Monday, December 24, 2018

قران پڑھوایا جائے اور پڑھنے والوں کو چائے وغیرہ کھلائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

قران پڑھوایا جائے اور پڑھنے والوں کو چائے وغیرہ کھلائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

سوال: اگر کوئی میت کے ایصال ثواب کے لئے قران پڑھوائے اور پڑھنے والوں کو چائے وغیرہ کھلائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے اگر نھیں تو اس کے علاوہ کیا صورت ھوگی؟ جزاکم اللہ احسن الجزاء
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
کسی مرحوم کو ایصال ثواب کے لئے جو قرآن خوانی ہوتی ہے، وہ عبادت محضہ ہے، اس پر باقاعدہ اجرت کا معاملہ درست نہیں، ناجائز وحرام ہے، نیز اجرت پر جو قرآن خوانی کی یا کروائی جاتی ہے، اس میں خود قرآن پڑھنے والوں کو کوئی ثواب نہیں ملتا، پس وہ کسی مرحوم کو کیا ایصال ثواب کریں گے،
”قال في رد المحتار (کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: ۹/۷۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند) عن العیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ة الأجزاء بالأجرة لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ة وإعطاء الثوب للآمر والقراء ة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون اھ۔
اور اس موقع پر حسب عرف وعادت خاص طور پر قرآن پڑھنے والوں کے لیے جو دعوت یا چائے ناشتہ وغیرہ کا نظم ہوتا ہے ،یہ بھی بحکم اجرت ہے یا کم از کم اس میں اجرت کا شائبہ ضرور ہے؛ لہٰذا اس سے بھی احتراز کیا جائے،
والحاصلُ أن اتخاذ الطعام عند قراء ة القرآن لأجل الأکل یکرہ (شامی ۳: ۴۸ ۱)، نیز تذکرة الرشید (ص ۱: ۲۰۳، مطبوعہ: دار الکتاب دیوبند) دیکھیں۔
نوٹ:۔ کسی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا محمود ومستحسن عمل ہے، اس سے مرحوم کی روح خوش ہوتی ہے اور اسے راحت ملتی ہے، لیکن شریعت میں ایصال ثواب کے لیے کوئی خاص عمل یا دن وغیرہ کی تخصیص ثابت نہیں ہے ، نیز درست بھی نہیں؛ اس لیے کسی مرحوم کو ایصال ثواب کے لیے اجتماعی طور پر قرآن خوانی کرنا یا کرانا امر منکر ہے ، ایصال ثواب میں یہ چاہئے کہ جو لوگ کسی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا چاہے وہ اپنے طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر مرحوم کو اس کا ایصال ثواب کردیں، اس میں کسی عمل ، دن کی تخصیص نہ کی جائے، نیز اجتماعیت بھی اختیار نہ کی جائے (مستفاد: تالیفات رشیدیہ ص ۸۷ ،۸۸) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
________
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (ب): 1127=957-8/1432
سادات کے لئے زکاة اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں ہے، حدیث میں ہے:
”یا بني ہاشم إن اللہ قد حرّم علیکم غسالة الناس وأوساخہم“ (ہدایہ: ۱/۱۸۶)
محلے میں سے اگر کوئی صدقات اجبہ اور زکاة دیتا ہے تو اسے غریبوں اور ناداروں کو دینا ضروری ہے، سادات کو دینا جائز نہیں۔ البتہ سادات کے لیے صدقات نافلہ کی گنجائش ہے۔ غیرسید کو جب زکاة وغیرہ ملے تو وہ سادات پر رشتہ دار ہوں یا غیررشتہ دار خرچ کرسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم

No comments:

Post a Comment