابی موجود ہے ۔ لیکن کسی ماخذ سے پتہ نہیں چل سکا کہ آپ نے ان میں سے کس جگہ قیام فرمایا ۔
جنوں کا ایمان لاناوادی نخلہ میں آپ کا قیام چند دن رہا ۔ اس دوران میں حق تعالیٰ نے آپ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی جس کاذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ الاحقاف میں اور دوسرے سورہ جن میں ۔ سورہ الاحقاف کی آیات یہ ہیں ۔
واذ صرفنا اليک نفرا من الجن يستمعون القران فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضي ولو الي قومھم منذرينo قالوا يقومنا انا سمعنا کتابا انزل من بعد موسي مصدقا لما بين يديہ يھدي االي الحق والي طريق مستقيمo قالوا يقومنا اجيبوا داعي اللہ وامنوا بہ يغفرلکم من ذنوبکم ويجرکم من عذاب اليمo
اور یاد کرو! جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا تاکہ وہ قرآن سنیں‘ پس جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو آپس میں کہنے لگے خاموش ہو جاؤ ‘پھر جب وہ پڑھا جاچکاتو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے واپس پلٹ گئے ( 29 ) کہنے لگے اے ہماری قوم ! بے شک ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہبری کرتی ہے (30) اے ہماری قوم! داعی الی اللہ کی بات مانو‘ اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تمہارے معاف فرما دے گا اور تمہیں عذاب الیم سے پناہ دے گا (31) اور جو شخص اللہ کے داعی کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں عاجز نہیں کر سکتا‘اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی اس کے مددگارہوں گے‘ یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں (32)
یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ۔ ان کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہیں ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ عزوجل نے آپ کو اطلاع دی تب آپ واقف ہوئے ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعدان کی آمدو رفت ہوتی رہی ۔
جنوں کی آمد اور قبول اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ کی جانب سے دوسری مدد تھی ۔ جو اس نے اپنے غیب مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بین السطور سے نبی پاک کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں ۔ اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میںحائل نہیں ہوسکتی ۔
چنانچہ ارشاد ہے ۔
ومن لا يجب داعي اللہ فليس بمعجز في الارض وليس لہ من دونہ اوليآء اولئک في ضلال مبين (46 : 32)
اور جو شخص اللہ کے داعی کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں عاجز نہیں کر سکتا‘اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی اس کے مددگارہوں گے‘ یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں (32)
مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ سورہ الاحقاف سنہ10 نبوت کے آخر یاسنہ11 کے شروع میں نازل ہوئی ۔ اس میں جنوں کے نبی سے قرآن سن کر ایمان لانے کا ذکر ہے‘ جب آپ طائف تشریف لے گئے تھے تو واپسی پر وادی نخلہ میں چندروز ٹھہرے ۔ انہی ایام میں ایک روز آپ رات کو نماز میں قرآن کی تلاوت فرمارہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا ‘ انہوں نے قرآن سنا ایمان لائے اور واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنائی کہ انسان چاہے تمھاری دعوت سے بھاگ رہے ہوں مگر بہت سے جن اس کے گرویدہ ہوگئے ہیں اور وہ اپنی جنس میں اسے پھیلا رہے ہیں ۔ طائف کا یہ سفر ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا !
اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم و الم اور حزن و مایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپ پر چھائے ہوئے تھے ۔ آپ نے عزم مصمم کرلیاکہ اب مکے پلٹناہے اور نئے سرے سے دعوت اسلام اور تبلیغ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے ۔ یہی موقعہ تھا جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کی تھی کہ آپ مکے کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں نے آپ کو نکال دیا ہے ۔ اور جواب میں آپ نے فرمایا اے زید تم حالت دیکھ رہے ہو ۔ اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا ۔ اپنے دین کی مدد کرے گااور اپنے نبی کو یقینا غالب فرمائے گا ۔
رسول برحق کی بات پوری ہوئی
حق تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب کی یہ بات کیسے پوری فرمائی : ملاحظہ فرمائیے!
فتح مکہ کے بعد جب قبول اسلام کی لہر چلی تو طائف کے ان لوگوں میں بھی اسلام نے اپنا گھر کرلیا چنانچہ عروہ بن مسعود اورعبدیالیل کی بارگاہ نبوت میں حاضری کا تذکرہ یوں ملتا ہے ۔
عروہ بن مسعود ثقفی کی حاضری
غزوہ حنین کے بعدثقیف میں سے سب سے پہلے جو شخص اسلام کی غرض سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا وہ عروہ بن مسعود ثقفی تھا ۔ یہ اپنی قوم کا سردار تھا اور صلح حدیبیہ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تھا ۔ جنگ ہوازن و ثقیف کے بعد مدینہ منورہ حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا ۔ عروہ کی اس وقت دس بیویاں تھیں ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار رکھنے اور باقی کو فارغ کردینے کا حکم دیا ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ واپس ہوتے وقت اس نے اپنی قوم کو تبلیغ کرنے کی اجازت چاہی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خدشات ظاہر فرمائے تو اس نے کہا قوم میرا بڑا احترام کرتی ہے اس لیے کوئی خدشہ نہیں چنانچہ انہوں نے واپس آکر تبلیغ شروع کردی ۔ ایک دن اپنے بالاخانے میں نماز ادا کررہے تھے کہ کسی شقی القلب نے تیر مارا جس سے وہ زخمی ہوگئے اور اسی وجہ سے شہید ہوگئے ۔ لیکن جو آواز انہوں نے قوم کے کانوں تک پہنچائی تھی وہ دلوں پر اثر کیے بغیر نہ رہی ۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ قوم نے اپنے چند سرداروں کو منتخب کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ اسلام کی نسبت پوری واقفیت حاصل کریں ۔
ثقفی قبیلے کا وفد
سردار عبدیالیل کا قبول اسلام
چنانچہ اسی وفد ثقیف کاسردار عبدیا لیل تھا جس کو سمجھانے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنہ10 نبوت میں طائف کا سفر کیا تھا ۔ اور اس نے آپ کی بات سننے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگادیا تھا جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ کو طائف سے نکال دیا تھا ۔ اس وقت نبی پاک نے ان کیلئے بددعا نہیں فرمائی تھی بلکہ اس امید کااظہار کیا تھا کہ اگر یہ لوگ نہیں تو ان کی نسلیں اسلام قبول کریں گی ۔ اب وہی دشمن اسلام خود بخود اسلام کیلئے اپنے دل میں جگہ پاتے اور بخوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یہ اہل ثقیف میری قوم کے لوگ ہیں ۔ کیامیں انہیں اپنے ہاں ٹھہرا لوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں انہیں ایسی جگہ اتارو جہاں قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑے ۔ تب ان کے خیمے مسجد میں لگائے گئے ۔ جہاں سے یہ لوگ قرآن بھی سنتے تھے اور لوگوں کو نماز پڑھتے بھی دیکھتے تھے ۔ اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی صداقت گھر کرگئی ۔ اگلی صبح وہ لوگ خدمت اقدس میں آئے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے ترک نماز کی رخصت چاہی ۔ آپ نے فرمایا اس دین میں کوئی بھلائی نہیںجس میں نماز نہیں ۔ پھر انہوں نے کہا ہمیں جہاد کیلئے نہ بلایا جائے اور نہ ہی ہم سے زکوٰۃ وصول کی جائے ۔ آپ نے خاموشی اختیار کیے رکھی کہ اسلام کے اثر سے یہ کام وہ خود بخود کرلیں گے ۔ اس طرح صرف دس سال کے اندراندراسلام کی وہ وعوت جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کیلئے10 نبوت میں طائف تشریف لے گئے تھے آج طائف میں بہار پیدا کرنے لگ گئی ۔ وللہ الحمد
مکہ میں داخلہ اور پناہ کا حصول
ہم ایک بار پھر وہاں چلتے ہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ وسلم طائف والوں کے ظلم و ستم سے چور باغ ربیعہ میں پڑے ہوئے تھے ۔ اب آپ مکے کی طرف روانہ ہوئے اور مکے کے قریب پہنچ کرکوہ حرا کے دامن میں ٹھہر گئے ۔ پھر خزاعہ کے ایک آدمی کے ذریعے بنو زہرہ کے سردار اخنس بن شریق کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ آپ کو پناہ دے دے ۔ مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کااختیار نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد آپ نے سہیل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا مگر اس نے بھی معذرت کرلی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنو کعب پر لاگو نہیں ہوتی ۔ اس کے بعد آپ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا ۔ مطعم نے کہا ہا ں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجاو کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دے دی ہے ۔ اس کے بعد مطعم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر تشریف لے آئیں ۔ پیغام پانے کے بعد آپ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے اور مسجد حرام میں داخل ہوگئے ۔ اس کے بعد مطعم نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو ! میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دے دی ہے۔ اب انہیں کوئی تنگ نہیں کرسکتا ۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حجر اسود کے پاس پہنچے اسے بوسہ دیا ۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے گھر پلٹ آئے ۔ اس دوران مطعم بن عدی اور ان کے لڑکوں نے ہتھیار بند ہوکر آپ کے گرد حلقہ باندھے رکھا تاآنکہ آپ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطعم بن عدی کے اس حسن سلوک کو کبھی فراموش نہیں کیا ۔ چنانچہ بدر میں جب کفار کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی ۔ اور بعض قیدیوں کی رہائی کیلئے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
لوکان المطعم ابن عدی حیا ثم کلمنی فی ھٰولاءالنتنی لترکتھم لہ (بخاری) 
اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا ۔ پھر وہ مجھ سے ان بدبو دار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔
طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا اس کے بدلے میں حق تعالی نے آپ کو بہت کچھ عطا فرمایا معراج کاسفر انہی دکھوں کے مداوے کیلئے بھی تھا پھر ہجرت کے واقعات پیش آئے گویا ہر آنے والا دن پہلے سے بہتر ثابت ہوا۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بہترنتائج والا ہوگا ۔
” قسم ہے چڑھتے دن کی
اور قسم ہے رات کی جب وہ پرسکون جائے
نہ تو تمھارے رب نے تمھیں چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہوا
یقیناً تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے
اور قریب ہے کہ تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاوگے

No comments:

Post a Comment